ملا عمر کا جہاد.. جہادِ شرعی کی ایک
صالح ترین مثال
ایقاظ کے فائل سے
کچھ دیر کےلیے ہم اِن معترضین کو درست
بھی مان لیں کہ مسلم حکمران کے بغیر جہاد درست نہیں....
تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اِن حضرات کو
افغانستان کی امارتِ اسلامی کے تحت ہونے والے جہاد کی تو ضرور ہی حمایت کرنی چاہیے
تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں یہ افغانستان میں جہاد سے "روکنے" کےلیے ہی
اپنی یہ 'دلیل' سب سے زیادہ ذکر کرتے ہیں!
ظاہر ہے افغانستان میں ملا عمر کی
قیادت میں باقاعدہ ایک اسلامی حکومت موجود تھی۔ جو
عدل اور جو امن اِس حکومت نے ملک کے طول و عرض میں قائم کر کے دکھایا اُس کا فی
زمانہ تصور تک شاید کہیں نہ ہو سکتا ہو۔ اَب کسی فقہ کی کتاب کے اندر یہ تو لکھا
ہوا نہیں کہ کسی حکومت کے معتبر ہونے کی شروطِ شرعیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ
اقوام متحدہ کے ہاں سے پاس شدہ ہو! اِس ایک 'شرط' کے علاوہ ویسے کونسی شرط تھی جو
ملا عمر کی حکومت نے پاس نہیں کر لی تھی؟ یہاں تک کہ آپ کے "اسلامی جمہوریہ
پاکستان" نے اور "مکہ مدینہ کے بادشاہ" نے اِس کو باقاعدہ تسلیم کر
رکھا تھا! پھر جب امریکہ کی جانب سے اس پر سراسر ایک ظالمانہ و جارحانہ حملہ ہوا
تو ہمارے اِن حضرات نے، جو جہاد کےلیے "اسلامی حکومت" کی شرط عائد
فرمایا کرتے ہیں، کیوں نہ امارتِ اسلامی افغانستان کے اعلانِ جہاد کے حق میں
فتوائے عام صادر کیا؟
یہاں پر؛ اِن میں سے کچھ اصحاب کمال کا
ایک نکتہ اٹھاتے ہیں اور وہ یہ کہ ملا عمر
کی ریاست "اسلامی دولت" کےلیے اس لئے 'کوالیفائی' نہیں کرتی کہ جب
امریکہ نے اُس سے اسامہ کو مانگا تو اُس نے اسامہ کو اُس کے سپرد کیوں نہیں کر
دیا! اِن میں سے بعض اصحاب اِس بات کو سرے سے گول کرتے ہوئے کہ ملا عمر کی امارت
ایک اسلامی امارت تھی جس کو افغانستان پر حملہ آور صلیبی افواج کے خلاف اعلانِ
جہاد کرنے کا پورا پورا حق حاصل تھا، ساری بحث اس پر لے آتے ہیں کہ اگر یہ اسلامی
امارت ہو بھی (یعنی مانتے نہیں کہ یہ اسلامی امارت تھی!) تو بھی اُس کا اعلانِ
جہاد اِس وجہ سے باطل ہو جاتا ہے کہ وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کر کے
'جارحیت' کی مرتکب ہو بیٹھی تھی!
