عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
فاعلیت کا فقدان؟
:عنوان

برائی کو ختم کرنے اور خیر کو ممکنہ حد تک معاشرےپر حاوی کرانے میں جو کردار ایسے ایک نڈر، خداخوف، باکردار پولیس افسر کا ہے وہ مبلغوں کےایک جمعِ غفیر کا نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم سینکڑوں اسلامی تنظیمیں اور لاکھوں مساجد

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

                   بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ

  أمَّا بَعدُ

فاعلیت کا فقدان؟


بار بار ایک سوال اِس وقت ہم سے، اور شاید ہر کسی سے، پوچھا جا رہا ہے: اندریں حالات آگے بڑھنے کےلیے کسی راہِ عمل کی نشان دہی ہو؟

بلاشبہ یہ ایک اہم اور تفکیر طلب سوال ہے۔

’آگے بڑھنے‘ سے پوچھنے والے کی مراد اگر ایک عدد ’انقلاب‘ نہیں ہے تو اس سوال کا جواب دینے سے ہم بھی یقیناً سروکار رکھتے ہیں۔

ہاں اسلامی تحریکی عمل کی بنیاد ’انقلاب‘ کو بنانا ہمارا اختیار کردہ سکول آف تھاٹ نہیں۔ بلکہ ’انقلابی‘ منہج پر ہم کچھ تحفظات رکھتے ہیں۔

اس سے پہلے کئی مقامات پر ہم ائمۂ سنت کے ’’کلاسیکل‘‘ منہج[1] اور فی الوقت زبانوں پر موجود ’انقلابی‘ منہج کا فرق واضح کر آئے ہیں:

1.    ’انقلابی منہج‘ کے تقریباً سب اہداف ’حصولِ اقتدار‘ کے بعد کے مرحلہ سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ یعنی دین کے بیشتر اہداف ایک غیر معینہ مدت کےلیے مؤخر؛ بلکہ فلسفۂ مراحل کے تحت باقاعدہ معطل۔ ان کے اس اصل ہدف (حصولِ اقتدار) کو سر کرنے میں اگر سو یا پچاس سال لگ جائیں اور جوکہ ہمارے سامنے؛ کوئی نرا مفروضہ نہیں ہے – تو دین کے کچھ روزمرہ ضرورت کے اہداف اتنی ہی مدت کےلیے آپ کی محنت اور توجہ سے محروم ہو رہیں گے۔ نتیجتاً فرائضِ دین کا ایک بڑا حصہ ’یوٹوپیا‘ کی صورت اختیار کرتا اور کسی ’مسیحا‘ یا ’مہدی‘ کی آمد سے ملتی جلتی کوئی چیز ہو جاتا ہے۔ بہت سے مذاہب اس ’انتظار‘[2] کی نفسیات میں باقاعدہ صدیاں گزار چکے ہیں؛ یعنی مسلسل ایک تخیل کی دنیا میں رہنا اور کسی یکلخت غیرمعمولی عظیم الشان واقعے کی امید میں زندگی گزارنا۔ ’حال‘ سے مایوس؛ ’تصوراتی دنیا‘ کے اندر رہنے میں ایک قسم کی راحت اور تلخیِ ایام کی کچھ تلافی پانا۔ صلاحیتوں کی ایک بڑی تعداد میں ذخیرہ اندوزی (cold storage)، یعنی فی الحال کےلیے انہیں اسلام کے کسی استعمال میں نہ رہنے دینا اس اپروچ کا ایک خودبخود نتیجہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ عالم اسلام کے کئی خطوں میں اسلامی تحریکوں کے یہاں اس ’انقلابی منہج‘ کی بند گلی سے نکل کر ’’عمل‘‘، ’’فاعلیت‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کی راہ اختیار کرنے کی جانب رخ ہوا ہے۔

