نبیﷺ
کے بعد
1
(مطالعہ تاریخِ اسلام... چوتھی مجلس)
مرتدین کا محاذ
کہا جاتا ہے: ارتداد کے دن ابوبکرؓ... سقیفہ کے دن عمرؓ... اور خلقِ قرآن کے دن احمدؒ... اگر کھڑے نہ ہوتے
تو شاید یہ اسلام آج ہم تک نہ پہنچا
ہوتا۔
امت کے حق میں ارتداد سے بڑھ کر کوئی فتنہ اور آفت نہیں؛ اور اس کے سدباب
سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔ امت کی تاریخ کا پہلا فتنہ ’’ارتداد‘‘ ہی کا فتنہ
تھا؛ جسے ابو بکر نے آہنی ہاتھ سے کچلا؛ اور اس سے بڑھ کر کسی محاذ کو ترجیح نہ
دی۔
اس سے پہلے ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری
سالوں کے دوران اسلام نے جزیرۂ عرب کے اندر طوفانی پیش قدمی کی تھی؛ لہٰذا عربوں
کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جن پر قُلْ لَمْ
تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي
قُلُوبِكُمْ والی
بات صادق آتی ہو۔ عہدِ نبوی میں اتنی تیز توسیع کیوں ہوئی؟ اور یہ انتظار
کیوں نہ کیا گیا کہ ایک ایک قبیلے کو ایمان کی محنت پوری کروا لی جائے تو پھر آگے
بڑھا جائے؟ یعنی اتنے وسیع خطے (32 لاکھ
مربع کلومیٹر؛ پاکستان سے چار گنا رقبہ)
میں ایسی برق رفتار توسیع کا خطرہ مول نہ لیا جائے جہاں لوگ ابھی اِس ناپختہ حال
پر ہوں کہ کسی ایک ہی بڑے جھٹکے کے نتیجے میں
معاملہ کہیں سے کہیں جاپہنچے؛ یہاں تک کہ پورے کا پورا جزیرۂ عرب ارتداد
ہی کی نذر ہو جائے!؟ اس مسئلہ پر ہم اپنی پچھلی ایک نشست میں روشنی ڈال آئے ہیں؛
اور وہاں یہ نہایت اہم مبحث واضح کر آئے ہیں کہ:
اسلامی عمل میں ’’پیش قدمی‘‘ درحقیقت ’’بنیادی
جمعیت‘‘ کی استعداد کو سامنے رکھ کر کی
جاتی ہےنہ کہ معاشرے کے عام لوگوں کی حالت کو سامنے رکھ کر۔ جہاں آپ کا ایک معقول
اندازہ reasonable assessment ہوا
کہ معاملہ ان شاءاللہ ’’بنیادی جمعیت‘‘ کے سنبھال لینے کا ہے، وہاں آپ عامۃ الناس
کی صورتحال کی کوئی پروا کیے بغیر اقدام کرتے چلے جاتے ہیں چاہے بظاہر معاملہ کتنا
ہی ناہموار نظر آئے۔ ایک ایک فرد کو مسلمان بنانا اور اس کے بعد آگے بڑھنا، یا
اکثریت کو تربیت دینا اور پھر کوئی پیش قدمی کرنا، جوکہ ہمیں اپنے حالیہ تبلیغی
عمل کی ترجیح دکھائی دیتی ہے، درحقیقت کوئی منہج نہیں ہے۔ عامۃ الناس کو ’’تربیتی
عمل‘‘ سے گزارنا ایک دھارے میں لا کر ہی ممکن ہے؛ لہٰذا اصل فکر ایک ’’بنیادی
جمعیت‘‘ کو کھڑا کرنے اور اس کے ذریعے ایک ’’دھارا‘‘ تشکیل دینے کےلیے کی جاتی ہے۔
چنانچہ اب... رسول اللہﷺ کے دنیا سے رحلت فرماتے ہی...
