’حقوقِ نسواں‘... اور اب ’کنواری
ماں‘!
ابن علی
دو سپریم کورٹ ، دو کہانیاں۔ ایک امریکی۔ ایک
بھارتی۔ آگے پیچھے ایک سے اقدامات۔ جن کا تعلق تہذیب اور اخلاق سے ہے۔ ہمارا مطلب
ہے تہذیب اور اخلاق کی موت۔ پہلی کہانی بھارت سے:
یہ کوئی توہین کی بات نہیں۔ اس ’تہذیب‘ کا وصف کرنے کےلیے غلیظ سے غلیظ عبارت بھی کفایت نہ کرے گی۔ یہ ’تہذیب‘ جو کہیں خلا
میں نہیں، بڑی دیر سے آپ اردگرد منڈلا رہی ہے۔ جس کے طوفانی جھکڑ آپ کے
کواڑ توڑ دینے کو ہیں۔جو کبھی آپ کے بچے کے بستے سے نکلتی ہے، تو کبھی ٹی وی سکرین
سے ظہور کرتی ہے۔ تو کبھی اخباروں، ناولوں اور ادب پاروں کے اندر سے چھلکتی ہے۔ تو
کبھی اس سے مرعوبیت کے لہجے آپ کے
یونیورسٹی کلاس روموں سے نشر ہوتے ہیں۔ تو کبھی ا س کے قصیدے آپ کے دانشوروں کی
زبان سے سنے جاتے ہیں۔ تو کہیں اس کی نویدیں آپ کے ہاں سرگرم این جی اوز کی فوج ظفر موج کی گھن گرج بنتی ہیں۔ تو کہیں اس کی صدائیں
آپ کے ہاں ’حقوق انسانی‘ کےلیے دوڑدھوپ کرتی فارغ البال بیبیوں کی زبان سے
بلند ہوتی ہیں۔
یہ ایک ہی پیکیج ہے حضرات۔ کچھ ملکوں پر مطلوبہ سماجی و ذہن سازی کا کام ہو چکا ہے۔ کچھ
ملکوں میں میڈیا ابھی اِس شبانہ روز محنت پر لگا ہوا ہے۔ غرض آپ کو ہاضمے کی مسلسل
خوراکیں دی جارہی ہیں۔ جو چیز چند سال پہلے آپ سے ہضم نہیں ہو رہی تھی، بار بار
متلی آتی تھی، جھٹ سے قےء ہو جاتی تھی، وہ اب غٹ غٹ حلق سے اترتی ہے۔ میڈیا اور
این جی اوز کے چالیس چور آپ کے دماغوں اور ضمیروں
میں گھس بیٹھیے، مصروفِ
واردات ہیں۔ آپ کا سارا گھر خالی کر دیا گیا۔ آپ کا شرف، عزت، آبرو سب بازاروں میں
لا دھرا گیا۔ یہی شریف زادیاں جنہیں سو سال
پہلے تک چشم فلک نہ دیکھ پائی تھی، ’تعلیم‘ کے کرشمے سے سربازار پھرتی ہیں۔
صرف ایک سو سال کی مدت میں آپ کی مرحوم و
مغفور ’چادر اور چاردیواری‘ اللہ کو پیاری ہوئی۔ ڈھونڈنا چاہیں تو اب وہ ’تعلیم‘ کے ڈسٹ بن میں پڑی ہے۔
اِس ادارہ میں کچھ عشرے زیر تعلیم رہ لینے کے بعد... آپ کی ’عصمتیں‘ ٹی شرٹ کی
متحمل بھی اب شاید ہی ہوں۔ ’ٹی شرٹ‘ جسے کبھی ہمارے یہاں ’بنیان‘ کہا جاتا تھا، اور جس کے اندر ایک شریف زادی
اپنے سگے بھائی اور اپنے باپ کے سامنے بھی آنے کی روادار نہیں تھی مگر اب وہ
کالجوں اور کلاس روموں میں ’کچھ ضرورت سے زیادہ‘ باور ہوتی ہے! اچھی خاصی ’قدامت
پسندی‘ لگتی ہے! اب یہ ’ذرا بولڈ‘ تصور نہیں ہوتی! فیشن شوز جو آپ کے میٹروپولیٹن
شہروں میں آئے روز منعقد ہوتے ہیں... ان میں کسی لباس کو تحسین پیش کرنے کےلیے،
کبھی آپ نے سنا، سب سے مکرّر لفظ کیا ہے؟ ’بولڈ‘!
جو ’بولڈ‘ نہیں وہ کچھ نہیں! یہ ایک لفظ اپنے
اندر پوری ایک کہانی ہے۔
اور... آپ کا سب کچھ بولڈ!
