بدعت اور سماجی ترقی
عبد الرحمن مصطفیٰ
/ عائشہ جاوید
عصر حاضر میں بدعت سے
متعلق یہ رجحان تقویت پکڑ رہا ہے کہ اس بابت سخت رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے ہی
مسلمان مذہبی، سماجی، سیاسی اور فکری میدان میں پیچھے رہ گئےہیں اور اپنے حالیہ
زوال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ بدعت کے معاملے میں لبرل رویہ اختیار کیا
جائے۔اس مقالے میں بدعت سے متعلقہ ایسےدلائل کی بابت بعض جید علمائے اہل
السنۃ کی آراء کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں رشید رضا اور
الشاطبی شامل ہیں ۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ ان علمائے کرام کا موقف یہ تھا کہ
دراصل بدعت کے معاملے میں نرم رویہ اختیار کرنا مسلمانوں کے سیاسی اور فکری زوال
کا موجب بنا نہ کہ اس کے برعکس!
بدعت کی بابت شاطبی کی
تحریروں کا مرکزی خیال جس کی تائید رشید رضا بھی کرتے ہیں وہ بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ کہ سنت سے کنارہ کشی
اختیار کر کے بدعت کو تسلیم کر لینا درحقیقت عالم اسلام کی سیاسی اور سماجی
پسماندگی کا محرک بنا۔یاد رہے کہ رشید رضا دورِ جدید میں شاطبی کی تحریروں کی طبع
ثانی کروانے والے پہلے عالم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شاطبی رحمہ اللہ کا اس بارے میں دقیق تجزیہ انہیں ابن خلدون جیسے
ماہر عمرانیات کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال بیان کرنے کے
ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔
لبرل اور سیکولر حلقوں کی
طرف سے جو دلیل دی جاتی ہے وہ کم و بیش وہی ہے جو ہمارے دینی احباب سے سننے کو
ملتی ہے ۔ ہمیں سنایا جاتا ہے کہ تعدیل و تحریف ہی سائنسی اور سماجی ترقی کی ضامن
ہے ۔ اس کے برعکس 'دقیانوسی' مذہبی عقائد
اور روایات پر قائم رہنا عقلی دلائل اور
اس سے حاصل ہونے والےسائنسی ارتقاء سے متصادم ہے۔تاہم شاطبی رحمہ اللہ اور ان کے
ہم عصروں کے نزدیک حقیقت اس کے برخلاف ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدعت کے خلاف
آواز بلند کرنے والے علماء کرام امت کو اس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس دلانے پر
کیوں زور دیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر رشید
رضاانیسویں صدی کے ان مفکرین سے کلی طور پر اتفاق کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ
مسلمانوں کی پسماندگی مذہب کی مرہون منت ہے ، مگر کونسا مذہب؟ ان کے نزدیک مبتدعین
کی پیروکاری زوال کا باعث بنی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ جس دین نے عربوں کو اوج ثریا
تک پہنچایا وہی دور جدید میں آسماں سے زمین پر دے مارنے کا سبب ہو !ایک امر
دو متضاد نتائج کو جنم دے، یہ بات عقلی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔لہذا جس زوال کا
آج امت کو سامنا ہے اس کے پیچھے یہی سبب کارفرما ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے
برعکس دین حنیف میں کی گئی تحریفات کو قبول کر لیا گیا۔اس سے ثابت ہوا کہ بدعت کے
خلاف آواز اٹھانا نہ صرف دینی و روحانی بلکہ دنیاوی زبوں حالی کے سد باب کےلیے بھی
