سوال:
السلام علیکم سر... آپ سے یمن کی صورت پر
رہنمائی لینا چاہتا ہوں کیا یہ مسالک کی جنگ ہے؟ یا اپنے اقتدار کی جنگ ہے (کہ جس
میں سعودی یا اماراتی شاہوں کو ہر اس تحریک سے خطرہ ہے جو انکی بادشاہت کے خلاف
ہو) یا یہ اسلام کی جنگ ہے؟ کیا ہمیں سعودی عرب کو support کرنا چاہیے؟ اگر ہاں تو کیوں اور اگر نہیں تو
کیوں نہیں؟ جزاک اللہ (حافظ محمد
شعیب قریشی)
جواب:
برادر عزیز! دنیا میں
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ چیزیں مکمل سیاہ ہوں یا مکمل سفید۔ بالعموم، اشیاء
ملی جلی ہوتی ہیں؛ اور ہمیں ان کو اسی طرح دیکھنا ہوتا ہے۔
یہ سب احتمالات جو آپ
نے ذکر کئے، بیک وقت موجود ہیں کہ: یہ مسالک کی جنگ بھی ہو، اقتدار کی
جنگ بھی، بادشاہتوں کو بچانے یا مضبوط کرنے کی کوشش بھی، جبکہ اسلام کا مفاد
بھی اس سے بوجوہ وابستہ ہو۔ زیادہ بہتر الفاظ اس کیلئے یوں ہوں گے: بعض طبقوں کیلئے
بلاشبہ یہ مسالک ہی کی جنگ ہے۔ بعض طبقوں کےلیے یہ اقتدار اور بادشاہتیں بچانے یا
مضبوط کرنے کی جنگ ہو سکتی ہے۔ اور بعض طبقوں کےلیے اس میں اہم ترین چیز
اسلام کا مفاد ہو سکتا ہے۔
دنیا میں بہت کم ایسا
ہوتا ہے کہ ایک جنگ کے پیچھے خالص ترین اہداف ہی کارفرما ہوں۔ تاریخ اسلام میں
اکثر وبیشتر ہمیں ایسی ہی صورتحال سے واسطہ رہا ہے جہاں مقاصد اور اہداف کچھ
ملےجلے ہوں۔ ایسے مسئلہ میں دلچسپی رکھنے والے گروہ اس سے سروکار رکھنے کےلیے
اپنےاپنے محرکات رکھتے ہیں۔
چونکہ ایسی (ملی جلی)
صورتحال خلافتِ راشدہ کے گزر جانے کے بعد ہماری تاریخ میں بکثرت پیش آئی رہی ہے؛
لہٰذا ایسی صورتحال کے ساتھ معاملہ کرنے میں لوگ تین اقسام میں تقسیم ہو جاتے رہے
ہیں؛ اور آج بھی ہیں:
1. ایک وہ یوٹوپیا ذہن جو ایک معاملے کو ’’خالص‘‘ نہ پاتے ہوئے صرف تنقید
اور مخالفت کے لائق سمجھتا ہے؛ اور اس سے کسی خیر کی امید رکھنا عبث۔ یہ ایسی ہر
صورتحال پر دلچسپ ترین تبصرے اور چٹکلے کر سکتا ہے۔ پہلے افغان جہاد سے لے
کر آج تک کے امت کے ہر محاذ اور ہر اجتماعی کوشش کو یہ چٹکیوں میں اڑا دینے کی
صلاحیت رکھتا ہے۔ مذاق، جگتیں، پھبتیاں خوب کر لیتا ہے۔ ہر چیز کے نقصانات
گنوانے میں یدِ طولیٰ اور کیڑے نکالنے کی ایک غیرمعمولی استعداد رکھتا ہے۔
یہ ایک فارغ البال طبقہ ہے؛ لہٰذا وہ لوگ جنہیں کچھ کرنا ہے انہیں اِس طبقہ کے
ساتھ کبھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
2. ایک وہ ذہن جو کسی گروہی، سیاسی یا معاشی مفاد کے تحت اس کا حصہ بنتا اور اس
کو ہر قسم کی تنقید سے بالاتر دیکھنے لگتا ہے۔ یہ ایک مخلص سے مخلص اور ہمدرد سے
ہمدرد ناقد کو بھی دشمن کی صف میں ہی کھڑا کرکے دیکھنے کا عادی ہے۔ اپنے
مسلک یا گروہ کا اندھا حمایتی؛ اور اپنے مدمقابل کا جذباتی مخالف! اس طبقے کے ساتھ
الجھنا یا اس سے نتھی ہونا بھی ایک بامقصد شخص کا ڈھیروں نقصان کرواتا ہے۔
3. جبکہ تیسرا وہ ذہن جو اُس میں پائے جانے والے عوامل کا صحیح صحیح موازنہ کرتا
