مشرق و
مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے!
بالاكوٹ ميں اسلامى جمعيت طلبہ پنجاب كا
"احيائے دين كيمپ"
محمد زکریا خان
مدير ايقاظ نے اس كيمپ ميں چار روز تك قيام کيا۔ چار موضوعات پر لكچر ہوئے۔ جس كا مختصر احوال پيش خدمت ہے۔
شمالى
علاقہ جات كى طرف جاتے ہوئے ہم عمداً بالا كوٹ ميں ضرور ٹھہرتے ہيں۔ اكتوبر 2005ء
كے تباہ كن زلزلے كے بعد سے يہ ہمارا معمول رہا ہے۔ ہم نے زلزلے كے دنوں ميں يہاں
جماعت اسلامى كے ساتھ مل كر امدادى كاموں ميں بھى شركت كى تھى۔ زلزلے كى تباہ
كارياں زميں ميں مكمل دھنسى اونچى اونچى عمارتيں اور زلزلے كے بعد افٹر شاكس سب
ہمارى آنكھوں ميں سمائى ہوئے ہيں۔ وہ سچى كہانياں جو بالا كوٹ ميں زلزلے كے دنوں
ميں ہم نے سن ركھى ہيں اور وہ معجزات بھى جن ميں كئى ہستياں جو ملبے ميں پھنس گئى
تھيں اور پھر خدا كے حكم سے با سلامت آج ہمارے درميان موجود ہيں سب ہميں كھنچ كھنچ كر يہاں لے آتى ہيں۔ يہ سرزمين جس نے شہدائے بالا كوٹ كے
كارنامے ديكھے زلزلہ زدگان كا صبر ديكھا اور وہ ناقابل فراموش واقعات ديكھے جس ميں
سينكڑون لوگ جن كے زندہ بچ جانے كى ايك كرن بھى اہل خانہ كے لرزتے دلوں ميں نہ رہى
تھى وہ آج مكمل تندرستى كے ساتھ ہمارے درميان موجود ہيں۔ ان ہى يادوں كو تازہ كرنے
كے ليے ہم بالا كوٹ جاتے ہيں كبھى كسى بہانے تو كبھى كسى بہانے۔
اس مرتبہ بالا كوٹ جانے كا سبب نہايت قيمتى
تھا۔ اسلامى جمعيت طلبہ جامعہ پنجاب نے بالاكوٹ
ميں جماعت اسلامى كے عارضى دفتر ميں سات روزہ تربيتى كيمپ منعقد كر ركھا تھا۔ اس تربيتى كيمپ كا عنوان بھى نہايت جاذب نظر تھا۔ احيائے دين
كيمپ۔ اسلامى جمعيت طلبہ موسم گرما كى تعطيلات ميں دسيوں
تربيتى كيمپ مختلف شہروں ميں منعقد كرتى ہے۔ احيائے دين كيمپ جامعہ پنجاب كے اُن منتخب طلبہ كیلئے ركھا گيا تھا جو "اميد
واران" كے مرحلے ميں ہيں۔
مدير ايقاظ نے يہاں چار موضوعات پر لكچر دينے
تھے: جديد افكار كا تنقيدى جائزہ۔
الجہاد فى الاسلام۔ امت كى
يادداشتيں۔ اور دعوت اور اس كے تقاضے۔
اس كيمپ كا انعقاد ناظم اسلامى جمعيت طلبہ
جامعہ پنجاب برادرم اسامہ نصر نے كيا تھا۔ آپ كے ساتھ تعاون كيا تھا محترم جناب
حافظ فرحان احمد نائب امير جماعت اسلامى سرگودھا اور مقامى سطح پر انتظامات كا
فريضہ ناظم جمعيت بالا كوٹ برادرم عثمان مياں نے انجام ديا تھا۔ مدير ايقاظ كے ذمہ
تو شام كے لكچر تھے صبح كى مجالس جماعت اسلامى كے اراكين انجام ديتے تھے جنہيں
