الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ
وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ: 3)
جو مانتے ہیں بن دیکھے۔ اور قائم کر رکھتے ہیں
نماز۔ اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرنے والے ہیں۔
******
انسانوں کی اُس صنف کا ذکر
جو زندگی کا سراغ پا گئی۔وہ کہانی سمجھ گئی جو زمین و آسمان کی تخلیق سے ان کو
بیان کر کے دی گئی تھی۔ یہ اُس بربادی سے
بچ گئی جو ایسی بامعنیٰ تخلیق کو نہ سمجھنے والوں کے حق میں لازماً پیش آ کر رہے
گی۔ پچھلی آیت میں اِنہیں ’’متقین‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ بچ بچ کر رہنے والے،
ہوشمند اور خبردار لوگ ہیں۔ ہر دم آنکھیں کھلی رکھنے والے۔ ممکن نہیں کہ وجود کی اس کہانی کو سمجھ لینے
والوں اور نہ سمجھ پانے والوں کی زندگی ایک سی ہو۔ پس یہاں تمام بیان اُس ’’فرق‘‘ کا ہوگا جو اس
خوش نصیبی کو پا لینے اور اس سے محروم رہنے والوں کے مابین ہے؛ اِس جہانِ امتحان
کے اندر بھی اور اُس جہانِ جزا و سزا کے اندر بھی۔
اب ان ’’متقین‘‘ کا وصف
شروع ہوتا ہے: مخصوص اعتقادات۔ مخصوص اعمال۔ مخصوص رویے۔ جو آسمانی بارش سے ان
پاکیزہ زمینوں میں جنم لے اٹھتے ہیں۔
یہ سب معاملہ شروع ہوتا ہے
’’ایمان بالغیب‘‘ سے۔ ’’بن دیکھے‘‘ ڈر جانے سے۔ ابن کثیرؒ کہتے ہیں: بعض مفسرین نے
}يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ’’مانتے ہیں بن دیکھے‘‘{ کی
تفسیر }إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ
رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ ’’بےشک وہ لوگ جو
ڈرتے ہیں اپنے پروردگار سے بن دیکھے{ سے
کی ہے۔ نیز }مَنْ
خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ ’’جو ڈر گیا رحمٰن سے بن دیکھے اور ایک توجہ
والا دل لے آیا{ سے۔ اس لیے کہ خشیت دراصل
ایمان اور علم کا نچوڑ ہے۔ فرمایا: إِنَّمَا
يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ
ہی اُس سے ڈرتے ہیں‘‘۔
شیخ سعدی کہتے ہیں: متقین
کا وصف شروع ہوتا ہے عقائد اور اعمال باطنہ سے۔ اس کے بعد اعمالِ ظاہرہ آتے ہیں۔
اور ’’تقوىٰ‘‘ ان سب اشیاء کو شامل ہے۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے: کہ رسولوں کی
بتائی ہوئی باتوں کو آدمی دل سے مان لے اور وہ ایک ایسا ماننا ہو جو آدمی کے اعضاء
و جوارح سے اپنا ظہور کرے۔ اصل چیز ہے ہی ایمان بالغیب۔ جہاں تک سامنے پڑی چیز
کو ’’ماننے‘‘ کا تعلق ہے تو اس میں تو مسلم کافر سب برابر ہیں۔ اصل چیز ہے اُن
حقیقتوں کو ماننا جو سامنے نہیں ہیں لیکن خدا اور رسولؐ نے ان کی طرف ہماری
راہنمائی فرما دی ہے۔ یہ ہے فرق مسلم اور کافر میں۔ یعنی محض خدا اور رسولؐ کے
بتانے سے مان لینا۔ خدا جو بتائے، اُس کا رسول جو بتائے، خواہ وہ دیکھنے میں آیا
ہو یا نہ، خواہ وہ سمجھ میں آتا ہو یا نہ، ہماری ناقص عقلیں اس کا احاطہ کر پائی
ہوں یا نہ... مومن وہ جو انہیں مان گیا اور ہدایت اور فلاح پا گیا۔ جبکہ کافر وہ
جو یہ ضد لے کر بیٹھ گیا کہ سب باتیں پہلے اس کے احاطۂ علم میں آئیں۔
خود سوچو، کائنات کی اتنی
بڑی بڑی حقیقتیں اتنی چھوٹی سی کھوپڑی میں بھلا کیسے سمائیں۔ البتہ زمین آسمان کو
پیدا کرنے والا اور خود اِس کی کھوپڑی بنانے والا آپ اپنی زبان سے اِسے کچھ بتا دے
وہ اِسے تسلیم نہیں! حالانکہ جو اِس کے دیکھنے کی چیزیں تھیں وہ اُس نے اِسے دکھا
دیں۔ حق یہ ہے کہ وہ بھی اِس نے اپنے زورِبازو سے نہیں دیکھیں؛ اس مقصد کےلیے اِسے آنکھیں اُس مہربان نے ہی عطا کی تھیں؛