سوال یہ ہے، کیا واجب تھا کہ ملا عمر
اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرتے؟ اور کیا یہ اِس درجہ کا واجب تھا کہ اس کے ’ادا‘ نہ کرنے کی صورت میں ملا عمر کا پورے کا
پورا جہاد ہی باطل ٹھہرایا جائے؟ یعنی، ہمارے اِن نکتہ وروں کے خیال میں، یہ ہرگز
کافی نہیں کہ ملا عمر یہ اعلان کر دیں، اور جوکہ اُنہوں نے کیا، کہ اسامہ نے اگر
دنیا میں کسی بھی انسان کے ساتھ کوئی زیادتی کر دی ہے تو اس کے ثبوت لائے جائیں،
اور وہ اسلامی شریعت کے مطابق اس پر پوری پوری عدالتی کارروائی کرنے پر تیار ہیں۔
اب کیا اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا اعلان نادرست ہے، اور اِس پر اصرار کر
لینے کے باعث اور اِس قضیہ میں ہر قسم کے پریشر اور دھونس کو رد کر دینے کے باعث
ملا عمر کا جہاد "باطل" ہو گیا؟ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ملا عمر کی یہ
نہایت اصولی و منصفانہ پیشکش امریکہ کی تکبر سے تنی ہوئی گردن کےلیے ناقابل قبول
تھی۔ لیکن یہ سمجھ آنا نہایت دشوار ہے کہ ہمارے اِن مفتیانِ کرام کےلیے یہ بات
کیوں ناقابل قبول ہے! اب ظاہر ہے اگر فریقِ دیگر (یعنی امریکہ) ملا عمر کی اِس
پیشکش کو قبول کرتا، اسامہ کی کسی زیادتی کا ثبوت لاتا، اسامہ اُس کے بالمقابل
اپنا مقدمہ بیان کرتے اور اپنی وجوہات سناتے اور اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتے
کہتے، اور پھر عدالت اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق اُن کا فیصلہ کرتی.... تو جا
کر یہ نوبت بھی آتی کہ ہمارے یہ مفتیانِ کرام کم از کم اُس عدالتی فیصلے کے اندر
ہی کچھ کیڑے نکال دکھاتے۔ کم از کم، کوئی تو اعتراض نکلتا جو امارتِ اسلامی کی قائم
کردہ عدالت یا اُس کے 'فہمِ شریعت' پر لگایا جا سکتا! مگر ظاہر ہے امریکہ نے اس کی
نوبت ہی نہیں آنے دی؛ اُس کی جانب سے تو 'آپشن' ہی ایک دیا جا رہا تھا کہ: اِس
مسئلہ پر امارتِ افغانستان کو صاف صاف 'ہینڈزاَپ' کرنا ہو گا۔ البتہ جہاں تک
اصولوں کا تعلق ہے ، تو ملا عمر کو آخر کیوں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک مسلم
باشندے پر عائد کئے گئے الزامات کے ثبوت مانگیں اور ان الزامات کو اپنی شرعی عدالت
کے اندر پیش کرنے کی یقین دہانی کرائیں، مگر دوسری طرف ملزم کو اپنے دفاع اور اپنی
صفائی اور اپنی وجوہات پیش کرنے کا بھی پورا پورا موقع دیں، اور پھر ان کی عدالت
اسلامی اصولوں کی رو سے اس قضیہ کا ایک بے لاگ فیصلہ کرے؟ ملا عمر اگر اِس بات پر
اصرار کریں تو آخر یہ کیوں صحیح نہیں ہے؟
یہاں تک... بتائیے ملا عمر کی کیا غلطی
ہے؟ ملا عمر یہ نہایت معقول و منصفانہ پیشکش کرنے میں کیوں حق بجانب نہیں ہیں؟
اب آگے چلئے۔ امریکہ پوری رعونت کے
ساتھ ملا عمر کی امارتِ اسلامی افغانستان پر حملہ کر دیتا ہے اور اپنے بی ففٹی ٹو
بمباروں اور اپنے ڈیزی کٹروں کے ساتھ مسجدوں اور اذانوں کے اِس دیس کو شرق تا غرب
خون میں نہلا دیتا ہے۔ یہاں؛ ملا عمر کو اپنے اِس دیس کے دفاع کا حق کیوں نہیں ہے؟
آخر وہ کونسا پوائنٹ ہے جہاں سے ملا
عمر کا جہاد باطل ہو جاتا ہے؟
غرض کسی وقت یہ حضرات تجاہل عارفانہ سے
کام لے کر امارتِ اسلامی افغانستان کو 'حکومت'
کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے، اور پھر کسی وقت جب دیکھتے ہیں کہ اِن کی
بیان کردہ "نو من تیل" والی یہ شرط بھی یہاں تو پوری ہوتی نظر آتی ہے
(یعنی اُن کا یہ شرط لگانا کہ اسلامی حکومت دنیا میں کبھی ہو کر دے تو یہ حضرات
اُس کے قتال کو "جہاد" کی ڈگری عنایت فرمائیں) یوں اس کو
"جہاد" مانے بغیر اب تو کوئی 'اصولی' مفر بھی اِن کے پاس نہیں رہ گیا
ہے، تو پھر پینترا بدل کر یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ ملا عمر نے امریکہ کے 'اسامہ
کو سپرد کرنے' کے مطالبہ کے سامنے فوراً سر تسلیم خم کیوں نہیں کر دیا (اور اِن کے
اپنے 'شرعی جمہوری' حکمرانوں کی 'یس سر' والی ریت اِس بے دردی کے ساتھ کیوں توڑ
ڈالی!)
