حضرت
عمرؓ اور گستاخِ رسول
منافق کا قتل
روایات
کی تحقیق اور غامدی وعمارخان ناصر کے اعتراضات کا جائزہ
تحریر: وقار اکبر چیمہ
قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ
حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي
أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
نہیں، (اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو
سکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں
کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دیں۔[1]
اس آیت کے
شان نزول کے طور پر اہل علم نے وہ معروف واقعہ بیان کیا
ہے جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کروا لینے کے بعد ایک شخص نے سیدنا عمر
ؓسے فیصلہ کرنے کا کہا تو آپ نے اس کی
گردن اڑا دی۔ چونکہ یہ واقعہ گستاخ رسول
کے لئے قتل کی سزا کے ثبوت کے طور پر نقل کیا جاتا ہے اس لئے ہماے دور میں
تجدد و مغربیت کے ملّی اور تہذیبی عناصر کو "اسلامیانے" کی کوشش کرنے والے گروہ کے سرخیل جاوید احمد غامدی صاحب نے اس پر
اعتراضات کئے ہیں۔ موصوف نے اوّل تو واقعہ
کی اسناد پر تنقید کی ہے اور پھر اسی آیت
کے شان نزول میں بیان کئے جانے والے صحیح بخاری میں مروی ایک واقعہ کے ساتھ اس کا
معارضہ کر کے اس کو کمزور ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح
ایک روایتی علمی خانوادے سے تعلق
رکھنے والے عمار خان ناصر نے بھی اپنے تئیں واقعہ کی اسناد پر "محدثانہ
نقطہ نظر" سے تنقید کی ہے۔ زیر نظر
مضمون میں ہم ان دو حضرات کے انہی 'علمی' اعتراضات کا تنقیدی
جائزہ لیں گے۔
واقعہ کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ واقعہ کئی اسناد اور مختلف درجات کی
تفصیل سے روایت ہوا ہے۔
١. الکلبی کے طریق سے ابن عبّاس
رضی اللہ عنہ کی روایت:
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: نزلت في
رجل من المنافقين يقال له بشر كان بينه وبين يهودي خصومة، فقال اليهودي: انطلق بنا
إلى محمد، وقال المنافق: بل نأتي كعب بن الأشرف -وهو الذي سماه الله تعالى
الطاغوت- فأبى اليهودي إلا أن يخاصمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأى
المنافق ذلك "أتى معه" النبي صلى الله عليه وسلم واختصما إليه فقضى رسول
الله صلى الله عليه وسلم لليهودي فلما خرجا من عنده لزمه المنافق وقال: ننطلق إلى
عمر بن الخطاب فأقبلا إلى عمر، فقال اليهودي: اختصمت أنا وهذا إلى محمد فقضى لي
عليه فلم يرض بقضائه وزعم أنه مخاصم إليك وتعلق بي فجئت معه، فقال عمر للمنافق:
أكذلك؟ فقال: نعم فقال لهما: رويدكما حتى أخرج إليكما فدخل عمر البيت وأخذ السيف
فاشتمل عليه ثم خرج إليهما فضرب به المنافق حتى برد وقال: هكذا أقضي بين من لم يرض
بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهرب اليهودي، ونزلت هذه الآية وقال جبريل
عليه السلام: إن عمر فرق بين الحق والباطل فسمي الفاروق.
الکلبی ابو صالح سے اور ابو صالح
ابن عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں: یہ آیت بشر نامی ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی۔
بشر اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوا۔ یہودی نے کہا چلو آؤ محمد کے پاس فیصلہ کے
لئے چلیں۔ منافق نے کہا نہیں بلکہ ہم کعب بن اشرف یہودی – جسے اللہ تعالی نے طاغوت
کا نام دیا – کے پاس چلیں۔ یہودی نے فیصلہ کروانے سے ہی انکار کیا مگر یہ کہ جھگڑے
کا فیصلہ رسول اللہ سے کروایا جائے۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ اس کے ساتھ نبی ﷺ کے کی طرف چل دیا اور دونوں نے اپنا اپنا
مؤقف پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے
یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہ دونوں جب
آپ کے پاس سے نکلے تو منافق نے عمر بن خطابؓ کے پاس چلنے پر اصرار کیا اور
وہ دونوں عمر ؓکے پاس پہنچے۔ یہودی نے کہا، میں اور یہ شخص اپنا جھگڑا محمد کے پاس
لے کر گئے اور محمد نے میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ یہ ان کے
فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور آپ کے
پاس آنے کا کہا تو میں آپ اس کے ساتھ آپ کی طرف آیا۔ عمر ؓنے منافق سے پوچھا، 'کیا یہی معاملہ ہے؟'
اس نے کہا، 'جی ہاں۔' عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میری واپسی کا انتظار کرو۔ عمر ؓ
اپنے گھر گئے، اپنی تلوار اٹھائی اور واپس ان دونوں کے پاس لوٹے اور منافق
پر وار کیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: "جو رسول اللہ ﷺ کے
فیصلے کو نہیں مانتا اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے۔" یہ دیکھ کر یہودی بھاگ
