عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, November 23,2024 | 1446, جُمادى الأولى 20
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-05 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
بن دیکھے!
:عنوان

’’ایمان بالغیب‘‘ کا سب سے بڑا ظہور ’’نماز‘‘ ہے۔ ’’اَن دیکھی‘‘ ہستی کے آگے ’’سجدہ ریز‘‘ ہونا!!! اُس کے آگے بار بار جھکنا۔ اُس کی تسبیح اور پاکی بیان کرنا۔ اُس کی تقدیس بیان کرتےچلے جانا۔ اُس کے آگے ہاتھ پھیلانا

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ      (البقرۃ: 3)

جو مانتے ہیں بن دیکھے۔ اور قائم کر رکھتے ہیں نماز۔ اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرنے والے ہیں۔

******

انسانوں کی اُس صنف کا ذکر جو زندگی کا سراغ پا گئی۔وہ کہانی سمجھ گئی جو زمین و آسمان کی تخلیق سے ان کو بیان کر کے دی گئی تھی۔  یہ اُس بربادی سے بچ گئی جو ایسی بامعنیٰ تخلیق کو نہ سمجھنے والوں کے حق میں لازماً پیش آ کر رہے گی۔ پچھلی آیت میں اِنہیں ’’متقین‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ بچ بچ کر رہنے والے، ہوشمند اور خبردار لوگ ہیں۔ ہر دم آنکھیں کھلی رکھنے والے۔  ممکن نہیں کہ وجود کی اس کہانی کو سمجھ لینے والوں اور نہ سمجھ پانے والوں کی زندگی ایک سی ہو۔  پس یہاں تمام بیان اُس ’’فرق‘‘ کا ہوگا جو اس خوش نصیبی کو پا لینے اور اس سے محروم رہنے والوں کے مابین ہے؛ اِس جہانِ امتحان کے اندر بھی اور اُس جہانِ جزا و سزا کے اندر بھی۔

اب ان ’’متقین‘‘ کا وصف شروع ہوتا ہے: مخصوص اعتقادات۔ مخصوص اعمال۔ مخصوص رویے۔ جو آسمانی بارش سے ان پاکیزہ زمینوں میں جنم لے اٹھتے ہیں۔

یہ سب معاملہ شروع ہوتا ہے ’’ایمان بالغیب‘‘ سے۔ ’’بن دیکھے‘‘ ڈر جانے سے۔ ابن کثیرؒ کہتے ہیں: بعض مفسرین نے }يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ’’مانتے ہیں بن دیکھے‘‘{ کی تفسیر }إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ ’’بےشک وہ لوگ جو ڈرتے ہیں اپنے پروردگار سے بن دیکھے{ سے کی ہے۔ نیز  }مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ ’’جو ڈر گیا رحمٰن سے بن دیکھے اور ایک توجہ والا دل لے آیا{ سے۔ اس لیے کہ خشیت دراصل ایمان اور علم کا نچوڑ ہے۔ فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں‘‘۔

شیخ سعدی کہتے ہیں: متقین کا وصف شروع ہوتا ہے عقائد اور اعمال باطنہ سے۔ اس کے بعد اعمالِ ظاہرہ آتے ہیں۔ اور ’’تقوىٰ‘‘ ان سب اشیاء کو شامل ہے۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے: کہ رسولوں کی بتائی ہوئی باتوں کو آدمی دل سے مان لے اور وہ ایک ایسا ماننا ہو جو آدمی کے اعضاء و جوارح سے اپنا ظہور کرے۔ اصل چیز ہے ہی ایمان بالغیب۔ جہاں تک سامنے پڑی چیز کو ’’ماننے‘‘ کا تعلق ہے تو اس میں تو مسلم کافر سب برابر ہیں۔ اصل چیز ہے اُن حقیقتوں کو ماننا جو سامنے نہیں ہیں لیکن خدا اور رسولؐ نے ان کی طرف ہماری راہنمائی فرما دی ہے۔ یہ ہے فرق مسلم اور کافر میں۔ یعنی محض خدا اور رسولؐ کے بتانے سے مان لینا۔ خدا جو بتائے، اُس کا رسول جو بتائے، خواہ وہ دیکھنے میں آیا ہو یا نہ، خواہ وہ سمجھ میں آتا ہو یا نہ، ہماری ناقص عقلیں اس کا احاطہ کر پائی ہوں یا نہ... مومن وہ جو انہیں مان گیا اور ہدایت اور فلاح پا گیا۔ جبکہ کافر وہ جو یہ ضد لے کر بیٹھ گیا کہ سب باتیں پہلے اس کے احاطۂ علم میں آئیں۔

