عبادت
کی شرطیں
س: وہ کون کون سی باتیں ہیں جو عبادت میں ہونا ضروری
ہیں؟
ج: کُل تین باتیں ہیں:
1.
عمل میں وہ روح موجود ہو
جسے عبادت اور پرستش کہا جائے۔ اصطلاح میں اس کا نام ہے: صدقِ عزیمت۔
2.
نیت خالص ہو۔ اصطلاح میں
اِس کا نام ہے: اخلاصِ نیت۔
3.
وہ عمل شرع کی موافقت میں
ہو۔ یعنی اُس انداز اور طریقے سے ہو جو خدا کے شایانِ شان ہے، اور جوکہ شرع کے
بتانے سے معلوم ہوگا۔ اصطلاح میں اس کا نام ہے: سنت۔ یا شرع۔
پہلی
بات کے بغیر ہم عمل کو عبادت ہی نہیں کہیں گے۔ یعنی یہ عبادت کے وجود میں آنے
کی شرط ہوئی۔
جبکہ
دوسری اور تیسری بات اس عبادت کے قبول ہونے کےلیے ضروری ہیں۔ یعنی یہ قبول ہونے
کی شرط ہوئیں۔
س: ’’عبادت کی روح‘‘ (صدقِ عزیمت) آپ کس چیز کو کہتے
ہیں؟
ج: یہ ہے معبود کی شان کا ادراک کرتے ہوئے
فقر کے پتلے میں ایک چاہت اور امنگ پیدا ہونا۔ معبود کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس کو
پانے کےلیے وجود میں ایک تڑپ اور ایک توجہ و
بےخودی پیدا ہو جانا۔ فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ
أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر: 15) ’’اے
انسانو! تم نرے حاجتمند ہو اللہ کے۔ اور اللہ سراسر غنی اور لائقِ حمد‘‘۔
س: اخلاصِ نیت کیا ہے؟
یہ کہ آدمی کا اپنے تمام ظاہری و باطنی اعمال اور
اقوال سے مطلوب و مقصود صرف خدا کا چہرہ پانا ہو۔ فرمایا: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا
لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ} [البينة: 5] ’’اور وہ نہیں مامور کیے گئے مگر اس بات کے کہ
پرستش کریں اللہ کی، تمام تر بندگی کو اس کےلیے خالص کرتے ہوئے، یکسو ہو کر‘‘۔{وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ
مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى - إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى} [الليل: 19 - 20] ’’کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔
وہ تو اپنے پروردگار اعلیٰ کا چہرہ پانے کی خاطر یہ کام کرتا ہے‘‘۔ {إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ
مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا} [الإنسان:
9] ’’ہم تو تمہیں کھلاتے ہیں خدا کی جستجو میں۔ نہ ہم تم
سے بدلہ چاہیں اور نہ شکریہ‘‘۔{مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ
كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ
نَصِيبٍ} [الشورى: 20] ’’جس کا مقصود ہو آخرت کی کھیتی، ہم اس کی کھیتی
میں خوب اضافہ کرتے ہیں۔ اور جس کا مقصد ہو دنیا کی کھیتی، ہم اس میں سے اسے کچھ
دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں‘‘۔ یہ اور اس طرح کی دیگر آیات۔
س: ’’شرع‘‘ کیا ہے، جس کے علاوہ
خدا کی بندگی کی کوئی صورت نہیں؟
ج: یہ
ہے حنیفیت۔ ملتِ ابراہیمؑ۔ فرمایا: {إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ} [آل عمران: 19] ’’دین
ہے اللہ کے ہاں صرف اسلام‘‘۔ {أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ
يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا} [آل عمران: 83] ’’ کیا یہ
(کافر) خدا کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ سب اہلِ آسمان و زمین
خوشی یا زبردستی سے خدا کے فرماں بردار ہیں۔ {وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ
سَفِهَ نَفْسَهُ} [البقرة: 130] ’’اور اس سے بڑا نادان کون ہو گا جو ملتِ ابراہیم سے منہ
موڑے‘‘۔ {وَمَنْ
يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ
الْخَاسِرِينَ} [آل عمران: 85] ’’ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی
اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں
نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔ {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا
لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ} [الشورى:
21] ’’کیا ان کے کوئی شریک ہیں جنہوں نے ان کےلیے ایسا
دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے منظوری نہیں دے رکھی‘‘۔ یہ اور اس طرح کی دیگر
آیات۔
(استفادہ از: ’’عقیدہ‘‘ پر حافظ حِکمی کا متن ’’أَعلامُ السُّنۃِ المنشورۃ‘‘)