گیا۔ اس پر یہ آیت (النساء ٦٥) نازل ہوئی اور
جبریل علیہ السلام نے کہا: بے شک عمر ؓنے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا
اور انہوں نے آپ کا نام
"الفاروق" رکھا۔[2]
اس سند سے یہ روایت بے شک سخت
ضعیف ہے اور انصاف یہ ہے کہ اس کی
حد تک غامدی صاحب کا اعتراض بھی بجا ہے۔
لیکن اس روایت کی اور اَسناد بھی ہیں جن کے ہوتے ہوئے اس ایک سند کا ضعف کچھ مضر نہیں رہتا۔
٢. ابن لہیعہ کے طریق سے عروہ
بن زبیر کی روایت:
ابن ابی حاتمؒ اور ابن مردویہؒ نے اس کو ابن
لہیعہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ ابن ابی
حاتمؒ کے الفاظ یہ ہیں:
أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أنبأ ابن وهب،
أخبرني عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود قال: اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله
عليه وسلم، فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب، فقال رسول
الله صلى الله عليه وسلم: نعم، انطلقا إلى عمر، فلما أتيا عمر قال الرجل: يا ابن
الخطاب قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر حتى أخرج
إليكما فأقضي بينكما، فخرج إليهما، مشتملا على سيفه فضرب الذي قال: ردنا إلى عمر
فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله،
قتل عمر والله صاحبي ولو ما أني أعجزته لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه
وسلم: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمنين، فأنزل الله تعالى فلا وربك لا يؤمنون
حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما
فهدر دم ذلك الرجل وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: «ولو أنا
كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم» إلى
قوله: وأشد تثبيتا
یونس بن عبد الاعلیٰ عبدللہ بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن الہیعہ نے انہیں ابو الاسود سے نقل کرتے ہوئے خبر دی: دو آدمی
رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا جس کے خلاف
فیصلہ ہوا اس نے کہا ہم کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں
ٹھیک ہے؟ دونوں عمر ؓکے پاس چلے جب عمر ؓ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا اے ابن
خطاب میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے اس معاملہ میں اس نے کہا ہم عمر ؓ
کے پاس جائیں گے تو ہم آپ کے پاس آگئے عمر ؓ نے پوچھا (اس آدمی سے) کہا ایسے ہی
ہے؟ اس نے کہا ہاں عمر ؓ نے فرمایا اپنی جگہ پر رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں
تمہارے درمیان فیصلہ کروں حضرت عمر اپنی تلوار لے کر آئے اس پر تلوار سے وار کیا
جس نے کہا تھا کہ ہم عمر کے پاس جائیں گے اور اس کو قتل کردیا اور دوسرا پیٹھ پھیر
کر بھاگا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا یا رسول اللہ اللہ کی قسم عمر ؓ نے میرے
ساتھی کو قتل کردیا اگر میں بھی وہاں رکا رہتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا میرا گمان یہ نہیں تھا۔ کہ عمر ؓ ایمان والوں کو قتل کی جرات
کریں گے تو اس پر یہ آیت اتری لفظ آیت ’’ فلا وربک لا یؤمنون‘‘ تو اس
آدمی کا خون باطل ہوگیا اور عمر ؓ اس کے قتل سے بری ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں
اس طریقہ کو ناپسند کیا تو بعد والی آیات نازل فرمائیں اور
فرمایا لفظ آیت ’’ ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم‘‘ سے لے کر ’’واشد تثبیتا‘‘ تک (النساء آیت ٦٦)۔
اس کی سند پر غامدی صاحب نے ابن لہیعہ کی وجہ سے
اعتراض کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم کی سندوں میں اِس کا راوی
ابن لہیعہ ضعیف ہے۔
ابن لہیعہ کے بارے میں قابل غور بات یہ ہے کہ اس کا ضعف سوء حفظ کی
وجہ سے تھا اور اس کی کتابیں جل گئی تھیں اس لئے کتابیں جلنے کے
بعد اس سے جن لوگوں نے روایت کیا ہے ان کی
روایات ضعیف شمار کی جائیں گی۔ اس کے بر عکس جن لوگوں نے کتابیں جلنے سے پہلے ابن
لہیعہ سے سنا ان کی روایات معتبر شمار کی جاتیں ہیں۔ ان لوگوں میں عبدالله بن
وھبؒ، قتیبہ بن سعید ؒسمیت دیگر کئی راوی شامل ہیں۔ اور زیر بحث روایت میں بھی ابن
لہیعہ سے روایت کرنے والے عبدالله بن وھب ہیں لہذا اس سند میں ابن لہیعہ کی وجہ سے کوئی ضعف ثابت نہیں ہوتا۔
تلخیص الحبیر میں ایک
حدیث کی تحقیق میں حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
وفيه ابن لهيعة؛ لكنه من حديث ابن وهب عنه،
فيكون حسنا
اس کی سند میں ابن لہیعہ راوی ہے لیکن
اس حدیث میں اس سے
روایت کرنے والے ابن وھب ہیں ، چناچہ
یہ حدیث حسن ہے۔
