’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘
والا؟
عَنْ
بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ، أَوْ سَرِيَّةٍ، أَوْصَاهُ فِي
خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ
قَالَ:
«اغْزُوا
بِاسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ، اغْزُوا وَلَا
تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَمْثُلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا
لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ -
أَوْ خِلَالٍ - فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ
عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ
مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ
إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ
فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ،
فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ
كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللهِ الَّذِي يَجْرِي
عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ
شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا
فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ
عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَقَاتِلْهُمْ!...» (صحيح مسلم. رقم الحديث 1731. کتاب
الجھاد والسیر۔ باب تأمیر الإمام الأمراء على البعوث ووصیتہ إیاھم بآداب الغزو
وغیرھا)
بریدہ سے روایت ہے، کہا:
رسول اللہﷺ جب کسی لشکر وغیرہ پر امیر
مقرر فرماتے تو اُسے اپنے معاملہ میں اللہ سے ڈرنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے
ساتھ نیک رہنے کی تلقین کرتے۔ پھر فرماتے:
’’لڑو اللہ کا نام لےکر، اللہ کے راستے
میں۔ قتال کرو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے۔ لڑو۔ مگر خیانت نہ کرنا۔ غدر نہ
کرنا۔ مُثلہ نہ کرنا۔ کسی کمسن کو نہ مارنا۔ اور جب مشرکین دشمنوں سے
آمناسامنا کرو تو ان کے سامنے تین باتیں رکھنا، وہ ان میں سے جونسی مان لیں تم ان
سے اسی کو قبول کر لینا، اور ان سے ہاتھ روک رکھنا:
1.
تم ان کو اسلام کی طرف بلانا۔ اگر وہ
تمہاری یہ بات مان لیں تو تم ان سے یہ بات قبول کر لینا۔پھر ان سے تقاضا کرنا کہ
وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر مہاجرین کی سرزمین میں آ بسیں، اور ان کو بتانا کہ اگر وہ
ایسا کر لیں تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان کے وہی
فرائض ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں۔ اگر وہ اپنی سرزمین چھوڑ آنے پر آمادہ نہ
ہوں، تو ان کو بتانا کہ وہ مسلمانوں کے اعراب
والے درجہ میں ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم لاگو ہو گا جو (عام) اہل
ایمان پر ہوتا ہے اور ان کو غنیمت اور فےء میں سے کچھ نہ ملے گا سوائے جب
وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
2.
ہاں اگر وہ (اسلام قبول کرنے سے) ہی
