ایمان، ہجرت اور جہاد والادین
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ
اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
(البقرۃ: 218)
وه جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے گھر بار
چھوڑے اور اللہ کی راہ میں لڑے وہ ہیں رحمت الٰہی کے امیداور۔ اور اللہ ہے بخشنے
والا مہربان
شیخ سعدیؒ:
ایمان، ہجرت اور جہاد۔
یہ تین اعمال سعادت کا عنوان ہوئے اور عبودیت کا بنیادی محور۔ اِس ایک ہی آیت
کے آئینے میں: انسان خدا کے ہاں اپنی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے۔ نیز اپنے
ممکنہ ٹھکانے کا اندازہ کر سکتا ہے۔ دنیا کی اِس امتحان گاہ میں انسان نے کیا پایا
کیا کھویا، انہی تین اعمال کی روشنی میں جانچ سکتا ہے۔
پہلا عمل ہے ’’ایمان‘‘
کیا شان ہے اس عمل کی۔ یعنی خدا کو ماننا۔ آسمان سے اتری ہوئی حقیقتوں کو دل
میں بسانا اور عملاً ان پر گام زن ہونا۔ بھلا بتاؤ اہل سعادت اور اہل شقاوت کے
مابین اصل بنیادی فرق یہ کیوں نہ ہو؟ دوزخ اور جنت کے راستے اِسی ایک پوائنٹ سے
کیوں الگ الگ نہ ہوں؟
’’ایمان‘‘ جس کی بدولت انسان کے اعمالِ خیر قبول ہوتے ہیں۔ عرش کی جانب بلند
ہونے کےلیے طاقتِ پرواز پاتے ہیں۔ ’’ایمان‘‘ جو اگر ناپید ہو تو خواہ تم آسمان سے
تارے توڑ لاؤ، پوری دنیا کی دولت خدا کے آگے ڈھیر کردو، خدا اسے قبول کرنے والا
نہیں۔ ’’ایمان‘‘ جس کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کی جگہ نہ کوئی تاوان قبول ہواور نہ
جان بخشی کی کوئی اور صورت۔ جتنی سزا کاٹ لو؛ سزا پھر باقی کی باقی! ’’ایمان‘‘ جس
کی غیرموجودگی میں نہ تمہارا ادا کیا ہوا کوئی فرض خدا کے ہاں قبول اور نہ کوئی
نفل۔
دوسرا عمل: ’’ہجرت‘‘
یہ ہے آدمی کا مفارقت کر لینا اُن اشیاء سے جن سے وہ تمام تر زندگی وابستہ اور
مانوس رہا، اس لیے کہ خدا کی رضا کہیں اور پائی جانے لگی ہے۔ یعنی خدا کی خاطر
اپنی وابستگی ختم کر ڈالنا۔ اپنی محبتوں اور اپنے تعلقات کو خدا سے اپنی محبت اور
خدا سے اپنے تعلق پر قربان کر لینا۔ یہاں؛ اس آدمی نے اپنے وطن کو بھی خیرباد کہہ
ڈالا۔ اپنی جاگیر اور اپنے مال و دولت کو بھی۔ اپنے اہل و اقارب اور اپنے دوستوں
عزیزوں کو بھی۔ اور تن تنہا خدا کی محبت اور اطاعت کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔ دنیا
اور اس کی کھینچ رکھنے والی سب چیزوں کو تج دینے پر پوری طرح آمادہ۔ صرف فضلِ
خداوندی کا خواستگار۔ کہ اِس کا مطلوب خدا ٹھہرا، اور اس کا مقصود خدا کے دین کی
نصرت اور زمین میں اس کو تمکین دلوانا۔
تیسرا عمل ’’جہاد‘‘
یہ ہے آدمی کا خدا کے دشمن کو نیچا کرنے کےلیے اپنا پورا زور صرف کردینا۔ خدا
کے دین کی نصرت اور اقامت کےلیے زمین میں دوڑدوپ کرتے پھرنا۔ روئے زمین پر شیطان
کے دین کو مٹانے کےلیے سرگرم ہونا۔ یہ اعمالِ صالحہ کی معراج ہے اور اس کا بدلہ سب