صراحت تو اس اَمر کی دیگر متقدمین و متاخرین نے بھی کی ہے لیکن یہاں ہم اپنے دور کے دو بڑے
محققین کے اقوال بھی بطور ثبوت نقل کئے دیتے ہیں۔
ایک حدیث پر بحث کرتے ہوئے شیخ البانیؒ لکھتے ہیں:
وإن كان فيه ابن لهيعة فإنه قد
رواه عنه جماعة منهم عبد الله بن وهب وحديثه عنه صحيح كما قال غير واحد من الحفاظ
گو اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے لیکن یہ حدیث اس سے ایک جماعت نے روایت کی ہے جن میں عبدالله بن
وھب بھی شامل ہیں اور ابن وھب کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے جیسے کہ کئی
حفّاظِ حدیث نے کہا ہے۔
اسی طرح شیخ شعیب أرنؤوط ایک حدیث پر تحقیق میں
لکھتے ہیں:
والراوي عن ابن لهيعة عند ابن
أبي حاتم هو عبد الله بن وهب، فالإسناد حسن
ابن ابی حاتم کی سند میں ابن لہیعہ سے روایت کرنے والے عبدالله بن وھب ہیں،
چناچہ یہ سند حسن ہے۔
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ غامدی صاحب کا یہ
اعتراض باطل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام
ابن کثیرؒ اور امام شوکانیؒ وغیرہ
نے بھی اس حدیث کو ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ تو غامدی صاحب اور ان کے نہج پر چلنے والوں سے
اوّل تو گزارش ہے کہ جناب جب آپ محدثین کے ہاں متفقہ باتوں کو نہیں مانتے تو کسی
عالم کے سہو و تسامح کو اپنی بات کی دلیل بنانے کا کیا اخلاقی جواز رہ جاتا ہےآپ کے پاس؟
پھر سہو و تسامح کا دعویٰ بلا دلیل بھی نہیں۔ نيل الأوطار میں ایک حدیث کو قابلِ استدلال بتاتے ہوئے امام شوکانیؒ اس کی ایک سند نقل کر کے بغیر کسی
تبصرہ و اظہارِ اختلاف حافظ ابن حجرؒ کا مذکورہ بالا قول نقل کرتے ہیں۔
اسی طرح حافظ ابن کثیرؒ مسند الفاروق میں ایک روایت پر بحث میں اس کی
توثیق کرتے ہوے ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
وإنما يروى حديث ابن لهيعة عمن
سمع منه قبل أن يصاب بكتبه مثل ابن المبارك وأبي عبد الرحمن المقري وابن وهب
اس حدیث کا راوی ایسا شخص ہے جس
نے ابن لہیعہ سے اس کی کتابیں ضائع ہونے
سے پہلے سماعت کی، جیسا کہ ابن مبارک، ابو عبد الرحمن المقری اور ابن وھب نے۔
جب تفصیلی قاعدہ پر ان حضرات کا اطمینان ثابت ہو گیا تو اگر کسی جگہ انہوں
نے کوئی بات راوی پر اجمالی نظر ڈال کر
ہی کہہ دی تو یقینا اسے سہو و تسامح
ہی کہا جائے گا۔
یہی وجہ ہے
کہ اسباب نزول پر ایک معاصر تحقیقی کاوش الاستيعاب في بيان الأسباب کے مؤلفین اس روایت کے بارے
میں لکھتے ہیں:
وسنده صحيح إلى أبي الأسود
ابو الاسود تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔
البتہ اس کتاب کے مؤلفین نے یہ بھی لکھا
ہے کہ یہ سند معضل ہے۔ یہ بات درست ہے
کیونکہ ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن صرف تابعین سے روایت کرتے ہیں۔ لیکن ايک اور مآخذ سے يہ ثابت ہے کہ مذکورہ روايت ابو
الاسود نے معروف تابعی اور اپنے استاد و
ربیب عروة بن زبير ؒسے نقل كى تھی۔
امام ابن تيميہؒ الصارم
المسلول على شاتم الرسول ميں لکھتے ہيں:
قال ابن دحيم: حدثنا الجوزجاني حدثنا أبو الأسود
حدثنا ابن لهيعة عن أبي الأسود عن عروة بن الزبير قال: اختصم إلى رسول اللهﷺ رجلان…
ابن دحیم اپنی سند سے ابن لہیعہ کے طریق سے ہی ابو
الاسود اور ابو الاسود عروہ بن زبیرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: دو آدمی اپنا جھگڑا رسول الله ﷺ کے پاس لے کر
گئے ...
لہذا معلوم ہوا کہ ابن لہيعہ کی سند سے یہ روایت
معضل نہیں مرسل ہے، بلکہ مرسل صحیح ہے۔
٣. ابن دحیم کی سند سے ضمرة بن حبيبؒ
کی روایت:
حافظ ابن کثیرؒ اور حافظ ابن حجر ؒنے نقل کیا ہے
کہ ابن دحیمؒ نے یہی واقعہ ضمرة بن حبيبؒ سے بھی مرسلاً روایت
کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نقل کرتے ہیں:
قال الحافظ أبو إسحاق إبراهيم بن عبد الرحمن بن
إبراهيم بن دحيم في تفسيره: حدثنا شعيب بن شعيب، حدثنا أبو المغيرة، حدثنا عتبة بن
ضمرة، حدثني أبي أن رجلين اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقضى للمحق على
المبطل، فقال المقضي عليه: لا أرضى، فقال صاحبه: فما تريد؟ قال: أن نذهب إلى أبي
بكر الصديق، فذهبا إليه، فقال الذي قضي له: قد اختصمنا إلى النبي صلى الله عليه
وسلم، فقضى لي، فقال أبو بكر: أنتما على ما قضى به رسول الله صلى الله عليه وسلم،
فأبى صاحبه أن يرضى، فقال: نأتي عمر بن الخطاب، فقال المقضي له: قد اختصمنا إلى
النبي صلى الله عليه وسلم، فقضى لي عليه، فأبى أن يرضى، فسأله عمر بن الخطاب فقال
كذلك، فدخل عمر منزله وخرج والسيف في يده قد سله، فضرب به رأس الذي أبى أن يرضى
فقتله، فأنزل فلا وربك لا يؤمنون الآية.