2.    ’’کلاسیکل منہج‘‘ اس کے مقابلے پر یہ ہے کہ آج کی ڈیٹ میں دین کے جس جس حکم اور جس جس شعبے پر جس قدر عمل ہو سکتا ہے اس پر پورا زور صرف کر دیا جائے۔ اسی کو ہم ’’منہجِ استطاعت‘‘ بھی کہتے ہیں؛ جوکہ ’’عمل‘‘ اور ’’فاعلیت‘‘ سے پُر ہے۔ یعنی دین کے جو جو مقاصد آج کی ’دی ہوئی صورتحال‘ میں بروئےکار لائے جا سکتے ہیں انہی کو قائم کرنے پر تن دہی سے جُت جایا جائے۔ حالات یہاں آپ کو جتنی سپیس space اور جتنے مواقع opportunities دیتے ہیں، ان کو بھربور طور پر لیا جائے، ہاں مزید کو لینے کےلیے بھی جتنا زور صرف ہو سکتا ہو کیا جائے؛ اور جوکہ کسی وقت ’انقلاب‘ تک بھی جا سکتا ہے۔ البتہ ’انقلاب‘ اِس کے منہج میں کوئی ایسا حتمی و فیصلہ کن نقطہ final and decisive point نہیں ہے جو اِس کے عمل اور فاعلیت کو باقاعدہ کوئی صورت دیتا (معاشرے میں اِس کے عمل وپیشقدمی کو shape کرتا) اور اس کے معاشرتی محاذوں social fronts پر جُتنے کو فی الحال کےلیے مؤخر کراتا ہو۔ یعنی ’انقلاب‘ نہ بھی آئے تو اِس کے پاس معاشرے میں کرنے کے ڈھیروں کام ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ کسی ’انقلاب‘ کے بغیر بھی معاشرے کو آدھا پونا اپنے قابو میں کر لیتا اور اپنے عقائدی و تہذیبی مقاصد کو اپنے پورے ڈائنامزم کے ساتھ یہاں پیش رفت کرواتا اور اس کےلیے بہت سی تدابیر کرتا اور چالیں چلتا ہے۔

البتہ ایک تیسرے منہج کی یہاں اگر کچھ وضاحت نہ کی جائے تو اندیشہ ہے کہ قاری ہمارے مجوزہ منہج کو اس کے ساتھ خلط کرتا چلا جائے گا... اور یہ ہے ’تبلیغی‘ منہج۔ اس منہج کا لب لباب اگر ہم اپنے الفاظ میں کریں تو وہ یوں ہے کہ بیس کروڑ انسانوں کے ایک معاشرے میں آپ ’فرد‘ کو ایک طرف سے ٹھیک کرنا شروع کردیں اور دوسری طرف جا پہنچیں! یوں ’فرد‘ کو جب آپ ٹھیک کردیں گے تو ’معاشرے‘ کی کیا مجال ہے کہ ٹھیک نہ ہو، ’نظام‘ اور ’اختیارات‘ کی بابت آپ خوامخواہ پریشان ہوئے جا رہے ہیں؛ تبلیغ کے نتیجے میں یہ تو خودبخود ٹھیک ہو جانے والی چیز ہے! حقیقت یہ ہے کہ اوہام کی تاریخ میں اس سے بڑا وہم شاید ہی کبھی پایا گیا ہو۔