یہ حضرات، جوکہ اَب تک جہاد کے خلاف
بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور ہر ہر پہلو سے اِس کو 'باطل' قرار دے چکے ہیں....، کبھی
پسند فرمائیں تو ہمارے علم میں اضافہ کریں کہ ملا عمر پر امریکہ کی بات من و عن
مان لینا کیوں واجب تھا اور مدعی و مدعا علیہ کو اسلامی شرعی عدالت کے روبرو، اپنا
دعویٰ و جوابِ دعویٰ دائر کرنے کا حق دینا، اور اِس عدالتی کارروائی پر اصرار کرنا
ملا عمر کے حق میں کیونکر ایک گردن زدنی جرم ہے؟
اب اِس کے بعد جنگ ہو جاتی ہے۔ ملا عمر حفظہ اللہ ونصرہ ٗاِس جنگ میں اللہ کے فضل سے آج تک ڈٹے رہتے ہیں، اُن کے اِس
پورے جہاد کے اندر بتائیے غلطی کہاں ہے؟
ایسا ہی معاملہ
چیچنیا کا بھی رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں 1999ء میں جب روسی افواج چیچنیائی دارالحکومت
گروزنی پر حملہ آور ہوئیں، تو وہاں چیچنیوں کی باقاعدہ حکومت تھی۔ صدر اَصلان مسخادوف اور نائب صدر شامل باسائیف دونوں 1996ء کے انتخابات میں منتخب ہو
کر آئے تھے۔ کئی مہینے تک حملہ آور روسی افواج کے مدمقابل مزاحمت ہوتی رہی۔ آخر
2000ء میں گروزنی روسیوں کے قبضہ میں چلا گیا، چیچنیا کی منتخب حکومت نے گروزنی کے
باہر اڈے قائم کر لئے اور شامل باسائیف روسیوں کے خلاف اِس جہاد کی قیادت
کرتے رہے یہاں تک کہ 2006ء میں شہادت پائی۔ یہاں بھی؛ ہم نے نہیں دیکھا کہ 'حکومت'
کی شرط لگانے والے ہمارے اِن جہاد گریز طبقوں نے کبھی بھی ہمارے اِس جہاد کی حمایت
کی ہو!
ظاہر ہے ہمارا اصل فوکس اِس وقت: پڑوس
میں ہونے والا وہ جہاد ہے جو دنیا کے سب سے بڑے طاغوت کے خلاف لڑا جا رہا ہے اور
جوکہ پچھلے ایک عشرے سے افغانستان کے اندر اپنے عروج پر ہے۔ جبکہ وہاں پر ایک شرعی
حکومت پائی جانے کی 'شرط' یقینی طور پر پوری ہوئی ہے۔ لہٰذا اگر ملا عمر حفظہ اللہ
کا اعلانِ جہاد ہمارے اِن اصحاب کے ہاں شرفِ قبولیت پا لیتا ہے تو ہمارا ایک بڑا
مقصد سمجھئے یہیں پر پورا ہو جاتا ہے...!
(ماخوذ از ایقاظ جولائی 2011ء)