جنہیں یہ ’’اپنی چیز‘‘ سمجھتا ہے! البتہ جو چیزیں اِسے بتانے کی تھیں وہ اِسے بتا
دینے پر ہی اکتفا کیا؛ اور انہیں ماننے کےلیے اِسے قلب و شعور دیا؛ ساتھ وہ قرائن
جو شہادت دیں کہ یہ اُس علیم وحکیم ہی کا کلام ہے۔ متقین اور فلاح پانے والے پس وہ
ہوئے جن کی آنکھیں بھی انہیں کام دیں اور دل بھی۔
پس یہ سب محنت رسول کی
لائی ہوئی باتوں کو دل میں بٹھانے سے متعلق ہوئی۔ یہ باتیں کہیں نہیں ملیں گی
سوائے خدا کی اتاری ہوئی کتابوں اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کے یہاں۔ یہ ہے اصل
گھاٹ جہاں سے ’’حقیقت‘‘ کے متلاشی سیراب ہوتے ہیں۔ اور ’’فلاح پانے والے‘‘ جو اِس
گھاٹ سے اٹھنے کا نام نہ لیں۔ بقول ابن قیم: یہ یہاں سے بھر بھر کر پیتے ہیں۔ نبیؐ
کا لایا ہوا ’’کوثر‘‘ دنیا میں یہ ہے۔ اِسی
چشمہ سے نصیب والے یہاں سیراب ہوئے اور اِسی سے یہ اگلے جہان جا کر۔ یہاں جو نبیؐ
کے ہاتھ سے نہ پئے وہ اگلے جہان میں نبیؐ کے ہاتھ سے پینے کی آس کیسے رکھے!
’’دیکھی ہوئی‘‘ کائنات تو اصل میں کچھ ’’اَن دیکھی‘‘ حقیقتوں کےلیے پیاس پیدا کرتی
ہے! انسان فنا پر کب راضی ہے!
رسول سے استغناء؟! اس سے
بڑھ کر کوئی جرم اور کوئی کفر اور کوئی نحوست اور کوئی بدنصیبی بھلا ہو سکتی ہے؟؟؟
وہ انسان جسے محض یہ جاننے
کےلیے کہ اِس کے قدموں تلے کی زمین چپٹی نہیں گول ہے، ہزاروں سال درکار ہوئے،
ضرورتمند ہے کہ کچھ بڑی بڑی حقیقتیں اس کو ’’بتا‘‘ ہی دی جائیں۔ سمجھ والا ہوا تو
انہیں مان لے گا، بےسمجھ ہوا تو انہیں ’’دیکھنے‘‘ پر ضد کرے گا! ’’بتانے والا‘‘
غنی اور بےنیاز ہے اور محض اپنی مہربانی سے، اور اِس کی ضرورت کے تحت، اِس کو بتا
رہا ہے۔ اِدھر؛ یہ حاجتمند ہے اور محض عاقبت نااندیشی سے اِس نعمت کو ٹھکرا رہا
ہے۔
سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں
’’غیب‘‘ میں وہ تمام امورِ غیب آتے ہیں جن سے خدا نے بذریعہ وحی انسان کو آگاہ کیا
ہے۔ یہ امورِغیب ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے متعلق۔ احوالِ آخرت۔ اوصافِ
خداوندی اور عالم بالا۔ غرض جو جو بات رسولوں نے انسان کو بتا دی خواہ وہ خدا کے وجود
سے متعلق ہو، خواہ خدا کی صفات سے متعلق، یا خدا کے مطالبوں سے متعلق، یا ان کے
انجام سے متعلق۔ یہ رسولوں کی ایک ایک بات کو سنتے اور مانتے چلے جاتے ہیں اگرچہ
ان کی کیفیت ان کی سمجھ میں نہ بھی آئے۔
بغویؒ
کہتے ہیں: ابن عباس فرماتے ہیں: یہاں ’’غیب‘‘ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو تمہاری نظر سے اوجھل ہے اور تمہیں (بذریعہ وحی) اسے ماننے کا حکم
ہے۔ یعنی ملائکہ، بعث بعد الموت، جنت، دوزخ، صراط اور میزان
(وغیرہ)۔ یہ بھی تفسیر ہوئی ہے کہ غیب (اَن دیکھے) سے یہاں مراد ہے اللہ رب العزت۔
ایک تفسیر ہے: قرآن۔ حسن بصریؒ کہتے ہیں: آخرت کا جہان۔
رازیؒ کہتے ہیں: یہ آیت تقویٰ کا ذکر ہونے کے بعد آئی
ہے۔ اگرچہ مشہور تفسیر کی رُو سے یہ تقوىٰ کی تفصیل ہے۔ پھر بھی کلام کی ترتیب
قابل غور ہے۔ تقویٰ کا ذکر خدا کے مطلوبہ اعتقادات، اعمال اور اخلاق سے پہلے کرنے
کا ایک مقصد یہ ہے کہ دل کی لوح پر سے پہلے باطل عقائد، برے اعمال اور گھٹیا اخلاق
کے نقوش کھرچ ڈالے جائیں اور پھر یہاں پر کچھ اعلیٰ و فاضل نقوش ثبت کیے جائیں۔
وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ
’’اَن دیکھے‘‘ جہان پر ایمان کی بات ہو چکی۔ اب ’’اَن دیکھے‘‘ جہان سے اتصال کی بات ہو رہی
ہے...
