یہ تو آپ دیکھتے ہیں،
دینی جماعتوں میں بعض سیاسی ایشوز سے نمٹنے یا کچھ فوری
بحرانات سے نبردآزما ہونے کےلیے ہنگامی قسم کے اتحاد بن ہی جاتے ہیں۔
ایسے ’مذہبی اتحادات‘ کی افادیت کتنی ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ نیز اُس ’ہنگامی‘
صورتحال کے ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ سب اتحاد روپوش ہو جاتے ہیں، یہ بھی ایک الگ
کہانی ہے...
البتہ امت کے
کچھ بنیادی تعمیری اہداف کےلیے کسی ’’تعاون‘‘ یا ’’اشتراک‘‘ کا
وجود میں آنا تاحال ایک انہونی بات ہے! اِس ضرورت کی نشاندہی کرنا اِس بار ہمارے
اداریہ کا موضوع ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی اہمیت روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ہنگامی مسائل سے
نبردآزما ہونا بےشک ضروری ہے۔ (گو ’ہنگامی مسائل‘ سے نمٹنے کےلیے بھی جس گہری نظر
اور جس درجہ اجتماعی سپرٹ درکار ہے، وہ بالعموم یہاں مفقود دیکھی گئی ہے)۔ پھر بھی
شکر کیجئے کہ جب سر پر آ ہی پڑتی ہے تو ہمیں ’دینی اتحاد‘ اور ’ملی یکجہتی‘ ایسے
سحرانگیز الفاظ کم از کم سننے کو میسر آتے ہیں! کچھ برآمد ہونے
کی آس تو اِس سے پھر بھی شاید نہ ہونے کے برابر ہو؛ مگر ’مذہبی اتحاد‘ یا ’ملی
یکجہتی‘ ایسے خوشگوار الفاظ ہمیں کچھ نہ کچھ آسودہ ضرور کرتے ہیں۔ یہ لفظ ہی سن
کر؛ مریض تندرستی کے احساس سے سرشار ہونے لگتا ہے؛ اور معالج اُس کی یہ
’اچھی حالت‘ دیکھ کر رخصت ہو جاتا ہے!
غرض ’دینی قوتوں کا تعاون
اور اشتراکِ عمل‘ اپنی تمام تر بےسمتی اور بےفائدگی کے باوجود، کچھ نادر مواقع پر
ہی دیکھی سنی جانے والی چیز ہے! اکثر لوگ کچھ خاص ہنگامی حالات یا انتخابی
سیزنکے دوران ہی اس نعمت سے روشناس ہوتے ہیں!
یہاں ہم جو تجویز دینے جا رہے ہیں وہ امت کے کچھ مستقل و دُوررَس
تعمیری اہداف سے متعلق ہے.. اِس کا مخاطب ظاہر ہے وہی حلقے ہو سکتے ہیں
جو ’’تعمیر‘‘ کا شعور اور اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں اور شاید
اس کے راستے کی رکاوٹوں کا کچھ اندازہ اور تجربہ بھی۔
’’تعمیرِ امت‘‘ کے
کچھ پہلو تو وہ ہیں جو ایک منظم ادارے یا جماعت کے
ہاتھوں ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔ یعنی یہ کسی تعاون یا اشتراک یا
’’کنسورشیم‘‘ کے بس کی بات نہیں۔ ایسے ادارے/اداروں یاجماعت/جماعتوں کا بننا... یا اگر بنی ہوئی ہیں تو ان کا جاری و ساری رہنا... اپنی جگہ
ضروری ہوگا۔ ہر آدمی پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین مصرف کرنے کےلیے
ایسے کسی نہ کسی پروگرام کا حصہ بن کر رہے۔ ایسا ہر ادارہ یا تنظیم اپنی
جداگانہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ہی اپنے وِژن vision پر زیادہ سے زیادہ یکسوئی
اور دلجمعی سے عمل پیرا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس کی جداگانہ حیثیت کا باقی رہنا
اور اپنے انداز سے اس کا اپنے کام کو جاری و ساری رکھنا بجائےخود ضروری ہے۔
البتہ ’’تعمیرِ امت‘‘
کے کچھ پہلو وہ ہیں جو ایسے بامقصد اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کے
مابیناشتراک اور تعاون کے ضرورتمند ہیں۔ ان کے مابین
