رزمِ
حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
معافی
مانگنا سویڈن کا سعودی عرب سے!
عائشہ
جاوید
بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے احباب بخوبی آگاہ ہوں گے کہ گزشتہ
ستمبر سویڈن کی حکومت کی زمام کارجس پارٹی
کو ملی اسکا مشن feminist policy کا علمبردار
بننا تھا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی تب دیکھنے میں آئی جب انکی وزیر خارجہ مارگوٹ وال
سٹروم نے سعودی بلاگر رائف بدوی کو ٹویٹر پر شعائر اسلا م کا تمسخر اڑانے، دین
اسلام سے برءات ظاہر کرنے اور لبرل نظریات کا پرچار کرنے کوڑوں کی سزا اور ۱۰ سال کی قید کو آزادیء اظہار کے خلاف ظلم سے تعبیر کیا ۔ محترمہ نے
محض اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ سعودی عدالتی نظام ہیومن
رائٹس کے برخلاف ہے اور عورتوں کو معاشرے میں پسپا کر کے رکھا جاتا ہے ۔
سعودی حلقوں نے اسکو اسلام پر دشنام طرازی تصور کرتے ہوئے سویڈن کی وزیر خارجہ
کو عرب لیگ کے اجلاس میں خطاب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر سویڈن نے الٹا
چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے کے معاہدہ کو منسوخ
کرنے کا اعلان کر دیا۔ کمال شان بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعودی حکام نے اس
فیصلے پر کوئی ردعمل دکھانے کی بجائے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور سویڈن کے بزنس
مین حضرات کو ویزا دینے پر پابندی عائد کر دی ۔ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا بلکہ
تما م GCC ممالک نے اتفاق رائے
کرتے ہوئے بلاد الحرمین کیساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سویڈن کی اسلام
دشمنی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی ایک ملک کےاندرونی معاملات میں
مداخلت کو تمام جی سی سی ممالک کی خود مختاری پر
حملہ تصور کیا جائے گا ۔مشترکہ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ شریعت اسلامی
افراد کے حقوق، جان ، مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہےلہذا سویڈن اسلام کے
حوالے سے کوئی بیان دینے سے پہلے زبان کو لگام دے !
OIC نے بھی رسمی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن غیرذمہ
دارانہ اور متعصب بیانات دیکر دوسرے ممالک
کو اخلاقیات کا درس دینے اور ان پر لیبل لگانے سے گریز کرے ۔
مزید برآں کبار علماء کی کونسل نے اس واقعہ کی بابت کہا کہ سعودی ریاست کو
اپنے عدالتی نظام پر فخر ہے جسکا مصدر قرآن و سنت ہے اور جہاں انسانی جان و مال کا
تقدس محفوظ ہے۔ کونسل کے سیکرٹری جنرل شیخ فہد بن سعد الماجد نے کہا کہ
ایسے واقعات ہمیں اپنی اقدار سے جڑا رہنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں اور بلاد الحرمین
امت مسلمہ کیلئے مشعل راہ ہے جس کو اللہ نے حجاج ومعتمرین کی ضیافت کیلئے منتخب
کیا ۔
سویڈن کو جب غبارے سے ہوا نکلتی محسوس ہوئی اور خود اسکی اپنی کمپنیوں نے سعودی بائیکاٹ کے نتیجے میں معاشی نقصان کا
کہرام مچایا تو اپنے تجارتی اور معاشی بقاء کے لالے پڑ گئے کہ پچھلے سال قریبا ڈیڑھ بلین کے لگ بھگ برآمدات سعودی عرب
کے ساتھ طے ہوئی تھیں اور اب یکلخت پورا مشرق وسطی متحدہ محاذ بنائے کھڑا تھا ! سفارتی روابط کی کاوشیں ناکام ہوئیں۔ نوبت یہاں تک آن
پہنچی کہ سویڈن کے شاہ کارل گوسٹاف نے اپنے خاص مندوب Bjorn Von Sydowکے ہاتھ اپنا اور وزیر اعظم سٹیفن
لووفن کا تحریری معافی نامہ بھیجا کہ ہم
دونوں ممالک کے تعلقات کی بہت قدر کرتے ہیں اور اس دراڑ کو مزید گہرا کرنے کے
خواہش مند نہیں اور مقصد اسلام جیسے عظیم مذہب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں تھا۔
We apologize if we have acted in such a manner that it
has been understood that we have somehow downgraded Saudi Arabia as a nation.
