’مسلکی‘ و ’غیرمسلکی‘ اپروچ کے مابین پھنسے
اِس نوجوان پر ترس کیجئے
ایقاظ کے فائل سے
دین
سمجھنے کےلیے ہمارا برصغیر کا نوجوان:
Ð
یا تو ’مسلکوں‘ کے پاس جاتا ہے جو بالعموم
اِس کو اُس دنگل کا حصہ بناتے ہیں جو ڈیڑھ سو سال سے __ خاصی بے حسی کے ساتھ __ ہمارے اپنے ہی مابین لڑا جا رہا ہے
اور جوکہ ہماری توانائیوں کو نچوڑ نچوڑ کر ضائع کرواتا چلا آیا ہے... اور وہ بھی
اُس دور میں جب بدیسی استعمار ہمارے سروں پر مسلط تھا اور کفر کی نظریاتی و ثقافتی
یلغار ہمارے گھر کی رہی سہی بنیادیں ہلا رہی تھی؛ اور جس نے بالآخر اِس گھر کی
کوئی ایک بھی چیز سلامت نہیں رہنے دی ہے۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں، یہ دنگل اُسی جوش
و خروش اور اُسی جذبۂ حصولِ ثواب کے ساتھ جاری ہے!
Ð
اور
یا پھر... اِس نوجوان کا واسطہ اسلام کی اُس ’غیر مسلکی‘ تفسیر کے ساتھ پڑتا ہے جس
کی رُو سے دین کا ہر مسئلہ بلکہ دین کا ہر عقیدہ ’نکتۂ نظر‘ قسم کی چیز ہے۔ یعنی اس میں ہر کوئی ’رائے‘ رکھنے کا مجاز ہے؛ اور
’رائے‘ سے آگے کچھ نہیں! چنانچہ یہاں کے وہ دینی طبقے
جو ’مسالک‘ سے اب ایک طرح کی بیزاری ظاہر کرنے لگے ہیں، (اور یہ بھی اب کوئی کم
مقبول فیشن نہیں)، ان کے یہاں آپ کو ایک مخصوص طرزِ تعامل نظر آتا ہے۔ جس کی رُو
سے: دین کے ایک مسئلہ میں زیادہ سے زیادہ، ’رائے‘ رکھ لی جائے گی! دین میں جس درجہ
کا بھی اختلاف ہونے لگا ہو، ایسے ہر اختلاف کے ساتھ ’رواداری‘ اختیار کروائی جائے
گی...! ’منحرف‘ یا ’گمراہ‘ ایسے لفظ کا تو استعمال ہی اِس طبقہ کے نزدیک گویا حرام
ہے اور ’’بدعتی‘‘ ایسی ڈراؤنی اصطلاح کو تو اپنی اسلامی لغت سے کھرچ ہی دینا
چاہیے، بےلحاظ اِس سے کہ دین کا وہ کیا ناگزیر مفہوم ہے جس کو ادا کرنے کےلیے یہ
اصطلاح ائمۂ سنت کے ہاں مستعمل رہی، اور بے پروا اِس سے کہ کیسی ہی خطرناک
گمراہیاں اور کیسی ہی تباہ کن بدعات ہمارے اپنے زمانے میں کیوں نہ پائی جا رہی
ہوں! دین کا سب سے بڑا فرض گویا کوئی ہے تو وہ رواداری ہے؛ توحید کا درجہ
بھی شاید اس کے بعد آتا ہو!
Ð
اور
یا پھر... ہمارے اِس نوجوان کو ’جدت پسندوں‘ کے پاس جانا ہوتا ہے جوکہ ہے ہی یہاں
پر استشراق کا کاشت کیا ہوا پودا، اور جوکہ اِس کو اسلام کے اُس پرانے اصیل تصور
ہی سے برگشتہ کرا دینے کےلیے ہماری زمین میں بویا گیا ہے۔
چنانچہ.. جدت پسندوں کی روش
کا تو ذکر ہی کیا، اور جوکہ اِن میں خطرناک ترین ہے... پہلی دو انتہائیں بھی کچھ
کم تشویشناک نہیں:
£
ایک
انتہا پر یہ حال ہے کہ: کوئی شخص اگر آپ والے ’مسلک حقہ‘ پر نہیں تو وہ منحرف ہے
اور اُس پر اپنے اُس انحراف سے تائب ہو کر آپ والے ’مسلک حقہ‘ کی طرف لوٹ آنا فرض...!
نماز وہ جو ’آپ والی‘ مسجد میں ہو اور عبادت وہ جو ’آپ والے‘ طریقے پر ہو!...
(’مسلکی‘ اپروچ!)
£
تو
دوسری انتہا پر یہ حال ہے کہ: دین کے چھوٹے مسئلے ہوں یا بڑے، فروع ہوں اور چاہے
اصول، ’رائے‘ سے بڑھ کر کسی چیزکے متحمل نہیں! خاص اپنی تحقیق اور مطالعہ سے، ہر
شخص یہاں ’رائے‘ اختیار کرے گا! اور چونکہ ہر شخص کو ’رائے‘ رکھنی ہے لہٰذا دین کے
ہر ہر مسئلے اور ہر ہر شعبے میں ’اختلاف‘ کےلیے بھی آدمی کو غیرمعمولی طور پر دل
کھلا رکھنا ہے! (’غیر مسلکی‘ اپروچ!)
اِن دو انتہاؤں کے بیچ، راہِ
وسط کہاں ہے؟ اِس ’مسلکی‘ اپروچ اور اُس ’غیر مسلکی‘ اپروچ سے ہٹ کر، ایک
’’اصولی‘‘ طریقِ فکر کیا ہے؟ ... بڑی حد تک، جواب نہ دارد!
یہاں پر، ہمارے اِس نوجوان کے
سامنے سب راستے گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ دین کے اصول اور فروع کی بابت ایک مستند اور
متوازن فہم اس کو شاید ہی کہیں سے ملتا ہو۔ اِس کو یہ تو معلوم ہے کہ دین، اللہ کی
کتاب سے لینا ہے اور اُس کے رسولؐ کی سنت سے لینا ہے، (کہ اس کے بغیر آدمی نجات کا
امیدوار ہو ہی نہیں سکتا)، مگر کتاب اور سنت سے دین لینا کس طرح ہے؟ یعنی دین کو
کیونکر سمجھنا ہے، اور تاریخی طور پر اس کے فہم کے مستند ترین مراجع ہماری تاریخ
کے کونسے ادوار اور کونسے طبقے ہیں؟ اہل اتباع کے مابین یگانگت uniformity اور تنوع diversity برقرار رکھنے کےلیے درست
ترین پیمانے کیا ہیں اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں؟ دین کا فہم لینے کے اِس عمل میں
کہاں کہاں وہ مقامات ہیں جہاں فراخ دلی سے کام لینا ہے اور ’’اختلاف‘‘ و ’’تعددِ
مدارس‘‘ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ہے.. اور کہاں کہاں وہ مقامات ہیں جہاں پر
’’اختلاف‘‘ کو ناقابل برداشت اور باعثِ تفرقہ وباعثِ ہلاکت جاننا ہے اور جہاں
اختلاف ہونے پر ائمۂ سنت کے چہرے لال پیلے ہو جاتے رہے ہیں... یہ راہنمائی قریب
قریب مفقود ہے۔
ایسے میں، دین کی ایک متوازن
اور ٹھوس صورت سامنے آئے تو کیونکر؟
یہاں؛ ضروری ہوجاتا ہے کہ اہل
سنت کا وہ منہج سامنے لایا جائے جس میں اصول اور فروع ہردو بابت ایک نہایت متوازن
طریق کار دستیاب ہے۔ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ... کچھ علماء ’مسلکوں‘ سے اوپر اٹھ کر امت کو وہ
راہنمائی دیں جس میں بدعتی فرقوں اور گمراہ ٹولوں سے بیزاری کا تصور بھی واضح ہو
اور فروع میں ہونے والے اختلافات اور ان کی بنیاد پر قائم مسلکی تنوع کےلیے
رواداری کا تصور بھی عیاں ہو۔
(از: مقدمہ ’’فہمِ دین کا مصدر‘‘۔ دوسرا ایڈیشن)