یہ اشتراک اور تعاون نہ ہونے کی صورت میں ان
میں سے ہر ایک کی افادیت محدود رہے گی اور وہ چیلنج جس کا ہمیں ’’امت‘‘ کی سطح پر
سامنا ہے جوں کا توں رہے گا۔ ہماری گفتگو کا کل تعلق امت کی تعمیری ضرورتوں
کے اِس دوسرے پہلو سے ہے۔ یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لی جائے تاکہ آگے چل کر
الجھن پیدا نہ ہو اور یہ سوال اٹھانے کی نوبت نہ آئے کہ ہم جن امور کا ذکر کر رہے
ہیں ان سے بھی زیادہ بنیادی امور تو دراصل کچھ اور ہیں جن کا ہم تذکرہ نہیں کر
رہے! اس کی وجہ، ایک بار پھر، یہیں پر نوٹ کر لی جائے: تعمیرِ امت کے کچھ بہت ہی
بنیادی امور دراصل کسی ہم آہنگ و یکسو ادارے یا جماعت ہی
کی سطح پر حاصل کیے جا سکتے ہیں؛ ان کی جستجو کسی تعاون یا کسی کنسورشیم کی
سطح پر کرنا وقت اور توانائی کا ضیاع ہوگا۔ لہٰذا ’’تعمیری عمل‘‘ سے متعلقہ اہداف
کو لامحالہ دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا: ایک وہ جو ایک ادارے یا جماعت کی
سطح پر ہی حاصل ہو سکتے ہیں (یہ ہماری حالیہ تحریر کا موضوع نہیں)۔ اور ایک وہ جو
ایسے اداروں اور جماعتوں کے اشتراک اور تعاون کی
سطح پر ہی حاصل ہو سکتے ہیں (جوکہ اِس وقت ہمارا موضوع ہے)۔
*****
ہماری یہ تجویز ان طبقوں کےلیے ہوگی جو:
¯ اپنا دین رسول اللہﷺ سے بذریعہ صحابہؓ[1] لینے پر اتفاق رکھتے ہیں۔ ’یکجہتی‘ کا دائرہ اس
سے زیادہ وسیع کرنا دراصل یکحہتی کو کھو دینا ہے؛ اور اس سے کوئی مقصد حاصل ہونے
کی آس رکھنا فضول ہے۔
¯ دین کو زندگی کے جملہ امور پر محیط جانتے ہیں۔ ’’دین‘‘ کا کوئی ایسا محدود
تصور نہیں رکھتے جس سے تہذیب، سیاست، سماج، معیشت، تعلیم، جہاد اور امر بالمعروف
ونہی عن المنکر ایسے شعبے باہر رکھے جاتے ہیں؛ اور ان سب امور کے بغیر ہی، چند
باتوں میں، ان کا دین مکمل ہو جاتا ہے۔ تعاون کا دائرہ اس قدر کھول دینا بھی کسی
ٹھوس ہدف کو حاصل نہ کرنے کا موجب ہو گا۔
¯ وہ کسی حلقہ، یا جماعت یا ادارہ کی صورت میں پائے جاتے ہوں۔ یہ مجوزہ تعاون
’افراد‘ کی سطح پر نہیں بلکہ ’’تجمعات‘‘ کی سطح پر ہے۔
*****
اب ہم ان چند میدانوں
اور صورتوں کا ذکر کریں گے جن میں تعمیری کام کرنے والے یہ حلقے باہم متعاون ہو
سکتے ہیں:
v سنجیدہ کام کرنے والا ہر ادارہ/حلقہ یہاں دوسرے کے کام اور دائرۂ عمل سے تقریباً لاعلم ہے۔ ہر حلقے کو اللہ نے کسی نہ کسی میدان میں کوئی خصوصی توفیق (صلاحیت/قوت/تاثیر strength) دے رکھی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے
ضروری ہے، ان حلقوں کو ایک دوسرے کی یہ strength معلوم ہو۔ اس کے بغیر؛ ان
حلقوں کے مابین کسی ٹھوس تعاون کا تصور ناممکن ہے۔ اس کےلیے؛ ہماری تجویز ہوگی: جو
جو ادارے اور حلقے ایسے کسی کنسورشیم کا حصہ بنیں، وہ سب اپنے باہمی تعاون سے کوئی
ایسا سیل cell تشکیل
دیں جو ان میں سے ایک ایک کے ہاں پائے جانے والے امکانات کو ایک دوسرے کی معلومات
اور فائدہ کےلیے دستیاب کروائے۔ جو جو کام کسی ادارے یا حلقے نے کررکھا ہوا ہے اور
جن جن پروگراموں پر وہ اس وقت کام کر رہا ہے، اِس سیل کے ذریعے وہ اِن کے آپس میں
شیئرshare ہو۔
کس کے پاس دینے کو کیا ہے، یہ معلومات اگر کسی مبالغہ آرائی کے بغیر اور ایک دقیق
