عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-05 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
توسیعِ اسلام کا مدوجذر
:عنوان

یورپ، افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے خطے کو شرک سے پاک کرنا اور یہاں خدائےواحد کی تکبیر کروانا بلحاظِ حقیقت رسول اللہﷺ کا غلبہ ہے۔ اِس توسیع اسلام میں مدوجذر بےشک ہیں۔ایک وقت یقیناً ایسا آنےوالا ہے... کہ ہوتےہوتے

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

توسیعِ اسلام کا مدوجذر

(مطالعہ تاریخِ اسلام... تیسری مجلس)

مقدمہ:

ہر آسمانی رسالت لامحالہ ایک آسمانی امت کو جنم دیتی ہے۔[1]  رسالتوں کی تاریخ  میں جس کسی کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی اس کی نظر پر تعجب ہی کیا جا سکتا ہے۔ رسول اپنے شروع کیے ہوئے خاصے خاصے کام اپنی امت پر چھوڑ جاتا ہے اور وہ رسول کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اُس کے شروع کیے ہوئے ان بہت سے منصوبوں کو سرے پہنچاتی ہے۔ بنی اسرائیل کےلیے ’’بیت المقدس‘‘ کی ایک مرکزی ترین حیثیت ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں باقی فلسطین تو رہا ایک طرف، ’’بیت المقدس‘‘ فتح کرنے کا کام ہی موسیٰ﷣ کی زندگی زندگی اور آپؑ کے اپنے ہاتھوں انجام نہیں پاتا بلکہ یہ اتنا عظیم منصوبہ موسیٰ﷣ کی امت کے ذریعے انجام دلوایا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی؛ ایک مخصوص سے خطے میں (کیونکہ بنی اسرائیل کی رسالت عالمی نہیں تھی) مزید پیش قدمی اور توراتی شریعت کی اقامت کا کام صدیوں تک ’’امتِ موسیٰؑ‘‘ ہی کرتی ہے؛ جو کچھ زمانوں میں اپنی قلمرو پورے خطۂ فلسطین تک بڑھا لیتی ہے  اور کچھ زمانوں میں اپنی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کے نتیجے میں سمٹتی اور پسپا ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ کفار کی مفتوح بھی ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ پھر کچھ اصلاحِ اعمال ہو جانے کے بعد اپنی اُسی حالت کی بحالی کےلیے ازسرنو سرگرم ہو جاتی ہے۔ اور اِسی گر گر کر اٹھنے اور پلٹ پلٹ کر اپنے تاریخی روٹ پر گامزن ہونے میں اپنی تاریخی مدت پوری کر لیتی ہے۔

یہ بات خاص طور پر اُس خدائی سنت کے حوالے سے ہے جس میں ’’خدائی تقدیر‘‘ زمینی عمل کے اندر ’’اہل ایمان کی تلواروں‘‘ کے ذریعے اپنا ظہور کرتی ہے۔ ابن کثیرؒ ودیگر مفسرین کی صراحت کے مطابق اِس خدائی سنت کا آغاز تاریخِ انسانی میں بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔  (سورۃ القصص آیت 43 کے تحت ان مفسرین نے یہ کلام فرما رکھا ہے۔ یہاں ہم اس کی تفصیل میں نہیں جا سکیں گے)۔ یعنی رسالت کے راستے میں کھڑے ہونے والوں کو آسمانی آفتوں (مانند طوفان، کڑک، بھونچال وغیرہ) کی بجائے اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے راستے سے ہٹانا۔ ایسا بھی نہیں کہ جہاد کے یہ احکام خاص اُس نسل تک رکھے گئے ہوں جسے موسیٰ﷣ کی صحبت حاصل ہوئی؛ اور اس کے بعد دین صرف ’نماز روزہ‘ اور ’ذاتی اصلاح‘!!! بائبل سے واضح ہے بنی اسرائیل میں دفاعی اور اقدامی ہر دو جہاد موسیٰ﷣ کے صدیوں بعد تک ہوتا رہا۔ (اِس کی تفصیل میں جانے کی بھی اِس مقام پر ہمارے پاس گنجائش نہیں؛ مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر اختلاف ممکن نہیں؛ الا یہ کہ آپ بائبل کی روایات کو کسی بھی حیثیت میں قابل وثوق نہ مانیں)۔