یہاں
ہمارے سامنے اب وہ انسان ہے جو ہر چند ساعت بعد اُس ’’اَن دیکھے‘‘ جہان سے رابطہ کرنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اِس عمل کے دوران کچھ خاص کیفیات میں محو ہو جاتا ہے۔
اِس کا انگ انگ خدا کی
طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ہر چند ساعت بعد گویا یہ اِس جہان سے نکل کسی ’’اَن دیکھے‘‘ جہان میں چلا جاتا ہے اور اس
کےلیے ڈھیروں طلب، چاہت اور جستجو دکھاتا ہے۔
’’ایمان بالغیب‘‘ کا سب سے
بڑا ظہور ’’نماز‘‘ ہے۔ ’’اَن دیکھی‘‘ ہستی کے آگے ’’سجدہ ریز‘‘ ہونا!!!
اُس کے آگے بار بار جھکنا۔ اُس کی تسبیح اور پاکی بیان کرنا۔ اُس کی تقدیس بیان
کرتے چلے جانا۔ اُس کے آگے ہاتھ پھیلانا۔ کورنش بجا لانا۔ اُس سے مانگنا اور جو
اُس نے دیا اس پر اُس کی حمد کرنا۔ اُس کے ساتھ ہم کلامی!!! اُس کی سننا اور اُس
کو اپنی سنانا۔ سبحان اللہ، خدا کے ساتھ گفتگو!!! دل، زبان، اعضاء سب کا خدا کی
طرف متوجہ ہو جانا اور تمام دنیوی حرکات و سکنات سے کچھ دیر کےلیے مکمل طور پر نکل
آنا۔ فقر اور عبادت کے جتنے معانی ’’نماز‘‘ میں ظہور کرتے ہیں اور ہر طرف سے کٹ کر
خدا سے لو لگانے کی کیفیات جتنی ’’نماز‘‘ میں آدمی پر عود کرتی ہیں کسی چیز میں
نہیں کرتیں۔ ایمان اور احسان کی سب منازل یہیں ہیں۔ بدنصیب ہے وہ جسے اپنے تزکیہ
اور روحانی ترقی کےلیے ’’نماز‘‘ کی متبادل ریاضتوں کی تلاش ہو۔
سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں نماز
’’پڑھنے‘‘ کا نہیں کہا گیا۔ ’’قائم کرنے‘‘ کا کہا گیا ہے۔ یعنی نماز کی ظاہری صورت
کو پورا کر ڈالنا وہ کل کام نہیں جو اِن ’’فلاح پانے والوں‘‘ کا وصف ہے۔ نماز کی ظاہری اقامت یہ ہے کہ
اس کے ارکان، واجبات اور شروط وغیرہ پورے کیے جائیں۔ نماز کی باطنی اقامت
یہ ہے کہ اس میں دل حاضر ہو۔ اس میں انسان جو بولتا اور کرتا ہے اس پر خوب غور ہو۔
یہ ہے وہ نماز جس کی ایک پہچان یہ بتائی گئی: إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ
الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ’’بےشک نماز بےحیائی اور بدی کے کاموں سے روکتی
ہے‘‘۔ یہی نماز ہے جو ثواب دلواتی ہے۔ انسان کو نماز سے اُسی قدر ثواب ملنے والا
ہے جس قدر اُس نے نماز میں دل ڈال رکھا تھا۔ یہاں جس نماز کی بات کی گئی ہے اس میں
فرض نمازیں بھی آتی ہے اور نفل بھی۔
وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
اپنے مال کو معبود کی نذر
کرنا ’’عبادت‘‘ کا ایک قوی مظہر ہے۔ جو ایک روپیہ بھی اپنے معبود کےلیے نکالتا ہے
دراصل وہ اپنے پورے مال کو اُس کی دین مانتا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے اس کو
اپنے زورِ بازو کا کمال نہ جاننا بلکہ کسی مہربان کی عطا ماننا عبدیت کے معانی سمجھنے
میں بہت اہم ہے۔ خود یہ ’’زورِ بازو‘‘ اُس کی عطا ہے۔ پس یہ اُس کی ربوبیت کو
