جی ہاں عقیدہ کے بعض مسائل بھی...!
|
:عنوان |
|
|
اس کے بعد میں نے ان کے سامنے کشاف القناع (فقہ حنبلی کی ایک ضخیم کتاب) کی عبارت رکھی اور اس میں امام موفق الدین ابن قدامہ کا قول بتایا کہ: جہمیہ کا کوئی ایسا داعی جو اجتہاد پر ہے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس |
|
|
جی
ہاں عقیدہ کے
بعض
مسائل
بھی...!
شیخ عبد الوہاب طریری﷿
شیخ علامہ محمد بن الحسن الددو﷿۔ وقت کے علماء میں سے ایک
بڑے عالم۔ موریتانیا کے مردم خیز علاقہ شنقیط سے تعلق۔
شیخ عبد
الوھاب الطریری﷿ لکھتے ہیں:
ہمارے
شیخ محمد الحسن الددو﷿ نے خو د اپنا یہ
واقعہ بیان کیا جو آپ کو شیخ ابن باز کے ساتھ پیش آیا۔ کہتے ہیں:
جامعۃ
الامام محمد بن سعود کی ایک مسجد میں، میں بخاری کا درس دیا کرتا تھا۔ بخاری کی
شرح چل رہی تھی جس میں کچھ اساتذہ اور طلباء حاضر ہوتے۔ درس کے وقت مسجد بھر جاتی
کیونکہ طالب علم ریاض، قصیم اور زلفی سے آ
آ کر شریک ہوتے۔ یونیورسٹی اس درس کی ریکارڈنگ کا اہتمام کرتی اور (بعدازاں) اس کے
کیسٹ فروخت ہوتے۔ درس میں شریک بعض نوجوانوں میں کچھ تعصب تھا۔ اُس وقت مدینہ میں
کوئی شیخ ہوا کرتے تھے جنہوں نے سید قطب کی تکفیر پر خاصا کچھ لکھ رکھا تھا۔ درس
کے آخر میں، میں سوالات لیا کرتا، اور یہ سوالات قاضی محمد الخنین پڑھ کر سناتے۔ انہی سوالوں میں ایک سوال آیا جو
سید قطبؒ کے کفر کرلینے سے متعلق تھا۔ میں نے اس سوال کا مفصل جواب دیا اور کہا:
سید قطب نے اگر کھلم کھلا خلق قرآن کا عقیدہ رکھ لیا ہوتا تو بھی ان کی تکفیر کرنا نہ بنتی؛ کیونکہ امام احمد بن حنبل نے
مامون اور اس کے گرد جمع لوگوں کی تکفیر نہیں کی تھی جو خلقِ قرآن کے قائل تھے۔
بلکہ امام احمدؒ تو خلیفہ کےلیے دعائےخیر کرتے رہے اور خلیفہ کو معاف بھی کر
دیا۔ ان نوجوانوں نے اس پر ہنگامہ کھڑا کر
دیا، اور بحث کرنے آگئے۔ کہنے لگے: سماحۃ الشیخ ابن باز نے تو بِشر المریسی (عباسی
دور کا ایک معتزلی امام) کی تکفیر کی ہے۔ میں نے کہا: امام ذہبی شیخ ابن باز سے
زیادہ بڑے عالم ہیں؛ جبکہ ذہبیؒ بِشر المریسی کی سوانح لکھتے ہوئے اختتام پر کہتے
ہیں: ولكن أبى اللهُ أن يكون من شهِد أن لا إله إلا الله وأن
محمدًا رسول الله، وصلى الخمس إلى القبلة، وزكّى، وصام، وحجّ البيتَ الحرام، كمن
لم يفعل شيئًا من ذلك. ونعوذ بالله من البدعة وأهلها ’’لیکن اللہ تعالیٰ
اس بات سے انکاری ہے کہ وہ شخص جو لا الہ
الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا، قبلہ رخ ہو کر پانچوں نمازیں ادا کرتا،
زکات دیتا، روزہ رکھتا اور بیت اللہ الحرام کا طواف کرتا ہے، یہ شخص بھی ویسا ہو
جیسا وہ شخص جو ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرتا۔ اور ہم پناہ مانگتے ہیں بدعت و
اہل بدعت سے‘‘۔ ان نوجوانوں نے کیا کیا، یہ میری اُس بات کو سیاق و سباق بدل کر
شیخ ابن باز کے پاس لے پہنچے۔ ان میں سے بعض نے تو شیخ کو یہ بات پہنچائی کہ خود
میں ہی خلقِ قرآن کا عقیدہ رکھتا ہوں! یہ سب کچھ انہوں نے شیخ ابن بازؒ کو لکھ
بھیجا۔ تب شیخ ابن بازؒ نے مدیرِ جامعہ شیخ عبد اللہ ترکی کے نام ایک مکتوب لکھا،
جس میں حکم دیا گیا تھا کہ میرے دروس روک دیے جائیں اور مجھے (سعودیہ سے) ملک بدر
کر کے واپس میرے ملک بھیج دیا جائے۔ شیخ عبد اللہ ترکی نے، جو اس واقعہ سے باخبر
