تفسیر نہیں، تدبر!
حامد کمال الدین
ایک ہے قرآنِ
مجید کی تفسیر۔ ایک ہے قرآنِ مجید پر تدبر۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ’’تفسیری
عمل‘‘ آپ ایک ہی بار کرتے ہیں۔ یا اپنے علم کو تازہ کرنے کےلیے کسی کسی وقت اس کو
دہرا لیتے ہیں۔ لیکن ’’تدبر‘‘ آپ بار بار کرتے ہیں۔ یہ عمل ہر لحظہ جاری رہتا ہے۔
زیادہ لوگ ’’تفسیر‘‘ اور ’’تدبر‘‘ کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں؛ ظاہر ہے ان حضرات کے
ہاں ’’تدبر‘‘ کی نوبت کم ہی آئے گی اور یہ کچھ علمی نکات وغیرہ میں گم رہنا ہی کل
کام جانیں گے۔
تفسیر
اور تدبر میں کیا فرق ہے؟ قرآنی علوم کے ماہر ڈاکٹر محمد الربیعہ اس کے تحت مندرجہ
ذیل نکات بیان کرتے ہیں:
1۔ تفسیر
کا مطلب ہے آیت کے معنیٰ کو کھولنا۔ جبکہ تدبر کا عمل اس کے بعد شروع ہوتا ہے،
یعنی آیت میں جو بات کہی گئی اس کے مقصود پر غور کرنا۔ اس میں جن اشیاء کی جانب
اشارے ہوئے ہیں ان کا اندازہ کرنا۔ ان پر یقین پیدا کرنا اور ان کو دل میں اتارنا۔
2۔ تفسیر
میں آپ کی غرض آیت کا معنیٰ جاننے سے ہوتی ہے۔ جبکہ تدبر کی غرض اس معنیٰ سے فائدہ
لینا، اس پر ایمان کی صورت میں، عمل اور سلوک کی صورت میں۔
3۔ تدبر
کا حکم سب لوگوں کو ہوا ہے۔ کہ وہ قرآن سے ہدایت اور فائدہ لیں۔ یہ وجہ ہے کہ
ابتداءً کفار کو یہ بات کہی گئی کہ آخر وہ
قرآن مجید میں تدبر کیوں نہیں کرتے۔ تدبر میں لوگ درجہ بدرجہ تقسیم ہوں گے تو اس
کی بنیاد یہ ہوگی کہ کسی شخص میں علم کے ساتھ ساتھ کلام سے ’’اثر لینے‘‘ کی قوت
کتنی ہے اور کلام کے ساتھ اس کا تفاعل interaction
کس درجہ کا ہے۔ جبکہ تفسیر میں لوگوں کی درجہ
بندی اس بنیاد پر ہوگی کہ اس کی علمی استعداد کیسی ہے۔ نیز اس کو قرآن کے معانی جاننے کی ضرورت کس درجہ کی ہے۔ ابن عباس نے
تفسیر کے چار درجے بتائے ہیں: ایک تفسیر کا وہ پہلو جس میں کسی شخص کا کوئی
عذر نہیں (یعنی وہ سب کو سمجھ آتی ہے؛ ’’تدبر‘‘ کا بھی سب سے زیادہ تعلق قرآن کے
اسی حصے سے ہے؛ یہی چیز نصیحت لینے سے متعلق ہے؛ اور یہ چیز کافروں سے بھی مطلوب
تھی، ظاہر ہے کافروں کو ان آیات کی تفسیر موقع پر کرکے نہیں دی جاتی تھی؛ وجہ یہی
کہ یہ قرآنی کلام کا وہ پہلو ہے جو ہر کسی کو سمجھ آتا ہے)۔ تفسیر کا ایک پہلو وہ
جسے پانے کےلیے عربی زبان کے دقائق معلوم ہونا ضروری ہیں۔ ایک تفسیر وہ جو علماء ہی
کے کرنے کی ہے (خواہ عربی آپ کو کتنی ہی آتی ہو؛ یہ چیز آپ کو مدرسۂ صحابہ سے ہی
ملے گی)۔ پھر ایک تفسیر وہ جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔
4۔ تدبر
کےلیے شرط کوئی نہیں۔ ہر کسی کو یہ کرنا ہے۔ ہاں جس آیت پر تدبر کرنا ہو اس کا
معنیٰ پہلے سمجھ لینا چاہئے۔ نیز قصد و ارادہ کا خالص ہونا ضروری ہے۔ تبھی فرمایا:
وَلَقَدْ
يَسَّرْنَا الْقُرْآَنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ’’یقیناً ہم نے
قرآن کو آسان کر رکھا ہے؛ تو کیا ہے کوئی جو اس سے نصیحت لے‘‘۔ البتہ مفسر ہونے