’’بنیادی جمعیت‘‘ کے اپنی وہ استعداد دکھانے کا وقت تھا۔ یہ ثابت کرنے کا وقت تھا
کہ رسول اللہﷺ نے جس امید پر اِس حیرت انگیز رفتار سے اسلام کی توسیع فرمائی تھی،
وہ ایک نہایت قابلِ اعتماد جمعیت تھی، اور اس کے قائدﷺ کا اندازہ و منصوبہ بندی اس
کے بارے میں سو فیصد صحیح تھی؛ اور یہ کہ وہ مٹھی بھر جماعت بُری سے بُری اور
خطرناک سے خطرناک صورتحال میں بھی جزیرۂ عرب کا پانسہ اسلام کے حق میں پلٹ سکتی
ہے۔ نہ اس کے پاس حوصلے کی کمی، نہ دلیری کی، نہ سمجھ بوجھ اور فراست کی، اور نہ
قیادت کی۔ بلاشبہ عرب کی رہی سہی جاہلیت نے پورا زور مارا اور پیغمبر اسلام کی
رحلت ایسے عظیم سانحہ سے آخری حد تک فائدہ اٹھانے کی ٹھانی، یہاں تک کہ وہ صحابہؓ
کے مقابلے میں بڑی دلیری سے لڑے اور صحابہ کی تعداد سے بڑھ کر فوجیں بھی لائے؛ مگر
اِدھر اللہ کے فضل سے جو ایک منصوبہ بند عمل تھا وہ ایسے تمام بحرانوں کے ساتھ
پورا اترنے کی کامل استعداد رکھتا تھا۔ جزیرۂ عرب کے مقابلے پر بےشک یہ ایک چھوٹی
سی جماعت تھی؛ اتنی دور دور تک فتوحات ہوجانے کے بعد بھی جزیرۂ عرب کے مقابلے پر
یہ ’’بنیادی جمعیت‘‘ بہت تھوڑی تھی؛ لیکن قوت کے وہ پورے عوامل اپنے اندر رکھتی
تھی جو اِسے مٹھی بھر ہوتے ہوئے بڑے بڑے لشکروں پر برتری دلاتے ہیں: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً
كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ۔
چنانچہ جزیرۂ عرب پر ازسرنو اسلام کا پرچم لہرانے کا
یہ شرف رسول اللہﷺ کے پہلے جانشین ابو بکر بن أبی قحافہ کو ملا۔ کئی مہینوں کی
جان لیوا جنگوں کے بعد جا کر ملکِ عرب اسلام کے زیرنگیں آیا۔
مرتدین و مانعینِ زکات کے ساتھ قتال میں اِس جماعتِ
مسلمہ پر کیسے کیسے لرزہ خیز حالات گزرے، یہ شاید کسی کے تصور کرنے کا نہ ہو۔ قبائل
کے وفود اپنی اپنی شرطوں پر ابوبکر کے ساتھ مذاکرات کرنے کےلیے مدینہ آئے۔ عمر
ایسی زورآور شخصیت کے مالک اصحابؓ بھی ابتداءً اس پالیسی کے حق میں تھے کہ ان میں
سے بعض کو وقتی طور پر کچھ چھوٹ دی جائے۔ مگر ابوبکر ان کی کوئی ایک بھی شرط
ماننے پر تیار نہ تھے۔ یعنی’مذاکرات‘ ناکام۔ آپ کا قول مشہور ہے: بخدا زکات کی
ایک رسی بھی جو یہ رسول اللہﷺ کو ادا کرتے تھے اگر مجھے ادا نہیں کریں گے تو میں
ان سے جنگ کروں گا خواہ مجھے اکیلے کیوں نہ لڑنا پڑے۔ وفود واپس ہوئے اور اپنےاپنے
لوگوں کو بتایا کہ جیش اسامہ کے روانہ ہو جانے کے باعث مدینہ خالی ہے؛ یعنی چڑھائی
کا موقع ہے۔ روایات میں آتا ہے اُس رات ابوبکر نے کہا: یہ پوری سرزمین کفر کی راہ
چل پڑی ہے۔ ان کے وفود ہماری حالت دیکھ گئے ہیں کہ ہمارے پاس لڑنے والے کم ہیں۔
بعید نہیں رات حملہ ہو جائے یا صبح۔ مدینہ آنے والے جتنے بڑے بڑے روٹ تھے ان پر بزرگ
صحابہؓ میں سے ایک ایک کو نگران مقرر فرمایا۔ کہیں علی بن ابی طالب تو کہیں زبیر
بن العوام تو کہیں طلحہ بن عبید اللہ تو کہیں سعد بن ابی وقاص تو کہیں
عبدالرحمن بن عوف تو کہیں عبداللہ بن مسعود۔ لوگوں کو شب بیدار رہنےکی ہدایت کی۔
ابوبکر نے مانعینِ زکات کی شروط گو ٹھکرا دی تھیں