قرآن مجید میں ہمارے لیے بنی اسرائیل کا اتنا زیادہ تذکرہ ہونا بےمقصد نہیں۔  بنی اسرائیل کا امتِ جہاد ہونا، ایک وسیع و متفرع شریعت اور ایک لمبی تاریخ رکھنا، نیز انسانیت کی معلوم تاریخ کا ایک جاناپہچانا کردار ہونا... اس بات کا متقاضی رہا کہ ہمارے لیے بنی اسرائیل کے حالات بہت کھول کر بیان کردیے جائیں اور ان کی تاریخ کے سبق آموز حصے ہمیں اچھی طرح سمجھا دیے جائیں۔

اہم بات یہ کہ امت زمینی عمل کے اندر رسول کی دی ہوئی لائن پر جو بھی صالح پیش قدمی کرے گی اس کی نسبت رسول سے ہی ہوگی۔ بعینہٖ جس طرح رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو کہا تھا: أنت ومالُك لأبيك ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے‘‘۔ امت کی ہر صالح تحصیل achievement  اس کے رسول کی ہوتی ہے۔ بخاری میں عبد اللہ بن عباس﷛ سے بروایت ابوسفیان﷛ ایک روایت آتی ہے کہ ہرقل (قیصرِ روم) اپنے دربارِ شام میں جب ابوسفیانؓ کے ساتھ سوال و جواب کر چکا، تو آخر بولا: فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ ’’تمہاری یہ باتیں اگر سچ ہیں تو عنقریب وہ میرے قدموں تلے کی اِس زمین کا مالک بنے گا‘‘۔[2]  جبکہ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ فتحِ شام کا موقع آنے تک اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے۔ لہٰذا؛ اُس تنگ ذہن سے دیکھیں تو آنحضورﷺ کبھی ارضِ شام کے مالک نہیں ہوئے! معلوم ہوا، امت کا فتح و غلبہ رسولﷺ کا فتح و غلبہ ہے۔ یہ ایک ایسا شرف ہے کہ آپ زمین کا ایک چپہ بھی اگر اسلام کو لے کر دیتے ہیں تو درحقیقت اپنے نبیﷺ کی قلمرو میں توسیع کرتے ہیں؛ کیونکہ ’’اسلام‘‘ ہے ہی زمین پر رسولؐ کا کاشت کردہ شجر؛ اور قیامت تک یہ رسولؐ ہی کا رہے گا؛ فاتحین و مبلغین کی حیثیت اِس شجر کو صرف ’’پانی دینے، اِس کی رکھوالی اور نشوونما کرنے‘‘ والوں کی ہوگی۔ اِن سب کا اجر اپنی جگہ، مگر خود شجرِ اسلام کی جتنی بڑھوتری ہوگی اور اس کا سایہ جہاں جہاں پہنچے گا وہ زمین پر رسولؐ کی پیش قدمی باور ہوگی اور ہر جگہ رسولؐ ہی کا درود پڑھا جائے گا۔ ہاں اِن (کارکنانِ اسلام) کی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کے باعث اس کا سایہ جتنا سمٹے گا وہ اِن کا اپنا گناہ ہوگا کہ یہ اس کا خیال نہیں رکھ پائے؛  امت کے غیرصالح اعمال کی نسبت البتہ رسولؐ سے نہیں ہوگی بلکہ یہ اپنے کرنےوالے کی ہی سیئات باور ہوں گی۔

*****

یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے شیخ البانیؒ کی سلسلہ صحیحہ کی پہلی پانچ حدیثوں پر شیخ کا اپنا کلام ملخص کردیا جائے۔ شیخ﷫ احادیثِ صحیحہ پر اپنے اِس انسائیکلوپیڈیا کا آغاز اسلام کے غلبہ و توسیع سے متعلقہ احادیث سے کرتے ہیں، ساتھ میں کمال تعلیقات دیتے چلے جاتے ہیں... جبکہ اپنی اس پوری کتاب کا آغاز کرتے ہیں قرآن مجید کی اِس آیت سے:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔  )ترجمہ جالندھری)