تسلیم کرنا ہے اور اپنے کمال سے دستبردار ہونا۔ یہاں فقر کا ایک بہت بڑا معنیٰ
ظاہر ہوتا ہے۔ اور فقر عبادت کی جان ہے۔ پھر اس میں سے معبود کےلیے اور معبود کے
کہے کے مطابق خرچ کرنا انسان کو کسی ہستی کا عبد اور پابند ہونے کے معانی سے آشنا
کرواتا ہے۔ پس یہ مسئلہ کچھ روپے ’چندہ‘ دینے کا نہیں؛ رزق کی حقیقت کو جاننے اور
رازق کو پہچاننے کا ہے۔
سعدیؒ کہتے ہیں: اس میں
تمام واجب اور مستحب نفقات آ جاتے ہیں۔ واجب نفقات مانند زکات، اہل خانہ، اور
غلاموں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرنا وغیرہ۔ مستحب نفقات جو عام بھلائی کے
کاموں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہاں، جن پر خرچ کرنا ہے اُن کا ذکر نہیں ہوا (سورت
میں آگے چل کر، نیز قرآن کے دیگر مقامات پر ان کا ذکر آتا ہے)، اس لیے کہ مستحقین
کی تفصیل لمبی اور متنوع ہے۔ البتہ ’’خرچ کرنے‘‘ کا یہ عمل چونکہ عبادت اور خدا کی
جستجو کا ذریعہ ہے اس لیے اس کا یہاں ذکر کر دیا گیا۔
سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں وَمِمَّا (اس میں سے) کا لفظ تبعیض کےلیے ہے۔ یعنی یہ بتایا جارہا ہے کہ اپنا دیا ہوا مال تم سے سارا نہیں
مانگا۔ اس میں سے کچھ ہی طلب کیا ہے، جو کوئی اتنا بھاری اور مشکل نہیں ہے۔ البتہ
ہے یہ بھی تمہارے اپنے فائدے کےلیے اور تمہارے بھائی بندوں کی ضرویات پوری کروانے
کےلیے۔
سعدیؒ کہتے ہیں: قرآن میں
جابجا صلوٰۃ اور زکوٰۃ کو اکٹھا رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ نماز معبود کےلیے اخلاص
سکھاتی ہے اور زکات خدا کی مخلوق کے ساتھ بھلائی۔ چنانچہ انسان کی سعادت کے یہ دو
ہی عنوان ہیں: ایک معبود کی بندگی و رضاجوئی۔ دوسرا مخلوق کو نفع پہنچانا۔ دوسری
جانب، انسان کی بدبختی کے بھی یہ دو ہی عنوان ہیں: ایک: آدمی کا خدا سے منہ موڑ
رکھنا۔ دوسرا: مخلوق کے حق میں بےفیض ہونا۔
چنانچہ
اس ایک مختصر آیت میں عبادت کی پوری جہت واضح ہوگئی: ایک اَن دیکھے جہان کی تیاری جس کی صورت یہ ہے کہ آدمی خالق اور مخلوق دونوں کا
حق ادا کرنے پر کمربستہ ہو جائے۔
ابن کثیرؒ کہتے ہیں: ابن
جریر طبریؒ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت زکات اور نفقات دونوں کو شامل
ہے۔ فرمایا: اس کی صحیح ترین تفسیر یہی ہے کہ وہ تمام اخراجات جو آدمی پر شریعت کی
جانب سے فرض ہوں۔ خواہ وہ زکات ہو یا اہل و عیال وغیرہ کا خرچ۔
رازیؒ کہتے ہیں: اس آیت
میں انفاقِ واجب اور انفاقِ مستحب دونوں آتے ہیں۔ انفاقِ واجب تین قسم ہے:
1. زکات۔
2. آدمی کا
اپنے اوپر اور اپنے زیرپرورش افراد پر وہ خرچ کرنا جو شریعت کی جانب سے فرض ہے۔
3. جہاد
(خدا کے دین کو سربلند کرنے) کےلیے خرچ کرنا۔
رہ گیا اِنقاقِ مستحب تو
اس کے مصارف متنوع ہیں۔
(نوٹ: ہمارے ان قرآنی
اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے
ہیں)