پھر بھی حکمت عملی کے طور پر آپ جیشِ اسامہؓ کے واپس آنے تک ٹائم لینا چاہ رہے
تھے۔ وفود کا آنا جانا اسی لیے جاری رکھا گیا۔ مگر منافقین بھی پوری طرح سرگرم تھے
اور پل پل کی خبر باہر پہنچا رہے تھے۔ جیش اسامہ کی روانگی کی تیسری ہی رات، یعنی
جیش کے مدینہ سے دور چلے جانے کی تسلی کرتے ہی، اردگرد کے منافقین نے شہر پر شبخون
کی کارروائی کر ڈالی۔ راستوں کی نگرانی پر مامور صحابہؓ نے ابوبکرؓ کو بروقت اطلاع پہنچائی۔ حملہ آوروں نے ہتھیار بند مسلمانوں کو بھاری
تعداد میں مسجد نبوی میں شب بیدار پایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اہل مسجد کو ساتھ لے کر
ان کا پیچھا کیا اور ان کی ایک تعداد کو کھیت کیا۔ مدینہ میں غذائے خوردنی کی بھی
شدید کمی ہوگئی تھی اور فاقوں تک نوبت آتی دکھائی دینے لگی۔ آخر چالیس دن گزرنے کے بعد، اور بعض روایات میں دو
مہینے بعد امید کی کچھ روشنی نمودار ہوئی۔ کیا دیکھتے ہیں، ایک ہی رات پہلے پہر صفوان
بن صفوانؓ بنی عمرو سے وصول ہونے والے اموال سے لدےپھندے اس راستے سے مدینہ داخل
ہوئے جہاں سعد بن ابی وقاصؓ کا پہرہ تھا۔ وسطِ شب زبرقان بن بدرؓ بنی عوف سے وصول
شدہ اموال اٹھائے عبدالرحمن بن عوف والے راستے سے مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
رات کے آخری پہر عدی بن حاتمؓ اپنی قوم (بنی طےء) کے وصول شدہ اموال کے ساتھ
عبداللہ بن مسعودؓ والے راستے سے مدینہ پہنچے۔ کچھ ہی دن بعد جیشِ اسامہؓ بھی
کامیاب و کامران لوٹا۔ ابوبکرؓ نے اسامہؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور
صحابہؓ کے بےانتہا اصرار کے باوجود خود لشکر لے کر مدینہ کے آس پاس کے ان قبائل پر
ذی حسیٰ کے مقام پر حملہ آور ہوئے جہاں سے منافقین شبخون مارنے مدینہ آئے تھے۔
یہاں تک کہ غطفان، سلیم اور ہوازن کے قبائل کو پوری کامیابی کے ساتھ زیر کر لیا
گیا۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں اتنے اموال مدینہ آئے کہ ضرورت سے وافر تھے۔ اس
دوران جیشِ اسامہ بھی سفر کی تھکن اتار چکا تھا۔ مدینہ کا اردگرد صاف ہو چکا تھا۔
تب خلیفۃ المسلمین ابو بکر بن ابی قحافہ نے جزیرۂ عرب بھر میں مرتدین کے ساتھ
قتال کےلیے 11 لشکر روانہ کیے:
1.
خالد بن الولید طلیحہ بن
خویلد اسدی (جھوٹےمدعیِ نبوت) کی طرف۔ کہ اس سے فارغ ہوں تو بطاح میں بنی تمیم کا
رخ کریں۔
2.
عکرمہ بن ابی جہل مسیلمہ
کذاب کی طرف۔ بنو حنیفہ سے قتال کےلیے۔ جن کی سرزمین یمامہ تھی۔
3.
شرحبیل بن حسنہ بھی،
یمامہ میں عکرمہ کی کمک کےلیے۔
4.
مہاجر بن ابی امیہ یمن
میں اسود عنسی کذاب کے خلاف قتال کےلیے۔ کہ اس سے فارغ ہوں تو حضرموت جائیں اور اس
کو اسلام کے زیرنگیں لائیں۔
5.
عمرو بن العاص کو شمال
(طرفِ شام) قبائلِ قضاعہ کی گوشمالی کےلیے۔
6.
خالد بن سعید بن العاص کو
شام کے سرحدی علاقوں کی طرف۔
7.
علاء بن الحضرمی کو بحرین
کی طرف۔
8.
حذیفہ بن محصن کو اہلِ
دَبا (عمان) کی طرف۔
9.
عرفجہ بن ہرثمہ کو قبائل
مہرہ (یمن) کی طرف۔ کہ وہاں سے یہ حذیفہ کے ساتھ جا ملیں۔
10.
سوید بن مقرن کو تہامہ
یمن کی طرف۔
11.