انکاری ہوں، تو ان سے جزیہ کا تقاضا کرنا۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان سے
اس کو قبول کرنا اور ان سے ہاتھ روک رکھنا۔
3.
اگر وہ اس سے بھی انکاری ہوں تو اللہ سے مدد
مانگنا اور ان کے ساتھ قتال کرنا‘‘۔
یہ ایک طویل حدیث ہے۔ یہاں
اس کا کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ جہاد کوئی عام سی عبادت نہیں۔ جہاد خدا کو پانے کی ایک
عظیم صورت ہے اور خدا سے وفاداری کا اعلیٰ ترین مظہر۔ پس ضروری تھا کہ یہ کچھ عظیم
ضوابط سے مقیّد ہو، جن میں سے چند اِس حدیث مبارکہ میں بیان ہوئے۔
جہاد بنیادی طور پر اللہ
کے ساتھ کفر کرنے والی اقوام کے خلاف مشروع ٹھہرایا گیا ہے۔ اس میں غدر، خیانت،
ظلم، زیادتی اور انسانی حرمتوں کی پامالی شدید طور پر ممنوع ٹھہرائی گئی ہے۔
مسلمان جنگ بھی کرے تو وہ اُس کے اخلاق اور خدا ترسی کا پتہ دیتی ہے۔ انبیاء کے
پیروکار میدانِ کارزار کے اندر بھی اپنے اعلیٰ اخلاقی معیاروں سے پہچانے جاتے ہیں۔
شاید اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو آج ہمارے سیکھنے کا ہے۔
*****
اِس طویل حدیث کا یہ
متعلقہ حصہ لانے سے ہمارا مقصود ہے: دین
کی ایک خاص حقیقت کا بیان۔ یہ ہے اہل اسلام
کی دو صنفی تقسیم:
1.عام مسلمان۔ خواہ وہ کتنے ہی ’صحیح العقیدہ‘ اور کتنا
ہی ’نماز روزہ‘ و دیگر ’نیک اعمال‘ کرنے والے کیوں نہ ہوں۔ حدیث میں، ان کا سٹیٹس
’’اَعراب المسلمین‘‘ والا بیان ہوا ہے۔
2. دوسرے، وہ مسلمان جو ’صحیح العقیدہ‘ ہونے اور ’نماز
روزہ ودیگر نیک اعمال‘ کرنے کے ساتھ ساتھ... ہجرت، نصرت اور جہاد ایسے ابواب کا
التزام کرنے والے ہیں۔ یہ صحیح معنیٰ میں دنیا کے اندر رسول اللہﷺ کی جماعت ہیں۔
یہ حق کے ہم رِکاب رہنے والے لوگ ہیں۔ یعنی یہ اپنے ذاتی عقیدہ و عمل کو درست
رکھنے کے ساتھ ساتھ دین حق کو دنیا میں قائم اور ادیانِ باطلہ پر غالب کرنے کےلیے
بھی سرگرم ہیں۔
بعض اہل علم نے اول الذکر
کےلیے احادیث میں مذکور ’’فرقۂ ناجیہ‘‘ اور ثانی الذکر کےلیے احادیث میں مذکور ’’طائفہ
منصورہ‘‘ کا حوالہ بھی ذکر کیا ہے۔
چنانچہ حدیث مذکورہ میں یہ
بات یوں بیان ہوئی:
’’ اگر وہ اپنی سرزمین چھوڑ آنے پر آمادہ
نہ ہوں، تو ان کو بتانا کہ وہ مسلمانوں کے اعراب
والے درجہ میں ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم لاگو ہو گا جو (عام) اہل
ایمان پر ہوتا ہے اور ان کو غنیمت اور فےء میں سے کچھ نہ ملے گا سوائے جب وہ
مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں‘‘۔
یعنی ہجرت کر آنے والے۔ یا
کم از کم جہاد کے وقت اسلام کو جہاں ان کی ضرورت ہو وہاں جا پہنچنے والے۔ یہ دین
کا وہ درجہ ہے جو صرف اور صرف ’’ہجرت‘‘ اور ’’نصرت‘‘ کے اندر ہی محصور ہے۔ دوسرے
اِس میں ان کے شریک نہیں۔
یہاں ہم بعض محدثین کے
بیانات جو شرحِ حدیث میں وارد ہوئے، نقل کریں گے:
نوویؒ:
مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ إِذَا
أَسْلَمُوا اسْتُحِبَّ لَهُمْ أَنْ يُهَاجِرُوا إِلَى الْمَدِينَةِ فَإِنْ
