عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ العُطَاسَ، وَيَكْرَهُ
التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ
سَمِعَهُ أَنْ يُشَمِّتَهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ: فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ
الشَّيْطَانِ، فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِذَا قَالَ: هَا، ضَحِكَ مِنْهُ
الشَّيْطَانُ» (صحیح
البخاری رقم 6226)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ سے:
بندے کا چھینک لینا اللہ کو پسند ہے اور جمائی لینا ناپسند۔ پس جب وہ چھینک
لے پھر اللہ کی حمد کرے، تو ہر مسلمان پر جو اس کو سن لے حق ہے کہ اس کےلیے کلمۂ
مسرت کہے۔ رہی جمائی تو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ پس چاہئے جتنا ہو سکے اس کو روکے۔
کیونکہ جب وہ ’ہا‘ کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔
*****
چھینک آنا اور جمائی لینا
بڑی عام سی باتیں ہیں۔ البتہ حدیث میں ان کو ایک غیر معمولی چیز سے جوڑ دیا گیا ہے:
خدا کو ایک چیز کا پسند ہونا۔ اور خدا کو
ایک چیز کا ناپسند ہونا۔
اِن احادیث کی شرح میں
محدثین کہتے ہیں:
چھینک آنا صحت اور چستی کی
علامت ہے۔ یہ اس وقت جب یہ زکام کے باعث نہ ہو:
عَنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ سَمِعَ
النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ
لَهُ: «يَرْحَمُكَ اللهُ» ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرَّجُلُ مَزْكُومٌ» (صحیح مسلم۔ رقم 2993)
سلمہ بن
الاکوع سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو سنا، ایک آدمی نے چھینک لی تو آپ نے
اسے یرحمک اللہ کہا۔ آدمی نے دوبارہ چھینک لی تو آپﷺ نے فرمایا: یہ آدمی تو زکام
میں مبتلا ہے۔
نیز یرحمک اللہ کہنے کا
حکم اس وقت ہے جب چھینک لینے والا الحمد للہ کہے:
«إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ
فَحَمِدَ اللهَ، فَشَمِّتُوهُ، فَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللهَ، فَلَا تُشَمِّتُوهُ»
(صحیح مسلم۔ رقم 2992، عن أبی موسى)
تم میں
سے اگر کوئی چھینک لے اور الحمد للہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہو۔ اگر الحمد للہ
نہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ نہ کہو۔
دوسری جانب، جمائی جو
مسلمان کےلیے خدا کو ناپسند ہے، طبیعت کے سُست اور بوجھل ہونے کی علامت ہے۔ فرمایا
پوری کوشش سے اسے روکو۔ آ ہی جائے تو بھی بھدےپن سے بچو۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے منہ
پر ہاتھ رکھ لو:
«إِذَا تَثَاءَبَ
أَحَدُكُمْ، فَلْيُمْسِكْ بِيَدِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ»
(صحیح مسلم۔ رقم 2995، عن أبی سعید الخدری)
جب تم
میں سے کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیے وہ (منہ پر) اپنا ہاتھ جما لے؛ کیونکہ (اس طرح
کھلے منہ میں) شیطان داخل ہو جاتا ہے۔
حدیث کی شرح میں ابن حجر
عسقلانیؒ کہتے ہیں: ’’جمائی کو جس قدر ہو سکے روکے‘‘۔ مثلاً ہونٹ بھینچ لے۔ ’’کیونکہ
جب وہ ہا کرتا ہے‘‘ مقصد یہ کہ حدیث میں جمائی لینے والے کی تصویر کشی کی گئی ہے
’’تو شیطان اس پر ہنستا ہے‘‘ یعنی اس کی بگڑی ہوئی شکل پر بغلیں بجاتا ہے۔ ابن
ماجہ کی روایت میں: «إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ،
وَلَا يَعْوِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْهُ» (ابن ماجہ رقم 968) ’’جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ
منہ پر رکھ لے، اور بھونکنے کی آواز نہ نکالے، کیونکہ شیطان اس پر ہنستا ہے۔ چنانچہ
لمبی جمائی لینا ساتھ آواز نکالنا کتے کے بھونکنے کے ساتھ مشابہ ٹھہرایا گیا ہے؛
کیونکہ کتا سر اٹھا لیتا منہ پورا کھول لیتا اور بیہودہ آواز نکالتا ہے۔ چنانچہ
ایسی حرکت آدمی پر شیطان ہنسائی کا موجب بنتی ہے۔ آگے چل کر ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
ابو ہریرہ کی حدیث میں نماز میں جمائی کی بات ہوئی ہے۔ کیونکہ نماز میں شیطان کی
اور بھی کوشش ہوتی ہے کہ آدمی کو خراب کرے۔ چنانچہ احتمال یہ ہے کہ نماز میں یہ
اور بھی ناپسندیدہ ہو۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کے ماسوا اوقات میں یہ
مکروہ نہیں ہے۔ نوویؒ نے بھی اسی کی صراحت کی ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری: مؤلفہ ابن حجر ج 10 ص 612)
یہاں ایک اشکال کہ: چھینک
اور جمائی دونوں پر آدمی کا کیا اختیار؟ ابن جوزیؒ اس کا جواب دیتے ہیں: چھینک کا
تعلق مسام کھلنے اور طبیعت میں چستی اور پھرتی آنے کے ساتھ ہے۔ آدمی غذا کے معاملے
میں ہلکاپھلکا رہے تو ہی طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے۔ جمائی کا تعلق جسم کی مردنی اور
خوابیدگی سے ہے۔ آدمی پیٹ میں غذا ٹھونس لے تو طبیعت خودبخود بوجھل ہوتی ہے۔
چنانچہ چھینک کی تعریف ہوئی کیونکہ ایسی طبیعت عبادت میں مددگار ہوتی ہے۔ جمائی کی
مذمت ہوئی کیونکہ یہ اعلیٰ کاموں میں
انسان کو بےرغبت کرتی ہے۔ جمائی لینے والے آدمی سے ’ہا‘ کی آواز نکلنے پر شیطان کا
ہنسنا، اس کے دو معنے ہیں: ایک یہ کہ شیطان پہلے اِسے پیٹ بھرنے پر اکساتا رہا۔ اب
جب اُس کی محنت رنگ لائی تو اِس ادھ موئے پر وہ ہنس ہنس کر خوش ہونے لگا۔ دوسرا یہ
کہ جمائی لینے والے کے حق میں مسنون یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس پر قابو پائے۔
لیکن یہ شخص شریعت کے بتائے ہوئے ادب manner کا
پابند نہ رہ سکا اور منہ باک کر ’ہا‘ کرنے لگا، تو اِس سے ادب کا دامن چھوٹتا دیکھ
کر شیطان بغلیں بجانے لگا۔
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین مؤلفہ ابن جوزی ج 3 ص 530)۔
ملا علی قاریؒ ودیگر اہل
علم نے ذکر کیا: کسی نبی نے کبھی جمائی نہیں لی۔
تاہم چھینک کو مستحسن
ٹھہرانے کے باوجود، حدیث میں آتا ہے:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ
بِهَا صَوْتَهُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» (الترمذی عن أبی ھریرۃ، حسنہ الألبانی)
نبیﷺ جب
چھینک لیتے، اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ یا کپڑے سے ڈھک لیتے، اور آواز اونچی نہ ہونے
دیتے۔
مستدرک حاکم کی ایک حدیث
میں ایسا کرنے (کپڑے یا ہاتھ سے منہ ڈھک لینے) کا باقاعدہ حکم بھی دیا ہے۔
بیہقی کی شُعب الایمان میں
ڈکار کی بابت بھی کچھ ایسے ہی آداب سکھائے جاتے ہیں:
یزید بن مرثد نے تین صحابیوں
کو پایا: عبادۃ بن الصامت، شداد بن اوس، واثلہ بن الاسقع، تینوں نے نبیﷺ کا یہ
ارشاد روایت کیا:
"إِذَا تَجَشَّأَ أَحَدُكُمْ أَوْ عَطَسَ ,
فَلَا يَرْفَعَنَّ بِهِمَا الصَّوْتَ , فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يُحِبُّ أَنْ
يَرْفَعَ بِهِمَا الصَّوْتَ" (شُعَب الإیمان للبیہقی، رقم 8912)
جب تم
میں سے کسی آدمی کو ڈکار آئے یا چھینک آئے، تو وہ ہرگز آواز اونچی نہ ہونے دے؛
کیونکہ شیطان چاہتا ہے کہ یہ دونوں (حرکتیں) اونچی آواز سے ہوں۔
*****
قارئین!