ہے۔ اس میں شر کا عنصر غالب پائے تو خیر کا عنصر ہونے کے باوجود اس کو ترک
کے قابل جانتا ہے۔ خیر کا عنصر غالب پائے تو شر کا عنصر پائے جانے کے باوجود اس کو
اختیار کرتا ہے۔ چونکہ یہ طبقہ اشیاء کو بلیک اینڈ وائٹ دیکھنے کی بجائے ان
کا موازنہ کرنا جانتا ہے؛ لہٰذا اس کے ہاں ایک ہی چیز یا ایک ہی واقعہ بعض پہلوؤں
سے خوب اور بعض پہلوؤں سے ناخوب ہو سکتا ہے؛ اور اس معاملہ میں حتمی فیصلہ
یہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ اس میں خیر کو کس کس پہلو سے غالب کیا جا سکتا ہے یا اس
میں شر کس کس پہلو سے غالب آ سکتا ہے۔
پہلے دونوں فریقوں کا کام ظاہر ہے خاصا آسان ہے۔ ایک چیز سے لوگوں کا دل کھٹا
کروا دینا ذرا مشکل نہیں۔ دوسری جانب؛ اسکے حق میں نعرے لگوا دینا اور اس کیلئے
جذباتیت پیدا کروا دینا بھی چنداں دشوار نہیں۔ البتہ اس میں خیر و شر کے عوامل کو آمنے سامنے رکھ کر انکا
وزن کرنا اور اس میں بہتری یا ابتری کے امکانات کو راجح و مرجوح کی شکل میں دیکھنا ایک
گہرائی اور نظر کا متقاضی ہے۔
اس معاملہ کی مثال کے طور پر... آپ اس ایک واقعہ سے اندازہ کر لیجئے: حجاج بن
یوسف اسلامی تاریخ کا ایک خبیث ترین اور ظالم ترین کردار ہے۔ صالحین کو چن چن کر
مارنے میں شاید اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سعودیہ نے (عبداللہ کے زمانے میں) اخوان پر
ہونے والے سیسی مظالم کی جو پشت پناہی کی (جوکہ بلاشبہ سعودیہ کے نامۂ سیاہ میں
درج ہونے کے لائق ہے) وہ حجاج کے ان مظالم کے آگے شاید کچھ نہ ہو جو اس نے صحابہ و
ائمۂ تابعین کے قتل و تعذیب کی صورت میں ارتکاب کیے۔ اس کے باوجود، یہی حجاج بن
یوسف جس وقت راجہ داہر ایسے ایک دشمن اسلام کی سرکوبی کےلیے سندھ کی جانب ایک
عسکری مہم روانہ کرتا ہے، پھر اس مہم کی سالاری بھی اپنے گھر کے ایک نوجوان کو
تھما دیتا ہے... تو یہاں ہم اسی ظالم حجاج کی ارسال کردہ ایک اسلامی فوجی مہم
کو بالکل ایک اور نظر سے دیکھتے اور اس کی ڈھیروں تحسین کرتے ہیں۔ امت کی تاریخ
میں ایسے ایک نہیں، بےشمار واقعات ہیں جہاں امت کے دشمنوں کے خلاف کارروائی کسی
ظالم یا کسی جاہ پرست سلطان کے ہاتھوں ہوئی مگر اس کے نتیجے میں امت کو کسی خطرے
سے تحفظ حاصل ہوگیا، یا کچھ ایسی فتوحات ہوئیں کہ اسلامی قلمرو کو قابل ذکر توسیع
ملی اور یہاں دور رس بنیادوں پر صالحین کو اپنی پیش قدمی کےلیے قیمتی خطے
دستیاب آئے۔ دشمنانِ امت کے ساتھ ایسی مڈبھیڑ میں بےشمار اہل خیر شامل ہو جاتے
رہے۔ بنیاد وہی کہ: سلطان کی نیت سلطان کے ساتھ؛ اور اہل خیر کی نیت اہل خیر کے
ساتھ۔ جس کی نیت کشور کشائی تھی اس کو کشور مل جاتا رہا؛ اور جس کی نیت مسلمانوں
سے کسی بڑے خطرے کو دفع کرنا یا کسی اہم خطے کو توحید کی قلمرو بنانا تھا اس کو
اپنا مقصود مل جاتا رہا۔ مِنكُم مَّن يُرِيدُ
الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ
لہٰذا یہ واضح رہے، سعودیہ کے جرائم جو گزشتہ سالوں کے دوران امت کے حق میں
ہوتے رہے، ہماری نظر سے اوجھل نہیں۔ ہمارا قاری آگاہ ہے، سعودی عرب کےلیے
جذباتی ہونے والوں میں ہم ہرگز نہیں۔ مصالحِ امت کو زک پہنچانے والے
بعض سعودی فیصلوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے ہماری تنقید یقیناً ہمارے قارئین کی
نگاہ سے گزرتی رہی ہے۔ اِس ملک میں سعودیہ کے مدح خوان بھی ہم سے کچھ کم آزردہ
نہیں۔ سعودیہ کےلیے رطب اللسان طبقے ہماری بابت کیا کیا رائے رکھتے ہیں، یہ جان کر
آپ اچھا خاصا محظوظ ہو سکتے ہیں! البتہ آپ کو معلوم ہے موجودہ حالات و واقعات کی
تفسیر کرتے ہوئے ہمارا فوکس ’’اسلام اور سنت کے فوری و طویل المیعاد‘‘ مفاد ہوتے
ہیں۔ صلیب، صیہون اور ہندو کے بعد عالم اسلام کےلیے ہم کوئی خطرہ دیکھتے ہیں تو وہ
رافضیت ہے؛ اور ہمارا قاری ہمارے اس ڈسکورس سے بخوبی واقف ہے۔ ایک سطح پر، ہم ان
سب خطرات کو الگ الگ کر کے دیکھنے کو بھی درست نہیں سمجھتے؛ بلکہ ان سب بیرونی
واندرونی دشمنوں کو ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیوں کے طور پر دیکھتے اور
دِکھاتے آئے ہیں۔ ’’ایقاظ‘‘ شاید ان دیرینہ آوازوں میں گنا جا سکتا ہو جن کے ہاں
سے رافضی خطرے کی نشاندہی اُس وقت سے ہوتی آ رہی ہے جب اچھے خاصے سمجھدار لوگ ہم
پر حیران ہوتے تھے کہ ’بھائی ایک ایران ہی تو امریکہ کو آنکھیں دکھانے والا ملک ہے
آخر آپ کو کیا ہوگیا ہے جو اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں‘! بلکہ حق یہ ہے کہ
اِس ملک میں سعودیہ کےلیے رطب اللساں طبقے رافضی خطرے کو اس طرح فوکس میں نہیں
لاتے رہے جس طرح اللہ کے فضل سے ہم لاتے رہے ہیں اور اس پر ایران کی ’اسلامی
بڑھکوں‘ سے متاثر طبقے سے ڈھیروں تنقید بھی سنتے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے، ایقاظ
بفضلہٖ تعالیٰ ایک منفرد آواز رہا ہے۔ نہ ایک طرف کو لڑھکنے والا طبقہ کبھی ہم سے
خوش رہا اور نہ دوسری طرف کو لڑھکنے والا۔ آج بھی رافضی خطرے کا سدباب کرنے
والے سنی الائنس (ترکی تا سعودیہ تا قطر تا پاکستان تا سوڈان) کا ہم استحسان کرتے
ہیں تو اس کے پیچھے کوئی تنگ نظر مسلکی دوافع نہیں بلکہ وہ وِژن ہے جو
’’اسلام اور سنت‘‘ کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے حوالے سے نیز واقعات کے ساتھ ائمۂ
سنت والی تاریخی اپروچ کے ساتھ پورا اترنے کے حوالے سے ایقاظ بڑی دیر سے یہاں پیش
کرتا آ رہا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ہمارے قاری کےلیے نئی نہ ہونی چاہئے۔
اللہ کا شکر ہے؛ یہاں ایک طبقہ اپنے چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر آ کر اب اِس
وسیع تر ’’اہل سنت‘‘ اپروچ کو سمجھنے بھی لگا ہے۔ ’مسالک‘ شاید اب بہت پیچھے
رہ جانے والی ایک چیز ہو جائیں اور امت کے ’’بنیادی اہداف‘‘ کہیں زیادہ قابل
اعتناء چیز۔ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