نہایت اہم ہے ۔
شاطبی ،رضا اور دیگر مجدّدین
کی رائے کے مطابق روز مرہ کےمعاملات پر
اپنی اختراع کے مطابق مذہب کا خول چڑھانے
سے وہ امور جو کہ درحقیقت عام زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، ان میں غیر ضروری طور
پر خود ساختہ تقدس کا عنصر شامل ہو جاتا ہے ۔ نتیجتاً سماجی زندگی کے وہ پہلو جن
کے معاملے میں مذہب خاموش ہے وہ دین کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی
کوتاہی ہو تو اسے دین میں کوتاہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر لباس کو لے
لیں۔اس بابت دین ہماری اس حد تک تو بنیادی
رہنمائی کرتا ہے کہ کونسا لباس پہننے کی
مما نعت ہے اور یہ کہ ستر میں کیا کیا شامل ہے، اس کے بعد انسان کو یہ اختیار دیا
گیا ہے کہ وہ اپنی سماجی اور تہذیبی ضروریات کے مطابق اس میں تعدیل و ترمیم کر لے ۔اب اگر کوئی اس
میں بدعت کرنا چاہے تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اونی کپڑا زیب تن کرنا زیادہ پسندیدہ ہے ، ایسا کرنے کی
صورت میں اس مخصوص لباس کے ساتھ ایک ایسی بات منسوب کر دی گئی جس کا درحقیقت کوئی
وجود ہی نہ تھا! شریعت باپردہ اور ستر
والے لباس کا حکم تو دیتی ہے لیکن کپڑے کی قسم سے متعلق کسی ایک کپڑے کو دوسرے سے
برتر نہیں قرار دیتی اور ایسا کرنے کی صورت میں اس کو دینی قالب میں ڈھال دینا ہی
بدعت ہے کیونکہ ایک معمول کے معاملے کو مذہب کا رنگ دے کر نہ صرف یہ تنگی پیدا کر
دی گئی بلکہ لامحالہ طور پر یہ بلاوجہ کے بحث مباحثے کو جنم دینے والی بات ہے جیسا کہ آج کل بعض علماء کے مابین عمامہ کی قسم
پر طویل بحث کرنا دیکھا گیا ہے !
عام مشاہدہ ہے کہ بہت بار بدعت کو بدعت حسنہ کہہ
کر اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والوں کی اکثریت کوشریعت کے احکام شدت پسند نظر آتے
ہیں اور ان کی نظر میں وہ عام لوگوں کے
مسائل دینے کے لائق نہیں ہوتے! بدعت حسنہ کو تسلیم کرنے کی حجت ہی یہ لی جاتی
ہے کہ شریعت کیونکہ عامتہ الناس کی روحانی ضروریات میں تشنہ رہ جاتی ہے تو اس میں کچھ ترمیم و
اضافہ کرنا کوئی حرج کی بات نہیں۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی بنیاد پر اس کا رد
کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ایسی مصلحت کی راہ اختیار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں
کیونکہ شریعت کے احکام فی نفسہ یا تو واضح ہوتے ہیں یا کوئی ایسا اصول بیان کر دیا
جاتا ہے جس کی بناء پر اہل علم قیاس کر سکیں۔
شاطبی اپنے صوفی اساتذہ پر تنقید کرتے نظر آتے
ہیں جو عبادات کے معاملات میں تو بدعت پرلچک دکھاتے ہیں لیکن جہاں معاملہ سماجی
مسائل میں لوگوں کی مشکلات حل کرنے کا ہو مثلا رفاہ عامہ کےلیے حکمرانوں کی طرف سے
عوام پر لگائے جانے والے ٹیکس وغیرہ وہاں یکدم ان کے نظریات میں انتہا پسندی آنے
لگتی ہے اور کسی تحریف سے ان کاری ہو جاتے ہیں ۔شاطبی کا کہنا ہے کہ شریعت کے
ضوابط کی حکمت سمجھنے اور قیاس اور مصلحت کے معروف طریقہ کااختیار کرنے سے ایسے
مسائل کا حل بآسانی ممکن ہے ۔
رشید رضا کا کہنا ہے کہ بدعت کی نفی اور احکام