طریفہ بن حاجز کو بنی
سلیم اور ہوازن کی طرف۔
ان میں سب سے بڑے لشکر کی
تعداد چار ہزار تھی۔ یہ لشکر خالد بن الولیدؓ کو دیا
گیا۔ اس کو پہلے بنی طےء سے لڑنا تھا، پھر طلیحہ اسدی کے قبیلے بنی اسد سے۔ اور
پھر بنی تمیم سے۔ یہ سب بہت بڑے بڑے قبیلے تھے۔ خالدؓ کے لشکر میں عدی بن حاتم
طائیؓ تھے۔ یہ اپنے قبیلے طےء کو سمجھانےبجھانے میں کامیاب رہے۔ وہاں سے ایک ہزار
کا لشکر بھی لیا۔ اب یہ مل کر پانچ ہزار ہوئے۔ تب بنی اسد کو شکستِ فاش دی گئی۔
طلیحہ خود بھاگ کھڑا ہوا۔ بعدازاں یہ مسلمان بھی ہوگیا اور اسلامی فتوحات میں شریک
ہوا۔ اب بنی تمیم کی باری تھی جو ایک سخت جان قبیلہ تھا۔ مگر خالدؓ کا لشکر یہاں
بھی کامیاب رہا۔
اُدھر بنی حنیفہ کے محاذ
پر مسیلمہ کذاب ایک لاکھ کا لشکر جمع کر لایا۔ عکرمہؓ کا لشکر صرف تین ہزار پر مشتمل تھا۔ ان کی کمک
کےلیے بھیجا گیا شرحبیل کا لشکر بھی تین ہزار پر مشتمل تھا۔ ابوبکرؓ کی طرف سے
عکرمہؓ کو ہدایت تھی کہ کمک کا انتظار کیے
بغیر کارروائی نہ کریں۔ لیکن عکرمہ کارروائی کر بیٹھے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک
لاکھ کے لشکر نے ان تین ہزار کی ایک نہ چلنے دی اور مسلمانوں کا یہ لشکر بکھر کر
رہ گیا۔ ابوبکرؓ نے عکرمہؓ کو شدید سرزنش
کی اور ہدایت کی کہ اب مدینہ لوٹنے کی بجائے اپنا باقی ماندہ لشکر لے کر عمان اور
یمن کی جانب روانہ ہو جائیں اور وہاں حذیفہ بن محصنؓ اور عرفجہ بن ھرثمہؓ کو کمک
پہنچائیں۔ ادھر شرحبیلؓ کچھ دیر تو ابوبکرؓ کی جانب سے مدد کا انتظار کرتے رہے۔
آخر یہ بھی جلدی کر بیٹھے اور صرف تین ہزار کے لشکر سے مسیلمہ کی ایک لاکھ فوج پر
چڑھائی کر دی۔ نتیجتاً؛ اِن کا لشکر بھی
بکھر کر رہ گیا؛ جس سے مسیلمہ کے حوصلے اور بھی بلند ہوگئے۔
یمامہ: تاریخِ
اسلام کی ایک عظیم جنگ
اب جب خالدؓ نے اپنے حصے
کا سارا کام مکمل کر لیا، تو خلیفہ کی طرف سے حکم ہوا کہ مسیلمہ والے محاذ کا
معاملہ بھی یہی نمٹائیں۔ مدینہ میں جو کچھ صحابہؓ رہ گئے تھے یہ بھی خالد بن
الولید کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ شرحبیلؓ کا
لشکر بھی ساتھ ہو لیا۔ روانہ ہوئے تو پیچھے سے ابو بکرؓ نے مزید کچھ کمک اِدھر
اُدھر سے جمع کر کے روانہ کی۔ مل ملا کر یہ بارہ ہزار کا لشکر ہوا۔ اُدھر نبوت کی
ایک اور دعویدار (عورت) سجاح بنت حارث (جس کا تعلق بقول ابن کثیر بنی تغلب سے تھا)
ایک لاکھ کا لشکر لیے عراقی سرحدوں کی طرف سے اِدھر نمودار ہوئی۔ مسیلمہ نے اس سے
شادی رچا لی۔ جس کے بعد وہ مسیلمہ سے اپنی قوم کےلیے دو نمازیں ساقط کروانے کا مہر
لے کر اپنے علاقے کی طرف لوٹ گئی۔ مسیلمہ کی قوم (بنی حنیفہ) کے جذبات آسمان کوچھو
رہے تھے۔ دراصل عدنانی (ذریتِ ابراہیم) عربوں کی دو بڑی لڑیاں تھیں جن میں شدت کا
تعصب تھا۔ ایک قبائلِ ربیعہ جس میں سے بنی حنیفہ تھے۔ دوسرے قبائلِ مُضَر جن میں کنانہ
(رسول اللہﷺ کی قوم) آتی تھی۔ جوش اور
حمیت کا یہ حال تھا کہ سرعام کہا جا رہا تھا: ربیعہ کا جھوٹا بھی ہو تو وہ مُضَر