البانیؒ کہتے ہیں:

یہ آیت ہمیں بشارت سناتی ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غلبہ اور اقتدار پا کر رہنے والا ہے۔ شاید بعض لوگوں کا خیال ہو کہ یہ واقعہ رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین اور صالح بادشاہوں کے زمانے میں پورا ہو چکا۔ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ پورا ہوا وہ اس سچے وعدے کا محض ایک حصہ ہے، جیساکہ نبیﷺ نے اس (حقیقت) کی طرف خود اشارہ فرمایا:

(سلسلہ احادیثِ صحیحہ کی پہلی حدیث):

«لَا يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللهُ: {هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ} أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا قَالَ «إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ رِيحًا طَيِّبَةً، فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَيَبْقَى مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ»

رات دن ختم نہ ہوں گے جب تک کہ لات اور عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے۔ تب میں (عائشہ﷞) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت اتاری: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ تو میں نے سمجھا کہ اسی پر معاملہ ختم ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ رہےگا جتنی دیر اللہ چاہے گا، پھر اللہ ایک خوشگوار ہوا چلائے گا، جس سے ہر وہ آدمی جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوا دنیا سے اٹھ جائے گا اور ایسے لوگ رہ جائیں گے جن میں کچھ بھی خیر نہ ہو، تب وہ اپنے آباءواجداد کے دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ حدیث روایت کی...

دیگر احادیث بھی وارد ہوئی ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا غلبہ اور پھیلاؤ کہاں تک ہونے والا ہے۔ یہ احادیث اس معاملہ میں کوئی شک نہیں چھوڑتیں کہ آنے والا زمانہ اللہ کے حکم سے اسلام ہی کا ہے۔

یہاں میں (شیخ البانیؒ) ان میں سے کچھ احادیث ذکر کروں گا؛ اس غرض سے کہ یہ کارکنانِ اسلام کےلیے ایک مہمیز ثابت ہوں اور مایوسیاں پھیلانے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والوں پر حجت بنیں :

(سلسلہ احادیثِ صحیحہ کی دوسری حدیث) :

إن الله زوى (أي جمع وضم) لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها

بےشک اللہ نے میرے آگے پوری زمین سمیٹ کر رکھ دی۔ تو میں نے زمین کے سب مشارق اور مغارب دیکھ لیے۔ اور یقیناً میری امت کی بادشاہی اس کونےکونے تک پہنچے گی جو میرے آگے سمیٹے گئے۔

مسلم نے یہ حدیث روایت کی، نیز ابوداوٗد، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے بروایت ثوبان﷛۔ نیز احمد نے بروایت شداد بن اوس﷛۔ البتہ اگلی حدیث اس سے بھی واضح اور زیادہ وسعت بتانے والی ہے:

(سلسلہ احادیث صحیحہ کی تیسری حدیث) :

ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين بعز عزيز أو بذل ذليل عزا يعز الله به الإسلام وذلا يذل به الكفر

یہ سلسلۂ اسلام وہاں وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ کوئی پکا گھر چھوڑے گا اور نہ کچا جہاں وہ اِس دین کو داخل نہ کر دے۔ عزت والے کو عزت دیتے ہوئے اور ذلت والے کو ذلت دیتے ہوئے۔ عزت جو اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جو اللہ کفر کو دے گا۔

یہ حدیث روایت کی احمد، ابن حبان طبرانی و دیگر اور حاکم نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ شیخین کی شرط پر پوری اترتی ہے۔ حافظ ذہبی نے حاکم کے اس دعویٰ کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے۔

ظاہر ہے اسلام کو زمین کے تمام اطراف و اکناف تک پھیلنا ہے تو لازم ہے کہ مسلمان ایک بار پھر اپنی روحانی و مادی و عسکری ترقی کی اوج پر پہنچیں؛ جہاں یہ کفر و طغیان کی سب قوتوں پر غلبہ پائیں۔ یہ بشارت ہمیں اگلی حدیث میں ملتی ہے:

