السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین، امید ہے کہ آپ ماہ قرآن و غفران کی مبارک ساعتوں سےبھرپور استفادہ حاصل کرنے اور رب رحیم کی جنتوں کی طرف دوڑ لگانے میں یکسوئی سے شب و روز اپنی سی سعی میں مصروف ہوں گے۔
من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ
ہماری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ان خوش نصیبوں میں شمار کر لے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں یہ ماہ مبارک ہم پر اللہ کا انعام خاص ہے اور اس کو پا لینے کا شکر ادا کرنا ہم پر واجب ، وہاں ساعات استجابت میں اپنے ان بہن بھائیوں کو فراموش نہ کیا جائے جوپے در پے آزمائشوں کی بھٹی سے گزر رہے ہیں خواہ وہ مشرقی ترکستان کے روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیے جانے والے مسلمان ہوں یا برما کے بے یار و مددگار روہینگیا مسلمان جن پر بدھ مت کےعفریت نے بر و بحر تنگ کر نے کے علاوہ مسلم نسل کشی کی ایک نئی بھیانک تاریخ رقم کرڈالی ہو یا پھرسر زمین شام کے صابر وثابت قدم مسلمان جو بشار جیسے طاغوت کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن رہے ہوں ۔ مگر شام سے ملنے والی بشارتیں اور اس ضمن میں روس اور حزب اللات کی بوکھلاہٹ اللہ کے فضل سے خوش آیند معلوم ہوتی ہیں ۔ ادلب کی فتح سے بشار اور اسکی فوج کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس نے صہیونیت کی راتوں کی نیند بھی حرام کر دی ہے اور انکے اپنے تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ شام کے طاغوت کا تختہ الٹنا اب کچھ زیادہ بعید نہیں بلکہ آثار یہ ہیں کہ یہ بتدریج نہیں بلکہ مجاہدین کی منظم پیش قدمی کے باعث یکلخت ختم ہونے کا قوی امکان ہے لہذا آج نہیں تو کل شامی حکومت کو دمشق سے دستبردار ہوئے بغیر چارہ نہیں گو کہ زمینی حقائق کے پیش نظر اس وقت ترجیح ساحل کو فتح کرنا ہے کیونکہ علوی نظام کا گڑھ ساحل ہے نہ کہ دمشق جو کہ ان شاء اللہ ساحل کی فتح کی صورت میں مال غنیمت کے طور پر ویسے ہی مجاہدین کے ہاتھ لگنے والا ہے۔
مغربی قوتیں اسلام پسندوں سے کس درجہ خائف ہیں اسکی ایک جھلک ترکی کے حالیہ انتخابات کے نتائج میں نظر آتی ہے جس میں کہ صدر رجب طیب اردگان کی پارٹی کو ایوان میں محض سادہ اکثریت نہ ملنے پر مغربی دنیا کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں ۔خوشخبری منانے والوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں عالم اسلام کے وہ تمسخر خیزسیکولر طبقے ہیں جو اسے اتاترک کے ترکی کی فتح گردان رہے ہیں یا پھرفوج، انٹیلی جنس اور ڈرگ مافیا کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے والے روس ہے یا پھر ایران جس کا مرشد اعلی قرون وسطی کے پوپ کے سے اختیارات پر قابض نظر آتا ہے یا پھر ہالی وڈ فلم کی طرز پر نمودار والے مصر کافرعون جو خود مغرب کے بنائے جمہوری نظام کے تحت منتخب شدہ حکومت کا تختہ الٹ کر خود ایوان اقتدار میں براجمان ہو جاتا ہے یا پھر اقتدار کو باپ کی جاگیر گرداننے والا بشار الا سد جو افراتفری کے عالم میں ذلت سے بچنے کیلئے فرار کی راہیں تلاش کرتا پھر رہا ہے یا پھر صہیونی ریاست جس کی اپنی جڑیں دن بدن کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں یا وہ اہل تکفیر جن کے جنون نے ایک عام مسلمان کیلئے دین کی بات تک کرنا محال کر دیا ہے۔اس کے مقابلے میں صدر اردگان کی جماعت مسلسل چوتھی دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ صرف اپنے ملک بلکہ تمام عالم اسلام میں اپنی حمیت اور بیباکی کے باعث ہر دلعزیز اور محترم شخصیت ہیں ۔
سیکولر انتہا پسندوں کی اسلام دشمنی کی ایک اور مثال بنگلہ دیش میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے خلاف پھانسیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور ہندوستانی وزیر اعظم کیساتھ ۲۲ ملین ڈالر کے مشترکہ معاہدوں پر دستخط کر کے سیکولرسٹ ایجنڈے کو مزید تقویت دی جا رہی ہے ۔اسی حکومت نے اسلامی جماعتوں کو یہ کہہ کر انتخابات میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا کہ ان جماعتوں کا دستورآئین کے منافی ہے !
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم الحاد کے مقابل عالم اسلام سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا ہو اور زمین میں اعلائے کلمتہ اللہ اس کا مقصود و مطلوب ہو۔اور اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا چاہے وہ کفار کو کتنا ہی ناگوار گزرے!
والله غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لا یعلمون
(تحریر: عائشہ جاوید)