آپریشن ضربِ حزم
جب کوئی آپشن نہ رہ گیا ہو!
ہمیں ایک سوال موصول ہوا ہے:
آپ کی تحریروں سے واضح
ہوتا ہے کہ ایک فرقہ وارانہ جنگ شرعاً بھی نادرست ہے اور اندریں حالات اسلام کے
مفاد میں بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر آپ کی نشریات سے ظاہر ہوتا ہے
کہ سعودی راہنمائی میں یمن میں جاری آپریشن عاصفۃ الحزم کی آپ تائید بھی کر رہے
ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب:
بلاشبہ ہم یہی بات لکھتے
اور کہتے چلے آئے ہیں کہ تمام اہل قبلہ کو جان، مال، آبرو کی حرمت از روئے شریعت
حاصل ہے اور ان کے مابین جنگ چھیڑنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اور یہ بھی
ایک واقعہ ہے کہ مسلم ملکوں کے اندر دشمن ایک عرصہ سے کوشش میں ہے کہ یہاں مذہبی،
لسانی، طبقاتی جس جس بنیاد پر جنگ کی آگ بھڑکائی جا سکے بھڑکا دی جائے۔ ہمارے کراچی سے لے کر افریقہ تک ہر جگہ وہ
خونریزی اور ماردھاڑ کی ممکنہ بنیادیں تلاش کرتا پھر رہا ہے۔
ہماری اس بات کا صحیح سیاق
right
perspective یہی ہے کہ ایسی کسی بنیاد
پر ہونے والی لڑائی سے زیادہ زیادہ دستکش رہا
جائےاور اس کو پیش آنے سے زیادہ سے زیادہ روکا جائے۔ تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایسی کسی ممکنہ
لڑائی کا ایک فریق اس کو باقاعدہ ایک موقع opportunity کے طور پر لینے کا فیصلہ نہ کر چکا ہو۔ البتہ
ایک فریق اگر بیرونی دشمن کے یہ تیور بھانپ کر کہ وہ لازماً یہاں جنگ کی سرپرستی
کرے گا، اس ’’موقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا تہیہ کرلے اور اس کے نتیجے میں وہ
آپ کو مسلسل دیوار کے ساتھ لگاتا چلا جائےتو کسی نہ کسی پوائنٹ پر آپ کو کچھ نہ
کچھ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں رہنا کہ دشمن کا وار چل نہیں چکا ایک
مغالطہ ہوگا۔ ہماری اس گفتگو کا سیاق یہی ہوگا کہ آپ کو جنگ کی صورتحال پیدا کرنے
سے از بس دور رہنا چاہئے۔ نیز جنگ کی کوئی ممکنہ صورتحال پیدا ہوتی دیکھ کر بھی آپ
کو اسے پیدا ہونے سے روکنے پر پورا زور صرف کر دینا چاہئے۔ لیکن مسئلے کا ایک فریق
اس صورتحال سے آخری درجے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر آپ کے چار ملک لے لیتا ہے
(عراق، شام، یمن، لبنان) اور مزید پر ہاتھ مارا چاہتا ہے تو یہاں آپ کے پاس اس کو
روکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جاتا۔ یہ ایک ناگوار اور ناگزیر جنگ ہو جاتی ہے
اور اسے نہ لڑنے کا واحد مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنا سب کچھ دے دیں۔
دوبارہ واضح کردیں، مسئلہ
کا ایک فریق جب آپ کے خلاف جارحیت کی ہر حد پار کر چکا ہو، شام اور عراق کے اندر
آپ کو عملاً خون میں نہلا چکا ہو، اور یمن میں آپ کو گن پوائنٹ پر ہینڈزاپ کروا
چکا اور آپ کی جامعۃ الایمان کے شہتیر اور بالے تک اتار کر جا چکا ہو، تو یہاں یہ
