عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَقُولُ:
«الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ
إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ» (صحیح مسلم رقم 233)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ کرتے
تھے:
پانچوں نمازیں، اور جمعہ تا جمعہ، اور رمضان تا رمضان، اس دوران ہونے والے
گناہوں سے کفارہ ہیں؛ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے دامن بچا رکھا ہو۔
******
انسان گناہ کا پتلا ہے؛
اور گناہ نفس کی آلودگی۔ بس یہ آلودگی ہے جو آدمی کے خدا کے ہاں قبول ہونے میں
مانع رہتی ہے۔ورنہ خدا انسان سے پیار کرتا ہے۔ خدا اِس کی سرشت سے واقف ہے اور اِس
پربےحدوحساب مہربان۔ وہ اپنے اس اصول کو تو پھر بھی نہیں توڑتا کہ اِس گند اور میل
کے ساتھ اِنسان اُس کی قربت سے محظوظ ہو۔ تاہم وہ اِس کے اپنے یہاں باریاب ہونے
کےلیے؛ اِسے کچھ تشریعات عطا کرتا ہے؛ جوکہ خالصتاً اُس کی بخشش اور مہربانی ہے۔ نفس
کی اِس گندگی سے، جس کا نام گناہ ہے، انسان
کے دھلنے کےلیے شریعتِ مطہرہ میں کئی ایک چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں خاص طور پر
قابل ذکر ہیں: استغفار۔ اور کفارات۔ اِس نشست میں ہم کفارات سے متعلق کچھ گفتگو
کریں گے۔
کفارہ، یعنی گناہ کو مٹا
ڈالنے والی چیز۔ غلطیوں کا ازالہ کرنے والی
شےء۔
انسان پر آنے والے مصائب
بھی یقیناً اس کی سیئات کا کفارہ بنتے ہیں۔ مگر کفارہ کی ایک زیادہ بہتر صورت کچھ
مخصوص نیک اعمال ہیں، جیساکہ حدیثِ بالا کے اندر مذکور ہوئے:
پانچوں نمازیں: شیخ
ابن عثیمینؒ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں: مثلاً ظہر کی نماز کے بعد آدمی سے کچھ
گناہ ہوئے۔ پھر جب عصر کی نماز کےلیے منادی ہوئی تو یہ اچھل کھڑا ہوا اور خدا کے
دربار میں پیش عبادتگزاروں کی صف میں جا کھڑا ہوا۔ خدا کو اِس کی یہ ادا ایسی پسند
آئی کہ اُس نے اِس کے وہ گناہ جو ظہر اور عصر کے درمیان ہوئے تھے، اِس کے نامۂ
اعمال سے دھو ڈالے۔ دیگر احادیث سے واضح ہے، گناہوں کا دھلنا وضوء کے اعضاء کے
دھلنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بلکہ وضوء کے پانی سے ہی وہ گناہ دھل کر کہیں
سے کہیں چلے جاتے ہیں؛ اور یہ شخص صاف ستھرا، گناہوں سے پاک، خدا کے آگے سجدہ ریز
ہوتا ہے۔ پھر عصر سے مغرب کے مابین جو گناہ ہوئے وہ اِس کے مغرب کی نماز کےلیے
اٹھنے کے طفیل دھو دیے گئے۔ پھر جو قصور ہوئے وہ عشاء کی نماز کے نتیجے میں دھل کر
ختم ہو گئے... علىٰ ھذا القیاس۔ ہر چند ساعت بعد اِس کا وجود گناہوں سے دھویا جاتا
ہے۔ جس سے معلوم ہوا، نماز انسان کو پاکیزگی دینے اور اس کا تزکیہ کرنے میں کیسا
خوبصورت اثر رکھتی ہے... اور یہ کہ عبادت کی یہ سب سعی دراصل نفس کی تطہیر اور افزودگی
ہے۔ یہ ہوئی کفارہ کی روزمرہ صورت۔
جمعہ تا جمعہ: یہ
کفارہ کی ہفتہ وار صورت ہے۔ نمازوں میں
کہیں کوئی کمزوی اور ناتوانی تھی اور کچھ
گناہ دھلنے سے رہ گئے تھے، تو ہفتہ میں اِس نفس کے اوپر ایک خصوصی عمل کیا جاتا ہے
اور وہ ہے جمعہ کی عبادت۔ یہ نفس پر چڑھا ہوا بہت سا میل کچیل دھو ڈالتی ہے۔ عام
نمازوں کےلیے سادہ وضوء، اور نمازِ جمعہ کےلیے باقاعدہ غسل ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے
حوالے سے بھی ایک خاص دلالت رکھتا ہے۔ جیسے آدمی عام اوقات میں تو صرف منہ ہاتھ
دھو کر ہی صاف ستھرا ہو جاتا ہے۔ لیکن کچھ دن بعد اُسے اپنا پوراجسم کو مانجھنا
ہوتا ہے۔ مسئلہ وہی: خدا کے ہاں قبول ہونے کےلیے پاکیزہ نفس ہونا؛ کیونکہ خدا کے
ہاں ناپاکیزہ قبول نہیں۔ چنانچہ پچھلے جمعہ کے بعد سے لے کر جو گناہ ہوئے تھے وہ
اِس جمعہ میں حاضر ہونے سے دھل گئے۔ یہ صفائی کی وہ سطح ہے جو روزانہ بنیاد پر
نہیں ہو پاتی۔
رمضان تا رمضان: یہ
کفارہ کا سالانہ انتظام ہے۔ کچھ ایسے مرکوز intensive اعمال جو سال میں خصوصی اہتمام کے ساتھ انجام
دیے جاتے ہیں۔ نفس کو پاکیزگی دلانے کی کچھ ایسی محنت جو روزانہ تو کیا ہفتہ میں
بھی نہیں ہو پاتی، سال میں ایک بار اس کےلیے آستینیں چڑھائی جاتی ہیں۔ پورا ایک
مہینہ لگا کر ایسی زبردست دھلائی کی جاتی ہے کہ سال بھر کی میل اتار پھینکی جاتی
ہے اور آدمی سال بھر کےلیے صاف ستھرا ہو جاتا ہے۔
خوب یاد رکھو! رمضان تا
رمضان گناہوں کا دھلنا تمہاری آخری امید ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد کوئی ایسی چیز نہیں
جس کی آس رکھی جائے۔ یہ وجہ ہے کہ حدیث میں آیا: رسول اللہﷺ نے منبر سے اترتے ہوئے
آمین کہا۔ پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبریلؑ آیا اور بولا: مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ وَلَمْ يُغفر لَهُ فَدَخَلَ
النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ قُلْ: آمِينَ فَقُلْتُ: آمِينَ ’’جس آدمی کو رمضان ملا، پھر بھی اس کے گناہ نہ
بخشے گئے اور وہ جہنم میں چلا گیا، ایسے آدمی کو خدا دور کرے، کہو آمین، تو میں نے
کہہ دیا آمین‘‘۔(شیخ
البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا، دیکھئے: التعلیقات الحِسان على صحیح ابن حبان
رقم 904)
احادیث میں جہاں بہت سی اشیاء
کو گناہوں کا کفارہ ٹھہرایا گیا ہے، صحیح مسلم کی اِس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام
نووی لکھتے ہیں:
یہ سوال
اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر وضوء نے گناہوں کا کفارہ کردیا ہے تو نماز کس چیز کا
کفارہ کرتی ہے؟ اور اگر نماز نے کفارہ کر دیا ہے تو جمعے کس چیز کا کفارہ؟ نیز رمضان تا رمضان کس بات کا کفارہ۔ اسی طرح احادیث میں
یہ بھی آتا ہے کہ عرفہ کا روزہ دو سال
کا کفارہ بنتا ہے، عاشوراء کا روزہ ایک سال کا کفار۔ کسی کا آمین کہنا فرشتوں کے
آمین کہنے کے ساتھ موافقت کرلے تو اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف؟
اس کا
جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ: ان میں سے ہر چیز کفارہ بننے کےلیے فِٹ ہے۔ اگر کوئی
گناہ رہ گیا تھا تو یہ اس کےلیے کفارہ بنے گی۔ اگر کوئی خوش قسمت ایسا ہوا کہ اس
کے دامن میں نہ کوئی صغیرہ گناہ باقی تھا اور نہ کوئی کبیرہ گناہ، تو اِس عمل کی
بدولت اس کےلیے حسنات لکھ دی جائیں گی اور اس کے درجات بڑھا دیے جائیں گے۔ اور اگر
کوئی کبیرہ یا کبائر پائیں جائیں تو امید کی جائے گی کہ کبائر کی پاداش میں بھی یہ
کچھ نہ کچھ کمی لے آنے کا موجب ہو۔ واللہ اعلم
(شرح
صحیح مسلم از نوویؒ ج 3 ص 113)
رمضان کی محنت میں کب یہ
خوبی آتی ہے کہ یہ سب گناہوں کی بخشش کا موجب ہو جائے۔ یہ شرط صحیحین میں بیان
ہوئی:
عَنۡ أَبَی هُرَيْرَةَ،
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ صَامَ
رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (متفق علیہ)
ابو
ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جو شخص
رمضان کے روزے رکھے ایمان اور اجر کی طلب کے ساتھ، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر
دیے جاتے ہیں۔
پھر صحیحین میں ہی ابو
ہریرہ سے یہ روایت بھی آتی ہے:
«مَنْ قَامَ رَمَضَانَ
إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
جو شخص
رمضان کا قیام کرے ایمان اور اجر کی طلب کے ساتھ، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر
دیے جاتے ہیں۔
غرض رمضان کا صیام اور
قیام... ایمان اور احتساب کے ساتھ۔
اِس حدیث کے تحت...
’’ایماناً‘‘ کا مطلب جو محدثین
نے بیان کیا یہ ہے کہ: آدمی اس پر پورا یقین اور وثوق رکھتا ہو۔ اِس کی فرضیت اور
حقانیت اس کے دل میں گھر کر گئی ہو۔ اِسے خدا کو پانے کا یقینی ذریعہ جانتا ہو۔
اور
’’احتساباً‘‘ کا مطلب: خدا کے ہاں اس کا شمار کرنا۔ اس پر خدا سے اجر پانے کی
جستجو کرنا؛ اور اس کو قبول کروانے کےلیے جو صبر و برداشت اور عزم و ہمت درکار ہو،
اس میں پورا اترنا۔
*****
جیساکہ حدیث سے واضح ہے:
یہ کفارات اس بندے کے حق میں ہے جو کبائر کا مرتکب نہیں ہے۔ ہاں کبائر ہوں تو اُن
سے خصوصی توبہ کر لینا ضروری ہوتا ہے۔