(سلسلہ احادیث صحیحہ کی چوتھی حدیث) :

عن أبى قبيل قال: كنا عند عبد الله بن عمرو بن العاصي وسئل أي المدينتين تفتح أولا القسطنطينية أو رومية؟ فدعا عبد الله بصندوق له حلق، قال: فأخرج منه كتابا قال: فقال عبد الله: بينما نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم نكتب ، إذ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي المدينتين تفتح أولا أقسطنطينية أو رومية؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مدينة هرقل تفتح أولا. يعني قسطنطينية "

ابو قبیل سے روایت ہے، کہا: ہم عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے پاس بیٹھے تھے۔ ان سے سوال ہوا: کونسا شہر پہلے فتح ہوگا قسطنطنیہ یا رومیہ؟ عبد اللہ﷛ نے ایک صندوق منگوایا جس کو کنڈے لگے ہوئے تھے۔ اس میں سے ایک کتاب نکالی اور فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے اردگرد بیٹھے لکھ رہے تھے کہ آپﷺ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آیا قسطنطنیہ پہلے فتح ہوگا یا رومیہ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: شہرِ ہرقل پہلے فتح ہوگا۔ یعنی قسطنطنیہ...

یہ حدیث احمد، دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو عمرو الدانی، عبدالغنی المقدسی اور حاکم نے روایت کی اور اس کے صحیح ہونے کی توثیق کی، جس کی ذہبی نے توثیق کی۔ اور واقعتاً جیسے حاکم اور ذہبی نے کہا ویسے ہی ہے۔

حدیث میں جو ’’رومیہ‘‘ آیا ہے، یہ روم ہے، جیساکہ معجم البلدان میں ہے۔ جوکہ آج اٹلی کا دارالحکومت ہے۔

حدیث میں مذکور پہلی فتح (قسطنطنیہ) ہمارے سامنے سلطان محمد الفاتح کے ہاتھ پر پوری ہو چکی، جبکہ رسول اللہﷺ کو اس فتح کی پیش گوئی فرمائے ہوئے آٹھ سو سال سے اوپر عرصہ گزر چکا تھا۔ حدیث کی بتائی ہوئی دوسری فتح (اٹلی، ویٹی کن) بھی اللہ کے فضل سے پوری ہو کر رہنے والی ہے۔ ’’اور ضرور ایک وقت کے بعد تم اس کی خبر جانو گے‘‘۔

(شیخ البانی کا کلام ختم ہوا)

*****

نبی آخر الزمانﷺ کے ہاتھ پر... حق کی ایک عظیم بےمثال لازوال قوت کا برپا ہونا جو زمین میں کفر کو پسپا اور دنیا کے بتکدے پاش پاش کر ڈالے گی، (اس کی بادشاہی قیامت تک رہے گی)  پہلے صحیفوں میں بھی اس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ بائبل میں ’’دانیال کی پیش گوئی‘‘ ایک ایسی نص ہے جس کی بابت تعجب ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے تحریف کنندگان نے اسے اپنی کتاب میں چھوڑ کیسے دیا:

دانیال نے شہنشاہِ بابل بخت نصر کو اس کا جو خواب بیان کرکے اور پھر اس کی جو تعبیر کرکے دی، اس میں آتا ہے:

اے بادشاہ تو نے ایک بڑی مورت دیکھی۔ وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی۔ اس مورت کا سر خالص سونے کا تھا۔ اُس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کے۔ اس کا شکم اور اس کی رانیں تانبے کی تھیں۔ اُس کی ٹانگیں لوہے کی اور اس کے پاؤں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے۔ تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر ہاتھ لگائے بغیر ہی کاٹا گیا اور اس مورت کے پاؤں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اوران کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کے بھوسے کی مانند ہوئے اور ہوا ان کو اڑا لے گئی۔ یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو توڑا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین میں پھیل گیا۔ وہ خواب یہ ہے اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں۔

اے بادشاہ...... وہ سونے کا سر تو ہی ہے۔ اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی طرح مضبوط ہو گی......

اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو گی اور اس کی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالے نہ کی جائے گی بلکہ وہ ان تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی ابد تک قائم رہے گی۔ جیسا تو نے دیکھا وہ پتھر ہاتھ لگائے بغیر ہی پہاڑ سے کاٹا گیا اور اس نے لوہے اور تابنے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے۔ اور یہ خواب یقینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی۔                                                     (دانیال 84:2۔72)

دانیال صحیفے کی اس پیش گوئی کے متعلق شیخ سفر الحوالی لکھتے ہیں:

کئی صدیوں تک اہل کتاب کو اس پر شک نہ ہوئی کہ اس پیشین گوئی میں مذکور پہلی مملکت (سونے کا سر) بابل کی سلطنت ہے اور یہ کہ دوسری مملکت (چاندی کا سینہ) فارس کی سلطنت تھی جو کہ بابلی سلطنت کے بعد قائم ہوئی اور عراق، شام اور مصر پر حکمران ہوئی۔ اور یہ کہ تیسری مملکت (تانبے کی رانیں) سلطنت یونان تھی جس نے سکندر مقدونی کے دور میں (333 ق م) سلطنت فارس کو روند ڈالا تھا اور یہ کہ چوتھی مملکت (ٹانگیں لوہے کی اور پاؤں کچھ لوہے اور کچھ مٹی کے)  رومن ایمپائر......

اہل کتاب سب کے سب اس پر اس قدر گہرا ایمان رکھتے تھے کہ یہ بڑی بے صبری کے ساتھ پانچویں مملکت (دانیال کی پیشین گوئی کی رو سے خدائی سلطنت)کا انتظار کر رہے تھے جو کہ ان شرک اور کفر اور ظلم کی سلطنتوں کو تہ وبالا کرکے رکھ دے گی۔ ان کی بے صبری خاص طور پر اس لئے بھی تھی کہ اس چوتھی سلطنت نے اہل کتاب پر بے انتہا ظلم ڈھایا تھا۔ اسی نے یہود کو ذلیل وخوار کرکے دیس نکالا دیا تھا اور 70ءمیں بیت المقدس کو تباہ وبرباد کیا اور مسجد اقصیٰ میں اپنے بت لا کر رکھے۔ پھر اسی رومی سلطنت کے مذہبی بڑوں نے اول اول کے نصاریٰ کو بے رحمی اور سنگدلی سے ایسی ایسی اذیتیں دیں کہ جن کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے...

چنانچہ ظلم وفساد کی اس مایوس کن فضا میں اہل کتاب بہت بے صبری سے پانچویں سلطنت کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ یقینی طور پر جانتے تھے کہ یہ سلطنت نبی آخر الزمان کے ہاتھوں قائم ہو گی جس کو یہ ارکون السلام (امن کا بادشاہ) بولتے تھے...... یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب ان کے شہنشاہ ہرقل نے جو کہ اپنے دین کا عالم تھا نے یہ کہا (قد ظَھَر مَلِکُ اُمّۃ الخِتان) ختنہ کرنے والی امت کے بادشاہ کا ظہور ہو گیا ہے۔ شہنشاہ ہرقل کو آپﷺ کی بابت اس بات کا یقین ہو گیا تھا اور یہ شہادت اس نے کفار اہل کتاب کا سربراہ ہوتے ہوئے اُمی کافروں کے سربراہ (ابوسفیان) کے منہ پر دی تھی کہ جہاں میں پیر رکھ کر کھڑا ہوں اس کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی۔ جیسا کہ مشہور صحیح حدیث میں مذکور ہے۔