تھے، مجھے بلا بھیجا۔ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں شیخ ابن باز سے ذاتی طور پر
رجوع کروں۔ ان کے سیکرٹری شیخ صالح الحکمی نے خود مجھے شیخ سے وقت لے کر دیا۔ میں
شیخ کے مکتب دار الافتاء مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ شیخ کے ہاں ان کے کاتب موسیٰ،
حکمی، شویعر ودیگر سب موجود تھے۔ یہ مجھے جانتے تھے۔ انہوں نے شیخ سے میرا تعارف
کروایا۔ شیخ بولے: آپ کے بارے میں ہمیں جو باتیں سننے کو ملیں، وہ تو افسوس ناک
ہیں۔ میں نے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ شیخ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اختصار سے
اپنی بات بیان کی جوکہ شیخ کی رائے کے خلاف تھی۔ تب شیخ نے افتاء کی ایک کمیٹی
تشکیل دی، جس میں فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید، فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن غدیان، اور دو
اور معزز شیخ شامل تھے۔ انہوں نے تفصیل سے میرے ساتھ مکالمہ کیا۔ میں نے ان کے
سامنے اس مسئلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام رکھا اور مجموع فتاوى ابن تیمیہ
سے اس کے جزء وصفحہ نمبر کا حوالہ دیا۔
مجموع الفتاوى حاضر کروا لیا گیا اور اس سے وہ عبارت پڑھی گئی۔ اس کے بعد میں نے
ان کے سامنے کشاف القناع (فقہ حنبلی کی ایک ضخیم کتاب) کی عبارت رکھی اور اس میں
امام موفق الدین ابن قدامہ کا قول بتایا کہ: جہمیہ کا کوئی ایسا داعی جو
اجتہاد پر ہے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے پر وہ حیران ہوگئے اور
کشاف القناع حاضر کروائی اور اس میں سے احکام المرتد کھول لیے۔ میں نے عرض کیا: یہ
مسئلہ اس مقام پر بیان نہیں ہوا بلکہ اس (مبحث) میں بیان ہوا کہ کس کی شہادت قبول
ہوگی اور کس کی ردّ۔ کتاب سے ہم نے وہ عبارت پڑھی۔ اس پر وہ بہت حیران ہوئے۔ میں
اور بھی جس کتاب کا حوالہ دیتا، یہ وہ کتاب اٹھا لاتے، جیسے کتاب الام سے شافعی کی
عبارت، رسائل ماردینیہ سے ابن تیمیہ کی عبارت، سیر اعلام النبلاء سے ذہبی کی
عبارت۔ نیز عبد اللہ بن الشیخ محمد الوھاب کی عبارت، وغیرہ۔ آخر میں انہوں نے مجھ
سے کہا کہ میں اپنی ان سب باتوں کا ایک خلاصہ قلمبند کردوں جو سماحۃ الشیخ ابن باز
کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ میں نے وہ کوئی بارہ پندرہ صفحوں میں لکھ کر شیخ بکر
ابو زیدؒ کے سپرد کردیا۔ میرا شیخ بکر کے ساتھ خصوصی تعلق رہا تھا اور میں ان چند
لوگوں میں سے ایک تھا جو رات گئے تک ان کی اقامت گاہ پر ان کے ساتھ صحبت رکھ لیا
کرتے تھے۔ اس کے بعد مجھے شیخ ابن باز کے دفتر سے فون آیا کہ شیخ یونیورسٹی کی
مسجد میں خود تمہارے درس میں آئیں گے۔ واقعتاً شیخ میرے درس میں تشریف لائے؛ کمال
تواضع و انکساری، کمال اخلاق اور ادب، اور پدرانہ شفقت۔ میرے درس کی اختتامی گفتگو
شیخ نے خود فرمائی اور طلباء و اساتذہ کو قیمتی نصیحتوں سے نوازا۔ اس کے بعد شیخ
کے ہاں مجھے خصوصی پزیرائی حاصل رہی۔ نیز دیگر مشائخ کے ہاں بھی خصوصی مقام ملا
رہا۔ اللہ سے دعاء ہے کہ ہمیں ان سب کے ساتھ فردوسِ اعلیٰ میں اکٹھا کرے۔ وصلی اللہ علىٰ نبینا محمد وعلٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔
اردو
استفادہ: ابن علی
عربی تحریر
کا عنوان: بین الشیخ ابن باز والشیخ الددو
تحریر
کا ویب لنک:
https://twitter.com/altriri/status/595561475294396416
|
|
|
|
|
|