جبکہ ہمارا مجوزہ منہج یہ ہے کہ معاشرے میں طاقت کے سوتوں کو اگر پوری طرح ہاتھ میں نہیں کیا جا سکتا تو ان سوتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش ضرور کی جائے؛ اور یہاں سے معاشرے میں مقاصدِ حق کو قوم کی اجتماعی زندگی پر حاوی ہونے کےلیے ممکنہ حد تک سماجی و سیاسی وانتظامی قوت فراہم کروائی جائے۔ حق یہ ہے کہ طاقت کے سوتوں پر معتدبہٖ حد تک اثرانداز ہوئے بغیر، اور وہاں سے معاشرے کی ڈوریاں ہلانے کی کچھ نہ کچھ پوزیشن میں آئے بغیر ’فرد‘ کی اصلاح و تعمیر کا کوئی بڑے پیمانے mass-production کا پروگرام لانچ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ (یہ مبحث ہم نے اپنے ایک اداریے ’’اصلاحِ فرد کےلیے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘ قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے)۔  یہاں بیس کروڑ کے ایک ملک میں اگر آپ پون صدی لگا کر پچاس لاکھ کا ایک مجمع صالحین پر مشتمل بنا بھی  لاتے ہیں تو معاشرے کی زندگی کو فساد سے ہٹا کر صلاح پر لے آنے میں آپ قطعی طور پر غیرمؤثر رہتے ہیں، بلکہ بےبس؛ جوکہ ہم بچشمِ سر آج دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے مجوزہ منہج کی رُو سے چند ہزار باصلاحیت افراد یہاں کے سماجی منظرنامے پر اچھے خاصے حاوی ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا نری تبلیغ سے فرد کو بدل ڈالنے کا ہدف ہماری نظر میں سراسر ایک غیرحقیقی ہدف ہے۔ گو ہم یہ نہیں کہتے کہ عام فرد کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہی سرے سے مت کیجئے، خصوصاً اگر آپ کو منبر و محراب تک کچھ رسائی ہے؛ اور جوکہ اس وقت کا اہم ترین فورم ہے۔ یہاں؛ معاشرے کے ’عام فرد‘ کی اصلاح بقدر استطاعت ضرور کیجئے لیکن یہ توقع ہرگز مت رکھئے کہ ’عام فرد‘ کو ٹھیک کرتے کرتے بالآخر آپ معاشرہ ٹھیک کر دیں گے اور بس یہی منہج یہاں آگے بڑھنے کےلیے درست اور کامیاب ہے؛ اور قیامت تک آپ کو اِسی ایک راستے میں ناک کی سیدھ چلنا ہے! حق یہ ہے کہ معاشرے میں قوت اور تاثیر کے فورمز پر اثرانداز ہوئے بغیر معاشرے کے ’عام فرد‘ (صحیح تر تعبیر: ’’اوسط فرد‘‘) کی اصلاح جتنی آپ اپنی تبلیغ و وعظ کے ذریعہ سے کریں گے، جاہلیت اپنے بھاری بھرکم انتظامات کے ذریعے اس سے ہزاروں گنا فساد اس کے اندر برپا کر لے گی اور وہ نسبت تناسب جو معاشرے میں پائی جانے والی آپ کی تبلیغ اور اُس کے فساد کے مابین کچھ سال پہلے تھا وہ کچھ برس بعد خیر کے خلاف اور شر کے حق میں اور بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔ اِس کو روک لگانے کےلیے، اور خیر کے حق میں اس کا پلڑا ممکنہ حد تک جھکانے کےلیے، ضروری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اترنے کےلیے، آپ کے پاس ایک واضح لائحۂ عمل ہو؛ اور یہی ہمارے مجوزہ منہج کا لب لباب۔

کیا خیال ہےاسلام کے تحریکی عمل کے پاس لبرل اور سیکولر ڈسکورس کے پرخچے اڑانے اور اسلامی عقیدہ کی حقانیت بیان کرنے پر دسترس رکھنے والا کوئی پانچ دس ہزار پروفیسر آج اِن دھڑادھڑ کھلنے والی یونیورسٹیوں کے اندر اسلام کا نظریاتی محاذ سنبھالے ہوئے ہوتا؟! کیا نتیجہ وہی ہوتا جو اس وقت ان مادرہائے علمی میں الحاد کو تیزی کے ساتھ بڑھنے اور لبرلزم کے دندنانے کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں؟ اپنے عہد کے شرک سے برسر جنگ، پیشہ ورانہ فوقیت professional excellence  اور شخصیت کی سحرانگیزی charisma رکھنے والا ایک پروفیسر جو قوم کے اعلیٰ دماغوں کو ہاتھ میں کرنے کا فن جانتا ہو اور ان یونیورسٹیوں میں محض نوکری کرنے نہ جاتا ہو، یہاں چوکوں اور چوراہوں میں پھر کر تبلیغ کرنے والے واعظوں کی ایک بڑی جماعت سے زیادہ مؤثر ہے۔ اِس حقیقت میں بتائیے کس کو شک ہے؟