کے سچے کے مقابلے پر قبول ہے۔ خالدؓ نے جذبات سے بھرے ہوئے اِس عظیم لشکر سے نمٹنے
کےلیے کچھ خصوصی تدابیر اختیار کیں۔ انصار اور مہاجرین کے جھنڈے الگ الگ کیے تاکہ
ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش ہو۔ انصار کا پرچم ثابت بن قیسؓ کو دیا گیا اور
مہاجرین کا سالم مولی ابی حذیفہؓ کو۔ میمنہ پر زید بن خطابؓ (عمرؓ کے بھائی) کو
مقرر کیا اور میسرہ پر ابو حذیفہؓ کو اور
مقدمۃ الجیش پر شرحبیلؓ کو۔ گھمسان کا رن
پڑا۔ تین بار ایسا ہوا کہ افواجِ مسیلمہ مسلم افواج کو چیرتی ہوئی لشکرِ اسلام کے
عین پشت پر واقع خالدؓ کے خیمے تک آپہنچیں۔ مجاہدینِ صحابہؓ نے جانوں پر کھیل کر
ہر بار معرکے کو ایک نیا توازن دیا۔ یہاں؛ فدائیت کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ سب
کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی عام معرکہ نہیں۔ زید بن خطابؓ نے قسم اٹھائی کہ ان کی
زبان تب تلک نہ کھلے گی جب تک فتح نہ ہوجائے یا پھر وہ شہید نہ ہو جائیں۔ یہ سن کر
صحابہؓ میں سے فدائیوں کی ایک تعداد زیدؓ کے ساتھ ہو لی۔ اِنہوں نے مسیلمہ کے
میسرہ پر ایسا زوردار حملہ کیا کہ اُس کے میسرہ کے کمانڈر کو موت کے گھاٹ اتار
ڈالا اور مرتدین کی افواج کو چیرتے چلے گئے۔ یہاں؛ زید بن خطابؓ نے جام شہادت نوش
کیا۔ ثابت بن قیسؓ نے انصار کو نصرتِ رسول اللہﷺ کے دن یاد کروائے اور لشکر میں
ایک نئی روح بھر دی۔ ثابتؓ کی ایک ٹانگ کٹ گئی مگر پرچم ان کے ہاتھ سے نہ گرا۔ ابوسعید
خدریؓ ان کو کہتے رہے: ثابت اب تم پر کوئی ملامت نہیں۔ چھوڑ دو۔ کہنے لگے رینگھ کر
بھی لبیک کہوں گا۔ آخر جامِ شہادت نوش کیا۔ ابوحذیفہؓ سورۃ البقرۃ کے حافظ تھے اور
ڈوب کر اس سورت کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہ منادی کرنے لگے: اے سورۃ البقرۃ کے
حافظو! یہاں؛ سورۃ البقرۃ کے جتنے عالم لشکر میں تھے سب نے لبیک کہی۔ اور یہ ایک
نئے جذبے کے ساتھ مرتدین پر حملہ آور ہوگئے۔ یہاں ابوحذیفہؓ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
ان تمام تر کارروائیوں کے باوجود جیشِ مسیلمہ کا جذبہ سرد نہ پڑ رہا تھا۔ ایک دستہ ہٹتا تو ایک اور دستہ مسلمانوں پر چڑھ
دوڑتا۔ وہ بار بار تازہ دم ہوتے اور یہ اپنی پوری استطاعت کے ساتھ مسلسل مصروفِ
جنگ۔ عمار بن یاسرؓ نے جو پورے قرآن کے حافظ تھے، نعرہ لگایا: قرآن کے حافظو آج
عمل دکھانے کا وقت ہے۔ لشکر کے حفاظ قرآن عمارؓ کے ساتھ ہو لیے اور ان کی ایک بڑی
تعداد کام آئی۔ خالد بن الولیدؓ نے لوگوں کو نبیﷺ کی یاد دلائی؛ جس سے ایمانی حمیت
اور بھی جاگ اٹھی۔آخر افواجِ مسیلمہ نے اپنے قلعوں کا رخ کیا۔ ان میں سب سے بڑے
اور مضبوط قلعہ کا نام حدیقہ تھا۔ مسلمانوں کی خواہش تھی یہ فی الفور اُن کو قلعوں
میں جا پکڑیں۔ مگر اتنی اونچی فصیلیں ان ارادوں میں حائل تھیں۔ یہاں؛ براء بن
مالکؓ آگے بڑھے۔ یہ، انس بن مالکؓ کے بھائی، رسول اللہﷺ کے وہ خادم تھے جن کی بابت
آپﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اگر اللہ پر قسم ڈال دیں تو اللہ