تصور کرنا کہ بیرونی دشمن کی چال ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے، ایک مضحکہ خیز بات
ہوگی۔ ہماری بات کا مطلب صرف اتنا ہے کہ دشمن کی چال کو کامیاب کرنے کا سبب خود
ہمیں نہیں ہونا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو ہمیں اسے پیش آنے سے روکنا بھی چاہئے۔
البتہ دشمن کی چال کو جب کوئی دوسرا کامیاب کر ہی چکا ہو... تو اب ہمیں دیکھنا یہ ہے
کہ فریق مخالف کو اپنی سرزمینوں میں بڑھتا چلا آنے دیں یا روک دیں۔ جس چیز کا
نقصان کمتر ہو، اب وہ کرنا واجب ہوگا۔ غرض یہاں ہمارے لیے صرف یہ دیکھنا رہ جاتا
ہے کہ اپنے نرخرے کی طرف بڑھتے چلے آنے والے
ہاتھ کو، جوکہ تہران سے بغداد، دمشق، بیروت اور صنعاء کا فاصلہ طے کر
آیا ہے اور اپنی جگہ پر ہرگز نہیں ہے، اب بھی روک دیں یا بڑھتا آنے
دیں اور اُس وقت روکنے کی سوچیں جب ہمارا نرخرہ پوری طرح اس کے قابو میں آچکا ہو۔
یا سرے سے اس کو روکنے کی نہ سوچیں اور اس کے ہاتھوں مرنے کے فضائل پڑھنا پڑھانا شروع
کرلیں! سامنے کی بات ہے عرب فارس میں نہیں گئے، عرب فارس کا خون کرتے نہیں پھر
رہے، بلکہ فارس ہزاروں کلومیٹر اندر آ کر عرب سنت کا خون کرتا پھر رہا ہے۔
*****
یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا جائے کہ شام میں
’ایران کے ساتھ‘ چھیڑخانی کیوں کی گئی تھی جس کے ’جواب میں‘ ایران کو عراق اور یمن
میں اس کا بدلہ چکانا پڑا!!!
جیسا کہ جناب عبدالغفار
عزیز اپنے
میڈیا بیانات میں بارہا کہہ چکے، شامی مزاحمت کا مسئلہ سراسر ’’عرب سپرنگ‘‘ کے
ساتھ متعلق ہے۔ جو تیونس سے شروع ہو کر لیبیا اور مصر سے ہوتی ہوئی شام پہنچی تھی۔
یہ محض ہمارا دعویٰ نہیں؛ شام کے الاخوان المسلمون اس حقیقت کے سب سے بڑے
گواہ ہیں۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ اِخوان
نے کبھی شیعہ سنی مسئلہ کو ہوا نہیں دی۔ بشار اور اس کے باپ حافظ الاسد کے خلاف اخوان
کی مزاحمت پچھلے چار عشروں سے چلی آتی ہے۔ چار
عشروں سے شام ایک بڑا قید خانہ ہے۔ بلکہ
مذبح خانہ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اخوان سے محض تعلق ہونا ایک شامی باشندے
کے حق میں سزائے موت تک کا مستوجب رہا ہے۔ شام کی اسلامی تحریک، جس میں سرفہرست اخوان
آتے ہیں، پچھلے چار عشروں سے، تقریباً اسی طرح جلاوطن ہے جس طرح فلسطین کے لوگ۔
واقفانِ حال شہادت دیں گے، شامی پناہ گزین سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں کس
طرح جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے ہیں اور اپنے عزیزوں کو شامی جیلوں میں کس طرح
تڑپتا چھوڑ کر آئے ہیں۔ چنانچہ عرب ممالک میں جیسے ہی ’’عرب سپرنگ‘‘ کی رَو چلی،
طبعی بات تھی کہ شام ان اولین ممالک میں ہوتا جو اِس رَو کا خیرمقدم کرتا۔ شام کے الاخوان
المسلمون کل بھی اس مزاحمت میں پیش پیش تھے اور آج بھی پیش پیش ہیں۔ ہر کس و ناکس واقف ہے، الاخوان