ایک دیانتدار، فرض شناس، کردار کا کھرا اور اعلیٰ مقاصد پر یقین رکھنے والا  پولیس آفیسر اس پورے علاقے میں پائے جانے والے سینکڑوں واعظوں پر بھاری ہے۔ برائی کو ختم کرنے اور خیر کو ممکنہ حد تک معاشرے پر حاوی کرانے میں جو کردار ایسے ایک نڈر، خداخوف، باکردار پولیس افسر کا ہے وہ مبلغوں کے ایک جمعِ غفیر کا نہیں ہو سکتا۔ کس کو اِس میں شک ہے؟ مگر ہم سینکڑوں اسلامی تنظیمیں اور لاکھوں مساجد مل کر ایسے کتنے دیانتدار، فرض شناس، کردارے کے کھرے اور اعلیٰ مقاصد پر یقین رکھنے والے پولیس آفیسر اِس معاشرے کو دے سکے ہیں؟ کیا یہ بات لمحۂ فکریہ نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خال خال کہیں ایسا دیانتدار، چمکتے کردار کا مالک پولیس آفیسر دیکھنے کو مل جائے تو خود ہم ’مصلحین‘ اس کو حیران ہو ہو کر دیکھتے ہیں کہ آخر یہ کیسے ہو گیا... اور بےشمار جگہوں پر ہم خود ایسے فرشتہ صفت افسر کا ذکر کرتے ہیں!!!! ظاہر سی بات ہے پولیس کے محکمے میں ایسا کوئی اکادکا صاف ستھرا دانہ محض اتفاقات کے زمرے میں شمار ہونے والی چیز ہے نہ کہ یہاں پر لانچ کروائے گئے کسی باقاعدہ پروگرام کی پیداوار۔ یہاں سے آپ پر کھلتا ہے کہ صالحین و مبلغین یہاں اپنی تمام تر دیوہیکل سرگرمی کے باوجود معاشرتی محاذوں پر سرگرم ہونے کے لحاظ سے سرے سے غیرموجود اور منظرنامے سے مکمل غائب ہیں۔ ان شعبہ ہائے حیات کو دیکھیں تو گویا اصلاح کار یہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ ہوں گے اپنے حجروں اور چِلّوں اور اپنے تنظیمی پروگراموں میں، جہاں شاید ان کے پاس کان کھجانے کی فرصت نہ ہو گی اور محنت کر کر کے گلے تھکے اور پاؤں سوجھے ہوں گے، مگر معاشرے میں تو یہ کہیں نہیں ہیں۔ دور دور تک نہیں ہیں۔

کسی انتظامی شعبے میں بہت اوپر کی سیٹ پر کسی صالح شخص کو بیٹھا دیکھ کر خود ہمیں کتنا تعجب ہوتا ہے! خصوصاً اعلیٰ اختیارات کے حامل عہدوں پر۔ ایسی کسی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک فاسد آدمی کے دم سے فساد کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور کسی صالح آدمی کے دم سے فساد کئی گنا گھٹ جاتا اور شر کا راستہ اچھا خاصا تنگ ہو جاتا ہے اور خیر کو بھی اپنے پنپنے کےلیے کچھ نہ کچھ راستے میسر آ ہی جاتے ہیں۔ یہ راستے اپنے مؤثر ہونے میں کئی گنا بڑھ جائیں اگر ایسے صالح لوگ ان بااختیار عہدوں پر اس قدر خال خال اور اِکادُکا نہ رہیں۔ لیکن ہم سب تنظیموں، جماعتوں اور منبروں اور محرابوں نے مل کر ایسے کتنے لوگ ایسی اعلیٰ بااختیار سیٹوں پر پہنچائے ہیں؟ حتیٰ کہ اس کےلیے کوشش کتنی کی ہے؟

