ماہِ صیام اور جہاد
بالقرآن
جعفر شیخ ادریس /
عبد اللہ آدم
اللہ رب العالمین نے قرآن کریم کو
رمضان المبارک کے مہینے میں نازل فرمایا۔اس حکمت بھری کتاب میں لوگوں کے لیے
ہدایت، کھلی نشانیاں ، اور حق و باطل میں
فرق کرنے کا سامان ہے۔
یہ قرآن کریم ، ایک مسلسل جاری رہنے والے جہاد کبیرکی بنیاد
ہے۔ یہ ((جہاد بالکلمہ)) یعنی اللہ کے کلام
کے ذریعے جہاد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل
ایمان کو کفار کے ساتھ قرآن کے ذریعے جہاد کبیر کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت وہ مکہ
میں ظلم وتشدد برداشت کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تلوار سے جہاد کرنے سے منع
کرر کھا تھا۔ حکم تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکےرہیں
اور نماز قائم کریں۔ ایسے وقت میں آیت نازل ہوتی ہے: ((فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ
وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا)) ترجمہ: "پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو
لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو" (الفرقان:52)۔ اب اس آیت مبارکہ میں دو انتہائی اہم باتوں کا حکم
دیا گیا ہے، لازم ہے کہ ہم انکو نہ صرف سمجھیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوں:
پہلی بات تو یہ کہ کفار کی اطاعت نہیں کرنی۔ایمان سے لیکر
عبادات اور اخلاق سے دعوت تک کسی بھی ایسے معاملے میں ان کی اطاعت ہرگز نہیں کرنی
جو اللہ کے نازل کردہ دین کے خلاف ہو، ایسا ہر حکم جوتے کی نوک پر رکھا جائے۔
دوسری بات یہ کہ صرف ان کے احکام نہ ماننے کے اس "بائیکاٹ
"تک محدود نہ رہا جائے، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کرکفار کے ساتھ قرآن کے ذریعے
جہاد کبیر کیا جائے۔ "جہاد کبیر" میں ہر طرح کی جدوجہد شامل ہے، اور ہم
جو یہاں جہاد بالقرآن کی بات کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ تلوار
کے ساتھ جہاد کی نفی کی جا رہی ہے ۔ کیونکہ اسلام اور کفر کا عظیم معرکہ بدر،جو
یوم الفرقان کے دن ہوا ، اسی رمضان کے مہینے میں برپا ہوا۔ البتہ ہم جس بات پر زور
دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جب جہاد بالسیف بعض وجوہات کی بنا پر کچھ عرصے کے لیے رکا
ہوا ہو تویہ "جہاد بالکلمہ" یعنی اللہ کے کلمات کے ذریعے جہاد، مسلسل
جاری رہنا ہے ۔یہ بڑا پر مشقت عمل ہےاور اس سے فرار ممکن نہیں،معرکے کے دوران بھی اور بعد میں بھی ہر دور میں لازم ہے۔جہاد
کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے کیونکہ اللہ کا کلمہ اس کے سوا کسی طرح بلند نہیں
ہو سکتا۔
اس نشست میں میں اپنے روزہ دار بھائیوں کو جہاد بالقرآن کے
متعلق کچھ امور کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔
پہلی چیز جو میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ : اس شخص کو دعوت
دوں جو قرآن میں غور و فکر کے قابل ہے اور اس مہینے میں قرآن تلاوت کرتا ہے۔ ایسے
بھائی کو دعوت فکر ہے کہ وہ ایسی آیات پر
توجہ کرےجن میں وہ کفار اور منافقین کے نت نئے شبہات اور گمراہ لوگوں کے فاسد
افکار کا توڑ پاتا ہے۔ جب وہ دیکھےکہ فلاں فلاں آیات میں ان کی زہر بھری باتوں کا
تریاق ہے اور طرح طرح سے مزین کردہ باطل
کا پول کھولا گیا ہےتوایسا شخص ان آیات کو نوٹ کر لے ۔اس کے بعد ان دلائل سےبھی مسلح ہو اور علماء کی سابقہ کوششوں سے استفادہ
بھی کرے۔۔ ۔اورپھر ان گمراہوں کا سامنا کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے! اپنا میدان دیکھے،اگروہ لکھاری ہے تو لکھے،
خطیب ہے تو خطابت کو استعمال میں لائے اور گفتگو کا ڈھنگ آتا ہے تو بات کرے۔۔۔اور
اگر اللہ کے فضل و کرم سے وہ ان تمام صلاحیتوں سے مالا مال ہے تو جس طرح بھی ممکن
ہو سکے ہر میدان میں اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے ،اور نور خدا کو بجھانے کی
کوششیں کرنے والوں کے قلع قمع کے لیے تمام وسائل
استعمال میں لائے۔ اس سلسلے میں
شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جدید وسائل کو استعمال کرنے کی جتنی بھی توجی
اور کوشش کی جائے کم ہے۔اس کا فائدہ یہ ہو
گا کہ اگر وہ اپنے رد میں کی گئی کسی بات سے واقف نہیں ہو سکاتو جو بھی کوئی جانتا ہو گا وہ اسے آپ
تک پہنچا دے گا!
دوسری بات یہ ہےکہ جو اوپر کے پہلے درجے کی صلاحیت اور
استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لیے جہاد بالقرآن کے اور بہت سے طریقے موجود ہیں۔ مثلا
مغربی ممالک میں بعض تنظیمیں اور ادارے
قرآن کریم کے تراجم تقسیم کرنے کی مہمات میں آپ کی مدد چاہتے ہیں ۔ اگر کوئی بھی
بھائی اس قابل ہے تو وہ بلا تاخیر اس میں اپنا حصہ ڈالے، اور اگر یہ اس کے بس میں
نہیں تو اس کام کی استطاعت رکھنے والوں کو
ترغیب ضرور دے۔
ایسی مہمات مغربی ممالک کے علاوہ مثلا چین اور جاپان یا افریقہ اور ہند کے
علاقوں یا اللہ کی وسیع زمین کے ایسے علاقوں کے لیے بھی قابل تقلید نمونہ بن سکتی
جہاں لوگ اللہ کے قرآن کو براہ راست اس کی اصل زبان عربی میں سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔
یہ ایک بڑا عمل ہے کیونکہ ثقافتی جنگ میں اہل مغرب کی طرف
سے ہر ممکن طریقے سے ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے دلوں پر قبضہ جمانے کی کوششیں
عروج پر ہیں۔ مسلمان عقیدے اور نظریے سے لیکر عملی زندگی تک میں ان کی نام نہاد
"اقدار" سےمتاثر ہو رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف مسلمان بھی مغرب اور دیگر خطوں میں خاصے گہرائی
سے اثر انداز ہو رہے ہیں جس میں ان کا محوراور بنیاد ان کا دین ہے۔اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ ان میں
سے بہت سے لوگ جب حق کو پا لیتے ہیں تو تمام تر پراپیگنڈہ کی پروا کیے بغیر اس پر
ایمان لے آتے ہیں اور نماز روزہ اور تزکیہ نفس کے درجات طے کرنے لگتے
ہیں۔چنانچہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اگر وہ
اس سے پہلے اس جنگ میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکا تو اب پیچھے نہ رہے، اوراگر وہ
اللہ کے فضل سے پہلے ہی اس جنگ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے
تو ماہ رمضان میں اپنی محنت اور کوشش اور بھی تیز تر کر دے۔
کوئی بھی سچا مسلمان اس ثقافتی جنگ میں خاموش تماشائی بن کر
نہیں رہ سکتا جو اس وقت اس اردگرد مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان جاری ہے،
اس کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ دشمن صرف باطل کی نشر و
اشاعت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خود اسلام کی تعلیمات پر حملے کر کے انہیں مسخ کرنےکی کوششوں میں مصروف ہے،اوراس کے اثرات ہم اپنے اور ان کے
ہاں کافی لوگوں پر دیکھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک رکن کانگریس کی کتاب((((Killing Misunderstandingاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے نام
انتساب کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں وہ کہتا ہےکہ وہ واشنگٹن میں اقتدارکی
غلام گردشوں میں جمہوری حکومت کے ایک انگریز عیسائی گورنرکے طور پر پچیس سال
پہلےقبل داخل ہوا۔اس نے لکھا ہے کہ
:"اس وقت میں سمجھتا تھا کہ اسلام تشدد پسندی کا دین ہے اور اپنے پیروکاروں
کے علاوہ سب کو ختم کر دینے کا درس دیتا ہے۔ قرآن اور اسلام شیطانی چیزیں ہیں اور
یہ بالکل اس کمیونزم کی طرح الحاد کی طرف
راہنمائی کرتا ہے جس کو شکست سے دوچار کرنا امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد
تھا۔ "
اس وقت کفار مسلمانوں سے صرف یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنے دین
پر عمل نہ کریں ،اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کا قتل عام
بھی کرتے پھریں تو بھی مسلمان اپنے دفاع میں کچھ نہ کریں ، اور اگر وہ ایسا کریں
تو وہ دہشت گرد اور مجرم ہیں!! بلکہ ان کفار نے تو جہاد اور دہشت گردی اور جہاد کو
ایک ہی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے اور ان میں بہت سے تو دہشت گردوں کو جہادی ہی کہہ
کر پکارتے نظر آتے ہیں۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ
مسلمان زبان تک سے بھی اپنے دین کا دفاع اور کفار کا رد نہ کریں، ورنہ وہ انتہا
پسند اور انسانیت میں درویاں پیدا کرنے والے اور پرامن بقائے باہمی کے بدترین دشمن
ہیں!! البتہ ہمارا دین ہمیں دشمنوں کے ساتھ امن اور ان کو باطل پر سمجھنے میں فرق
واضح کرتا ہے۔مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جو امن سے رہنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ
امن سے رہا جائے ، لیکن اسی کے ساتھ انہیں
دین کی تبلیغ کرنے کو بھی کہا گیا ہے اور احسن طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا حکم
ہے۔ ان دونوں چیزوں میں قطعا کوئی تضاد
نہیں ہے کیونکہدین کے معاملے میں
مداہنت اختیار کر لینے اورپر امن رہنے میں بہت فرق ہے۔
آخر میں ایک بار پھر یاد دہانی کرواتے چلیں کہ یہ جہاد بالقرآن
بذات خود بڑی بڑی عبادات میں شامل ہے۔مضان کے مہینے میں دل تزکیے کی طرف مائل اور اخلاص سے بھرے ہوتے ہیں، اور بندے حق
تعالٰی سے محبت میں بھی بہت آگے نکلے ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس مہینے میں جہاد
بالقرآن سب سے زیادہ پر اثر بھی ہے۔
مومن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی عمل کرنے کو ان نتائج
کے سامنے آنے کے ساتھ مشروط نہیں رکھتے۔انہوں نے تو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا
ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں((وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي
نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ
عَلَى مَا يَفْعَلُونَ))ترجمہ: جن بُرے
نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں ان کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھا دیں یا اس سے
پہلے ہی تجھے اُٹھا لیں، بہرحال اِنہیں آنا ہماری ہی طرف ہے اور جو کچھ یہ کر رہے
ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔ (یونس:46)
عربی مضمون:
http://www.albayan.co.uk/article.aspx?id=1121