حافظ ابن دحیم اپنی تفسیر میں شعیب
بن شعیب سے، وہ ابو مغیرہ سے، ابو مغیرہ عتبہ بن ضمرہ سے اور عتبہ اپنے والد ضمرہ
بن حبیب سے روایت کرتے ہیں کہ: دو شخص اپنا جھگڑا لے کر نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوے۔ آپ نے صاحب حق کے حق
میں فیصلہ دے دیا ۔ جس کے خلاف فاصلہ ہوا تھا اس نے کہا میں اس فیصلہ پر راضی نہیں
ہوں۔ دوسرے نے کہا اب تم کیا چاہتے ہو؟ اس
نے کہا چلو ابو بکر کے پاس چلتے ہیں۔ دونوں ابو بکر کے پاس پہنچے۔ آپ نے فرمایا تمہارے حق
میں فیصلہ وہی ہے جو رسول الله (ﷺ) نے کر دیا۔ وہ
اس پر بھی راضی نہ ہوا اور کہنے لگا کہ چلو عمر بن خطاب کے پاس چلتے ہیں۔
جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا:
ہم اپنا معاملہ نبی (ﷺ) کے پاس لیکر گئے تھے اور انہوں میں میرے حق میں اور اس خلاف
فیصلہ دیا تو اس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ عمر بن خطاب نے اس شخص سے
پوچھا آیا یہی معاملہ پیش آیا۔ اس نے تصدیق
کی۔ جب عمر نے یہ حال سنا تو آپ اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے اور
تلوار لا کر اس شخص کا سر قلم کر دیا جس نے رسول الله (ﷺ) کا فیصلہ ماننے سے انکار
کر دیا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’فلا
وربک لا یؤمنون‘‘
اس کی سند کے بارے
میں الاستيعاب في بيان الأسباب کے فاضل مؤلفین کی تحقیق ہے کہ:
وهذا سند حسن؛ لكنه مرسل
یہ سند حسن لیکن مرسل ہے۔
غامدی صاحب کو اپنا استاد
کہنے والے عمار خان ناصر صاحب نے
اپنی کتاب "براہین" میں اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے:
"نیز سند کے ایک راوی ابو المغیرہ عبد القدوس بن الحجاج الخولانی کے بارے میں
ابن حبانؒ کی راے یہ ہے کہ وہ حدیثیں
گھڑ کر ثقہ راویوں کے ذمے لگا
دیتا ہے – (الکشف الخثیث، ١/١٧١)"
یہ
اعتراض انتہائی لغو اور حدیث کے حوالے سے
اس طائفہ کی حد درجہ بے احتیاطی کا مظہر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابو المغیرہ عبد
القدوس بن الحجاج الخولانیؒ صحیح بخاری و
مسلم سمیت صحاح کے متفقہ اور ثقہ راوی ہیں۔ اور خود امام ابن
حبان نے ان کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ جہاں تک عمار
صاحب کے نقل کردہ قول کا تعلق ہے
تو وہ کتاب الكشف الحثيث عمن رمي بوضع
الحديث کے مصنف سبط
بن العجميؒ یا کسی کاتب کی غلطی ہے۔ امام
ابن حبانؒ کا مذکورہ قول در حقیقت ایک اور
راوی عبد القدوس بن حبيب الكلاعي الوحاظي سے متعلق ہے۔
دلچسپ
بات یہ ہے کہ بحث کا
آغاز ہی واقعہ کو
بیان کرنے والوں کو "پیشہ ور اور غیر محتاط واعظین" کہنے
سے کرنے والے عمار صاحب کا اپنا "سنجیدہ اور محتاط" علمی انداز یہ ہے کہ ایک راویِ حدیث پر بحث کرتے
ہوئے موصوف متداول اور معروف کتبٍ رجال جیسے
تهذيب التهذيب ، ميزان الاعتدال وغیرہ کا نہیں بلکہ نسبتاً
غیر معروف کتاب الكشف الحثيث کا حوالہ لا ئے ہیں۔ عام طور سے یہ ممکن ہے کہ
ایک معتبر ثانوی ماخذ سے ایک بات نقل کی جائے اور اس کے اصل کی مراجعت کر
کے تحقیق کا موقع نہ ملے لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کتاب الكشف الحثيث کے محقق شیخ صبحي السامرائي نے
حاشیہ میں مذکورہ غلطی کو واضح کر دیا ہے ۔ دیکھئے کتاب مذکور کا ص ١٧٢، عمار صاحب نے
حوالہ میں ص ١٧١ لکھا ہے جہاں سے زیر بحث راوی کا ترجمہ شروع ہوتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ موصوف
کے سامنے بھی شیخ صبحي السامرائي کا ہی محقَق
نسخہ تھا لیکن
حدیث کے معاملے میں جناب کی "کمال احتیاط" کا عالم یہ ہے کہ جناب نے کوشش کے بعد ایک کتاب میں اپنے مطلب
کا اقتباس دیکھا تو کتاب کے محقق
کی وضاحت کو بھی قابل التفات نہیں
جانا۔ یہ بات بہرحال
قابل غور ہے کہ عمار صاحب نے اپنے مطلب کے حصول کے لئے معروف کتب
رجال کی بجائے ایک غیر معروف کتاب
کی طرف مراجعت کیوں کی؟
واضح
رہے کہ زیر بحث سند کے راوی ابو المغیرہ
عبد القدوس بن الحجاج الخولانیؒ کے حوالے سے ہے
کتاب الكشف الحثيث کے مصنف سبط بن العجمي کے تسامح کی وضاحت مشہور محقق
ڈاکٹر بشار عواد معروف نے بھی تهذيب الكمال کی
تحقیق میں کی ہے۔
٤. امام
مکحولؒ کی روایت:
حافظ سیوطیؒ نے الدر المنثور میں لکھتے ہیں:
وأخرج الحكيم الترمذي في
نوادر الأصول عن مكحول قال: كان بين رجل من المنافقين ورجل من المسلمين منازعة في
شيء فأتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقضى على المنافق فانطلقا إلى أبي بكر
فقال: ما كنت لأقضي بين من يرغب عن قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم
فانطلقا إلى عمر فقصا عليه فقال عمر: لا تعجلا حتى أخرج إليكما فدخل فاشتمل على
السيف وخرج فقتل المنافق ثم قال: هكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله فأتى
جبريل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن عمر قد قتل الرجل وفرق الله بين الحق
والباطل على لسان عمر فسمي الفاروق
حکیم ترمذیؒ نے نوادر الاصول میں مکحولؒ سے روایت کیا کہ ایک
مسلمان اور ایک منافق کا آپس میں جھگڑا تھا کسی چیز کے بارے میں دونوں رسول اللہ ﷺ
کے پاس آئے آپ نے منافق کے خلاف فیصلہ فرمایا پھر دونوں ابو بکرؓ کے پاس چلے انہوں
نے فرمایا مجھے ان کے درمیان فیصلہ کرنا زیب نہیں دیتا جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ سے
اعراض کرتے ہیں پھر دونوں عمر کے پاس گئے اور ان کو سارا قصہ سنایا عمرؓ نے فرمایا
تم دونوں جلدی نہ کرو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس نہ آؤں وہ گھر میں داخل ہوئے اور
تلوار لے آئے اور اس منافق کو قتل کردیا پھر فرمایا میں اس کا فیصلہ اسی طرح کرتا
ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے راضی نہ ہو رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرئیلؑ تشریف لائے
اور عرض کیا کہ عمر ؓنے ایک آدمی کو قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کو
جدا کردیا حضرت عمرؓ کی زبان پر اس لئے ان کا نام فاروق ہوگیا۔
اس
روایت کے متعلق عمار خان ناصر صاحب فرماتے ہیں کہ حکیم ترمذی نے یہ واقعہ کسی سند
کے بغیر امام مکحول سے نقل کیا ہے۔ یہ ارشاد فرماتے ہوے غالباً عمار صاحب کے پیش نظر نوادر الاصول
کا ایسا
نسخہ تھا جس میں روایات کی اسناد
کو حذف کر دیا گیا ہے، وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت حکیم ترمذی نے "حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا أيوب بن مدرك قال: سمعت مكحولاً رفع الحدييث إلى رسول اللهﷺ ..." کی سند سے بیان کیا
ہے۔ گو یہ سند ایوب بن مدرک کی
وجہ سے ضعیف ہے لیکن جیسے کہ آئندہ بیان
ہو گا ہمیں یہاں اس روایت کو صرف مستند مراسیل کے شاہد کے طور پر بیان کرنا مقصود ہے۔
٥.