کےلیے باقاعدہ شروط ہیں، کیونکہ تفسیر خدا پر ایک بات کرنے کے مترادف ہے، لہٰذا وہ
ہر کسی کے کرنے کی نہیں۔ یہ وجہ ہے کہ سلف قرآن کی تفسیر میں بات کرنے سے بہت بچتے
تھے کہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کے ہاں کہا جاتا ہے: تدبر
کے معاملہ میں آدمی کا کوئی عذر نہیں۔ ہاں تفسیر کے معاملہ میں اس کا عذر ہے۔
5۔ تدبر
ایک غایت ہے۔ جبکہ تفسیر ایک ذریعہ۔ یعنی تفسیر کا مقصد ہے کہ وہ آپ کو قرآن مجید
میں موجود علم اور عمل تک پہنچائے۔ جبکہ تدبر بذاتِ خود اُس ’’عمل‘‘ میں آتا ہے جو
تفسیر سے مقصود ہے۔
مفهوم التدبرفي ضوء القرآن والسنة وأقوال
السلف وأحوالهم
http://almoslim.net/spfiles/tadabbur/paper4.htm
ابن قیم فرماتے ہیں:
وتدبر الْكَلَام ان ينظر فِي
اوله وَآخره ثمَّ يُعِيد نظره مره بعد مرّة وَلِهَذَا جَاءَ على بِنَاء التفعل (مفتاح
دار السعادۃ: 1: 183)
کلام پر تدبر کا مطلب ہے: اس کے اول و
آخر کو بنظر غائر دیکھنا اور پھر بار بار اس میں نظر دوڑانا۔ یہ وجہ ہے کہ یہ باب
تفعُّل سے بنا ہے (یعنی اس میں کوشش اور تکرار کو دخل ہے)۔
مراکش کے ایک عالم شیخ فرید الانصاری کہتے ہیں: تدبر دراصل
ما بعد تفسیر ایک عمل ہے۔ آدمی کو جتنا سا سمجھ آیا ہو اس پر اسے خوب غور و خوض
کرنا ہوتا ہے۔ یہ چیز ایک عالم سے بھی مطلوب ہے، ایک انجینئر سے بھی، ڈاکٹر سے
بھی، پروفیسر سے بھی، کسان سے بھی، مزدور سے بھی، لوہار سے بھی، ترکھان سے بھی اور
تاجر سے۔ بلکہ قرآن کی بابت یہ مطالبہ تو ایک کافر تک کے آگے رکھا جاتا ہے خواہ وہ
کوئی انگریز ہو یا فرانسیسی یا چینی؛ اور اس کےلیے انگریزی یا فرانسیسی یا چینی
میں ترجمۂ قرآن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ رہ
گئی تفسیر تو وہ صرف علماء کا کام ہے۔
قرآن
مجید میں تدبر اور تفکر قریب قریب ایک ہی معنیٰ میں آتے ہیں؛ گو یہ کلی طور پر
مترادف نہیں۔ تفکر خاصی حد تک ایک عقلی عمل ہے؛ اور قرآنِ مجید کے معاملہ میں
بلاشبہ آدمی سے مطلوب ہے۔ البتہ تدبر میں وجدانی پہلو بھی آجاتے ہیں۔ قرآن مجید کی
ایک اور اصطلاح ’’تذکّر‘‘ بھی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو تفکر اور تدبر کے نتیجے میں
حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے مرکزی و بنیادی مضمون اس قدر سادہ ہیں
کہ ان کےلیے کسی لمبے چوڑے بیان اور تفسیر کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید سے نصیحت لینا
اور سمجھ اور شعور کی غذا لینا کسی طویل و عریض عمل پر موقوف نہیں۔ قرآنِ مجید کے
اپنے بقول اس کےلیے ایک زندہ و بیدار دل ہونا چاہئے اور ایک توجہ کے ساتھ سننے
والے کان:
فِي
ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ (ق: 37)
جو شخص دلِ (آگاہ) رکھتا ہے یا دل سے
متوجہ ہو کر سنتا ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے۔
قرآنِ
مجید اور نبیﷺ کی دعوت پر غور وفکر کا مطالبہ دیکھئے کس طرح کفار کے سامنے رکھا