الغرض... بعض ملکوں کی سماجی صورت گری shaping of the society تسلی بخش حد تک
انجام پا چکی۔ اور بعضوں کی عدالتوں اور پارلیمانوں کو یہ نوبت آنے کا ابھی انتظار
کرنا ہے۔ کوئی چیز وقت سے پہلے کرنا
البتہ درست نہیں۔ انکل سام کھیر ٹھنڈی کرکے کھانے کے قائل ہیں۔ اور اِس مقصد کےلیے
بڑے بڑے ’ڈیپ فریزر‘ ایجاد کرتے ہیں!
سوال یہ ہے کہ ان پارلیمنٹوں اور سپریم کورٹوں
میں ایسے ’مبنی بر انصاف‘ فیصلوں کی نوبت سو سال پہلے کیوں نہیں آئی تھی؟ ’انصاف‘
اور ’حقوق‘ کو، جو ’یونیورسل‘ ہیں اور جھٹ سے سمجھ آتے ہیں، کچھ سیکولر معاشروں کے
اندر بھی اتنا انتظار کرنا پڑا! آخر کیوں؟
اس لیے کہ پورےپورے ملک کا موسم بدل ڈالنا کچھ
اتنا آسان نہیں تھا۔ سو سال اس اتنی بڑی تبدیلی کےلیے بھلا کیا مدت ہے؟
لیجئے انڈیا میں موسم سازگار ہو چکا...!
ذرا ترتیب ملاحظہ فرمائیے:
انسانی حقوق... کیسی خوبصورت بات ہے!
’انسانی حقوق‘ نے __ علاوہ دیگر بہت سی اولاد __ ایک معصوم سا بچہ دیا... ’خواتین
کے حقوق‘۔ ’حقوقِ نسواں‘۔ ’فیمی نزم‘۔
چشم بد دُور! کیسا ’کیوٹ‘ ہے!
پھر اس ’حقوقِ نسواں‘ نے چند ہی سالوں میں ایک
بچہ دیا:
’بن بیاہی ماں‘ کے حقوق...!!!
دل خراب ہو رہا ہے؟ پریشان مت ہوں۔ یہ نومولود فی
الحال بھارت میں ہوا ہے۔ ولادت عدالتِ عظمیٰ نے خود انجام دلوائی۔ وہاں البتہ اس
پر مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں!
بقیہ رپورٹ بی بی سی ڈاٹ کام اردو سے آپ خود پڑھئے، بعنوان:
’بن بیاہی ماں بچے کی سرپرست ہو سکتی ہے‘
بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں غیر شادی شدہ
ماؤں کو بچے کا سرپرست بننے کی اجازت دی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ سرپرستی کے لیے
والد کا نام دینا ضروری نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ اگر ماں بچے کے والد
کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تو اس سلسلے میں باپ کی مرضی ضروری نہیں ہے۔
پیر کو دیے گئے عدالت کے اس فیصلے کے
بعد اس بارے میں سابق فیصلے منسوخ ہو گئے ہیں، جن کے تحت ماں کو بچے کا قانونی
سرپرست بننے کے لیے والد کی اجازت ضروری تھی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام
کرنے والے تنظیموں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’مثبت قدم‘ قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سنایا،
جس میں دارالحکومت دہلی کی ایک ماں نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ بچے کے
باپ کو مطلع کیے بغیر اُسے بچے کا ’قانونی سرپرست‘ بننے کی اجازت دی جائے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اُس کا شوہر بچے کے پیدائش کے
بارے میں نہیں جانتا۔
اس سے قبل دلی ہائی کورٹ اور ذیلی عدالتوں نے اپنے فیصلے
میں کہا تھا کہ ماں کو بچے کا سرپرست بننے کے لیے والد کا نام ظاہر کرنا ضروری ہے۔
لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا کہ ’باپ کا نام ظاہر کرنے
کے لیے اصرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ اور بن بیاہی ماؤں کے معاملے میں ’اُن کا
اپنا نام ہی کافی ہے۔‘
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں
نے سراہا ہے۔
رپورٹ کا ویب لنک: http://goo.gl/WktZEy
*****
یقین کیجئے، مغربی ’تہذیب‘ کو مسلط کرانے کا یہاں کوئی منصوبہ نہیں،
خوامخواہ کا خوف اور عدم تحفظ! دل کھلا کریں اور ’مثبت‘ انداز میں سوچنا
سیکھیں!
پریشان اس وقت ہوا کریں جب کسی ملک میں شریعت کی بات ہو!!!
تو یہ لیجئے ’تہذیبِ جدید‘ اور ’حقوقِ انسانی‘ کی نئی
پیشکش:
’کنواری ماں‘!!!
متلی آ رہی ہے تو تھوڑا صبر کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا...
بس ذرا ’چینلز‘ کھلے رکھیں!!!