دیگر روایات:
بعض دیگر
روایات میں بھی اصل واقعہ
کی طرف اشارہ ہے گو ان میں
زیر بحث واقعہ کی تفصیل نہیں۔
عن مجاهد في قوله:"فلا
وربك لا يؤمنون ..."، قال: هذا الرجل اليهوديُّ والرجل المسلم اللذان تحاكما
إلى كعب بن الأشرف.
مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ آیت ایک یہودی اور ایک مسلمان کے
بارے میں نازل ہوئی جو اپنا معاملہ
فیصلے کے لئے کعب بن
اشرف کے پاس لے کر گئے۔
الاستيعاب في بيان الأسباب کے مؤلفین نے اس مرسل
روایت کی سند کو بھی صحیح کہا ہے۔ اسی طرح
کی روایت شعبیؒ سے بھی صحیح سند سے منقول ہے۔
٦. نتیجہ
بحث :
ان تمام اَسناد کو جان
لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اگرچہ اس واقعہ
کی متصل سند سخت ضعیف ہے لیکن ایک سے زائد مستند مراسیل سے بھی واقعہ ثابت
ہے۔ حافظ ابن حجرؒ الکلبی کی سند ذکر کرنے
کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا الإسناد وإن كان ضعيفا لكن تقوى بطريق
مجاهد
گو یہ سند ضعیف ہے لیکن مجاہد کی روایت سے اس کو
تقویت ملتی ہے۔
اس کو تقویت صرف مجاہدؒ ہی
نہیں عروہ بھی زبیرؓ ، ضمرہ بن حبیبؒ اور امام مکحولؒ کی روایات سے بھی ملتی ہے
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ۔
مرسل روایات کی قبولیت و
عدم قبولیت کے حوالے سے ائمہ مجتہدین کے مذاھب کو بیان کرتے ہوے معروف حنفی
عالم ابن الحنبلی (المتوفی ٩٧١ ہجری ) لکھتے ہیں:
والمختار في التفصيل قبول مرسل الصحابي إجماعا
ومرسل أهل القرن الثاني والثالث عندنا وعند مالك مطلقا وعند الشافعي بأحد خمسة
أمور أن يسنده غيره أو أن يرسله آخر وشيوخهما مختلفة أو أن يعضده قول صحابي أو أن
يعضده قول / أكثر العلماء أو أن يعرف أنه لا يرسل إلا عن عدل
مرسل روایات کے بارے میں قولِ مختار یہ ہے کہ صحابی
کی مرسل روایت کو قبول کرنے پر اجماع ہے اور قرنِ ثانی (یعنی تابعین) اور قرنِ
ثالث (یعنی اتباع تابعین) کی مرسل روایات ہمارے (یعنی حنفیہ) اور امام مالک کے
نزدیک مطلقاً قابل قبول ہیں۔ اور امام
شافعی کے نزدیک ان کی مراسیل کی قبولیت
درج ذیل پانچ میں سے کسی ایک شرط کے پورے ہونے پر موقوف ہو ہے (ا) کسی اور نے اس
کی متصل سند بیان کی ہو، (ب) کسی اور نے بھی اس کو مرسلاً روایت کیا ہو اور ان
دونوں کے شیوخ مختلف ہوں، (ج) کسی صحابی کے قول سے اس کی تائید ہو، (د) علماء کی
اکثریت سے اس کی تائید ہو، (ہ) مرسل روایت کرنے والے کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ
عادل راویوں سے ہی ارسال کرتا ہے۔
مالکیہ
کے نزدیک ثقات کی مرسل روایات کی مقبولیت کی صراحت حافظ ابن عبد البر ؒنے التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد کے
مقدمہ میں کی ہے۔ امام شافعیؒ
کی مذکورہ بالا شرائط ان کی اپنی تصنیف الرسالة سے نقل
کی گئی ہیں۔ اسی طرح
امام ابن تیمیہؒ نے بھی صرف ثقات
سے ارسال کرنے والوں کی مراسیل کو قبول کرنے کا قول اختیار کیا ہے۔
اس
تفصیل کی روشنی میں واضح ہو جاتا کہ زیر بحث واقعہ کے بارے میں منقول مرسل روایات مقبول ہیں۔ متصل سند کو اس کے ضعف کی
بنا پر نظر انداز بھی کر دیں تو امام
شافعی کی مذکورہ پانچ شرائط میں سے دو تو بہرحال پوری ہوتی ہی ہیں: عروہ بن زبیرؒ کی مرسل روایت کی تمام تر تفصیل
کے ساتھ تائید ضمرہ بن حبیبؒ اور امام
مکحولؒ کی مرسل روایات سے ہوتی ہے۔
اور جناب عروہؒ کے بارے میں معلوم
ہے کہ ثقہ راویوں سے ہی ارسال کرتے تھے ۔ امام
شافعیؒ نقل کرتے ہیں:
عن هشام بن عروة، عن أبيه انه
قال: إني لأسمع الحديث وأستحسنه فما يمنعني أن أذكره إلا كراهية أن يسمعه سامع
فيقتدى به، أسمعه من الرجل لا أثق به قد حدثه من أثق به، وأسمعه من الرجل أثق به
قد حدثه من لا أثق به
ہشام بن
عروہ اپنے والد کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ’’بعض اوقات میں کوئی حدیث سنتا ہوں اور
اسے اچھا سمجھتا ہوں لیکن اس کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ میں اس بات کو نا پسند کرتا
ہوں کہ کوئی شخص اس کو سن کر اس کی پیروی کرے جبکہ میں نے وہ حدیث ایسے شخص سے سنی ہو جس پر مجھے اعتماد
نہ ہو
(چاہے) وہ شخص خود کسی ایسے شخص سے روایت کرے جسے میں ثقہ سمجھتا ہوں ،
اور( ایسا ہی معاملہ اس حدیث کا ہے) جسے میں کسی ایسے شخص سے سنوں جس پر مجھے
اعتماد ہو لیکن وہ خود کسی ایسے شخص سے روایت کرے جسے میں ثقہ نہ سمجھتا ہوں۔‘‘
اس
روایت کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:
كيف ترى في مرسل عروة بن
الزبير وقد صح عنه ماذكرنا أليس قد كفاك المؤنة
تو پھر
عروہ بن زبیر کی مرسل روایات کے بارے میں تمہاری کیا رائے ٹھہری جبکہ جو ہم نے نقل
کیا وہ ان سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ کیا ان کا ذمہ لینا تمہارے لئے کافی نہیں (کہ تم ان کی مراسیل کو قبول کر و)؟
اسی طرح