"مربى" كہا جاتا ہے۔ جماعت اسلامى كے مربيوں ميں محترم جناب زاہد اقبال
بھى شامل تھے جو اس کیمپ میں شریک ہوئے۔ محترم زاہد اقبال اسلام آباد سيكٹر اى
اليون ٹو سروس روڈ پر واقع ايك اسلامى مركز "جامع مسجد قرطبہ" كے منتظم
بھى ہيں۔ عشاء كے بعد كھانے كے دوران ميں محترم زاہد اقبال كے ساتھ دلچسپ گفتگو
ہوتى۔ بہت سے اشكالات زير بحث آتے اور مدير ايقاظ كے پُر مغز اضافوں كے ساتھ ہمارے
بہت سے اشكالات رفع ہو جاتے۔ و للہ الحمد
جيسے كہ ہم نے اوپر بيان كيا ہے صبح كى مجالس
اسلامى جمعيت طلبہ كے اپنے درميان ہوتى تھيں۔ جماعت اسلامى كے مربى حضرات صبح كى
مجالس كى سر پرستى ضرور فرماتے تھے ليكن يہ طلبہ كى تخليقى صلاحيتوں كو مہميز دينے
كے ليے خاصى آزادانہ ہوتى تھيں۔ شام كے لكچر جن كے ليے مدير ايقاظ كو دعوت دى گئى
تھى اس سارے كيمپ كا ماحاصل رہے ہيں۔ پہلے روز كا لكچر تھا "جديد افكار كا
تنقيدى جائزہ"
اس لكچر ميں لادينيت (سيكولرزم) مغربى جمہوريت
اشتراكيت، لبرلزم، قوميت وطنيت اور انسان پرستی (ہيومنزم) زير بحث آئے۔
دوسرے لكچر كا عنوان تھا "الجہاد فى
الاسلام" اسكے تحت مدير ايقاظ نے جہاد كى غرض و غايت مفہوم جہاد پر اشكالات پر سير حاصل بحث كى۔ اسكے علاوہ جہاد دفع (جب
مسلمانوں كے ملكوں پر بيرون سے حملہ ہو) خلافت كے بغير جہاد كا حكم اور قومى نوعيت
كے جہاد پر تفصيلى بات ہوئى۔ اس غلط
فہمی کا بطور خاص ازالہ کیا گیا کہ کفار کے ساتھ جنگ میں جہاں مسلمان اپنی کچھ نارسائیوں کے باعث نفاذِ شریعت کی پوزیشن میں نہیں،
وہاں کفار اور کفر کے ساتھ انکی جنگ کو ’قومی
جنگ‘ یا ’جہاد حریت‘ وغیرہ کے کھاتے میں ڈال کر ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کے سٹیٹس سے
محروم کر دیا جائے اور ’اعلائے کلمۃ اللہ‘ سے بھی اسکا کچھ تعلق ماننے سے انکار کر
دیا جائے۔
تيسرے دن كے لكچر كا عنوان تھا "امت كى
يادداشتيں۔" اس ميں مدير ايقاظ نے بتايا كہ امت محمديہ پہلى سارى امتوں سے
بہتر ہے۔ اس امت كے اثرات عالمگير ہيں۔ يہ واحد امت ہے جس نے ربع معمور كے بيشتر
حصوں سے شرك كو ختم كيا۔ بت کدے ويران ہوئے۔ اس امت كے ركھوالوں نے بتوں كو پاش
پاش كيا۔ يہ نہيں كيا كہ آستانوں كے نئے مجاور بن كر اپنى آمدنى بڑھاتے۔ بت کدوں
كو برقرار ركھنے كى بڑى سے بڑى آفر كو نہ صرف اس امت نے ٹھكرا ديا بلكہ انہيں
توڑنے كے ليے اگر مشركين نے سپاہ فراہم كر لى تو اس سے بھڑ گئے۔ اپنى جان جان آفريں
كے سپرد كر دى مگر غير اللہ كى چلنے نہيں دى۔ مدير ايقاظ نے اس غلط فہمى كا ازالہ
