لفظ "خدا" کا استعمال فتویٰ جامعہ بنوریہ
|
:عنوان |
|
|
اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھ |
|
|
لفظ "خدا" کا استعمال
فتویٰ جامعہ بنوریہ
سوال:
محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ قرآن و سنت
کی روشنی میں یہ بتائیں کہ لفظ خُدا کا استعمال کیا غلط ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ
کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے
آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن
پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے،
یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے
شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے
لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں
لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر
اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف
اللہ تعالیٰ پرہوتاہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے: خدا بالضم
بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر
در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ ٹھیک یہی
مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ رب کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق
تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے
اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔
اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں
کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس
کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک
کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں
مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا
جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ
لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ
انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر
کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے
گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔ فقط۔ واللہ اعلم۔
فتویٰ کا ویب لنک: دارالاِفتاء
جامعہ بنوریہ http://www.banuri.edu.pk/readquestion/lafz-e-khuda-ka-istemal/-0001-11-30
|
|
|
|
|
|