پاکستان اور عالمی منظر نامے پر رُونما 'سُنی سپرنگ'
فرمانِ خداوندی:
واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا
محمود مہدی سامرائی
اس سال (2015) دنیانے ایک غیر علانیہ 'عرب اسلامی الائنس' کو عالمی منظر نامے پر ابھرتے ہوئے دیکھا
۔ اس عرب اسلامی اتحاد میں جہاں سعودی
عرب، قطر، پاکستان اور ترکی جیسے اہم ممالک شامل ہیں وہیں اب سینیگال اور ملائیشیا
بھی اس کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں ،بلکہ موخر الذکر دو ممالک نے تو اپنی افوج بھی
میدان میں اتار دی ہیں۔ بعید نہیں کہ عالمی
سیاست میں پیش آنے والے یہ غیر معمولی واقعات ایک ناگزیر 'اسلامی بہار' کا پیش
خیمہ ثابت ہوں۔
امت مسلمہ پر چھائی اندھیری رات
امت مسلمہ کی حالیہ تاریخ بالخصوص نائن الیون کے
بعد بیتے دس سال اس امت کی تاریخ کے تاریک
ترین ادوار میں گنے جائیں گے۔ افغانستان اور عراق پر قبضہ اور ان دونوں ممالک کی
مکمل تباہی ، امریکہ اور اس کے اعلانیہ اتحادی (نیٹو) اور غیرا علانیہ اتحادی (ایران) کے اس امت پر ڈھائے جانے والے مظالم جو کہ تاحال بدستور جاری
و ساری ہیں، اب یہ امت ایک روشن صبح کی کرنیں افق پر نمودار ہوتی دیکھ رکھی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک اہم ایرانی رہنماء نے اپنے ایک بیان میں یہ بات جتلائی تھی کہ
عراق اور افغانستان پر امریکی قبضہ ایرانی حمایت کے بغیر نا ممکن تھا۔ محمود احمدی
نژاد نے ایک سے زائد مرتبہ اپنے بیانات میں اس بات اعادہ کیا کہ عراق اور
افغانستان سے امریکی انخلا ءکے بعد پیدا ہونے والے خلاء کو پورا کرنے کے لیے ایران
ہمہ وقت تیار ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں
کہ ایران آج عراق میں براہ راست ملوث ہے اور افغانستان میں موجود شیعہ کمیونٹنی کے
ذریعے اپنا گہراثر و رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔
مزید
براں مصر میں صیہونی منصوبے کے تحت بعض ہمسایہ عرب ممالک کی مدد سے صدر ڈاکٹر محمد
مرسی کی منتخب حکومت کا خاتمہ خطے میں پاکستان، ترکی اور قطر کے مفادات کے
لیے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوا جبکہ ادھر خود پاکستان میں نواز شریف حکومت کے خلاف
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک
مضبوط تحریک کھڑی کر دی جس پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کھل کر یہ الزام لگا
چکے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے بھی امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور ایران کا ہاتھ تھا۔
ان حالات میں عالمی منظر نامے پر ایران ایک طاقتور اور جارح ملک حیثیت سے ابھرا
۔
ہم معذرت
خواہ ہیں لیکن یہ بات کہنے پر ہم اپنے آپ کو مجبور
پاتے ہیں کہ ایران مکمل امریکی آشیر باد اور عالمی شیعہ اقلیتی کمیونٹی کی تائید سے اس
امت کی عام سنی اکثریت کی مخالفت اور مخاصمت میں کھڑا ہوا۔ عرب دنیا کے چار
بڑے دار الحکومت یعنی بغداد، دمشق، لبنان اور صنعاء پر قابض ہونے کے بعد ایران اب سعودی عرب بالخصوص حرمین شریفین یعنی
مکہ مکرمہ اور مدینہ الرسولﷺ پر حملے کے لیے پر تولنے لگا۔ اس غرض کے لیے ایران نے
حوثیوں کے ذریعے یمن میں صعدہ اور سعودی یمنی بارڈر پر جنگی مشقوں کا بھی آغاز بھی
کروا دیا۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ یہ سب کھیل عرب ممالک کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا پر ان کی نظریں امریکہ بہادر پر جمی رہیں کہ