خود سوچو، کائنات کی اتنی بڑی بڑی حقیقتیں اتنی چھوٹی سی کھوپڑی میں بھلا کیسے سمائیں۔ البتہ زمین آسمان کو پیدا کرنے والا اور خود اِس کی کھوپڑی بنانے والا آپ اپنی زبان سے اِسے کچھ بتا دے وہ اِسے تسلیم نہیں! حالانکہ جو اِس کے دیکھنے کی چیزیں تھیں وہ اُس نے اِسے دکھا دیں۔ حق یہ ہے کہ وہ بھی اِس نے اپنے زورِبازو سے نہیں دیکھیں؛ اس مقصد کےلیے  اِسے آنکھیں اُس مہربان نے ہی عطا کی تھیں؛ جنہیں یہ ’’اپنی چیز‘‘ سمجھتا ہے! البتہ جو چیزیں اِسے بتانے کی تھیں وہ اِسے بتا دینے پر ہی اکتفا کیا؛ اور انہیں ماننے کےلیے اِسے قلب و شعور دیا؛ ساتھ وہ قرائن جو شہادت دیں کہ یہ اُس علیم وحکیم ہی کا کلام ہے۔ متقین اور فلاح پانے والے پس وہ ہوئے جن کی آنکھیں بھی انہیں کام دیں اور دل بھی۔

پس یہ سب محنت رسول کی لائی ہوئی باتوں کو دل میں بٹھانے سے متعلق ہوئی۔ یہ باتیں کہیں نہیں ملیں گی سوائے خدا کی اتاری ہوئی کتابوں اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کے یہاں۔ یہ ہے اصل گھاٹ جہاں سے ’’حقیقت‘‘ کے متلاشی سیراب ہوتے ہیں۔ اور ’’فلاح پانے والے‘‘ جو اِس گھاٹ سے اٹھنے کا نام نہ لیں۔ بقول ابن قیم: یہ یہاں سے بھر بھر کر پیتے ہیں۔ نبیؐ  کا لایا ہوا ’’کوثر‘‘ دنیا میں یہ ہے۔ اِسی چشمہ سے نصیب والے یہاں سیراب ہوئے اور اِسی سے یہ اگلے جہان جا کر۔ یہاں جو نبیؐ کے ہاتھ سے نہ پئے وہ اگلے جہان میں نبیؐ کے ہاتھ سے پینے کی آس کیسے رکھے! ’’دیکھی ہوئی‘‘ کائنات تو اصل میں کچھ ’’اَن دیکھی‘‘ حقیقتوں کےلیے پیاس پیدا کرتی ہے! انسان فنا پر کب راضی ہے!

رسول سے استغناء؟! اس سے بڑھ کر کوئی جرم اور کوئی کفر اور کوئی نحوست اور کوئی بدنصیبی بھلا ہو سکتی ہے؟؟؟

وہ انسان جسے محض یہ جاننے کےلیے کہ اِس کے قدموں تلے کی زمین چپٹی نہیں گول ہے، ہزاروں سال درکار ہوئے، ضرورتمند ہے کہ کچھ بڑی بڑی حقیقتیں اس کو ’’بتا‘‘ ہی دی جائیں۔ سمجھ والا ہوا تو انہیں مان لے گا، بےسمجھ ہوا تو انہیں ’’دیکھنے‘‘ پر ضد کرے گا! ’’بتانے والا‘‘ غنی اور بےنیاز ہے اور محض اپنی مہربانی سے، اور اِس کی ضرورت کے تحت، اِس کو بتا رہا ہے۔ اِدھر؛ یہ حاجتمند ہے اور محض عاقبت نااندیشی سے اِس نعمت کو ٹھکرا رہا ہے۔

سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں ’’غیب‘‘ میں وہ تمام امورِ غیب آتے ہیں جن سے خدا نے بذریعہ وحی انسان کو آگاہ کیا ہے۔ یہ امورِغیب ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے متعلق۔ احوالِ آخرت۔ اوصافِ خداوندی اور عالم بالا۔ غرض جو جو بات رسولوں نے انسان کو بتا دی خواہ وہ خدا کے وجود سے متعلق ہو، خواہ خدا کی صفات سے متعلق، یا خدا کے مطالبوں سے متعلق، یا ان کے انجام سے متعلق۔ یہ رسولوں کی ایک ایک بات کو سنتے اور مانتے چلے جاتے ہیں اگرچہ ان کی کیفیت ان کی سمجھ میں نہ بھی آئے۔