حنفیہ کی طرف سے قبولیت مرسل کی تمام تر شرائط یعنی اس کا قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر سے ہونا ،
ارسال کرنے والے کا جرح و تعدیل سے واقف ہونا، خود ثقہ ہونا اور بصیغہ جزم
روایت کرنا بھی مذکورہ روایت میں پائی جاتی ہیں۔ اور پھر
روایت کا تعلق ہے بھی فقہی فروعات سے نہ کہ عقائد و اصول سے۔
ان
تفصیلات سے واضح ہوا کہ فقہاء کے اقوال کی روشنی میں یہ روایات لائق استدلال ہیں۔
سورہ
النساء آیت ٦٥ کا شان نزول :
اب ہم اس حوالے سے دوسری
اہم بحث کی طرف آتے ہیں یعنی کیا یہ واقعہ سورہ النساء آیت ٦٥ کا شان نزول ہے ؟
اوّل تو یہ کہ مذکورہ روایات جب قابل قبول ثابت ہو چکیں تو ان کی دلالت کا آیت کا شان نزول ہونے پر مدار نہیں۔ رہ گیا یہ
معاملہ کہ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں
اس آیت کے شان نزول کے طور پر ایک اور واقعہ نقل کیا گیا جس سے متعلق صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
عن عروة، قال: خاصم الزبير
رجلا من الأنصار في شريج من الحرة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اسق يا زبير،
ثم أرسل الماء إلى جارك»، فقال الأنصاري: يا رسول الله، أن كان ابن عمتك، فتلون
وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: «اسق يا زبير، ثم احبس الماء حتى يرجع
إلى الجدر، ثم أرسل الماء إلى جارك»، واستوعى النبي صلى الله عليه وسلم للزبير حقه
في صريح الحكم حين أحفظه الأنصاري، كان أشار عليهما بأمر لهما فيه سعة، قال
الزبير: فما أحسب هذه الآيات إلا نزلت في ذلك: {فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك
فيما شجر بينهم} [النساء: 65]
حضرت عروہ سے روایت کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ حضرت زبیرؓ کا ایک انصاری سے ایک بار جھگڑا ہوگیا کہ کون پہلے
کھیت کو پانی پہنچائے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے زبیر! تم پہلے اپنے کھیت کو پانی
دے لو اور پھر پڑوسی کے لئے پانی کو چھوڑ دو انصاری نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ نے
ایسا شاید اس لئے فرمایا کہ یہ آپ ﷺ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں، یہ بات سن کر حضور
اکرم ﷺ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے دوبارہ حضرت زبیر ؓسے فرمایا کہ پہلے
تم اپنے باغ کو پانی دو اور منڈھیر تک بھر دو پھر پڑوسی کے لئے چھوڑ دو زہریؒ کہتے
ہیں کہ حضرت زبیرؓ کو آپ ﷺ نے پورا حق دلا دیا ورنہ پہلے حکم میں دونوں کی رعایت
رکھی گئی تھی یہ اس لئے ہوا کہ انصاری نے آپ ﷺ کو غصہ دلایا تھا حضرت زبیرؓ کہتے
ہیں کہ میرے خیال میں یہ آیت (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي
يُحَكِّمُوْكَ الخ۔ ) اسی واقعہ کے لئے نازل ہوئی تھی۔
١. عفو و درگزر اور گردن مارنے کا تقابل یا انصاف و بے تعصبی کی اعلی مثال؟
غامدی صاحب اس روایت کی بنیاد پر علماء کو طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے
ہیں کہ وہ آیت کے شان نزول میں یہ متفق
علیہ حدیث کی بجائے سیدنا عمرؓ کے گستاخ
کو قتل کرنے والی روایت بیان کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
علماکو حسن
انتخاب کی داد دینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگذر اور
رأفت و رحمت کی یہ روایت تو اُنھوں نے نظر انداز کر دی ہے، دراں حالیکہ یہ بخاری و
مسلم میں مذکور ہے اور حضرت عمر کے گردن ماردینے کی ضعیف اور ناقابل التفات روایت
ہر جگہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔
علماء کے حضرت عمر ؓکے ایک
گستاخ کی گردن مار دینے والی روایت کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ متقدمین و
متاخرین کے نزدیک وہی ان آیات کا صحیح شان نزول ہے۔ جہاں تک تعلق ہے عفو و درگزر
اور گردن مارنے کے تقابل کا
تو عرض ہے کہ اگر تمام تر توجہ گستاخان رسول کی سزا کے انکار پر نہ ہوتی
تو جناب کو معلوم ہوتا کہ سیدنا عمر ؓسے
متعلق واقعہ میں مذہبی اقلیتوں کے حق میں عدل و انصاف کی عالیشان مثال ہے
جہاں رسول الله ﷺنے
ایک ظاہری مسلمان کے مقابلے میں یہودی کے
حق میں فیصلہ دیا اور آپ کے اہم ترین مصاحبین اور بعض ازاں خلافت کے منصب
پر فائز ہونے والے ابو بکرؓ
اور عمر ؓبھی اس فیصلہ پر بلا تعصب
و تردد قائم رہے ۔
٢. نظم کی
رو سے شان نزول کی روایات اور آیات سے صحیح مناسبت:
حقیقت یہی ہے کہ اہل علم نے آیت کے شان نزول کے طور پر
سیدنا عمر ؓوالی روایت کو ہی ترجیح دی ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی روایت یقینا ً سند کے اعتبار سے دوسرے واقعہ کی روایات کے
مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے لیکن وہ آیت کے نفس مضمون سے وہ میل نہیں کھاتی جو زیر بحث روایات کھاتی ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ نے سیدنا