كيا جو استعمارى ذہنيت نے پيدا كى ہے كہ يہ امت محض چند عشروں تك اصل اسپرٹ پر
رہى۔ بعد كے زمانے شاہى فرماں روى كے تھے جيسے دنيادار ملوك ہوتے ہيں۔ معزز لكچرر
نے اس خيال كو واقعے كے بر عكس بتايا۔ امت كے پہلے تين عشرے بلا شبہ باقى پندرہ سو
سالہ مدت دراز سے دينى اسپرٹ كے لحاظ سے بڑھے ہوئے ہيں۔ ہاں اس كے بعد كى تاريخ
ميں بھى ملوك فيصلے شريعت سے ہى كرتے تھے۔ خواتين كى عزت اور آبرو خلافت راشدہ كى
طرح محفوظ تھى۔ مسلم ہستى ويسى ہى محترم سمجھى جاتى تھى جيسے خلافت راشدہ ميں
اغيار كے ہاں بھى اور ملوك كے ہاں بھى۔ قانون كا اول و آخر ماخذ كتاب و سنت تھى۔
اينگلوسيكسن يا فرانسيسى لاء كسى ايك اجنبى قانون كا شائبہ تك ہمارى عدليہ يا قضاة
كے ہاں نہ پايا گيا۔ استعمار سے پہلے كا تمام عرصہ شريعت كى سربلندى اور امت كى
عزت كا زمانہ رہا ہے۔ ہاں ذاتى حيثيت سے ملوك كے ہاں شاہانہ طور طريقے اور گاہے
بگاہے ظلم كے واقعات ضرور مل جاتے ہيں۔
مدير ايقاظ نے كہا كہ امت كى يادداشتيں ايسى
ہيں كہ اس كا بہت كم حصہ قابل التفات نہيں۔ ہمارا كل تك كا ماضى ايسا ہے كہ اس سے
ہم اپنا مستقبل كشيد كر سكتے ہيں۔
ہوتا ہے جادہ پيما پھر
كارواں ہمارا
چوتھے روز كا عنوان تھا "دعوت اور اُس
كے تقاضے"
يہ اس سمر كيمپ كا آخرى لكچر تھا۔ دعوت كى غرض
و غايت دعوت كا اسلوب اور دعوت كى اہميت اس لكچر كا سير حاصل تھا۔ بتايا گيا كہ جب اس
امت كے پاس خير كثير ہے تو اسے دوسروں تك
پہچانے ميں امت نے بخل سے كام نہيں ليا۔ اگر چہ مدينہ منورہ ميں مسجد نبوى ميں
نماز پڑھنا باقى تمام مساجد سے افضل ہے سوائے مسجد حرام كے اِس كے باوجود
صحابہ كرام نے مدينے كو دعوت اسلام كى وجہ سے
خيرباد كہا۔ كوئى جاوا جا بسا تو كوئى سمر كند۔ كسى نے تركستان كو دين كا
گہوارا بنايا تو كسى نے ہندوستان كو۔ تھمتا تھا نہ كسى سے سيل رواں ہمارا۔
داعى كیلئے لازمى ہے كہ وہ اپنى دعوت كے مضمون
كا علم ركھتا ہو۔ جنہيں دعوت پہنچا رہا ہے ان سے مانوس ہو۔ دعوت كى
اولويات اور دين كے مسلمات سے آگاہ ہو۔ اپنے زمانے كے لحاظ سے دعوت كے تدريجى عمل سے واقف ہو۔ لٹھ مارى اور مناظرانہ انداز تكلم
سے كوسوں دور ہو۔ اور دعوت قبول كرنے والوں كو مسلمانوں كى اجتماعى قوت كے ساتھ
جوڑنا جانتا ہو۔
لكچر كے اختتام پر پُر رونق ہال اللہ اكبر كے
فلك شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ دور ناگا پربت كى برف پوش پہاڑياں اللہ اكبر كى صدا
سے پگھلى جا رہى تھيں۔ آب رواں سيلاب بن كر واديوں كو سيراب كرنے لگا۔