سدومی غلاظت اور امریکی قانون وسیاست
ابن علی
اور یہ رہی امریکی سپریم کورٹ جس نے پورے ملک میں سدومی (ہم
جنس) شادی کو جائز کر دیا۔ سدومیوں کا شعار ’قوس قزح‘ ہے۔ ذرا آپ دیکھتے آپکے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اُس دن کس طرح قوس قزح کے رنگ بکھر
رہے تھے۔ ذیل میں ہمارے سوشل میڈیا پر دی جانے والی بعض پوسٹیں دی جا رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہوتے ہیں اوباما کا ٹویٹ تھا: یہ
محبت کی جیت ہے۔
قومِ لوط کی فطرت اور حیاء امریکہ اور اس کے صدر اوباما کے
مقابلے پر کہیں سلامت تھی۔ کم از کم وہ یہ مانتے تھے: إنَّھُمۡ
أُنَاسٌ یَتَطَھَّرُوۡنَ ’’لوط اور اس کے ساتھی پاکیزگی پسند ہیں‘‘۔ جبکہ
یہ اس غلاظت کو ’محبت کی جیت‘ کہتے ہیں!
*****
ثقافتی
دھونس:
لواطت تو پہلے بھی ہوئی ہو گی مگر اس غلاظت کو ’تہذیب‘ کے
ورق میں لپیٹ کر بیچنا اور اِس پُڑی کا خریدار نہ بننے کو ’فرسودہ و پسماندہ‘ بنا
کر پیش کرنا مغرب ہی کا حصہ ہے۔
*****
مغرب نے
ثابت کر دیا: اُس کی جنگ اسلام سے بھی پہلے فطرت کے ساتھ ہے!!
*****
مرد کا جنسی عمل مرد کے ساتھ۔
عورت کا عورت کے ساتھ۔
مرد کا جانوروں کے ساتھ۔
جانوروں کا عورت کے ساتھ۔
یہ ہے اس نام نہاد ’حقوقِ انسانی‘ کی حقیقت!!!
تف ہے اس مسلمان پر جو اَب بھی مغرب سے ’حقوقِ انسانی‘ کے درس لے اور ان کے
’حقوقِ انسانی‘ کے فورَمز کو رونق بخشے۔
*****
ستائیسویں پارے کی دوسری آیت: قَالُوا
إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ’’فرشتے
بولے: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘۔
پس سدومیت sodomy (ہم جنس پرستی) میں ملوث
لوگوں کا صحیح وصف کیا ہوا؟
مجرم۔ بدکار۔ قبیح۔
criminal۔
تو پھر اس میڈیا کی بابت کیا خیال ہے جو ان بدکاروں کو اس
شنیع وصف کے ساتھ پیش کرنے سے عمداً گریز کرے، بلکہ سرے سے اس کو کسی شنیع انداز
میں ذکر کرنے کا روادار نہ ہو؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ (رمضان میں) دھڑادھڑ
’مقابلۂ حسنِ قراءت‘ کا اہتمام کرنے
والے ان چینلز کا سرے سے اس قرآن پر ایمان بھی ہے؟
یہ قرآن اصل میں تو آپ کے قلوب اور اذہان کی ساخت کرنے آیا
تھا۔ ذہنوں میں وہی بھس بھرا ہو، تو ’کیمروں‘ کی یہ عبادت کیا کرے گی؟