ان کی قسم کی لاج رکھ لے۔ خالد بن الولیدؓ کے کہنے پر یہ مسلسل لشکر کے حوصلے
بڑھاتے آرہے تھے۔ یہاں؛ یہ بولے: قلعہ لینا چاہتے ہو تو ایسے کرو: مجھے ایک ڈھال
کے اوپر بٹھا دو، ڈھال کو نیزوں کی انیوں پر رکھو، نیزوں کو سیدھا اوپر اٹھاؤ اور
یوں مجھے قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دو، باقی کام میرا، میں ان شاء اللہ تمہارے
لیے قلعے کا دروازہ کھول دوں گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ قلعہ میں؛ براءؓ پر مرتدین ہر
جانب سے ٹوٹ پڑے۔ ان کا جسم زخموں سے چھلنی ہوتا جا رہا تھا۔ (بعد میں گنے گئے تو
چوراسی سے اوپر زخم تھے)۔ پورا قلعہ حیران تھا ایک آدمی ان کے قابو نہیں آ رہا۔ ان
کو یقین ہو گیا کہ یہ مسلمان کوئی اور ہی مخلوق ہیں۔ لڑتے بھڑتے، براءؓ نے آخر
قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ اگلے ہی پل مسلم افواج قلعے میں تھیں۔ جنگ ایک بار پھر
زوروں پر چلی گئی، تاہم مسلمانوں کا پلہ واضح طور پر بھاری جا رہا تھا۔ یہاں وحشیؓ
نام کا ایک صحابی، جس کے ہاتھ سے کبھی سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب کا خون ہوا
تھا، گویا اپنے اُس گناہ کا کفارہ دینے کےلیے آگے بڑھا اور ایسا تاک کر نیزہ چلایا
کہ مسیلمہ کھیت ہو گیا۔ محض ایک لمحے کے فرق کے ساتھ ایک تلوار نے مسیلمہ کا سر
اڑا دیا۔ یہ ابو دجانہؓ کی تلوار تھی جوکہ دوسری طرف سے مسیلمہ کے سر پر آ پہنچے
تھے۔ اس جنگ میں اکیس ہزار مرتدین قتل ہوئے۔ بارہ سو صحابہؓ شہید ہوئے جن میں پانچ
سو قرآن کے حافظ تھے۔ یہ ایک ایسا نقصان تھا کہ
صحابہؓ کو قرآن ہی کی فکر ہوگئی۔
حضرت عمرؓ نے ابوبکرؓ کو قائل کرتے وقت یہی بنیاد اختیار کی کہ قرآن کے حفاظ جہاد
میں اس تیزی سے شہادتیں پا رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو خدا کے اِس آخری کلام کے ساتھ
بھی پچھلی کتابوں والا معاملہ ہو، جس پر کچھ پس و پیش کے بعد ابوبکرؓ نے زید بن
ثابتؓ کو تدوینِ قرآن کا حکم دیا۔ کتابی
صورت میں جمع شدہ قرآن کو کیا نام دیا جائے، اس پر بہت سی آراء آئیں۔ آخر عبد اللہ
بن مسعود کی رائے قبول کی گئی کہ اس کو ’’مصحف‘‘ کہا جائے۔
چوتھے لشکر (جیش مہاجر بن
ابی امیہؓ) کے یمن پہنچنے سے پہلے ہی اہل یمن کے کچھ لوگوں نے وہاں کے جھوٹے مدعیِ
نبوت اسود عنسی کا کام تمام کر دیا تھا۔ لیکن بغاوت عروج پر تھی۔ یہاں تک کہ یمن
میں رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ معلم معاذ بن جبل کو بھاگ کر حضرموت میں پناہ لینی
پڑی تھی۔ مرتدین کی قیادت قیس بن مکشوح کر رہا تھا۔ حضرموت میں پہلے سے موجود
مجاہدین کا ایک دستہ بھی طاہر بن ابی ہالہ کی سرکردگی میں مہاجر بن ابی امیہؓ کے
ساتھ شامل ہوا۔ مقامی مجاہدین کا ایک اور دستہ صنعاء سے اٹھ آیا۔ اس کی قیادت
فیروز دیلمی کر رہے تھے۔ یہ تین لشکر مل کر قیس بن مکشوح کے لشکرِ جرار پر حملہ
آور ہوئے اور ایک سخت جنگ کے بعد یہ مرتدین پر حاوی ہوگئے۔
پانچواں اور چھٹا لشکر (جیشِ
عمرو بن العاصؓ اور جیش خالد بن سعیدؓ) جو شامی سرحدوں کی طرف بھیجے گئے تھے کسی