جاتا ہے:
قُلْ
إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ
هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ! (سبأ:
46)
اے نبیؐ، اِن سے کہو کہ "میں
تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر
اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟
وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے"۔
اس
موضوع پر ابن قیم نے مفتاح
دار السعادۃ میں بہت
خوبصورت کلام کر رکھا ہے۔ اسی سے متصل؛ شیخ فرید الانصاریؒ اور محمد بن عبد اللہ
الربیعہ﷿ نے اپنی تصانیف میں اس موضوع پر جو لکھا، اس سے ہم سنت اور سلف کے یہاں
تفکر اور تدبر کے کچھ نمونے ملاحظہ کر سکتے ہیں:
ü
سنن نسائی و ابن ماجہ میں حضرت ابو ذر غفاری سے روایت آتی
ہے کہ رسول اللہﷺ نے رات کا قیام فرمایا تو صبح تک ایک ہی آیت پڑھتے چلے گئے: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ
فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ
الْحَكِيمُ ’’اگر تو ان
کو عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔ اور اگر تو ان کو معاف کرے تو تو ہی زبردست
اور دانا ہے‘‘۔
ü
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: مجھے مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے ابن
عباس کی صحبت کا موقع ملا۔ جب آدھی رات گزر جاتی تو قیام شروع کردیتے۔ ان سے
پوچھا گیا: تو ابن عباسؓ کی قراءت کیسی تھی؟ بولے: آپؓ نے وَجَاءَتْ سَكْرَةُ
الْمَوْتِ بِالْحَقِّ والی آیت پڑھی۔ بس پھر کیا تھا۔ آپؓ رک رک کر
پڑھتے جاتے اور روتے جاتے۔ رونے کی آواز سینے میں گھٹی جاتی اور یوں گہری آواز آتی
جیسے چولہے پر چڑھی ہنڈیا کے کھولنے کی آواز ہوتی ہے۔
ü
عباد بن حمزہ سے روایت ہے، کہا میں (اپنی پردادی) اسماء
بنت ابی بکر کے ہاں داخل ہوا جبکہ وہ یہ آیت پڑھ رہی تھیں فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ’’تب اللہ
نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جھلسنے کے عذاب سے بچا لیا‘‘۔ میں ان (اسماء) کے پاس
کھڑا ہو گیاجبکہ وہ (اس سے) خدا کی پناہ مانگتی اور دعاء کرتی جاتی تھیں۔ (اس
دوران) میں بازار گیا اور اپنا کوئی کام انجام دے کر واپس آیا، جبکہ وہ ابھی اس
آیت کی تلاوت کر رہی تھیں، ساتھ پناہ مانگتی اور دعاء کرتی جاتی تھیں۔
ü
تمیم داری کے بارے میں آتا ہے: انہوں نے رات کا قیام کیا
اور پوری رات ایک ہی آیت پڑھ پڑھ کر گزار دی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا
السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (الجاثیہ: 21) ’’بدکاریاں
کرنے والے کیا یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں بھی ویسا ہی رکھیں گے جیسے وہ لوگ جو
ایمان اور اعمالِ صالحہ کرتے رہے؛ دونوں کا جینا بھی ایک سا اور مرنا بھی؟ بہت برا
ہے جو یہ حکم لگاتے ہیں‘‘۔یعنی
کلام کا اثر لینا اور اس کی گہرائی کا اندازہ کرنا۔ نیز ایک پُر اثر کلام میں کھو