جبکہ معاملہ اتنا دگرگوں ہے کہ ایسے اعلیٰ مناصب پر پائے جانے والے اچھے باکردار لوگ جوکہ خال خال ہیں، اگر دیانتدار، کھرے، بااصول اور کرپشن سے پاک ہوں گے بھی تو نظریات کے میدان میں شاید اچھے خاصے تہی دامن ہوں گے۔ إلا ما شاءاللہ۔ باطل افکار کے ابطال پر دسترس رکھنا، اپنے زمانے کے شرک سے واقف ہونا، اور اسلام کو درپیش چیلنجوں سے بخوبی آگاہ اور ان سے نبردآزما ہونے کے تقاضوں کا ایک اچھا ادراک رکھنا شاید ہی ان میں سے کسی کے حق میں پورا ہوتا ہو۔ یعنی جو اعلیٰ صاف ستھرے دانے یہاں آپ کو ملتے بھی ہیں، وہ کسی ایک آدھ پہلو سے ہی قابل رشک ہوں گے اور ہم اسی پر خوشی اور حیرت سے دنگ ہو رہے ہوں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی! البتہ ایسا کوئی شخص اعتقاد اور عمل کا ایک بہترین امتزاج رکھتا ہو، اور ملک کو اسلام کی ڈگر پر چڑھانے کے ایجنڈا پر بھی اس کو ایک گہری نظر حاصل ہو، دوسری جانب وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت میں بھی اونچی چوٹیوں پر پایا جاتا ہو، اس کا انتظام تقریباً یہاں نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ کیا شک ہے مؤثر عہدوں پر ایسے اچھے لوگوں کا تعداد میں بڑھنا معاشرے کےلیے غیرمعمولی خیر لانے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے؛ اور ایسے اچھے لوگوں کے دم سے یہ قوم سکھ کا سانس لے سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے، تعلیم کے شعبے میں ایک ایسا بااختیار آدمی جس کو اپنے نبیؐ کے دین سے وارفتگی کی حد تک لگاؤ اور اپنے نبیؐ کے دشمنوں سے مرنے مرانے کی حد تک دشمنی ہے، وہ اِس تعلیمی نظام کے مجموعی طور پر غیراسلامی ہونے کے باوجود، شر کے ہزارہا راستے یہاں پھر بھی بند کر لیتا اور خیر کے ہزارہا راستے پھر بھی کسی نہ کسی طرح کھول لیتا ہے۔ جبکہ ایک گندا آدمی ایسے کسی منصب پر فائز ہو تو وہ مسلمانوں کے حق میں ریتلے سانپ سے بڑھ کر زہریلا اور خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں، ایسے سانپوں کو تعلیم کے شعبے میں، بااختیار مناصب کےلیے تیار کرنے پر سات سمندر پار سے آئی ہوئی این جی اوز کامیاب ہو رہی ہیں، کیونکہ ان کے پاس ہمارے معاشرے میں ایک متحرک کردار a vibrant role ادا کرنے کےلیے ڈھیروں پلان ہیں، حتیٰ کہ قادیانی اور آغاخانی اس بہتی گنگا میں دھڑادھڑ ہاتھ دھونے لگے، مگر ہم اسلامی تنظیموں، جماعتوں، منبروں اور محرابوں کے پاس خود ابنے ملک میں رہتے ہوئے ایسا کوئی پلان نہیں۔ ہمارے خیال میں وعظ، تقریر اور درسِ قرآن ہی یہاں فی الحال کےلیے کافی ہے!

تحقیق و ترقی research & development سے متعلقہ بےشمار شعبے، قومی رائے سازی opinion making کے شعبے اور ادارے، ہیومن ریسورسز human resources کے شعبے، وغیرہ وغیرہ... یہاں پر حق پرست ایجنڈا کے ساتھ ہم نے کتنی پیش قدمی کرنے کی کوشش کی ہے؟ قوم کو قیادت دینے کے ایسے کتنے منصوبے بنائے اور عملاً پروان چڑھائے ہیں؟ باہر بیٹھ کر اس قوم کو تقریریں کرتے اور درس دیتے چلے جانے سے آخر فرق کیا پڑے گا؟ مسلمان اپنے گردوپیش کی دنیا میں اتنا غیرمؤثر ineffective اور غیرمتعلقہ irrelevant شاید کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔

تو پھر ہمارے تجویز کردہ اِس منہج کا خلاصہ کیا ہوا؟ ظاہر ہے یہ نہیں کہ آپ انقلاب لانے کے اپنے سب پروگرام ختم کر دیں۔ انقلاب کی کوشش بےشک کیجئے۔ ہماری تجویز ظاہر ہے یہ نہیں کہ آپ اپنی تبلیغی سرگرمیاں موقوف کر دیں۔ تبلیغی سرگرمی آپ ضرور جاری رکھئے۔ مگر زندگی کے عملی شعبوں میں ایک پورے اسلامی پروگرام اور ایک باقاعدہ اسلامی ایجنڈا کے ساتھ اترنے کا بھی کوئی انتظام کیجئے۔ یہاں ایک ایک عہدے اور ایک ایک سیٹ پر صالحین کو اوپر پہنچانے کےلیے سرگرم ہو جائیے؛ اور اِس معاملہ میں مسلک اور تنظیم کے فرق کو ختم کر کے رکھ دیجئے؛ نصرت، ولاء اور تعاونِ باہمی کی بنیاد صرف اسلام اور سنت کو رکھئے (سنت جو اپنی وسعت میں مذاہب اربعہ کو شامل ہے)۔ طاقت اور تاثیر کے سوتوں پر اثرانداز ہونے کے جو جو عوامل ہاتھ میں کیے جا سکتے ہوں ان کو بہرحال ہاتھ میں کیجئے۔ یہاں شر کو ختم نہیں کیا جا سکتا تو جتنا پسپا کیا جا سکتا ہو اتنا پسپا کیا جائے اور اس کے مقابلے پر خیر کو جتنی قوت دلائی جا سکتی ہو اتنی قوت دلوانے کی سبیل بہرحال کی جائے۔ یہاں کی مؤثر پوزیشنوں پر کردار کے کھرے، باشعور، قوم کے حقیقی ہمدردوں کا ایک معتد بہٖ تعداد میں پہنچنا خیر کے بہت سے راستوں کو کھولنے اور شر کے بہت سے راستوں کو بند یا تنگ کرنے کا خودبخود موجب ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ معاشرتی عمل پر حاوی ہوتے ہوتے، اسلامی سیکٹر یہاں ایک بہت اعلیٰ پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ پھر جیسےجیسے معاشرتی محاذ پر یہ اپنی پیش قدمی میں کامیابی پائے گا، ویسےویسے اس کے آپشن بڑھتے اور نکھرتے چلے جائیں گے۔

یہاں یہ ذکر کرتے چلیں، ترکی کا تجربہ، جوکہ اسلامی سیکٹر کے حق میں اس وقت تک کا کامیاب ترین تجربہ ہے، اسی طریق کار کا مرہونِ منت ہے۔ یعنی سماجی شبعہ جات میں قوم کے حقیقی ہمدردوں کی ڈھیروں کے حساب سے بھرتی اور اوپر جا پہنچنے کی خاصی خاصی کامیاب کوششیں۔ جس سے باشعور باصلاحیت اسلامی عنصر کا معاشرتی فورموں پر غلغلہ ہوا۔ اسلامی سیکٹر اعلیٰ دماغوں پر اثرانداز ہونے کے فورموں پر خوب حاوی ہوا۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ذہن سازی کا عمل اچھا خاصا وہاں کے اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آگیا اور دیگر مؤثر شعبوں میں بھی قوم کے غمخوار اچھی تعداد میں پائے جانے لگے۔ یہ کام کئی عشروں کی محنت سے انجام پایا تھا۔ آخر یہ ہوا کہ سیاست کے میدان میں بھی یہ فصل کام دینے لگی۔ لیکن ہم نے دیکھا، سیاست کے میدان میں بھی تاحال وہ کسی ’اسلامی انقلاب‘ کا علم اٹھا کر آگے نہیں بڑھ رہے، بلکہ سیاست کے میدان بھی وہ ’’اصلاح حسبِ استطاعت‘‘ کے اصول پر چلتے ہوئے ہی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ’انقلاب‘ کے حق میں بہت سے دور رس اقدامات کرنے میں وہ ہماری توقع سے بڑھ کر کامیاب رہے اور آئندہ دنوں میں شاید وہ اسلامی ایجنڈا کے حق میں کچھ دنگ کر دینے والے اقدامات بھی کریں۔ یعنی ان کی سیاسی پیش قدمی تک ’انقلابی‘ نہیں بلکہ ’اصلاحی‘ ہے اور ایک طرح سے اسلامی عمل کی ’راہ ہموار کرنے‘ سے عبارت ہے۔ مختصراً یہ کہ جتنی سپیس space ملے، اس کو لیا جائے اور اس کے ذریعے مزید کےلیے سپیس space پیدا کی جائے، اور پھر اس کو لے کر مزید کےلیے کوشاں ہوا جائے، علیٰ ھذا القیاس، باطل کو مسلسل پیچھے دھکیلتا چلا جائے... یہاں تک کہ اتنی زمین آپ کو حاصل ہو جائے کہ آپ اپنی باقاعدہ اسلامی تعمیرات کرنے لگیں۔ کیونکہ ’اسلامی تعمیرات‘ کےلیے ’زمین‘ حاصل ہونا بہرحال شرط ہے؛ اس کے بغیر ہوائی قلعے ہی بنائے جا سکتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی شاندار اور بےعیب ہوں۔ ہم کہتے ہیں، صورتحال کی مناسبت و مطابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اصولاً و شرعاً اس کی پوری گنجائش ہے۔ گناہ یہ چیز وہاں پر ہوگی جب ایک چیز پر آپ کو پوری قدرت حاصل ہو گئی اور اس کے عواقب کو سنبھالنا آپ کے بس میں ہو گیا، لیکن پھر بھی آپ اس میں اسلام کے بتائے ہوئے فرض پر پورا اترنے سے پہلو تہی کر رہے ہوں۔ ہاں جہاں آپ کی استطاعت محدود ہے وہاں آپ کی جواب پرسی بھی محدود ہے۔ امام ابن تیمیہ اسی لیے اس حوالہ سے متعدد مقامات پر دورِ نبوی سے نجاشیِ حبشہ کی مثال دیتے ہیں۔