لمبی چوڑی لڑائی کے بغیر کامیاب و کامران لوٹے۔ زیادہ قبائل نے ان لشکروں کا سن کر
ہی اطاعت قبول کر لی۔
ساتواں
لشکر (جیشِ علاء الحضرمیؓ) ایک ایسا لق و دق صحراء عبور کرکے بحرین پہنچا کہ سننے
والے یقین ہی نہ کریں۔ یہاں ہجر کے علاقہ میں مرتدین کی افواج جمع تھیں۔ یہاں کے
سب قبائل مرتد ہو چکے تھے، جن میں عبدالقیس کا قبیلہ پیش پیش تھا۔ صرف ایک چھوٹی
سی بستی ’’جواثی‘‘ نام کی بچی تھی جو مرتد نہ ہوئی تھی اور مرتدین نے اس بستی کا
محاصرہ کر رکھا تھا۔ اس دوران خالدؓ بن
الولید کے اقدام کے نتیجے میں بنی تمیم کے لوگ اسلام کی طرف واپس آ چکے تھے۔ یہاں
سے علاء بن الحضرمیؓ کی دعوت پر ایک ہزار مجاہدین کا دستہ قیس بن عاصم کی سرکردگی
میں علاءؓ کے ساتھ آ ملا۔ بنوحنیفہ سے ایک ہزار کا لشکر ثمامہ بن اثالؓ کی قیادت
میں آپہنچا۔ مرتدین کی قیادت نعمان بن المنذر کر رہا تھا۔ ایک مہینہ تک جنگ ہوتی
رہی۔ فریقین آخری دم تک لڑنے پر آمادہ تھے۔ دونوں فوجوں نے اپنے اپنے پڑاؤ کے گرد
خندقیں کھود لی تھیں۔ جنگ الجھ گئی اور کہیں ختم ہوتی دکھائی نہ دے رہی تھی۔ آخر
ایک ماہ بعد مرتدین کی افواج کو شراب کی یاد ستانے لگی۔ ایک رات یہ شرابیں پی کر
غل غپاڑہ کرنے لگے۔ علاء بن الحضرمیؓ نے جاسوسوں کے ذریعے معلوم کر لیا کہ ان کا
اندازہ صحیح ہے اور واقعی یہ حملہ کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ بس پھر کیا تھا راتوں
رات ایک طوفانی کارروائی کی گئی اور مرتدین لاشوں کے ڈھیر بنتے چلے گئے۔ پھر بھی
ایک بھاری تعداد یہاں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوئی۔ یہ لوگ دارِین نامی ایک جزیرہ
میں جا کر جمع ہوگئے۔ علاء بن الحضرمی اور جزیرہ دارِین کے درمیان سمندر پڑتا تھا
اور صحابہؓ کا لشکر کشتیاں وغیرہ اپنے پاس نہ رکھتا تھا۔
جبکہ اِس ساحل سے جزیرہ دارِین کا فاصلہ ایک دن اور ایک رات کا تھا۔ یہاں علاء بن
الحضرمی کے ہاتھ پر وہ مشہور کرامت ہوئی۔ علاءؓ نے گھٹنوں کے بل گر کر اللہ سے
گڑکڑا کر دعاء کی۔ آخر لشکر سے کہا: خشکی میں تم نے خدا کی نشانیاں دیکھ لیں اب
سمندر میں خدا کی نشانیاں دیکھو۔ اللہ کا نام لے کر سمندر پار کر جاؤ۔ تاریخ طبری
میں آتا ہے: پورا لشکر سمندر پر چلنے لگا۔ لشکر کی بڑی تعداد اونٹوں اور گھوڑوں پر
تھی۔ بہت سے پیدل تھے۔ یہ سب يا
أرحم الراحمين. يا كريم. يا حليم. يا أحد. يا صمد. يا حي. يا محييَ الموتى. يا حي
يا قيوم. لا إله إلا أنت يا ربنا کہتے ہوئے سمندر کی تہہ پر چلتے گئے۔ گویا ریت
پر ہلکاہلکا پانی تھا جس میں صرف اونٹوں کے سم بھیگتے تھے! پوری ایک فوج سطحِ سمندر
پر چلتی آ رہی ہے، یہ دیکھ کر مرتدین کے تو حواس گم ہو گئے۔ مسلمانوں نے جزیرہ میں
ان کو جا پکڑا۔ ان کی ایک بڑی تعداد قتل ہوئی اور مسلمان کامیاب و کامران مرتدین
کی کشتیوں میں بیٹھ کر واپس آئے۔
آٹھواں
لشکر حذیفہ بن محصنؓ کی سرکردگی میں عمان کی طرف بھیجا گیا جہاں ایک شخص لقیط بن
مالک ازدی نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا اور ایک بڑی خلقت اس کے ساتھ ہوگئی تھی