انداز میں یہاں کے تعمیری حلقوں کو ایک دوسرے کی بابت میسر ہوں، نیز ان امکانات
اور صلاحیتوں میں وقت گزرنے کے ساتھ جو جو پیش رفت ہو وہ ایک دوسرے کی بابت
اِن سب کے علم میں آتی رہے... تو ان کے مابین تعاون کی بہت سی صورتیں خودبخود
نکلتی چلی آئیں گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مجوزہ سیل اسلام کےلیے کام کرنے
والے سٹرٹیجک اداروں کی کاوشوںcontributions اور منصوبوں projects پر ایک ڈائریکٹری کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔
v مستقل میعادی بنیادوں پر periodically ان حلقوں کے نمائندہ افراد کا مل بیٹھنا ایک ایسی چیز ہوگی جو خیر کے ہزارہا راستے خودبخود
کھولتی چلی جائے۔ ان میعادی periodical ملاقاتوں میں، ان امور پر آپس میں تبادلۂ آراء اور جہاں تک
ممکن ہو نقطہ ہائے نظر کی قربت پیدا کرائی جائے:
o حالات کا جائزہ۔ حالات میں آنے والی تبدیلیوں، نیز ان تبدیلیوں کی روشنی میں
پیدا ہونے والے نئے امکانات potentials، چیلنجز challenges اور مواقع opportunities کا جائزہ۔
o ہر حلقے کو اس دوران اپنے اپنے میدان میں جو پیش رفت میسر آئی، نیز جن مسائل
کا سامنا یا جن کامیابیوں کی امید ہوئی ہے وہ باقیوں کے ساتھ شیئر کرے۔ جبکہ باقی
لوگ اس پر اسے اپنے ملاحظات، آراء اور مشورے دیں۔ نیز جہاں جہاں کوئی تعاون کی
صورت نکلتی ہو اس کی نشاندہی کرتے اور اس کو اپنے فوری یا آئندہ ایجنڈا میں شامل
کرتے چلے جائیں۔ اس لحاظ سے یہ ان حلقوں کے مابین ’’شوریٰ‘‘ کی ایک ڈھیلی ڈھالی
صورت بھی بن جائے گی۔
o کچھ مشترکہ اہداف کا تعین۔ ان اہداف کےلیے مل کر کام کرنے کی حکمت عملی و
منصوبہ بندی۔ نیز مشترکہ اہداف کی بابت گزشتہ کارکردگی کا جائزہ۔
o مزید حلقوں کو اِس تعاونی عمل (کنسورشیم) میں شامل کرنے کی کوشش۔
کچھ خصوصی اہداف جو
اِن حلقوں کے اشتراک اور تعاون کے فوری ضرورتمند ہیں:
v قوم میں آگہی عام کرنے کی کچھ بڑے
پیمانے کی مہمات campaigns چلانا۔ (اس ’’قومی آگہی مہم‘‘ کےلیے پورا ایک شعبہ مختص کرنا۔
یہ کام ان سب حلقوں کے مل کر ہی کرنے کا ہے۔ اس عمل کو، ہماری نظر میں، دو حصوں
میں تقسیم ہونا چاہئے:
o خواص (علماء، خطباء، واعظین، صحافی، پروفیسرز، دانشور اور
معاشرے پر اثرانداز ہونے والے دیگر طبقوں) میں آگہی عام کرنے کی مہم انجام دینا۔ خواص کی ضرورت کے کچھ مختصر ترین مواد کی تیاری۔ جس سے خواص کے ہر فرد کو اس کی ذمہ داریوں
کا ادراک کروا دیا جائے۔ امت کے حق میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کےلیے اٹھ
کھڑا ہونے کی دعوت دی جائے۔ اور اس پر آمادہ ہونے کی صورت میں اس کو ان راستوں کو
نشاندہی کر کے دی جائے جہاں سے وہ اپنی علمی و فکری ضروریات پوری کرے تاکہ قوم کو
راہنمائی دینے کے اس عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو۔ (کچھ عرصہ یہ محنت
خواص پر ہی جاری رہے تاآنکہ عوام کو شعور اور بیداری دینے کےلیے ایک اچھی کھیپ
میسر آ جائے)۔
o عوام میں آگہی عام کرنےکی مہم۔ کسی شہر میں خطباء اور واعظین کی مناسب کھیپ
سامنے آ جانے کی صورت میں اس شہر کے اندر، نیز کسی تعلیمی ادارے میں پروفیسرز کی
مناسبstrength سامنے آجانے کی صورت میں اس تعلیمی ادارے کے اندر... لوگوں
کو ان کے فرائض کی بابت شعور دینے اور ان پر پورا اترنے کی عملی صورتوں کی جانب
راہنمائی دینے کی مہم۔
v تعلیم کے شعبے میں اسلامی ایجنڈا
کو آگے بڑھانے کےلیے مل کر سرگرم ہونا۔ یہ کام ان سطحوں پر کیا جا سکتا ہے:
o لابنگ lobbying : سرکاری سطح پر تعلیم کے شعبے میں اسلامی ایجنڈا کو لاحق خطرات سے
نمٹنے نیز اسلامی مقاصد کو ممکنہ حد تک حاصل کرنے کےلیے۔ سیاستدان اور بیوروکریٹ
طبقوں میں اس مقصد کےلیے زیادہ سے زیادہ ہمدرد پیدا کرنا۔ اور یہاں اسلامی اہداف
کے راستے کی زیادہ سے زیادہ رکاوٹوں کو دانشمندی کے ساتھ دور کرنا۔
o نجی شعبے میں ’’اسلامک سکولنگ‘‘ کے فنامنا کو مفیدتر بنانے کےلیے اقدامات
کرنا۔ (اسلامی جذبے کے تحت چلنے والے نجی سکولوں کی گریڈنگ کرنا، ہر گریڈ کےلیے اس
کے مناسب ٹیچرز ٹریننگ، نصاب میں بہتری لانا، خصوصاً یہاں پائے جانے والے اسلامی
نصاب اور تعمیرِ سیرت سے متعلقہ اجزاء کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور مؤثر بنانا۔
وغیرہ)۔ اس عمل کا مقصد: یہ کہ اسلامی سیکٹر عام نجی سکولوں کے مقابلے پر بھی ایک
اعلیٰ چناؤ کے طور پر سامنے آئے اور سیکولر سیکٹر کو پچھاڑنے پر بھی قدرت پائے۔
(فی الوقت ’’اسلامک سکولنگ‘‘ محض کچھ انفرادی کوششوں کا نام ہے جو ایک بڑی سطح کے
تعاون اور سرپرستی سے مکمل طور پر محروم چلا آتا ہے)۔
o کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر: ایسے شارٹ کورسز عمل میں
لانا جو دورِحاضر کے نوجوان کو اسلام میں
وثوق confidence دلوائیں۔ نیز ان مغربی افکار کے مقابلے پر جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس نوجوان
کے زیرمطالعہ نصابوں کے اندر گوندھ رکھے گئے ہیں... اسے ایک وضوح
clarity اور بصیرت سے بہرہ ور کریں اور اس کے خیالات پر ہونے والے سیکولر حملوں کے
مقابلے پر اسے نظریاتی حوالوں سے مسلح کریں۔
v ابلاغی شعبے میں:
o اسلامی ایجنڈا کےلیے لابنگ کرنا۔
o ابلاغی دنیا کی ضرورت کا معلومات بینک میسر رکھنا۔
o میڈیا واچ۔ (اسلامی زاویہ نظر سے)
o میڈیا کے میدان میں اترنے والے افراد کی تیاری میں حصہ لینا۔
v قانونی شعبے میں:
o اسلامائزیشن کےلیے عدالتی جنگ کا بیڑا اٹھانا۔
o آئین و قانون سے متعلقہ امور پر معاشرے کو مطلع رکھنا۔ اور بوقتِ ضرورت متحرک
بھی کرنا۔
o سیاستدانوں اور عدلیہ میں اسلامی مقاصد کو پزیرائی دلوانے کی سعی کرنا۔ یہاں
اسلام کے ہمدرد بڑھانے کی کوشش کرنا۔
o اس میدان میں اعلیٰ تحقیقی منصوبوں کی سرپرستی کرنا۔
v بیرونی این جی اوز اور ملٹی نیشنلنز کے اثر کو کم کرنے کےلیے موثر اقدامات کرنا۔ مقامی ٹیلنٹ کی سرپرستی کرنا۔ قوم کے فکری،
تہذیبی و معاشی استحصال کے آڑے آنے کےلیے ایجنڈا سیٹ کرنا اور قوم کے بااثر طبقوں
کو اس کی پشت پر لے کر آنا۔
ایک بار مل بیٹھنا
شروع ہو جائے تو ایسے بےشمار امور سامنے آتے جائیں گے۔ یہ سب امور محض ایک تصور idea اور پہلا قدم initiative دلوانے کی غرض سے بیان ہوئے۔
[1] مراد ہے: تمام صحابہؓ بلا تفریق و بلا امتیاز، جن میں
اہل بیت بھی آتے ہیں۔