تدبر ایک عبادت
ابن علی
عبادت
کی کچھ صورتیں گویا ناپید ہو گئیں۔ یوں
جیسے یہ کبھی تھیں ہی نہیں۔ ’’تدبر‘‘ ایسی ہی ایک کمیاب عبادت ہے۔ خال خال ہی یہ
آج کہیں آپ کو نظر آئے گی۔ حالانکہ یہ کوئی ’فرضِ کفایہ‘ قسم کی چیز نہیں۔ ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ وہ آسمانی
ہدایت کے الفاظ اور معانی میں بقدرِ استطاعت غور کرے اور اس سے اپنے ایمان و ایقان
کےلیے تازہ بہ تازہ غذا حاصل کرے۔
یہ تو آپ دیکھیں گے – خصوصاً رمضان میں – کہ کچھ خوش قسمت
بڑی تن دہی کے ساتھ قرآن ختم کرنے میں لگے ہیں۔ ایک ایک بار، دو دو بار، یہاں تک
کہ کئی کئی بار رمضان میں ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔ گو یہ مناظر بھی آج اچھے خاصے دم توڑنے لگے۔ رمضان میں مساجد
کے ہر ہر کونے میں قرآن پڑھنے میں لگے لوگ، اور قرآن پڑھنے کی وہ مخصوص سحرانگیز
گونج، آج ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ انکل سام نے ہمارے ’فارغ اوقات‘ کو مصروف
کرنے والی اشیاء بےحدوحساب ہمارے ہاں لا دھری ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید کی خالی تلاوت
کرنے والوں سے ہی مساجد اجڑ گئیں۔ کچھ کسر رہ گئی ہے تو وہ بڑی تیزی کے ساتھ پوری
ہونے جا رہی ہے۔ البتہ قرآن پر غور و فکر میں مشغول لوگ تو گویا اس دنیا سے سدھار
ہی گئے!
خدا کے
اس فرمان سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ ’’تدبر‘‘ ایسی عبادت آیا صرف خواص سے
مطلوب ہے، یا ہر ہر ہر شخص اس کا مخاطَب ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا
آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَابِ (ص: 29)
ایک بابرکت کتاب جسے ہم نے اتارا تیری طرف، تاکہ غور
کریں یہ اس کی آیات میں، اور نصیحت لیں اس سے عقلمند۔
ابن عطیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وظاهر هذه الآية يعطي أن التدبر من أسباب إنزال
القرآن
ظاہرِ آیت اس بات کا تقرر کرتا ہے کہ ’’تدبر‘‘ نزولِ قرآن
کے اسباب میں سے باقاعدہ ایک سبب ہے۔
شوکانی کہتے ہیں: آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
قرآن کو اصل میں اس لیے اتارا کہ لوگ اس کے معانی پر غور و فکر کریں، نہ کہ بغیر
کسی تدبر کے ہی اس کو پڑھتے چلے جائیں۔
شنقیطی کہتے ہیں: یہ بات کہ نزولِ قرآن کے مقاصد میں
سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس میں تدبر کریں، متعدد آیات سے ثابت ہے۔ کہیں تدبر
پر زور دیا جاتا ہے تو کہیں تدبر نہ کرنے والوں کو سرزنش کی جاتی ہے:
أَفَلا
يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد:
24)
تو کیا یہ قرآن پر غور نہیں
کرتے؟ یا دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں؟
أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ
عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا
(النساء: 82)
تو کیا قرآن پر غور نہیں کرتے؟
اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔
أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا
لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الأَوَّلِينَ
(المؤمنون: 68)
کیا انہوں نے بات پر غور ہی
نہیں کیا۔ یا ان کے پاس وہ چیز آگئی ہے جو ان کے اسلاف کے پاس نہیں آئی تھی؟
سعدی کہتے ہیں: اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تدبر کرنے
کی قرآن مجید کے اندر کس قدر تاکید ہے۔ اور یہ کہ تدبر افضل ترین اعمال میں سے ایک
ہے۔ نیز وہ تلاوت جس میں تدبر کیا
گیا ہو اس تلاوت سے افضل ہے جو تیز تیز نمٹا دی گئی اور اس سے کچھ خاص مقصد حاصل
نہ ہوا۔
سنت سے،
نیز ہمارے حالیہ معمولات کی مناسبت سے، اس نیکی پر عمل کی ایک صورت یہ تجویز کی جا
سکتی ہے کہ:
v مساجد میں دوست اصحاب حلقوں کی صورت میں اکٹھے ہوں۔
اور آپس میں کچھ آیاتِ قرآنی کا دور کریں۔ یعنی ان کی تلاوت بھی اور ان کے معانی و
مفہومات کا تذکرہ بھی۔ خصوصاً ان کو اپنی زندگی اور زمانے سے ربط دیتے ہوئے۔ کیونکہ
تدبر میں یہ بات خصوصی طور شامل ہے۔ یہ حلقے اصحابِ علم کے ساتھ منعقد کیے جائیں؛
اور انہی سے اصل استفادہ ہونا چاہئے۔ چاہے کچھ ہی آیات ہوں، معانی میں گہرا جانا
اور ان کو احساس و وجدان کے ساتھ جوڑنا یہاں اصل ترجیح ہونی چاہئے نہ کہ ’مقررہ
وقت میں سپارے کا بیان مکمل کرنا‘۔
v اس کے بعد... فرد اپنی خلوت میں بھی پھر انہی آیات کو
پڑھے اور بار بار ان پر غور کرے۔ بلکہ – جیساکہ بعض اہل علم نے کہا – اپنے آپ کو ان آیات پر پیش کرے اور ان کے معانی
میں ڈوبنے کی کوشش کرے۔