اور ان سب نے مل کر وہاں رسول اللہﷺ کے گورنروں جیفر اور عباد کو بھگا دیا تھا۔
یہاں کے مقامی مسلمان جو اِن دونوں کے گرد جمع تھے، سب کے سب لقیط کی بھاری افواج
کے آگے نہ ٹھہر سکے اورساحل سمندر کی طرف نقل مکانی کر گئے، جس کے نتیجے میں لقیط
پورے عمان پر غالب آگیا تھا۔
نویں لشکر کو جو عرفجہ بن
ھرثمہؓ کی قیادت میں یمن کے مہرہ قبائل کی طرف بھیجا گیا، حکم دیا گیا کہ دونوں
لشکر مل کر کارروائیاں کریں۔ کچھ ہی دیر میں عکرمہؓ بن ابی جہل بھی اپنے جیش کے
ساتھ ان دونوں لشکروں سے آ ملے۔ اِن سب نے عمان کا رخ کیا۔ اِنہوں نے ساحل سمندر
پر پناہ کش جیفر اور عباد اور ان کے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ پیغام رسانی کی؛ یہاں
تک یہ بھی جہاد کےلیے ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یوں یہ کل چار لشکر ایک ہو گئے۔
گھمسان کی جنگ ہوئی۔ مرتدین کی تعداد اتنی بھاری تھی کہ بڑے دنوں تک جنگ کا فیصلہ
نہ ہوا۔ جنگ پھنستی جا رہی تھی۔ تاآنکہ علاء بن الحضرمیؓ بحرین میں اپنی مہم مکمل
کر کے ابوبکرؓ کے حکم پر انہی مجاہدین کے ساتھ آ ملے۔ یہاں؛ مسلمانوں کو فتح ملی۔
لقیط قتل ہوا۔ عمان کے علاقے میں مارے جانے والے مرتدین کی تعداد دس ہزار تھی۔ آخر
رسول اللہﷺ کے انہی گورنروں جیفر اور عباد کو عمان کی حکومت واپس ملی۔
اس کے بعد اِن چار لشکروں
کے مجموعہ نے مہرہ قبائل کا رخ کیا، جوکہ ابتداءً نویں لشکر (عرفجہؓ) کی مہم تھی۔
یہاں مرتدین کے دو بڑے ٹولوں کے آپس میں جنگ ہو چکی تھی۔ ایک لشکر کا سربراہ شخریت
نام کا شخص تھا دوسرے کا مصبح۔ ابو بکرؓ کے نئے احکامات کی رُو سے اب اِس مجمتع
لشکر کی قیات عکرمہؓ کو سونپی گئی۔ عکرمہؓ نے مرتدین کی آپس کی لڑائی کا بہترین
استعمال کیا۔ ان میں کم تعداد والے شخریت کو مسلمانوں کی قوت سے خائف بھی کیا کہ پہلے تمہارا ہی نمبر
آیا چاہتا ہے اور ترغیب بھی دلائی کہ اگر یہ تائب ہو جائے تو مسلمان اس کے ساتھ مل
کر اس کے دشمن کا کام تمام کر دیں گے۔ آخر شخریت کو بات سمجھ آگئی۔ وہ اور اس کا
لشکر تائب ہوا۔ تب یہ سب مل کر مصبح کی افواج پر حملہ آور ہوئے۔ نہایت صبر آزما
معرکے ہوئے اور ایک کڑی جنگ کے بعد میدان مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، جس سے یمن کی یہ
سائڈ ازسرنو اسلام کے زیرنگیں آگئی۔
یہ سب لشکر اس کے بعد اپنی
اپنی مہمات سے فارغ ہو، صنعاء میں مہاجر بن ابی امیہ کو کمک دینے پہنچے۔ صنعاء کی
اِس مہم کا ذکر پیچھے ہو چکا۔ علاوہ ازیں یہ ابوبکرؓ کے دسویں لشکر (سوید بن
مقرنؓ) کی کمک کو پہنچے۔ تہامہ کے مرتدین عمان اور صنعاء وغیرہ میں مرتدین کے بڑے
بڑے لشکروں کا حال دیکھ چکے تھے۔ سوید بن مقرنؓ یہاں لڑے بغیر ہی کامیاب ہوئے، جس
کےنتیجے میں تہامہ کے عرب ایک بار پھر فوج
در فوج اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔
سب نے جانا... بحرانوں سے
نمٹنا اسلام کی سرشت میں شامل ہے۔ تُندیِ بادِ مخالف سے گھبرانا اِس ملت کا شیوہ
نہیں۔