بغویؒ کہتے ہیں: ابن عباس﷛ فرماتے ہیں: یہاں ’’غیب‘‘ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو تمہاری نظر سے اوجھل ہے اور تمہیں (بذریعہ وحی) اسے ماننے کا حکم ہے۔ یعنی ملائکہ، بعث بعد الموت، جنت، دوزخ، صراط اور میزان (وغیرہ)۔ یہ بھی تفسیر ہوئی ہے کہ غیب (اَن دیکھے) سے یہاں مراد ہے اللہ رب العزت۔ ایک تفسیر ہے: قرآن۔ حسن بصریؒ کہتے ہیں: آخرت کا جہان۔

رازیؒ کہتے ہیں: یہ آیت تقویٰ کا ذکر ہونے کے بعد آئی ہے۔ اگرچہ مشہور تفسیر کی رُو سے یہ تقوىٰ کی تفصیل ہے۔ پھر بھی کلام کی ترتیب قابل غور ہے۔ تقویٰ کا ذکر خدا کے مطلوبہ اعتقادات، اعمال اور اخلاق سے پہلے کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ دل کی لوح پر سے پہلے باطل عقائد، برے اعمال اور گھٹیا اخلاق کے نقوش کھرچ ڈالے جائیں اور پھر یہاں پر کچھ اعلیٰ و فاضل نقوش ثبت کیے جائیں۔

وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ

’’اَن دیکھے‘‘ جہان پر ایمان کی بات ہو چکی۔ اب ’’اَن دیکھے‘‘ جہان سے اتصال کی بات ہو رہی ہے...

یہاں ہمارے سامنے اب وہ انسان ہے جو ہر چند ساعت بعد اُس ’’اَن دیکھے‘‘ جہان سے رابطہ کرنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اِس عمل کے دوران کچھ خاص کیفیات میں محو ہو جاتا ہے۔ اِس کا انگ انگ خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ہر چند ساعت بعد گویا یہ اِس جہان سے نکل کسی ’’اَن دیکھے‘‘ جہان میں چلا جاتا ہے اور اس کےلیے ڈھیروں طلب، چاہت اور جستجو دکھاتا ہے۔

’’ایمان بالغیب‘‘ کا سب سے بڑا ظہور ’’نماز‘‘ ہے۔  ’’اَن دیکھی‘‘ ہستی کے آگے ’’سجدہ ریز‘‘ ہونا!!! اُس کے آگے بار بار جھکنا۔ اُس کی تسبیح اور پاکی بیان کرنا۔ اُس کی تقدیس بیان کرتے چلے جانا۔ اُس کے آگے ہاتھ پھیلانا۔ کورنش بجا لانا۔ اُس سے مانگنا اور جو اُس نے دیا اس پر اُس کی حمد کرنا۔ اُس کے ساتھ ہم کلامی!!! اُس کی سننا اور اُس کو اپنی سنانا۔ سبحان اللہ، خدا کے ساتھ گفتگو!!! دل، زبان، اعضاء سب کا خدا کی طرف متوجہ ہو جانا اور تمام دنیوی حرکات و سکنات سے کچھ دیر کےلیے مکمل طور پر نکل آنا۔ فقر اور عبادت کے جتنے معانی ’’نماز‘‘ میں ظہور کرتے ہیں اور ہر طرف سے کٹ کر خدا سے لو لگانے کی کیفیات جتنی ’’نماز‘‘ میں آدمی پر عود کرتی ہیں کسی چیز میں نہیں کرتیں۔ ایمان اور احسان کی سب منازل یہیں ہیں۔ بدنصیب ہے وہ جسے اپنے تزکیہ اور روحانی ترقی کےلیے ’’نماز‘‘ کی متبادل ریاضتوں کی تلاش ہو۔

سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں نماز ’’پڑھنے‘‘ کا نہیں کہا گیا۔ ’’قائم کرنے‘‘ کا کہا گیا ہے۔ یعنی نماز کی ظاہری صورت کو پورا کر ڈالنا وہ کل کام نہیں جو اِن ’’فلاح پانے والوں‘‘  کا وصف ہے۔ نماز کی ظاہری اقامت یہ ہے کہ اس کے ارکان، واجبات اور شروط وغیرہ پورے کیے جائیں۔ نماز کی باطنی اقامت یہ ہے کہ اس میں دل حاضر ہو۔ اس میں انسان جو بولتا اور کرتا ہے اس پر خوب غور ہو۔ یہ ہے وہ نماز جس کی ایک پہچان یہ بتائی گئی: إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ’’بےشک نماز بےحیائی اور بدی کے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یہی نماز ہے جو ثواب دلواتی ہے۔ انسان کو نماز سے اُسی قدر ثواب ملنے والا ہے جس قدر اُس نے نماز میں دل ڈال رکھا تھا۔ یہاں جس نماز کی بات کی گئی ہے اس میں فرض نمازیں بھی آتی ہے اور نفل بھی۔

وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

اپنے مال کو معبود کی نذر کرنا ’’عبادت‘‘ کا ایک قوی مظہر ہے۔ جو ایک روپیہ بھی اپنے معبود کےلیے نکالتا ہے دراصل وہ اپنے پورے مال کو اُس کی دین مانتا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے اس کو اپنے زورِ بازو کا کمال نہ جاننا بلکہ کسی مہربان کی عطا ماننا عبدیت کے معانی سمجھنے میں بہت اہم ہے۔ خود یہ ’’زورِ بازو‘‘ اُس کی عطا ہے۔ پس یہ اُس کی ربوبیت کو تسلیم کرنا ہے اور اپنے کمال سے دستبردار ہونا۔ یہاں فقر کا ایک بہت بڑا معنیٰ ظاہر ہوتا ہے۔ اور فقر عبادت کی جان ہے۔ پھر اس میں سے معبود کےلیے اور معبود کے کہے کے مطابق خرچ کرنا انسان کو کسی ہستی کا عبد اور پابند ہونے کے معانی سے آشنا کرواتا ہے۔ پس یہ مسئلہ کچھ روپے ’چندہ‘ دینے کا نہیں؛ رزق کی حقیقت کو جاننے اور رازق کو پہچاننے کا ہے۔

سعدیؒ کہتے ہیں: اس میں تمام واجب اور مستحب نفقات آ جاتے ہیں۔ واجب نفقات مانند زکات، اہل خانہ، اور غلاموں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرنا وغیرہ۔ مستحب نفقات جو عام بھلائی کے کاموں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہاں، جن پر خرچ کرنا ہے اُن کا ذکر نہیں ہوا (سورت میں آگے چل کر، نیز قرآن کے دیگر مقامات پر ان کا ذکر آتا ہے)، اس لیے کہ مستحقین کی تفصیل لمبی اور متنوع ہے۔ البتہ ’’خرچ کرنے‘‘ کا یہ عمل چونکہ عبادت اور خدا کی جستجو کا ذریعہ ہے اس لیے اس کا یہاں ذکر کر دیا گیا۔

سعدیؒ کہتے ہیں: یہاں  وَمِمَّا (اس میں سے) کا لفظ تبعیض کےلیے ہے۔ یعنی یہ بتایا جارہا ہے کہ اپنا دیا ہوا مال تم سے سارا نہیں مانگا۔ اس میں سے کچھ ہی طلب کیا ہے، جو کوئی اتنا بھاری اور مشکل نہیں ہے۔ البتہ ہے یہ بھی تمہارے اپنے فائدے کےلیے اور تمہارے بھائی بندوں کی ضرویات پوری کروانے کےلیے۔

سعدیؒ کہتے ہیں: قرآن میں جابجا صلوٰۃ اور زکوٰۃ کو اکٹھا رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ نماز معبود کےلیے اخلاص سکھاتی ہے اور زکات خدا کی مخلوق کے ساتھ بھلائی۔ چنانچہ انسان کی سعادت کے یہ دو ہی عنوان ہیں: ایک معبود کی بندگی و رضاجوئی۔ دوسرا مخلوق کو نفع پہنچانا۔ دوسری جانب، انسان کی بدبختی کے بھی یہ دو ہی عنوان ہیں: ایک: آدمی کا خدا سے منہ موڑ رکھنا۔ دوسرا: مخلوق کے حق میں بےفیض ہونا۔

چنانچہ اس ایک مختصر آیت میں عبادت کی پوری جہت واضح ہوگئی: ایک اَن دیکھے جہان کی تیاری جس کی صورت یہ ہے کہ آدمی خالق اور مخلوق دونوں کا حق ادا کرنے پر کمربستہ ہو جائے۔

ابن کثیرؒ کہتے ہیں: ابن جریر طبریؒ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت زکات اور نفقات دونوں کو شامل ہے۔ فرمایا: اس کی صحیح ترین تفسیر یہی ہے کہ وہ تمام اخراجات جو آدمی پر شریعت کی جانب سے فرض ہوں۔ خواہ وہ زکات ہو یا اہل و عیال وغیرہ کا خرچ۔

رازیؒ کہتے ہیں: اس آیت میں انفاقِ واجب اور انفاقِ مستحب دونوں آتے ہیں۔ انفاقِ واجب تین قسم ہے:

1.      زکات۔

2.      آدمی کا اپنے اوپر اور اپنے زیرپرورش افراد پر وہ خرچ کرنا جو شریعت کی جانب سے فرض ہے۔

3.      جہاد (خدا کے دین کو سربلند کرنے) کےلیے خرچ کرنا۔

رہ گیا اِنقاقِ مستحب تو اس کے مصارف متنوع ہیں۔

 

(نوٹ: ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے ہیں)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز