اگر
نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی؟؟
ذیشان وڑائچ
لادینوں اور
ملحدوں کی طرف سے اکثر یہ سوال آتا ہے کہ اگر نماز فحش اور منکر سے روکتی تو پھر
مسجد میں امامت کرنے والے نے یہ گناہ کیوں
کیا اور کیوں ان سے ایسی منکر اور فحش حرکت سرزد ہوئی۔
جواب:
اس
بارے میں پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ "روکنے" سے کیا مراد ہے۔ عربی میں
لفظ آیا ہے "تنھی" جس کا سادہ سا ترجمہ روکنا ہی ہے۔ لیکن عربی اور اردو
دونوں زبانوں میں روکنے کے وہ معنے لازمی نہیں ہیں جو کہ ملحد اخذ کرتے ہیں۔
"تنھی" کے لفظ کا مصدر "نھی" ہے اور اس لفظ کا ضد عربی میں
"امر" آتا ہے۔ کلام پاک میں ہمیں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم
دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے
روکیں۔ اب یہاں پر روکنے سے مراد یہ تو نہیں ہے کہ ہم اس بات کے مکلف ہوں کہ کوئی
دوسرا برائی کرے ہی نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی طور پر ہم اپنے قول و
عمل سے یہ کوشش کریں کی دوسرے برائی سے بچ جائیں۔ اور اجتماعی طور پر ایسا نظام
قائم کریں جہاں پر اچھائی کرنا آسان ہو اور برائی کرنا مشکل ہو۔ ایسی کوشش کے
نتیجے میں برائیاں کم ضرور ہوں گی، لیکن برائیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا۔
اس
قسم کے اعتراض میں ملحد یہ سمجھتا ہے کہ "تنھی" یعنی روکنے کا مطلب گویا
کہ ایک بٹن ہے جس کو دباتے ہی ایک بندہ فحش اور منکر کے تمام داعیوں اور اکساوے سے
بچ جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہی نہ ہوتی اور نہ ہی
قرآن کا مقصود یہ ہے۔
نماز
ایک فرد کے اندر برائیوں کے خلاف مزاحمت کو طاقتور کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے
ایک با اثر وعظ ایک فرد کے اندر برائی کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے اور نیکی کا
جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی مشینی بٹن کی طرح سے وہ فرد
برائی سے بالکل پاک ہوجائے۔
نماز
کا برائی سے روکنا ایسی کوئی کراماتی چیز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نماز
پڑھتے ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ بندہ زبردستی فحش اور منکر سے روک دیا جاتا ہے تو یہ
اسلام کی بنیادوں سے ہی متصادم ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے انسان کو دنیا میں خیر و شر
کا اختیار دیا گیا ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے کہ نماز پڑھنے سے وہ اختیار ختم ہوجاتا
ہو۔
نماز
کا برائیوں سے روکنا بالکل سامنے کی چیز ہے اور اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔
ایک شخص جب خدا کے سامنے روزانہ پانچ وقت جھکتا ہے اور اس کا جھکنا حقیقی ہے اور
وہ پوری رغبت سے جھکتا ہے تو کیا اسی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کا ضمیر اس کو
ملامت نہیں کرے گا؟ یہ تو بالکل ایک نفسیاتی چیز ہے جس کے لئے دلیل پوچھنے کی بھی
ضرورت نہیں۔
ایک
اور چیز واضح ہونی چاہئے کہ نماز کا اثر ہونے کے لئے نماز کا حقیقی معنوں میں نماز
ہونا بھی ضروری ہے۔ ویسے تو قرآن پاک کے مطابق منافق بھی نماز پڑھتے تھے تو کیا
ملحدین کے نزدیک منافق کی نماز بھی انہیں برائی اور فحش سے روکتی ہے؟ ظاہر بات ہے
کہ اگر روکتی تو وہ منافق نہیں ہوتے۔ تو نماز جسم کو مخصوص انداز میں ہلانے کا نام
نہیں ہے، بلکہ نماز کا اثر ہونے کے لئے نماز کا نماز ہونا بھی ضروری ہے۔
اس
طرح کے سوالات کے ساتھ ملحدین یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ دراصل زیادہ فحش اور منکر
نمازی ہی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ان کے ہاں دلیل کسی ایک اخبار میں آنے والا کوئی
مشکوک واقعہ ہوتا ہے جو کہ کبھی کبھی بعد میں غلط بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ گویا کہ ان
کے نزدیک جیسے ہی کوئی بندہ نماز پڑھنے لگتا ہے تو اس کے اندر معاشرے کی تمام
برائیاں سمٹ کر آنے لگتی ہیں۔ اس کے لئے ان کے پاس دلیل کے بجائے اپنی ناروا
خواہشات ہوتی ہیں۔ مسلمان معاشرہ آج بھی نمازی سے زیادہ نیکیوں کی توقع رکھتا ہے۔
اسی لئے جب نمازی سے کوئی فحش حرکت سرزد ہوتی ہے تو اسے زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ اور
جب بے نمازی ایسی ہی حرکت کرتا ہے تو اس کو غیر متوقع نہیں سمجھا جاتا۔ معاشرے کا
یہ رویہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ نمازی آج بھی بہتر ہے اور اگر نہ ہوتا تو نمازی
کی غلط حرکت معاشرے کو اس طرح نہ ہلا ڈالتی۔ اس طرح کے اعتراض کرنے والے وہ لوگ
ہوتے ہیں جو ایک مولوی کی غلط حرکت پر اسطرح کا واویلا کرتے ہیں جیسے معاشرے میں
اس سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن جب پتہ چلتا ہے کہ وہ حرکت دراصل ایک نائی نے
کی تھی تو اس واقعے کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔
اگر
کوئی یہ دعوی کرے کہ نماز پڑھنے والے دوسرے کے برابر یا اس سے زیادہ برائی کے مرتکب
ہوتے ہیں تو اس کے لئے اخبار میں آنے والے کسی ایک واقعے کے بجائے باقاعدہ اعداد و
شمار ہونے چاہئیں جو کہ ان کے پاس کبھی نہیں ہوتے۔