امریکہ اپنے غیر اعلانیہ حلیف ایران کو بلاد
العرب میں دخل اندازی سے منع کرے۔ پر امریکہ بہادر کو ایران کی ان مکروہ حرکتوں سے
کوئی غرض نہیں تھی بلکہ اس نے تو اپنا 'دست مبارک' بھی ایران کے سر پر رکھ دیا اور اپنی آنکھیں موند لیں کہ
جاؤ جو تم نے عربوں کے ساتھ 'کرنا کرانا' ہے وہ کر ڈالو۔
اب عربوں کی آنکھیں کھلیں اور ان پر منکشف ہوا
کہ امریکہ ان کا نہیں بلکہ کسی اور کا اتحادی ہے۔ اب جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے بل
بوتے پر ہی کرنا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب صعدہ میں جنگی مشقیں اپنے پورےجوبن پر تھیں۔
امت مسلمہ کی 'اسلامی بہار'
ان حالات میں سعودی عرب میں شاہ سلمان بن عبد
العزیز تخت پر متمکن ہوئے اور جنوری 2015
میں مسلم دنیا کے حکمرانوں سے اپنے رابطوں کا آغاز کیا اور کھلے دل سے عرب اور
مسلم قائدین سے ایک غیرعلانیہ اسلامی اتحاد Islamic alliance قائم کیا اور حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں اعلان جنگ کیا۔کئی عرب اور
مسلم ممالک اس جنگ یا اتحاد میں شامل ہوئے اور اس طرح شیعہ اقلیت کی جارحیت کے آگے
بند باندھنے میں کامیاب ہوئے اور مسلم ممالک میں جاری ایرانی مداخلت اور امریکی کی
منافقانہ پالیسیاں کھل کر بے نقاب ہوئیں۔
ان اقدامات کو امت میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا
گیا بالخصوص یمن، عراق، شام ، مصر اور ان دیگر
خطوں میں جو پچھلے کئی عرصے سے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے ۔ اس اتحاد کا شام کی صورت حال پر نہایت
خوش گوار اثر پڑا۔ شام میں برسر پیکار مختلف گروہ متحد ہونا شروع ہوئے اور بشار
الاسد کے اقتدار کے خلاف ان کا پلڑا بھاری ہونے لگا اور بشار کے اقتدار کی کشتی
اب تیزی سے ڈولنے لگی۔ اسی طرح مصر کی
صورت حال پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے لگے اور مصری اپنے ملکی بحران کے
خاتمے کے لیے پر امید نظر آئے۔
عراقی اپنی باری کے انتظار میں ہیں، گو عراق کا
بحران کہیں زیادہ بڑا اور گھمبیر ہے کیونکہ عراق میں امریکہ براہ راست ملوث ہے۔
عراق کو 'آزاد' کروانے کے خواب دیکھانے والے وہاں جمہوری حکومت کا ڈھونگ رچا کر
ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر گئے۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا تیونس اور لیبیا کی
عوام کو ہے اور ان کی بھی امیدیں اسی اسلامی تحاد پر لگی ہوئی ہیں۔ کچھ عرصے سے
ترکی، قطر اور پاکستان ایک غیر رسمی سیاسی اور اقتصادی محاصرے کا شکار تھے جس کا
خاتمہ شاہ سلمان بن عبد العزیز کے ہاتھوں ہوا ہے۔
انتہاپسندی کی لہر
القاعدہ پہلے ہی کچھ غلو اور انتہا پسندی کی راہ
پر پڑ چکی تھی۔ داعش اس معاملہ میں ان سے بھی کئی ہاتھ آگے ہے۔خاص کر اپنی ریاست
کے قیام کے اعلان کے بعد تو یہ نہ صرف
اپنی سزائیں معصوم مسلمانوں پر بحثیت 'ریاست' نافذ کرنے لگ گئےہیں بلکہ دوسرے خطوں
کے مسلمانوں کو بھی اپنی رعایا سمجھ کر تصرف کرنے لگے ہیں۔ یہ طرز فکر ہمارے نزدیک
اہل سنت عقیدہ اور منہج سے میل نہیں کھاتا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی
دی ہوئی قربانیوں اور محنتوں کے ثمرات بوجوہ زائل ہوتے رہے، مسلمانوں کا امیج دنیا میں خراب ہوتا رہا، عالمی ایجنسیوں کے بہت
سے منصوبے عالم اسلام میں اپنی پزیرائی کےلیے راستہ پاتے رہے، افغان اور عراق کاز