اور واقعتا یہ پانچویں مملکت.... یہ خدائی سلطنت قائم ہوئی اور ہرقل کے پیروں کی جگہ کی مالک بن کر رہی۔ ہرقل کو شام چھوڑنا پڑا اور شام کو چھوڑتے وقت ہرقل کے کہے ہوئے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بنے: سلامٌ علیک یا سوریۃ، سلامٌ لا لقاء بعدہ ’’الوداع اے شام الوادع، جس کے بعد کبھی نہیں ملنا‘‘!! یہ خدائی مملکت قائم ہوئی اور سب بت پرست تہذیبوں اور سلطنتوں کو روندتی ہوئی زمین میں ہر سمت کو بڑھتی گئی۔ یہ اس وقت کی آباد زمین کے ایک بڑے حصے پر حکمران ہوئی اور ہر جگہ عدل وانصاف کا بول بالا کیا اور امن و آشتی کا پیغام بنی۔ اس سلطنت کا رقبہ چاند کے کل رقبہ سے زیادہ تھا۔ اس کے پرچم تلے اقوام عالم کے بہت بڑے بڑے اور بے شمار طبقے آکھڑے ہوئے۔

صرف یہاں آکر، اس پانچویں سلطنت کی تفسیر پر، اہل کتاب کو اختلاف ہو گیا اور یہاں یہ (ہمارے ساتھ) تفرقے میں پڑ گئے!!!!

*****

غرض روئے زمین پر امتِ اسلام کی صالح پیش قدمی درحقیقت اِس کے نبیؐ کی تحصیل ہے۔ روم اور فارس کو فتح امت نے کیا مگر وہ فتح ہے نبیﷺ کی۔ یورپ، افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے خطے کو شرک سے پاک کرنا اور یہاں خدائےواحد کی تکبیر کروانا بلحاظِ حقیقت رسول اللہﷺ کا غلبہ ہے۔ اِس توسیع اسلام میں مدوجذر بےشک ہیں۔ امت کو حیرت انگیز پسپائیاں ہوئیں، لیکن ہر ضرب کھانے کے بعد یہ امت ایک بار پھر اٹھی اور فتوحاتِ اسلام کو پہلے سے بھی آگے بڑھا دینے میں کامیاب ہوتی رہی۔ ایک وقت یقیناً ایسا آنے والا ہے... کہ ہوتے ہوتے یہ عمل پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور پورا جہانِ انسانی اسلام کے زیرنگیں آ جائے، جیساکہ ہم شیخ البانیؒ کی جمع کردہ احادیث میں دیکھ چکے۔

اس سلسلۂ تحاریر میں ہم توسیعِ اسلام کے اِس مدوجذر پر ایک نظر ڈالیں گے۔

یہاں جس چیز کو واضح کرنے کی کوشش ہوئی وہ یہ کہ یہاں صرف خدا کا بھیجا ہوا آخری رسولؐ نہیں بلکہ خدا کی برپا کی ہوئی آخری امت بھی ہے؛ جسے بنی اسرائیل کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے ساتھ ایک گہری مماثلت حاصل ہے، اس فرق کے ساتھ کہ بنی اسرائیل کو آسمانی شریعت کا عَلَم ایک مخصوص خطے میں اٹھا کر کھڑا ہونا تھا جبکہ اِس امت کو روئےزمین کی سطح پر۔ یعنی بنی اسرائیل کو ایک نسلی و علاقائی فنامنا  racial & regional phenomenon ہونا تھا تو اِس امت آخر الزمان کو ایک کثیرنسلی و عالمی فنامنا multi-national & global phenomenon۔ جبکہ تاریخی واقعہ بھی اللہ کے فضل سے یہی ہے۔

المختصر... اپنے رسولؐ کی دی ہوئی لائن پر اِس امت کو قیامت تک آگے بڑھتے جانا ہے، جس میں یہ کہیں کہیں لڑکھڑائے گی تو کچھ زمانے ایسے بھی آئیں گے کہ پوری زمین اور تمام بنی نوعِ انسان اِس کے زیرنگیں ہوں گے، ان شاء اللہ۔ اگرچہ مشرکوں اور منافقوں کےلیے یہ کتنا ہی تکلیف دہ ہو۔



[1]  یا (خاص صورتوں میں) پہلے سے چلی آتی ایک آسمانی امت کو ایک نئے عمل سے گزارتی ہے۔

[2]  بخاری: کتاب بدء الوحی، حدیث رقم 7۔ ویب لنک: http://goo.gl/iDdZ7p  

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز