چند سیاہی کے داغ
تقی الدین منصور
کیا تہذیبِ مغرب، چلمن سے لگی، دیدار سے تشنہ رکھے تھی؟ مستشرقین
کی خامہ فرسائیوں میں صاف چھپتی اور مشنریوں کی تگ و تاز میں سامنے آتی بھی نہ
تھی؟ پھر بھی اس حسینۂ ہزار عُشّاق کے خال و خط کے نقشے کھینچنے میں ایک دنیا مگن
رہی! حسنِ ناپید پر قصیدے کہے گئے۔ رہے واقفانِ راز، تو وہ جب بھی چیچک زدہ حسن کا
ذکر کرتے تو اسے نظریۂ سازش جانا جاتا اور واقفِ حال کو دقیانوس!
آزادی کے بعد ہنستے کھیلتے، ریچھ اور ہاتھی کی لڑائی دیکھتے چالیس سال بیتا
دیے۔ دنیا تھی ہی کیا ... مقامی سیاست کا ایک جزیرہ۔ جسے اپنے گرد غُراتی موجوں سے
کوئی غرض نہیں تھی اور نہ ہی یہ احساس کہ یہ سرکش لہریں ایک رخ ہی بدلنے کی دوری
پر ہیں۔ آزادی نے کچھ ایسا نشہ دیا کہ کالونی کی یادیں خواب ہوئیں، استعماری
بھیڑیا ایک وہم اور دو سو سال ......... صرف سیاہی کے داغ!
*****
یہ کس کے دل کی جلن ہے کہ پتہ بھی ہلے تو دریدہ دہن رسالت ماٰبؐ پر کف اڑانے لگتے ہیں۔ ہاں ہمیں معلوم ہے؛ سب
معلوم ہے۔ یہ تو مکتوب ہے:
" وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا
مِّنَ الْمُجْرِمِينَ " : ہم نے تو اسی طرح مجرموں
کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے
خدا کے نافرمان، رسولوں کے دشمن، ابلیسوں کے پروردہ، سرکش اور باغی؛ یہ
ہامان ہوں، قارون ہوں، فرعون ہوں یا آزر؛ ویٹی کن کے ٹوپی پوش یا پارلیمنٹ کے سوٹ
پوش ...... ان پر صحرا کی ریت گواہ ہے! اہراموں پر اڑتی دھول گواہ ہے:
" وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا " (الفرقان:۳۱): اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد
کو کافی ہے ۔
کیا کچھ اور بھی؟
ہاں:
" فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ " (سبا:۱۹): آخرکار ہم نے
انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا۔
محض قصّے؟
محض قصّے! چند بول اور سیاہی کے داغ!
*****
کاغذ کا سینہ جگمگ ہے صورتؐ کی جگمگ کرنوں سے، سیرتؐ کی سیمیں کرنوں
سے۔ مدحت کے جملے روشن ہیں کردار کی سچی
کرنوں سے اور شاتم کا چہرہ تیرہ ہے اعمال کی ناری لپٹوں سے......!
مانا کہ ننگ کے خوف سے چیتھڑا بھی قبول ہوتا ہے...... بھوک کے زور سے احسان
بھی قبول ہوتا ہے...۔۔ لیکن اہلِ غیرت کو گالی قبول نہیں ہوتی۔ عزت پر سودا منظور
نہیں ہوتا۔ دست دراز کو دست بریدہ کردینا چاہیے۔ منہ زور کو لگام ڈال دینی چاہیے۔
وگرنہ سُلگتے دِلوں سے اٹھتے شرارے تمہاری ہستی کو راکھ نہ کرڈالیں اور ندامت کے
لیے باقی بچے...... کاغذ کا چھلنی سینہ اور کچھ سیاہی کے داغ!
*****
کہی بھی، من کی کہی۔ سنی بھی، من کی سنی۔ نہ لفظ کم ہوئے، نہ غمِ روزگار۔
جنگلوں میں گیدڑ ہاؤ ہُو کرتے ہیں تو شہروں میں انسان۔ ہاں مگر تیشے کی چوٹ سے
سینۂ سنگ شق ہوا کرتا ہے۔ تلوار کے وار سے سرِ عدو قلم ہوا کرتا ہے......تو کیا
نوکِ قلم سے فیصلۂ تقدیر تحریر ہوا کرتا ہے؟...... ہاں! اگر خونِ جگر سے اسے
سینچاجائے! ......ورنہ......؟کچھ ٹیڑھی ترچھی لکیریں ...... اور چند سیاہی کے داغ!
*****