بخدا اگر بیس کروڑ کے ایک ملک میں حق پر قائم ایک دعوت کو چند ہزار مؤثر افراد میسر آجائیں تو اس ملک کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ ’انقلاب‘ آئے یا نہ آئے، یہاں بہت سے اسلامی مقاصد بر لائے جا سکتے ہیں۔ بہت سے اسلامی اہداف جو معاشرے میں زنگ آلود ہو رہے ہیں، اس قوم کی زندگی میں عود کر آ سکتے ہیں۔

*****

اس موضوع کے بعض گوشے تشنۂ وضاحت ہیں۔ آئندہ چند اداریوں میں ہم ان پر قلم اٹھائیں گے۔ ان شاء اللہ 

 



[1]    ’’کلاسیکل‘‘ کا ایک ترجمہ ’سَلَفی‘ ہو سکتا ہے، لیکن برصغیر میں ایک گروہی دلالت رکھنے اور مذاہبِ اربعہ کے مقابلے پر مستعمل ہونے کے باعث، جوکہ اس کا نہایت غلط استعمال ہے، یہ لفظ ہماری گفتگو میں زیادہ نہیں آتا، محض اس خدشے سے کہ قاری ہمارا مقصود سمجھنے میں کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔ ورنہ حق یہ ہے کہ مذاہبِ اربعہ ہی مذاہبِ سلف ہیں۔ ایک حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی ۔ بشرطِ صحتِ عقیدہ ۔ سلفی ہی ہوتا ہے۔ لیکن لفظ ’’سلَفی‘‘ کا یہ صحیح استعمال، ظاہر ہے ہمارے اس برصغیر میں اچھنبا لگے گا۔ یہاں تو ’’سلفی‘‘ کا استعمال ہوتا ہی بمقابلہ ’حنفی‘ یا بمقابلہ ’شافعی‘ ہے! جوکہ ایک واقفِ حال کےلیے باعثِ حیرت ہے۔

[2]    اس سلسلہ میں شیخ سلمان العودۃ کا ایک عربی مضمون مفید مطالعہ ہے بعنوان: الانتظارُ عُقدۃ ولیست عقیدۃ ’’انتظار ایک عُقدہ ہے نہ کہ عقیدہ‘‘۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز