مسلم مقبوضہ خطوں میں جہاد کو حرام ٹھہرانا، مرزا قادیانی کی سنتِ خبیثہ
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
مسلم
مقبوضہ خطوں میں جہاد کو حرام ٹھہرانا مرزا قادیانی کی سنتِ خبیثہ ایقاظ کے فائل سے یہ فتویٰ جو 'حکمران کی غیر موجودگی' کو آڑ
بناتے ہوئے صلیبی حملہ آوروں پر ہاتھ اٹھا لینے کو ہی __ بڑی خوبصورتی کے ساتھ __
ایک مسلمان کے حق میں "جرم" اور "پاپ" بنا کر پیش کرتا ہے..
یعنی دیارِ اسلام پر چڑھ آنے والے کافروں کے خلاف آپ کا ہتھیار اٹھا لینا یا حتیٰ
کہ اُن کوئی گزند پہنچانا اِس فتویٰ کی رو سے ایک گناہ (اللہ و رسول کی نافرمانی!)
قرار پاتا ہے... آپ جانتے ہیں، یہ "فتویٰ" اپنے مضمون کے لحاظ سے کچھ
ایسا نیا نہیں؛ برصغیر کے اندر اِس کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال پیچھے جاتی ہے.... ہندوستان میں، پہلے پہل یہ
"فتویٰ" اُس وقت عام کرایا گیا جب انگریزی استعمار کے خلاف مسلم مزاحمت
کو فروکش کرانا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اِس فتویٰ کے
'رائٹس' تاریخی طور پر مرزا قادیانی جیسے لوگوں کے نام محفوظ رہے ہیں؛ اور ہر دور
کے کسی خاص منظورِ نظر کو ہی اِس طرح کے 'فتاویٰ' دے کر استعمار کے خلاف ہونے والی
مزاحمت کو کچلنے کے عمل میں مددگار ہونے کی توفیق ہوتی رہی ہے۔ ہمارے عام مولویانِ
کرام کسی وقت خاموشی کا جرم کر بیٹھے ہوں تو اور بات ہے ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا
کہ یہاں کے عام مولویوں اور داعیوں نے استعمار کے خلاف ہونے والی اس مزاحمت کو کسی
بھی پہلو سے، یا کسی بھی حوالے سے، اور کسی بھی دلیل سے، غلط یا مذموم ٹھہرایا ہو۔
نہ "ولی الامر" کے نہ پائے جانے کی بنا پر اور نہ کسی اور 'دلیل' کو
بنیاد بنا کر...، ہمارے دینی و علمی طبقے کے ہاں اِس فتوائے قادیان یا اس سے ملتے
جلتے جہاد مخالف فتاویٰ نے کبھی پزیرائی نہیں پائی۔ البتہ استعمار کے کام آنے والے
اِن فتاویٰ و مفتیان کی مذمت اللہ کے فضل سے ہمارے دینی و علمی طبقے کی جانب سے
خوب خوب ہوئی ہے۔ اور تو اور، آزادی کے بعد یہاں کے قومی نصابوں نے دورِ استعمار
کے اندر ہونے والی ہماری اُس مزاحمت کو اچھا خاصا اون کیا ہے۔ ایسی کسی بنیاد پر
کہ یہ "ولی الامر" کے بغیر ہوتی رہی تھی، آج تک کسی اسلام پسند تو کیا
شاید کسی قوم پرست نے بھی اُس مزاحمت کے اندر کیڑے نہیں نکالے!
|
|
|
|
|
|