زبیرؓ کے پانی دینے والے قصّہ کی روایت کے ذیل میں منافق کے قتل والی روایات ذکر کی ہیں اور پھر
لکھا ہے:
ورجح الطبري في تفسيره وعزاه إلى أهل التأويل في
تهذيبه أن سبب نزولها هذه القصة ليتسق نظام الآيات كلها في سبب واحد قال ولم يعرض
بينها ما يقتضي خلاف ذلك ثم قال ولا مانع أن تكون قصة الزبير وخصمه وقعت في أثناء
ذلك فيتناولها عموم الآية والله أعلم
طبری نے اپنی تفسیر میں اور اپنی کتاب تہذیب الاثار
میں مفسرین کے حوالے سے اس قول کو ترجیح دی ہے
کہ آیت کا شان نزول یہی قصّہ ہے کیونکہ آیات کا نظم ان سب آیات کے ایک ہی
شان نزول ہونے کا مقتضی ہے۔ طبری مزید کہتے ہیں کہ اس میں اور کے برخلاف دوسری
روایات میں کوئی تعارض نہیں ۔ پھر کہتے ہیں
یہ عین ممکن ہے کہ حضرت زبیر اور ان سے جھگڑنے والے کا قصّہ بھی اسی (یعنی
حضرت عمر کے ہاتھوں قتل ہونے والے منافق کے) واقعہ کے اثنا ءمیں پیش آیا ہو اور
یوں وہ آیت کے عموم میں تصوّر کیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔
یہاں امام طبریؒ آیت ٦٠ سے ٦٥ کا ذکر رہے ہیں کہ ان کا نفس مضمون اور نظم واضح کرتا ہے کہ ان سب کا
شان نزول ایک ہی واقعہ ہے۔ تهذيب الاثار میں آیت
٦٥ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
أن أهل التأويل إنما وجهوا
تأويل هذه الآية إلى أنه عنى بها المنافق الذي خاصم اليهودي الذي دعاه إلى رسول
الله - صلى الله عليه وسلم - ودعاه
المنافق إلى كعب بن الأشرف أو إلى الكاهن من جهينة: اللذين أنزل الله - تبارك
وتعالى - فيهما: {ألم تر إلى الذين يزعمون أنهم آمنوا بما أنزل إليك وما أنزل من
قبلك يريدون أن يتحاكموا إلى الطاغوت، وقد أمروا أن يكفروا به} . قالوا: وقولهم
ذلك أقرب إلى الصحة؛ لأن ذلك في سياق ذكرهما، ولم يعترض من قصتهما شيء يوجب صرف
الخبر عنهما إلى غيرهما.
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس آیت سے مراد وہ منافق ہے
جس کا یہودی سے جھگڑا ہوا ۔ وہ اس منافق کو
رسول الله ﷺ کے پاس فیصلہ کے
لئے جانے کا کہتا تھا اور منافق اسے کعب
بن اشرف یا جہینہ کے کاہن کے پاس جانے کا ۔
ان ہی کے بارے میں الله نے فرمایا: "(اے پیغمبر!) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں
دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے اے ہیں جو تم پر نازل کیا
گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ
وہ اپنا مقدمہ فیصلے کے لئے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں؟ حالانکہ ان کو حکم یہ
دیا گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں۔" ان کا یہ قول ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ (مذکورہ)
سیاق میں ان کا ہی ذکر ہے اور ایسا کچھ
نہیں جو
بات کا ان دونوں کے علاوہ کسی
اور کی طرف مڑنے کو لازم آئے۔
یہی بات انہوں نے اپنی
تفسیر میں بھی لکھی ہے:
وهذا القول , أعني قول من قال: عني به المحتكمان
إلى الطاغوت اللذان وصف الله شأنهما في قوله: {ألم تر إلى الذين يزعمون أنهم آمنوا
بما أنزل إليك وما أنزل من قبلك} [النساء: 60] أولى بالصواب , لأن قوله: {فلا وربك
لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم} [النساء: 65] في سياق قصة الذين ابتدأ الله
الخبر عنهم بقوله: {ألم تر إلى الذين يزعمون أنهم آمنوا بما أنزل إليك} [النساء:
60] ولا دلالة تدل على انقطاع قصتهم
یہ قول ، یعنی جس نے کہا کہ اس سے مراد وہ دو شخص ہیں جو اپنh مقدمہ فیصلہ کروانے کے لئے طاغوت کے پاس لے کر
گئے اور جن کے بارے میں الله نے فرمایا ہے:
"(اے پیغمبر!) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ
وہ اس کلام پر بھی ایمان لے اے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم
سے پہلے نازل کیا گیا تھا ..." (آیت ٦٠) ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ آیت
"نہیں، (اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو
سکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں"(آیت ٦٥) اسی سیاق میں ہے جس کی ابتدا الله نے اس خبر سے کہ "(اے پیغمبر!) کیا تم نے ان
لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے اے ہیں جو تم
پر نازل کیا گیا ہے" (آیت ٦٠)۔ ان آیات میں ان کے قصّہ کے انقطاع پر کوئی دلیل نہیں۔
اسی طرح ، قاضی ابن العربی اور امام رازی نے اسی واقعہ کو ان آیات کے شان نزول میں صحیح
اور مختار قول قرار دیا ہے، اور امام نظام الدین نیشاپوری نے تو لکھا ہے کہ اکثر مفسرین نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ ماضی قریب کے معروف مفسر ابن عاشور لکھتے ہیں:
فلا وربك لا يؤمنون الآية على ما قبله يقتضي أن
سبب نزول هذه الآية هو قضية الخصومة بين اليهودي والمنافق، وتحاكم المنافق فيها
للكاهن، وهذا هو الذي يقتضيه نظم الكلام، وعليه جمهور المفسرين، وقاله مجاهد،
وعطاء، والشعبي.
آیت
" تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے.." کا سیاق اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا سببِ نزول وہی یہودی اور منافق کے جھگڑے والا قصّہ ہے جس
میں منافق نے کاہن کو اپنا فیصل بنایا۔ نظمِ کلام اسی کا
مقتضی ہے اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ مجاہد، عطا اور شعبی کا بھی یہی کہنا ہے۔
آیات کے
نظم کے حوالے سے امام طبریؒ اور علامہ ابن عاشورؒ کی اس صراحت و وضاحت
کے ساتھ استاذ حمید الدین فراہی کی درج ذیل عبارت پڑھنے کے لائق ہے جو ان
کے شاگرد اور غامدی صاحب کے منہ بولے استاد مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے تدبر قرآن
کے مقدمہ میں نقل کی ہے:
شان نزول خود قران کے اندر سے اخذ کرنی چاہیے اور
احادیث و آثار کے ذخیرے میں سے صرف وہ
چیزیں لینی چاہییں جو نظم قران کی موافقت کریں
نہ کہ اس کے سارے نظم کو درہم برہم کر کے رکھ دیں۔
٣. سیدنا
زبیرؓ کی روایت کا شان نزول کے طور پر
بیان کی صحیح نوعیت :
فراہی صاحب کی جو عبارت مولانا اصلاحی نے نقل کی
ہے اس میں حافظ سیوطیؒ کے حوالے سے امام زرکشیؒ کا وہ قول بھی آ گیا ہے جس سے
حضرت زبیرؓ اور ایک شخص کا پانی کے معاملے
پر جھگڑے والی روایت کو آیت کے شان نزول
کے طور پر بیان کی نوعیت سمجھ آ جاتی ہے۔ حافظ سیوطیؒ نے لکھا ہے:
وقال الزركشي في البرهان: قد عرف من عادة
الصحابة والتابعين أن أحدهم إذا قال: نزلت هذه الآية في كذا فإنه يريد بذلك أنها
تتضمن هذا الحكم لا أن هذا كان السبب في نزولها فهو من جنس الاستدلال على الحكم
بالآية لا من جنس النقل لما وقع.
زرکشی نے
برہان میں لکھا ہے کہ صحابہ و تابعین کی یہ عادت ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ
فلاں آیت فلاں کے بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ آیت اس
حکم پر مشتمل ہے۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بعینہ وہ بات اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔ یہ گویا اس
حکم پر اس آیت سے ایک قسم کا استدلال ہوتا ہی۔ اس سے مقصود نقلِ واقعہ نہیں ہوتا۔
نتیجہ و
خلاصہ بحث:
مذکورہ بالا تفصیلات سے
واضح ہوا کہ رسول الله ﷺ کے فیصلہ کو نہ ماننے والے کو سیدنا عمرؓ کا قتل کرنا
متعدد اسناد سے ثابت ہے جو مجموعی طور پر
لائق استدلال ہیں۔ یہی واقعہ سورہ النساء کی آیات ٦٠ تا ٦٥ کا صحیح شان نزول ہے۔
اور ان روایات پر غامدی صاحب اور ان کے شاگرد عمار خان ناصر صاحب کے اعتراضات باطل اور مردود ہیں۔
العجاب في بيان الاسباب لابن حجر العسقلانی،
جلد٢، ص ٩٠٢-٩٠٣
إرواء الغليل، حدیث ١٦٨، طبع المكتب الاسلامي – بيروت (١٩٨٥)
تفسیر ابن کثیر، جلد ٢ ص ٣٠٩، طبع دار الكتب
العلمیہ - بيروت
الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث، ص ١٧١-١٧٢؛تحقیق صبحي السامرائي، طبع عالم
الكتب – بيروت، ١٩٨٧
دیکھئے تهذيب الكمال في أسماء الرجال، جلد ١٨ ص ٢٣٩: تحقیق ڈاکٹر بشار عواد معروف، طبع مؤسسة الرسالة - بيروت
١٩٨٠
تفسیر ابن جریر الطبری، جلد ٨، ص ٥٢٣، (روایت
نمبر ٩٩١٥) طبع مؤسسة
الرسالة
قفو الاثر في صفوة علوم الاثر، ص ٦٧؛ طبع مکتبہ المطبوعات الاسلامیہ - حلب
التمهيد لما في الموطأ من
المعاني والاسانيد، جلد ١ ص ٢، طبع وزارة عموم الاوقاف
والشؤون الاسلامیہ - مراکش
مفاتیح الغيب المعروف تفسیر الکبیر، جلد ١٠ ص ١٢٧، طبع
دار إحياء التراث العربي - بيروت
غرائب القرآن ورغائب الفرقان، جلد ٢، ص ٤٣٦، طبع
دار الكتب العلميه - بيروت