That has never been our intention and we have not done that
وزیر خارجہ کو بھی اپنی زبان درازی پر معافی مانگنا پڑی تب کہیں جا کر سعودی
عرب تعلقات کی بحالی پر رضامند ہوا۔ واضح رہے کہ یہ کسی سوشلسٹ حکومت کی جانب سے
ایک ڈکٹیٹر بادشاہ کو نہیں بلکہ ایک بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ سےمعافی مانگی
گئی تھی اور مندوب وہ شخص تھا جس کو سویڈن کے بادشاہ کی غیر موجودگی میں regent بنایا جاتا رہا ہے !
اسلامی اقدار پر نکتہ چینی کرنے والے مغرب کیلئے امید ہے یہ ایک سبق آموز
واقعہ ثابت ہو گا اور آئندہ بیانات میں وہ ایسا کرنے سے اجتناب کریں گے۔ اس بارے
میں سعودی فرمانروا کا سخت ردعمل اور عالم اسلام کا انکی حمایت کرنا یقینا قابل صد
تحسین ہے ۔ دعا ہے کہ امت محمد دین اسلام پر ہونے والے ہر ہر حملہ کے مقابل ایسی
ہی سیسہ پلائی دیوار بنی نظر آئے تاکہ دشمن ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کا
متحمل ہی نہ ہو پائے !
حوالہ جات:
1.
Washington Post: How Saudi Arabia turned Sweden’s human
rights criticisms into an attack on Islam http://goo.gl/v58Gax
2.
Zawiyah: Full GCC
solidarity with Saudi Arabia in spat with Sweden http://goo.gl/SoXVAi
3.
Senior scholars defend KSA’s Islamic laws http://goo.gl/bwLfy1
4.
Sweden Surrenders to Saudi Arabia http://goo.gl/FqquyM
5.
Diplomatic row: Sweden says sorry http://goo.gl/kIufLK
(ختم
شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ از صفحہ 38: بی بی سی
کی جانبداری)
ہيں۔حتٰى كہ وسعت اللہ خان صاحب
تك جھنجھلا اُٹھتے ہيں كہ :‘‘ويسے يہ ہو كيا رہا ہے؟‘‘
ويسے جو بھى ہو رہا ہےٹھيك ہى
ہورہا ہے۔ امريكہ اور عرب ممالك نے جو فصل
روس كیخلاف سرد جنگ كے دوران بوئى تھى يہ سب اسى
كا پھل ہے۔ چاہے وہ داعش ہو القاعدہ ہو يا حوثى۔
ويسے بھى ان جنگوں سے كس كو فائدہ ہے اور كس كو
نقصان يہ بھى پيش نظر رہے ۔ دنيا ميں سب
سےزيادہ اسلحہ كو ن بنا رہا ہے؟
مشہور داعى ڈاكٹر ذاكر نائيك سے
بارہا افغانستان ميں لڑنے والے عرب ’’دہشت گردوں‘‘ كے بارے ميں پوچھا گيا تو وہ جواب ديتے ہيں كہ: ’’ميں ان كو دہشت گرد نہيں كہتا؟محض ميں ان
كوبى بى سى اور سى اين اين كى خبروں كى بنياد پر دہشت گرد نہيں كہہ سكتا۔ ‘‘
غرض آپ اگر اس ادارہ پر بغور
نظر ڈاليں تو نہ صرف مغرب كى جانبدارى بلكہ پاكستان
كى بنيادوں كو كھوكھلا كرنے اور
ہمارے پڑوس ميں لگى جنگ كى آگ كو ہمارے ملك ميں لانے كے لئے ہمارا
دشمن جو ہتھيار استعمال كررہا ہے ان ميں سے ايك كا نام بى بى سى ہے۔