کے دقیق مطالعہ سے مسائل کا حل نکالنے کا دراصل آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ان کے
نزدیک بدعت حسنہ کوجائز قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تسلیم کر رہے ہیں کہ اللہ کا دیا ہوا دین ناکافی ہے
اور اس میں 'مثبت' تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔لہذا جو علمائے کرام اس کے حق میں ہیں ،
وہ اصول شریعت کو چند حقائق سے مبرا چند ضابطوں کا مجموعہ گردانتے ہیں جس پر عمل کرنا ہو تو اس کے لیے غور فکر کی
ضرورت نہیں نہ ہی اجتہاد، قیاس اور مصلحت
کے ضوابط کی گہرائی میں جانا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس کا حل یہ نکالتے ہیں کہ چند
بدعات حسنہ متعارف کروا دی جائیں۔ رضا کا کہنا ہے کہ بدعت اجتہاد کے دروازے کو بند
کر دیتی ہے جس کے باعث تقلید اور گزشتہ علماء کی آراء حرف آخر ٹھہرتی ہیں اور
شریعت جمود کا شکار قرار دی جاتی ہے اور
یوں اس جمود کا توڑ بدعات حسنہ کی صورت میں ہی نظر آنے لگتا ہے جبکہ دین حنیف ریگستانوں کی
حد تک قابل عمل لگتا ہے اور جدید دنیا سے متصادم! قارئین پر رضا یہ بات واضح
کرتے ہیں کہ کیسے شاطبی کا یہ مستند فہم
ان پر غور و فکر کے دریچے کھولتا ہے جس کے
نتیجے میں عام لوگوں کے مسائل کا حل اصول
پر غور و فکر کرنے سے مربوط ہے۔اس ضمن میں وہ زکوۃ کے علاوہ لگائے جانے والے
حکومتی ٹیکس کے بارے میں شاطبی رحمہ اللہ کا موقف بیان کرتے ہیں جو کہ مصلحت پر
مبنی تھا۔ اور ساتھ ہی
وہ شاطبی کی مبتدعین کے خلاف آواز اٹھانے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔العدوی نامی ایک
سلفی عالم کہتے ہیں کہ بدعت کے معاملے میں لچک دکھانے کا نقصان یہ ہے کہ معاشرتی معاملات عبادت بن جاتے ہیں اور عبادت
ایک سماجی معاملہ !
ان تمام علماء کے نزدیک ان
کے خدشات کی عملی تعبیرعثمانیہ دور کا
بدعت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہونا تھا جو
بعد ازاںشدید سماجی زوال کا موجب بنا۔ جہاں علمائے وقت عبادات کے معاملے میں بدعات پر خاموش رہے وہاں سماجی امور میں
ٹیلیفون، ٹیلیگراف، coffee ، پرنٹنگ پریس، سٹیم بوٹس، فیکٹریاں سب کڑی
تنقید کا نشانہ بنائے گئے !
ایک اور مثال جو کہ شاطبی کے کڑے ترین ناقدین میں سے ہے وہ
مصری عالم عزت عطیہ کی ہے جن کا فتوی یہ تھا کہ خواتین رضاعت کے ذریعے اپنے مرد
کولیگز کے ساتھ ایک ہی دفتر میں حجاب کے بغیر کام کر سکتی ہیں ! اس طبقہء فکر کے دیگر علماء کی طرح عبادات میں بدعت کی بابت نرم اور روزمرہ
معاملات مثلا سماجی امور اورٹیکنالوجی میں ترقی کے بارے میں سخت ہیں ۔ ان کے مذکورہ
بالا فتوی سے ہی ظاہر ہے کہ وہ اصول شریعت میں پوشیدہ حکمت تک رسائی حاصل کرنے کی
تگ و دو کی بجائے اپنی آراء کا اظہار کر دینے میں جلدی کر دیتے ہیں ۔ یہی نہیں وہ شاطبی کی مصلحت پر مبنی آراء
کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف چند مخصوص احکام کی خلاف
ورزی کرنے کے معاملے میں محتاط ہونا چاہئے۔اور باقی میں ترمیم کرنے میں کوئی خاص
حرج نہیں۔جبکہ اس کے برعکس شاطبی فرماتے ہیں کہ ایسی تحریف قطعی غیر ضروری ہے
کیونکہ اللہ کی نازل کردہ شریعت میں زمان و مکان سے قطع نظر ہر مسئلے کا حل موجود
ہے ۔