سے اعلیٰ۔ یعنی اعمالِ صالحہ انسان کی زندگی میں جب اپنی چوٹی پر جا پہنچتے ہیں تو
اسے ہم کہیں گے جہاد فی سبیل اللہ۔ یہاں انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدا کی
طلب کرتا ہے۔ خدا کی خاطر دنیا میں مرنے اور مارنے تک چلے جانا۔ خدا سے وابستگی
اور وفاداری کی یہ اعلیٰ ترین سطح ہے۔ اس کا بدلہ بھی ضرور اعلیٰ ہو گا۔ یہ خاص وہ
عمل ہے جس کے سبب سے روئے زمین پر دین اسلام اپنا دائرہ وسیع کرتا ہے۔ بتوں اور ان
کے پجاریوں کا سر نگوں ہوتا ہے۔ اور خدا کی عبادت کرنے والوں کو دنیا میں اپنی
جانوں، مالوں اور اپنی اولادوں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
*****
پس جو شخص اِن تین عظیم اعمال میں پورا اتر لے گا، اور ان میں آنے والی مشقتوں
اور قربانیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے خدا کی وفاداری کا ثبوت دے لے گا، وہ خدا
کے عائد کردہ دیگر فرائض اور اعمال کے اندر پورا اترنے میں کہیں زیادہ توانا ہو
گا۔
تو پھر ایسے لوگوں کا حق بنتا ہے کہ یہ رحمتِ خداوندی ایسی عظیم شےء کے
امیدوار ہوں۔ اس لیے کہ یہ خدا کی رحمت تک پہنچانے والے اسباب اختیار کرلینے میں
کامیاب رہے۔
یہ آیت دلیل ہوئی کہ نیک بخت ہونے کی رجاء (امید) درست نہیں جب تک کہ
نیک بخت ہونے کے اسباب اختیار نہ کر لیے جائیں۔ رہ گئی وہ رجاء (امید) جو
سستی اور کاہلی سے پھوٹتی ہو، یعنی جہاں اسباب ہی اختیار نہ کیے گئے ہوں، تو یہ ہے
عجز اور فریبِ آرزو۔ یہ کم ہمتی اور کم عقلی کی دلیل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک
آدمی شادی بیاہ کیے بغیر ہی صاحبِ اولاد ہونے کی امید رکھے! یا بغیر فصل بوئے اور
بغیر زمین سیراب کیے ہی غلے کی آس کیے بیٹھا ہو!
أُولَئِكَ
يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ
’’یہ ہیں رحمتِ الٰہی کے امیدوار‘‘
کمال الفاظ ہیں۔ یہاں اشارہ ہے کہ آدمی خواہ کیسے ہی عظیم اعمال کیوں نہ کر
لے، وہ ان اعمال پر بھروسہ بہرحال نہیں کر سکتا۔ سہارا اس کا اعمال نہیں ہیں۔ بلکہ
یہ اعمال کر لینے کے بعد بھی امید ہے تو خدا کی رحمت سے۔ سہارا ہے تو خدا جس سے یہ
آس رکھتا ہے کہ وہ اِس کے اعمال قبول فرما لے۔ اِس کے گناہ اور قصور بخش دے۔ اور
عیوب پر اِس کی سترپوشی فرما دے۔ چنانچہ فرمایا: واللہُ غَفورٌ یعنی سچے دل سے
توبہ کر آنے والے کو بخش دینے والا۔ اور فرمایا: رَحِیمٌ یعنی وہ رحم سے متصف ہستی ہے۔ اس کی رحمت
ہر چیز پر وسیع ہے۔ اور اس کی سخاوت اور احسان ہر زندہ مخلوق کو محیط ہے۔
یہ آیت دلیل ہوئی کہ جو آدمی یہ عظیم اعمال انجام دے گا خدا کی مغفرت اس
کے حق میں واقع ہونے والی ہے۔ کیونکہ اُس کے حضور نیکیاں برائیوں کو ختم کر ڈالتی
ہیں۔ نیز اُسے خدا کیرحمت حاصل ہونے والی ہے۔
اب جب مغفرت ملے گی تو سب دنیوی و اخروی سزائیں ختم ہو جائیں
گی، جوکہ قصوروں اور گناہوں کا اصولی و طبعی انجام تھیں۔ اور جب رحمت ملی
تو دنیا و آخرت کی سب خیر مل گئی۔
حق یہ ہے کہ بندوں کے یہ اعمال بھی دراصل اُس کی رحمت تھی جو اِنہیں ملی۔ خدا
کی توفیق نہ ہوتی تو ان اعمالِ صالحہ کا ارادہ ہی اِن کے اندر جنم نہ لیتا۔
اِن اعمال پر اُس کی جانب سے اِنہیں قدرت نہ ملی ہوتی تو یہ اعمال کر ہی نہ سکتے۔
اُس کا احسان نہ ہوتا تو نہ یہ اعمال سرے لگتے اور نہ اُس کے ہاں قبولیت پاتے۔ سو
’سبب‘ بھی اُسی کا احسان اور ’مسبب‘ بھی۔
امام طبریؒ:
الَّذِینَ آمَنُوا
جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کو سچا مانا۔ رسولﷺ دنیا میں جو کچھ لے کر
آئے اسے تسلیم کیا۔
وَالَّذِینَ ھَاجَرُوا
جو اس بات کے روادار نہ رہے کہ مشرکین کے ساتھ اُن کے شہروں اور بستیوں کے
اندر مساکنت رکھیں۔ مشرکین کے ساتھ اِن کا رہن سہن ہو۔ ہمسائیگی اور زندگی
کا سانجھ ہو۔ تب یہ اُن کو خیرباد کہہ کر، اور ان کی ہمسائیگی اور ان کے شہروں اور
بستیوں کو ناگواری کے ساتھ چھوڑ کر ایک ایسا جہان بنانے کےلیے نکلے جہاں ایمان
بستا ہے۔ یہ ہے ہجرت۔
یہ لفظ ہر ایسی شےء کو چھوڑ دینے کےلیے مستعمل ہے جو آدمی کےلیے ناگوار ہوگئی
ہو۔ اصحابِ رسول اللہﷺ کے مہاجرین کو مہاجر اسی لیے کہا گیا۔ کیونکہ یہ اپنے وہ
گھربار اور اپنے سکونت کے وہ مقامات چھوڑ چھاڑ آئے تھے جہاں اب یہ مشرکین کے مابین
اور ان کے زیراقتدار رہنے کے روادار نہ رہ گئے تھے۔ کیونکہ یہ اپنے اُن گھروں میں
خود کو کفار کی فتنہ پردازی سے محفوظ نہ جانتے تھے۔ تب یہ ان بستیوں کی تلاش میں
نکل کھڑے ہوئے جہاں انہیں اپنے ان برگزیدہ مطلوبات کا تحفظ حاصل ہو۔
وَجَاھَدُوا
یعنی لڑے اور جنگ کی۔
اس کے معنیٰ میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کےلیے زور لگانا آتا ہے۔
فِی سَبِیلِ اللّٰہ
سبیل اللہ۔ یعنی اللہ کا راستہ۔ اللہ کا دین۔
پس وَالّذِینَ ھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیۡلِ اللّٰہ کا
مطلب ہوا: جو لوگ اہل شرک کے اقتدار کو چھوڑ آئے اس کو باقاعدہ خیرباد کہہ کر،
اپنے دین کے فتنہ زدہ ہونے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے۔ پھر یہ مشرکین سے دین خداوندی
کے معاملہ میں باقاعدہ برسرِ جنگ ہوئے، تاکہ یہ اُنہیں اس دین میں داخل کریں اور
خدا کی رضاجوئی کے دائرہ میں لے کر آئیں۔
أُولٰئِکَ یَرۡجُونَ رَحۡمَۃَ اللہ
یعنی یہ آس رکھیں کہ اللہ انہیں اپنی رحمت عطا فرمانے والا ہے۔ اپنی اس رحمت
کی بدولت ان کو اپنی بہشت میں داخل فرمانے والا ہے۔
وَاللہُ غَفُورٌ
یعنی اپنے بندوں کے گناہوں اور قصوروں پر پردہ ڈال دینے والا ہے، اپنے عفو و
بخشش کی بدولت۔ ان پر اپنی رحمت سے فضل فرمانے والا۔
(نوٹ: ہمارے ان قرآنی
اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے
ہیں)