المسلمون نے اپنی کسی مزاحمتی سرگرمی کےلیے ’شیعہ سنی مسئلہ‘ کو آج تک حوالہ
نہیں ٹھہرایا اور نہ کبھی آپ اخوان سے یہ توقع کر سکتے ہیں۔ اخوان
اِس ڈسکورس کو ہی سرے سے اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا شامی مزاحمت کو ’ایران کے خلاف‘
کسی کی پہل قرار دینا آخری حد تک مضحکہ خیز ہے۔
حق یہ ہے کہ ’ایران کو‘
کسی نے نہیں چھیڑا۔ حق یہ ہے کہ ایران کی عرب خطوں میں جارحیت کے خلاف عربوں نے
ایک بہت لمبا عرصہ صبر کیا ہے، جس کی وجہ عربوں کی کمزوری اور نارسائی تھی یا کوئی
حکمتِ عملی، یہ الگ بحث ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ عربوں نے، خواہ وہ کسی بھی کمزوری یا حکمتِ عملی کے تحت ہو، ضرورت سے زیادہ صبر
کر لیا ہے۔ اس ’صبر‘ کے نتیجے میں عرب بہت زیادہ گھیرے میں آ چکے۔ ان کا نرخرہ اچھا
خاصا قابو میں آچکا۔ اب بھی ہاتھ پیر نہیں مارتے تو تھوڑی دیر میں ہضم ہوا چاہتے
ہیں؛ پھر نہ بانس اور نہ بانسری۔ ہماری دانست میں، عرب بہت لیٹ ہو چکے۔
مسئلے کو دیکھنے کی کوئی ایک ہی بنیاد نہیں ہوتی۔ عرب جس طرح پسپا ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یکے بعد دیگرے اپنے چار
دارالحکومت فارس کو دے بیٹھے ہیں، عنقریب فارس کی کالونیاں اور مزارع بننے
والے ہیں۔ بلکہ امارات اور کویت تو تقریباً بن چکے؛ جبکہ اردن اس ’تگ و دو‘ میں ہے۔ جبکہ چار ملک سیدھے سیدھے
مقبوضہ۔ یہاں اب مسئلہ ’’بقا‘‘ کا ہے؛ وہ دوسرے سب سوال اِس جان لیوا مقام پر
عربوں کےلیے عیاشی میں آئیں گے۔ میرا ہرگز خیال نہیں کہ سعودیوں نے ’’عاصفۃ
الحزم‘‘ کی یہ بہادری محض ’یمنی بھائیوں‘ کی محبت میں کر دکھائی ہے! یا یہ مہم
جوئی ’سنت کا عَلم بلند‘ کرنے کی خاطر انجام پا گئی ہے! یا یہ کارروائی ’غیر
جمہوری قوتوں‘ کے مقابلے پر ایک ’’جائز حکومت‘‘ کی فریادرسی کے جذبے کے تحت ہوئی
ہے! صاف بات ہے، سعودیوں کو وہ موت سامنے نظر آ چکی جس سے وہ بڑی دیر سے بھاگتے آرہے
ہیں۔ لیکن اب یہ موت اس مرحلے پر آ پہنچی
جہاں آپ موت پر جھپٹ پڑتے ہیں، خواہ کتنے ہی کمزور ہوں۔ لہٰذا سعودی عرب جس نرغے
میں آچکا ہے وہاں یہ سوال بہت زیادہ متعلقہ نہیں رہ جاتا کہ ’امریکہ کہیں خطے میں
شیعہ سنی جنگ کروانے میں کامیاب تو نہیں ہو جائے گا‘۔ یہ سوال مشرقِ وسطیٰ کے
حق میں آج سے دس سال پہلے کا ہے۔ اس سوال کا چیختا چنگھاڑتا جواب ایران پوری ’کامیابی‘ کے ساتھ دے چکا ہے اور دس سال سے
دیتا آ رہا ہے۔ سعودی عرب آج جس سوال کا ’جواب‘ دے رہا ہے وہ یہ نہیں کہ ’امریکہ
کہیں خطے میں شیعہ سنی جنگ کروانے میں کامیاب تو نہیں ہو جائے گا‘۔ جیسا کہ ہم نے
کہا، اس سوال کا جواب تو ایران کی طرف سے مکرّر دیا جا چکا۔ کسی نے ایران سے جنگ
نہیں کی اور وہ آپ کے چار ملک لے چکا۔ سعودیہ دراصل آج جس سوال کا جواب دے رہا ہے
وہ یہ کہ ’’پراکسی ملیشیاؤں کا جو عفریت اپنے جبڑے کھولے ہوئے ہزاروں کلومیٹر کا
فاصلہ طے کر آیا اور سعودیہ کو تین اطراف
سے گھیر چکا اور اس کی سرحدوں پر اپنی سرسراہٹ شروع کر چکا، کیا سعودیہ اس کے منہ
میں جانے کےلیے تیار ہے یا اس جبڑے کو توڑنے کی کچھ کوشش کر لیتا ہے‘‘۔
یہ ہے معاملے کی اصل
سنگینی۔ ظاہر ہے کسی معاملے کو دیکھنے کی کوئی ایک ہی جہت نہیں ہوتی؛ دوسرے سب
عوامل بھی آپ کو دیکھنا ہوتے ہیں۔
*****
رہ گیا یہ سوال کہ ہم تو جنوب
ایشیا میں بستے ہیں، ہم اِس مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ ہمارا
جواب واضح ہے: اِس جنگ کی ’شیعہ سنی جہت‘ تو یقیناً ہمارے ہاں مسترد ہے۔ اگر مسئلہ
اتنا ہی ہو تو ہم اس جنگ کے سب سے بڑے مخالفوں میں آئیں گے۔ لیکن اس کی یہ جہت کہ ایک مناسب کارروائی نہ کرنے کی
صورت میں ارضِ حرمین شریفین ابو لؤلؤ مجوسی کا مزار بنا رکھنے والے قُم کے
سیاہ پوشوں کی براہ راست یا بالواسطہ دسترس میں آیا چاہتی ہے، ہمارے ہاں کسی بھی
جہت پر فوقیت رکھتی ہے۔ ہم تاریخِ اسلام کے اِس روایتی تخریبی کردار disastrous
character سے بخوبی واقف ہیں۔ اس کے
ساتھ چھیڑخوانی نہ کرنا اور بات، اور اس کے تو بلاشبہ ہم حامی ہیں، مگر اس کو
اسلام کے مرکز پر حاوی دیکھنا بالکل ایک اور چیز ہے۔ اسلام اور سنت کے مراکز کا
باطنیوں کے ہاتھ میں چلا جانا اس امت کے حق میں خوفناک ترین سانحہ ہوگا اگرچہ آل
سعود کا کردار ہماری نگاہ میں کتنا ہی گھناؤنا کیوں نہ ہو۔ قرامطہ کا دور واپس آنا
اس امت کی تاریخ میں سیاہ رات باور ہوگا۔ قرامطہ نے ہمارے قبلۂ کعبہ کے ساتھ جو کیا، اور ان کے پیر بھائیوں
فاطمیہ نے ہمارے قبلۂ اول (بیت المقدس) کے ساتھ جو کیا، آخر وہ ہم میں سے کس پر
مخفی ہے؟
البتہ ہم یہ بھی کہیں گے،
ارضِ عرب میں ریاستوں کی سطح پر، اور ردِ جارحیت کے شرعی اصول کی بنیاد پر، چاہے
کوئی کارروائی کتنی ہی ناگزیر ہو، ہمارے اِس ملک میں افراد کی سطح پر یہ لڑائی
بھڑائی ممنوع ہی رہے گی۔ ظاہر بات ہے، یمن میں اگر یہ جنگ ہوتی ہے، تو اس کے پیچھے
کارفرما مذہبی بنیادوں کو آپ ختم نہیں کر سکتے۔ اور جب ایسا ہے تو اس کے کچھ نہ
کچھ اثرات دیگر خطوں پر بھی پڑ سکتے ہیں اور فضا میں تلخی اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
یہاں؛ بطور خاص ضروری ہوگا کہ ہم ایسے کسی فرقہ وارانہ فساد کے اسباب کو ختم کرنے
پر معمول سے بڑھ کر توجہ دیں۔ ماضی میں کسی وقت پاک بھارت جنگ ناگزیر ہو جاتی رہی
ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم اپنے ملک میں ہندو مسلم فسادات کے سدباب سے ہی
غفلت برت رکھیں۔ اور نہ یہ ممکن تھا کہ کسی ہندو مسلم فساد کے خطرے کے پیش نظر ہم
بھارت کے ساتھ ایک جنگ کو، خواہ وہ کتنی ہی ناگزیر ہو، پشت دکھا آئیں۔ ہر جہت کو
ایک حد تک ہی دیکھا جانا ہوتا ہے۔ سب جہتیں اپنی اپنی سنگینی کے ساتھ بیک وقت
دیکھی جائیں گی۔