فَعَلُوا ذَلِكَ كَانُوا كَالْمُهَاجِرِينَ قَبْلَهُمْ فِي اسْتِحْقَاقِ الْفَيْءِ
وَالْغَنِيمَةِ وغير ذلك. وإلا، فهم أَعْرَابٌ كَسَائِرِ أَعْرَابِ
الْمُسْلِمِينَ السَّاكِنِينَ فِي الْبَادِيَةِ مِنْ غَيْرِ هِجْرَةٍ وَلَا غَزْوٍ
فَتَجْرِي عَلَيْهِمْ أَحْكَامُ الْإِسْلَامِ وَلَا حَقَّ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ
والفئ وإنما يكون لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الزَّكَاةِ إِنْ كَانُوا بِصِفَةِ
اسْتِحْقَاقِهَا۔ (شرح مسلم از نووی، بابت
حدیث مذکورہ)
حدیث کا مطلب ہے کہ جب وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کے
حق میں مستحب ہے کہ وہ مدینہ ہجرت کر آئیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں تو انہیں اپنے
ماقبل مہاجرین والا سٹیٹس حاصل ہوگا، فےء اور غنیمت کے اندر حق رکھنے کے معاملہ
میں۔ ورنہ وہ اَعراب ہیں اُن اسلام قبول کر چکے اَعراب کی طرح جو نواحی آبادیوں
میں مقیم ہیں؛ نہ ہجرت کرتے ہیں اور نہ
قتال۔ ان پر مسلمانوں والے احکام ہی لاگو ہوں گے تاہم ان کا غنیمت یا فےء کے اموال
میں کوئی حق نہیں۔ہاں ان کو زکاۃ سے کچھ حصہ مل سکتا ہے اگر یہ اس کے مستحقین میں
آتے ہوں۔
ملا علی قاریؒ:
(فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ
يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ) : أَيِ: الَّذِينَ لَازَمُوا
أَوْطَانَهُمْ فِي الْبَادِيَةِ لَا فِي دَارِ الْكُفْرِ (يُجْرَى)... : أَيْ: يُمْضَى (عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ
الَّذِي يُجْرَى عَلَى الْمُؤْمِنِينَ) : أَيْ: مِنْ وُجُوبِ الصَّلَاةِ
وَالزَّكَاةِ وَغَيْرِهِمَا وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَةِ وَنَحْوِهِمَا۔ (المرقاۃشرح
مشکاۃ از ملا علی قاری، بابت حدیث مذکورہ)
’’تو ان کو بتانا کہ وہ مسلمانوں کے
اعراب والے درجہ میں ہوں گے‘‘۔ یعنی جو اپنے ہی اوطان میں (مسلمانوں کے) نواحی
علاقوں کے رہائشی رہے۔ نہ کہ دارالکفر میں
رہتے رہے۔ ان پر لاگو ہوں گے اللہ کے
وہ احکام جو (عام) اہل ایمان پر لاگو ہونے والے ہیں۔ یعنی نماز اور زکاۃ وغیرہ کا
واجب ہونا، قصاص اور دیت وغیرہ ایسے (فوجداری قوانین) کا لاگو ہونا۔
صنعانیؒ:
فَلَمْ يُوجِبْ عَلَيْهِمْ الْهِجْرَةَ
وَالْأَحَادِيثُ غَيْرُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَحْمُولَةٌ عَلَى مَنْ لَا
يَأْمَنُ عَلَى دِينِهِ قَالُوا: وَفِي هَذَا جَمْعٌ بَيْنَ الْأَحَادِيثِ.
چنانچہ (حدیث میں) آپﷺ نے ان پر
ہجرت واجب نہیں ٹھہرائی۔یہ احادیث ماسوائے حدیث ابن عباسؓ (لا ھجرة بعد الفتح، ولكن جھاد ونية ’’فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت
نہیں، مگر جہاد اور نیت‘‘) اس پر محمول ہیں جس آدمی کو کسی جگہ پر اپنے دین کا تحفظ
حاصل نہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے: ایسا (محمول کرنے میں) سب احادیث کا مجموعی معنیٰ
نکل آتا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ
الْهِجْرَةُ هِيَ الْخُرُوجُ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ إلَى دَارِ الْإِسْلَامِ
وَكَانَتْ فَرْضًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ - وَاسْتَمَرَّتْ بَعْدَهُ لِمَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ وَاَلَّتِي
انْقَطَعَتْ بِالْأَصَالَةِ هِيَ الْقَصْدُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَيْثُ كَانَ وَقَوْلُهُ (وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ) قَالَ
الطِّيبِيُّ وَغَيْرُهُ: هَذَا الِاسْتِدْرَاكُ يَقْتَضِي مُخَالَفَةَ حُكْمِ مَا
بَعْدَهُ لِمَا قَبْلَهُ وَالْمَعْنَى أَنَّ الْهِجْرَةَ الَّتِي هِيَ مُفَارَقَةُ
الْوَطَنِ الَّتِي كَانَتْ مَطْلُوبَةً عَلَى الْأَعْيَانِ إلَى الْمَدِينَةِ قَدْ
انْقَطَعَتْ إلَّا أَنَّ الْمُفَارَقَةَ بِسَبَبِ الْجِهَادِ بَاقِيَةٌ وَكَذَلِكَ
الْمُفَارَقَةُ بِسَبَبِ نِيَّةٍ صَالِحَةٍ كَالْفِرَارِ مِنْ دَارِ الْكُفْرِ
وَالْخُرُوجِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَالْفِرَارِ مِنْ الْفِتَنِ وَالنِّيَّةُ فِي
جَمِيعِ ذَلِكَ مُعْتَبَرَةٌ، وَقَالَ النَّوَوِيُّ: الْمَعْنَى أَنَّ الْخَيْرَ
الَّذِي انْقَطَعَ بِانْقِطَاعِ الْهِجْرَةِ يُمْكِنُ تَحْصِيلُهُ بِالْجِهَادِ
وَالنِّيَّةِ الصَّالِحَةِ۔ (سبل
السلام شرح بلوغ المرام از صنعانی، بابت حدیث رقم 1183)
ابن العربیؒ نے کہا: ہجرت یہ ہے کہ آدمی دارالحرب سے
نکل کر دارالاسلام چلا آئے۔ یہ رسول اللہﷺ کے عہد میں فرض تھی۔ اس کی فرضیت آپﷺ کے
بعد بھی برقرار رہی، ایسے شخص کے حق میں جسے اپنی بابت خطرہ لاحق ہے۔ جو چیز (نبیﷺ
کے بعد) سرے سے ختم ٹھہری وہ یہ کہ رسول اللہﷺ جہاں اقامت فرما ہوں آدمی وہیں ہجرت
کرجائے۔ نبیﷺ کا فرمانا: (لا ھجرة
بعد الفتح،) ولكن جھاد ونية ’’فتح
مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں، مگر جہاد اور نیت‘‘: طیبی و دیگر اہل علم نے کہا:
’’یہ استدراک (رسول اللہﷺ کا ’’مگر‘‘ کا لفظ بولنا) متقاضی ہے کہ ’’مگر‘‘ کے مابعد
کا حکم اس کے ماقبل سے مختلف ہو۔ پس معنیٰ یہ ہوا کہ وہ ہجرت جو ترکِ وطن کے معنیٰ
میں ہے اور جو لوگوں سے فرداً فرداً مدینہ چلے آنے کے معاملہ میں مطلوب تھی، ختم
ہوئی۔ تاہم ترکِ وطن جو جہاد کے سبب سے ہو، باقی ہے۔ اسی طرح ترکِ وطن جو کسی صالح
مقصد کے پیش نظر ہو، بدستور باقی ہے۔ جیسے دارالکفر سے (جان یا دین بچا کر) فرار
ہونا، یا علم کی طلب میں نکلنا، یا فتنوں سے فرار کی خاطر نکل کھڑے ہونا۔ ان سب
معاملات میں (ہجرت کے حوالہ سے) نیت ہی کا اعتبار ہوگا۔ نووی کہتے ہیں: اس کا
معنیٰ یہ ہے کہ وہ خیر جو ہجرت کے انقطاع کے باعث منقطع ہو چکی، اب وہ حاصل ہو
سکتی ہے جہاد سے اور نیتِ صالحہ (صالح عزائم) اختیار کر رکھنے سے۔
مضمون کا اصل مقصود مکمل
ہوا۔
سائڈ نوٹ:
جدت پسند حضرات کی توجہ
کےلیے:
اوپر حدیث کے شروع میں آپ
نے یہ الفاظ نوٹ کیے ہوں گے:
وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ
الْمُشْرِكِينَ
’’اور جب مشرکین دشمنوں سے آمناسامنا
کرو‘‘
جبکہ ان ’’مشرکین دشمنوں‘‘
کو جو آپشن دیے گئے وہ تین ہیں: اسلام، جزیہ یا پھر جنگ۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ مشرکینِ
عرب (بت پرست عربوں) کے خلاف جس دوران قتال ہوتا رہا، جزیہ کے احکام نہیں اترے۔
خود نبیﷺ کی جہادی زندگی میں بھی کسی بت پرست عرب سے جزیہ لینا ثابت نہیں۔ بت پرست
عربوں کے معاملہ میں دو ہی آپشن رہے تھے: اسلام یا پھر تلوار۔ (اسی وجہ سے امام
ابو حنیفہ کا یہ موقف ہے کہ جزیہ عرب بت پرستوں پر لاگو نہیں، ان کے حق میں اسلام
یا تیغ کے سوا کوئی آپشن دستیاب نہیں، خود آیتِ توبہ کے الفاظ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا
الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ دالّ ہیں کہ جزیہ اہل کتاب سے متعلق ہے) جزیہ
اہل کتاب نیز اہل کتاب پر قیاس ہونے والے کفار پر لاگو ہے، جیسے مجوس، ازرُوئے
حدیث و تعامل خلفائے راشدین۔
چنانچہ حدیثِ مذکورہ میں
جو ’’مشرکین‘‘ مذکور ہیں وہ لامحالہ ’عرب بت پرستوں‘ کے علاوہ کوئی مشرک ہیں۔ مگر
ہیں وہ ’’مشرک‘‘ بنصِ حدیث۔
اس کی توجیہ میں:
¿ خواہ آپ علمائے اسلام کا وہ معروف قول لے لیں کہ
شریعت میں لفظ ’’مشرک‘‘ ہر قسم کے کافر پر بول لیا جاتا ہے، خواہ وہ کتابی کافر ہو
یا بت پرست۔ اس قول کی رُو سے: ’مشرک‘ اور ’کافر‘ کا ایک دوسرے کے ہم معنیٰ بول لیا جانا شرعی لغت میں چلتا ہے۔ اور
یہ اسی قبیل سے ہے جیسے ’ایمان‘ اور ’اسلام‘ یا ’رب‘ اور ’الٰہ‘ یا ’نبی‘ اور
’رسول‘ وغیرہ۔
(قاعدہ: إذا اجتمعا افترقا، وإذا افترقا اجتمعا) کہ:
o
جب کسی
سیاق میں یہ (جوڑا الفاظ) اکٹھے آئیں (جیسے وَمَا
أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ... یا قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ
تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا... یا إِنَّ
الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي
نَارِ جَهَنَّمَ) تو ان کا مقصود الگ الگ ہو گا۔
o
البتہ
جب یہ الگ الگ آئیں تو ایک دوسرے کے ہم معنیٰ بھی مستعمل ہو سکیں گے۔
(حق یہ ہے کہ یہی توجیہ صحیح ہے: اہل کتاب پر
بھی کسی وقت ’مشرکین‘ کا لفظ بول لیا
جاتا ہے۔ قرونِ سلف کا یہ استعمال نہایت معروف ہے)۔
¿ یا چلئے ایک دُور کی (بلکہ بہت ہی دُور کی) کوڑی بھی
لے آئیے: کہ یہ عرب بت پرستوں اور اہل
کتاب ہر دو کے علاوہ کوئی ’مشرک‘ ہو سکتے ہیں۔
ہر دو صورت، ’مشرکین‘ کا لفظ
’عرب بت پرستوں‘ کے ماسوا اصناف پر بولنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ نصوصِ شریعت
میں وارد ’مشرکین‘ سوائے ’بت پرستانِ بنی اسماعیل‘ کے کسی پر بولنا جائز نہیں!
حدیث میں مذکور ’مشرکین‘ لامحالہ ’بت پرستانِ بنی اسماعیل‘ کے ماسوا ہی کوئی اصناف
ہو سکتی ہیں، اِلّا یہ کہ آپ یہ کہیں کہ بت پرستانِ بنی اسماعیل کے حق میں بھی
جزیہ اور جان بخشی ثابت ہے۔
یاد رہے، یہ حدیث صحیح
مسلم کی ہے۔