کو تو شدید نقصان پہنچا اوراب شامی انقلاب بھی اس شدت پسندی کی زد میں ہے۔ پاکستان
اور دیگر کلیدی مسلم ممالک کو غیر مستحکم کر نے کے بہت سے محرکات یہاں جگہ پاتے
چلے گئے۔
اندریں حالات پاکستان سے کیا
مطلوب ہے؟
اولاً: ایک مضبوط اور مستحکم
پاکستان
ہم آج ایک نئے اکھاڑے میں کھڑے ہیں، مسلم ممالک
کا اسلامی اتحاد ‘Islamic alliance’ اور پاکستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت
ناگزیر ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ایک
فعال کردار ادا کرنا ہے اور عالمی منظر نامے پر اس کی پوزیشن نہایت مستحکم ہونی
چاہیے اور اسے ایک مضبوط ملک کے طور پر
نظر آنا چاہیے جس کے لیے پاکستان کو انڈیا اور 'پرو انڈیا' ممالک یعنی مقبوضہ
افغانستان اور ایران کے مدمقابل اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ 'پرو پاکستان' اور دوست
ممالک کو کھڑا کرنا چاہیے۔ یہ بات خوش
آئند ہے کہ فوج نے 2013 الیکشن کے بعد نواز شریف حکومت کو کام کرنے کا بھرپور موقع
دیا ۔ ان کو اپنی 5 سالہ میعاد مکمل کر ہی لینی چاہیے تاکہ
انہیں اپنے وہ خواب یا وعدے نبھانے کا ایک موقع پوری طرح ملے جن کی کی رُو سے یہ
پاکستان کو اپنے تئیں ایشین ٹایئگرز یا ترکی جیسے توانا ملک بننے کی شاہراہ پر
گامزن کر دیں گے۔ بصورتِ دیگر پاکستانی
قوم اپنی معیشت کی کشتی کسی اور کھیون ہار کے سپرد کر دے گی۔ جہاں تک اسلامائزیشن
کا تعلق ہے، تو پاکستان کا معاملہ پاکستان
کے دستور کے مخصوص اسلامی
پس منظر اور جنرل ضیاء الحق کے
دور میں کی گئی اسلامی اصلاحات کے باعث ان
دوسرے ممالک کی بہ نسبت کہیں زیادہ بہتر
رہ سکتا ہے۔ اور اگر اسلام کےلیے کچھ نہیں کیا جاتا تو ایک مستحکم صورتحال پیدا ہو
جانے کے بعد ’ہنگامی حالات‘ کا بہانہ
بہت جلد ساتھ چھوڑ جائے گا۔
ثانیاً: او آئی سی کی فعالیت
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے مسلم ممالک اس وقت اسلامی بہار کی منزلیں طے کر رہے
ہیں۔ شاہ سلمان بن عبد العزیز کی صورت میں نئی سعودی قیادت کے آنے
کے بعد دس سے زائد اسلامی ممالک نے عسکری اتحاد قائم کیا ہے جس میں جی سی سی
(خلیجی ممالک کی تعاون تنظیم) کے رکن ممالک کے علاوہ یہ ممالک او آئی سی کے بھی
رکن ہیں۔ او آئی سی میں نئی روح پھونکنے کا یہی وقت ہے، خاص کر جبکہ او آئی سی کی بنیاد
سعودی عرب میں ہی رکھی گئی تھی اور تاحال اس کا مرکز سعودی عرب میں ہی ہے۔ پاکستان
کو او آئی کی تجدید میں ایک فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ 'اسلامی ترقیاتی بنک' کا
دوسرا بڑا ذیلی ادارہ 'اسلامی چیمبرز آف کامرس'
کراچی میں ہی واقع ہے۔
ثالثاً: مسلم پرائیویٹ سیکٹر کے مابین مضبوط
مسلم پرائیویٹ سیکٹر کے مابین تعلقات عامہ
اور باہمی تجارت کا فروغ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اتحاد اور
تعاون کی راہیں ہموار کرنے کے لیے پرائیوٹ
سیکٹر کو فعال کرنے میں مسلم ممالک کی حکومتوں بلکہ اس سے بھی زیادہ او آئی سی کو
اپنا کردار کرنا ہو گا۔ public relations اور business promotions کی مختلف firms، companies اور تنظیموں کا قیام، ان
کی رہنمائی، مالی اور تکنینی مدد، ان سے کام لینا اور نکلوانا یہ سب او آئی سی کی
ذمہ داری ہے۔ مسلم ممالک کے میں ایسی تنظیموں کا وجود اور ان کی کار کردگی ناقابل
ذکر ہے۔ ان فرمز، کمپنیز اور تنظیموں کی
آپس میں مسابقت امت کے لیے فائد مند ثابت ہوگی۔