کیا آپ نے غور فرمایا:
شہزادوں کو بھی کب اس
طریقے سے آداب manners
& etiquettes سکھائے جاتے ہوں گے جس طرح نبیﷺ اپنی امت کو
ازرُوئےدین یہ آداب سکھا رہے ہیں! اور ذرا غور فرمائیے، یہ دنیا کی اجڈ اور گنوار
ترین قوم تھی! دِنوں کے اندر کیا سے کیا ہو گئی! یہ ہے ان میں ’’ایک رسول کا مبعوث
ہونا‘‘! عقیدہ سے لے کر احکام، اخلاق اور آداب تک ہر چیز سکھائی گئی، یہاں
تک کہ یہ دنیا کی سب سے دلبر قوم بن گئی اور لوگ اس کی ایک ایک ادا پر مرنے لگے۔
اس کے عقیدہ کو دیکھیں اور اس میں جو خدا کا وصف بیان کیا گیا ہے، نیز کائنات کی
جو حقیقت اور غایت بیان کر کے دی گئی ہے، نیز زمین پر انسان کا جو کردار متعین کر
کے دیا گیا ہے، پھر اس میں عبادت کا جو حسن سمویا گیا ہے، لوگوں نے اس کو دیکھا تو
اش اش کر اٹھے اور ایسے اعلیٰ تصور کی مالک قوم کو خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتے اور
خدا کا ذکر کرتے دیکھ کر ہی محمدﷺ کے گرویدہ ہونے لگے۔ اس کی شریعت کے احکام کو
دیکھا تو ان میں ایک ایسا حسن اور نظم پایا کہ محمدﷺ پر فریفتہ ہوتے چلے گئے۔ اس
کے اخلاق کو دیکھا تو محمدﷺ کو دل دے بیٹھے۔ اس کے آداب کو دیکھا تو محمدﷺ کا کلمہ
پڑھتے چلے گئے۔ سبحان اللہ اس دین کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ شہزادوں کا دین
ہو؛ غلاموں، ’گلیوں میں پلنے والے بچوں‘، نیچ لوگوں، گھٹیا اور میلےکچیلے پر راضی
ہو رہنے والوں کےلیے تو گویا یہ ہے ہی نہیں۔ غرض ایک قوم کو پاتال سے اٹھا کر
تہذیب کے ثریا پر پہنچا دیتا ہے۔
حضرات اوپر احادیث کا جو
بیان ہوا... اسے پڑھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں ’جمائی سے متعلقہ مسئلے
مسائل‘ کی صورت میں لیا جائے! بالعموم ہمارے ہاں یہی ہوتا ہے۔
البتہ ایک طریقہ اِن نصوص
کو پڑھنے کا یہ ہے کہ ایک جزء سے اُس پوری تصویر کا اندازہ کیا جٍائے جو شریعت
’’مسلمان‘‘ میں تخلیق کرنا چاہتی ہے اور اس سے وہ سپرٹ کشید کی جائے جو ’’فرد‘‘
اور ’’سوسائٹی‘‘ کی تشکیل میں شریعت کے پیش نظر ہے۔
کیا آپ تعجب نہیں کرتے،
جمائی سے منہ کھلے شخص پر شیطان کا ہنسنا! اور شرع کو یہ بات گوارا نہ ہونا! تصور
کرلیجئے، چند لمحات کےلیے بھی ’’مسلمان‘‘ کے حق میں یہ بات شرع کو منظور نہیں! خدا
کا دشمن خدا کے بندے پر ہنسے، شرع کو یہ ایک لحظہ قبول نہیں!
تو پھر... سُستی، کاہلی،
عدم فاعلیت کا شکار، لتھارجی کا مارا ہوا مسلمان! دنیا بھر میں جوتے کھاتا مسلمان!
ذلت قبول کر چکا، کافروں کے آگے کشکول پھیلاتا، خیرات مانگتا، سفارتخانوں کے آگے
دھکے کھاتا مسلمان! کافروں کے آگے بھیگی بلی بنا اور ان سے ’تہذیب‘ سیکھتا، اقوامِ
عالم سے بدنظمی اور گنوارپن کے طعنے سنتا مسلمان! اعلیٰ آداب اور تہذیبی رویوں سے
تہی دامن مسلمان! دنیا میں ’مسلمان‘ کی یہ جو قسم دریافت ہوئی ہے اس پر شیطان بھلا
کیسی کیسی بغلیں نہ بجاتا ہوگا۔ شرع کےلیے یہ کس قدر ناگوار ہوگا... ’چھینک‘ اور
’جمائی‘ والی حدیث فرفر پڑھ جانے والے قوم کے معلّم کیا اس پر بھی کبھی سوچتے ہوں
گے؟!