جانا۔
ü
تفسیر طبری میں آتا ہے: عبد اللہ بن مسعود نے آیت پڑھی: تَلۡفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ
فِيهَا كَالِحُونَ (المؤمنون: 104) ’’آگ ان
کے چہرے جھلسا دے گی اور ان کے منہ بری طرح بنے ہوں گے‘‘۔ تب عبد اللہ بن مسعودؓ بولے: کیا تم نے سری جلائی ہوئی
دیکھی ہے، جب ہونٹ سکڑ کر پیچھے جا لگتے ہیں اور دانت نکل کر باہر کو آجاتے ہیں؟
گویا یہاں ابن مسعود آگ میں جلنے کے اس منظر کو اپنے روزمرہ دیکھے ہوئے مشاہدات
کے ساتھ جوڑتے ہیں؛ کہ دوزخ میں جلتے ہوئے آدمی کیا سے کیا ہو جاتا ہوگا۔ یعنی
قرآن کی بتلائی ہوئی اشیاء کو چشمِ تصور سے دیکھنے تک چلے جانا اور پھر یہاں سے
ڈھیروں عبرت اور نصیحت لے کر نکلنا۔
ü
کتاب الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن حجر
عسقلانی عبد اللہ بن عمر کی سوانح میں لکھتے ہیں: جب آپؓ سورۃ الحدید کی یہ آیت
پڑھتے أَلَمْ
يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ ’’کیا اہل ایمان کےلیے وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ان کے
دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں‘‘ تو آپؓ رونے
لگتے یہاں تک کہ رونے کے ہاتھوں بےقابو ہو جاتے‘‘۔ وجہ یہ کہ آیت میں ایک طرح کی
سرزنش ہے کہ اہل ایمان ایسے کیوں ہونے لگے کہ خدا کی یاد پر یہ ٹس سے مس نہ ہوں۔
غرض آیت کے معنیٰ کے ساتھ اپنی حالت کا ربط پیدا کرنا۔
ü
روایات میں آتا ہے: ابو
طلحہ نے سورۃ توبہ کی یہ آیت پڑھی: انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً ’’جہاد کےلیے نکلو، ہلکے یا بوجھل‘‘۔ تو
بولے: ہمارا رب ہمیں جہاد کےلیے بلاتا ہے؛ جوانی میں بھی، بڑھاپے میں بھی۔ میرے
بیٹو میری تیاری کرو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ابو طلحہ عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔
بیٹوں نے کہا: آپ نے رسول اللہﷺ اور ابوبکر و عمر کی معیت میں کوئی کم جہاد تو
نہیں کیا۔ اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کرتے ہیں۔ بولے: نہیں میری تیاری کرو۔ چنانچہ
آپؓ سمندری جہاد پر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ بحری جہاز میں ہی موت پائی۔ تب آپؓ کو
دفن کرنے کےلیے جہازوں کو دور دور تک کوئی جزیرہ نہ مل رہا تھا۔ سات دن بعد خشکی
پر جہاز لگا تو آپؓ کو دفنایا گیا مگر میت ویسی کی ویسی تھی۔ غرض قرآن پڑھتے ہوئے
اپنے آپ کو خدائی مطالبوں کے آگے پیش کرنا۔
ü
حسن بصری کے بارے میں آتا
ہے: آپ نے قیامِ لیل شروع کیا تو اس آیت سے آگے گزر ہی نہ سکے؛ ساری رات اسی کو
دہراتے گزار دی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ
اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (النحل:
18) ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو کبھی
شمار نہ کر پاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا
ہی غفورٌ رحیم ہے‘‘۔گویا کلام سے گھائل ہی ہو گئے!
ü
امام قرطبی سورۃ الکہف کی
آیت وَوُضِعَ
الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا
وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلاَ كَبِيرَةً إِلاَّ أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا
عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ’’اور نامہٴ اعمال لا دھرا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس کے لکھے
سے ڈرتے ہوں گے اور کہیں گے ہائے خرابی ہماری اس نوشتہ کو کیا ہوا نہ اس نے کوئی چھوٹا
گناہ چھوڑا نہ بڑا جسے گھیر لیا ہو اور اپنا سب کیا انہوں نے سامنے
پایا، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: فضیل بن عیاض یہ آیت پڑھتے تو کہتے: وائے
بربادی۔ ڈر کر بھاگ لو اللہ کی طرف؛ یہاں تو کبائر سے بھی پہلے صغائر شامت لے آئے‘‘۔
یہ اس لیے کہ آیت میں صغیرہ گناہوں کا ذکر پہلے آیا ہے اور کبیرہ گناہوں کا بعد
میں۔ چنانچہ یہاں وہ صغیرہ گناہوں کی ہلاکت خیزی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
ü
زہد کے ائمہ میں سے ایک
امام سلیمان الدارانی کہتے ہیں: میں ایک آیت پڑھتا ہوں تو چار چار پانچ پانچ
راتیں اسی میں گزار دیتا ہوں۔ اگر میں خود یہ سلسلہ ختم نہ کروں تو اس آیت کو چھوڑ
کر آگے چل ہی نہ سکوں۔
ü
بیہقی نے شعب الایمان
میں، اپنے وقت کے عظیم واعظ مالک بن دینار کا واقعہ بیان کیا: آپؒ نے یہ آیت
پڑھی: وَمَا
أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ’’اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع
کروں خود اس کو کرنے لگوں‘‘ تو بولے: تو
کیا مجھے کل روزِ قیامت سچا واعظ گنا جائے گا یا جھوٹا واعظ؟ یعنی وہ مضمونِ آیت کو
اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھنے میں لگے ہیں۔
ü
ابن قیم لکھتے ہیں: سلف کا
یہ معمول تھا کہ وہ ایک ایک آیت میں ہی پوری پوری رات گزار لیا کرتے تھے۔
از مفتاح دار السعادۃ مؤلفہ ابن القیمؒ ھذہ رسالات القرآن فمن یتلقاھا، مؤلفہ فرید الانصاریؒ۔ الرسالۃ الرابعۃ: حول مفھوم التدبر، نیز مقالہ مفهوم التدبرفي ضوء القرآن والسنة وأقوال السلف وأحوالهم مؤلفہ محمد الربیعہ۔
ایک آیت
کو پلٹ پلٹ کر پڑھنے کی بابت غزالی کہتے ہیں: اگر آیت پر آدمی کا فکر و مراقبہ
ایک بار پڑھنے سے انجام نہ پاتا ہو اور اس کو دہرا دہرا کر پڑھنے سے ہی یہ مقصد
حاصل ہوتا ہو تو چاہئے کہ دہرا دہرا کر پڑھ لے، سوائے یہ کہ وہ کسی امام کے پیچھے
نماز پڑھ رہا ہو؛ کیونکہ امام اگر اس سے گزر کر اگلی آیت پڑھنے لگا اور وہ اسی
پہلی آیت کی بابت سوچ بچار کرتا رہا تو یہ بےادبی میں آئے گا۔
شیخ
محمد الربیعہ کہتے ہیں: قرآن میں اس مضمون کی سب آیات دراصل ایک ہی بڑے مضمون کو
ادا کرتی ہیں، اور وہ ہے ’’تدبر‘‘ کی صورت میں قرآن کے مقصود کو پانا اور قرآنی
خطاب کے ساتھ ایک زندہ انداز کا تفاعل اختیار کرنا:
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ } [ يونس 67].
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ }[الرعد :3]
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ } [ الرعد 4]
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ }[الحجر 75]
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى }[طه 54]
*
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ } [ الروم 22]
*
{ أَفَلَا تَعْقِلُونَ } [ البقرة 44]
*
{ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ } [ الأنعام 50]
*
{ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ } [ الأنعام 80]
*
{ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ } [ يونس3]
*
{ أَفَلَا تُبْصِرُونَ } [ القصص 72]
نیز
کہتے ہیں: یہ قرآنی خطاب بھی دراصل تدبر کرنے والوں ہی کی ایک حالت کا بیان ہے:
اللَّهُ
نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ
جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ
إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ
يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (الزمر:
23)
خدا نے
نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں)
اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے)
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف
(متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔
نیز
لکھتے ہیں: اسی آیت سے معلوم ہوا، خدا کے کلام میں تدبر خدا کی تعظیم اور اس کی
ہیبت دل پر محسوس کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس پر غزالی کا بھی ایک قول لے کر آتے ہیں:
قرآن پڑھنے والے کو چاہئے، قرآن کو ہاتھ لگاتے وقت اُس ہستی کی عظمت اور جبروت کا
تصور کرے جو اِن کلمات کے ذریعے اس وقت تم سے ہم کلام ہے۔ نیز یہ کہ جو کلام یہ
پڑھنے جا رہا ہے وہ کسی بشر کا کلام نہیں؛ نہ کسی عام شخص جیسا اُس کا کلام اورنہ کسی عام مضمون جیسا اس کلام کا مضمون۔
نیز سلف
کے کچھ آثار لاتے ہیں:
ü
عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں: قرآن کو یوں مت بھگتاؤ جس
طرح اشعار بھگتائے جاتے ہیں اور نہ اس کو یوں بکھیرو جیسے ردی کھجور لا دھری جاتی
ہے۔ اس کے عجائب پر رک جایا کرو، اور اس کے ساتھ قلوب کو جنبش دیا کرو۔
ü
سلف میں سے کسی کا قول ہے: میں رات کو کوئی سورت پڑھنا شروع
کرتا ہوں، تو مجھے اس میں ملنے والا کوئی ایک ہی معنیٰ روک لیتا ہےجس کے باعث میں
صبح تک بھی وہ سورت ختم نہیں کر پاتا۔
ü
حضرت عمر کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے سورۃ البقرۃ پڑھنے
میں بارہ سال لگائے۔ آپؓ کے فرزند عبد اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے سورۃ
البقرۃ ختم کرنے میں آٹھ سال لگائے۔
ü
حسن بصری کا قول ہے: تم رات کو قیام کرنے والے لوگوں نے
قرآن مجید کو ایک روٹین کی چیز بنا لیا ہے۔ حالانکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ اسے
اس طرح لیتے گویا وہ خدا کی جانب سے آیا ہوا ایک ایک خط کھولتے ہیں۔ تب اُن کی
راتیں اس پر غور و فکر میں گزرتیں اور ان کے دن اس کے نفاذ میں۔
ü
ابن قدامہ کہتے ہیں: قرآن پڑھنے والے پر لازم ہے کہ وہ
اپنے اوپر یہ احساس طاری کرے کہ قرآن کا سب خطاب اور وعید ایک اسی کےلیے ہے۔
ابن قیم
کہتے ہیں: اگر تم قرآن سے فائدہ پانے کے خواہشمند ہو تو قرآن پڑھتے یا سنتے وقت دلجمع
ہو جایا کرو، ہمہ تن گوش ہو جایا کرو، اور اس کے آگے یوں حاضر باش ہو جایا کرو
گویا اللہ مالک الملک خاص تم سے ہی مخاطب ہے۔