عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, November 23,2024 | 1446, جُمادى الأولى 20
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-05 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
"الجماعۃ" کا مفہوم
:عنوان

’’التاركُ لدينهٖ‘‘ کہہ دینے پر اکتفا کیوں نہ کیا، ساتھ میں ‘‘المفارقُ الجماعةَ‘‘ کیوں کہا؟ معلوم ہوا یہاں ایک نہیں دو چیزیں تھیں جنہیں مرتد چھوڑ گیا ہے: ایک یہ دین اور ایک اس پر قائم جماعت؛ دونوں لازم و ملزوم۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

Text Box: 1تعلیق 15[1]

"الجماعۃ" کا مفہوم

نصوص اور آثار میں ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کئی ایک مفہوم پر ہوا ہے۔ نہ صرف شرع میں؛ بلکہ لغت اور عرف میں بھی؛ دستور ہے کہ  کسی سماجی اکائی کو متعدد جہتوں سے بیان کر لیا جائے۔ مثال کے طور پر جب آپ لفظ ’’مغرب‘‘ ہی بولیں تو اس سے مراد کسی وقت مغربی اقوام ہوں گی۔ کسی وقت مغربی حکومتوں یا مغربی قیادتوں کو ہی ’مغرب‘ کہہ دیا جائے گا۔ کسی وقت مغرب کے نظریات یا مغرب کی تہذیب یا دستور کی بابت بولا جائے گا کہ ’مغرب یوں کرتا یا مغرب یوں کہتا‘ ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس۔

چنانچہ ’’الجماعۃ‘‘ سے ہماری مراد ہوتی ہے:

مسلمانوں کی وہ مجتمع حالت جس میں: وہ کافر ملکوں، ملتوں، تہذیبوں اور اجتماعیتوں سے الگ تھلگ وہ سماجی و سیاسی اکائی ہوتے ہیں؛ جس میں دین اسلام اپنا عملی ظہور کرتا ہے۔

ابن حجرؒ کہتے ہیں: وَالْمُرَادُ بِالْجَمَاعَةِ جَمَاعَةُ الْمُسْلِمِينَ ’’الجماعۃ سے مراد ہوتی ہے جماعۃ المسلمین‘‘ (فتح الباری ج2 ص 202)۔ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’اِس معنیٰ میں ’’الجماعۃ‘‘ سے نکلنے کا مطلب ہوگا مرتد ہونا‘‘۔ (حدیث: التاركُ لدينه، المفارق الجماعة

وجہ یہ کہ ’’الجماعۃ‘‘ کوئی جغرافیائی قوم نہیں بلکہ ایک نظریاتی (ایک خاص عقیدہ سے وجود میں آنے والی) قوم ہے۔ پس جو حیثیت دوسری قوموں کے ہاں جغرافیائی حدوں کو حاصل ہوتی ہے یہاں وہ حیثیت ایمان کو حاصل ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ ’’مرتد ہوجانے‘‘ ایسی ایک ہی حقیقت کو حدیث میں دو جہتوں سے بیان کیوں کیا گیا: اسے ’’التاركُ لدينهٖ‘‘ کہہ دینے پر اکتفا کیوں نہ کیا، ساتھ میں ‘‘المفارقُ الجماعةَ‘‘ کیوں کہا؟ معلوم ہوا یہاں ایک نہیں دو چیزیں تھیں جنہیں مرتد چھوڑ گیا ہے: ایک یہ دین اور ایک اس پر قائم جماعت[i]؛ دونوں لازم و ملزوم۔ پس جتنا کوئی شخص یا گروہ اِس ’’دین‘‘ پر ہے اتنا وہ اِس ’’جماعت‘‘ میں ہے۔ جو مرتد ہوا وہ اس سے بالکل باہر۔ جو بدعت اور فسق میں پڑا وہ جزوی طور پر جماعت میں شامل اور جزوی طور پر جماعت سے منحرف۔ اور جو خالص سنت اور اتباع پر ہوا وہ اِس جماعت کا نیوکلئیسnucleus ۔ اس دین پر ایک مجتمع اکائی بن کر رہنا فرض ہوا اور اِس (فرض)  حالت کا نام ہوا ’’جماعت‘‘۔

1.        پس ایک معنیٰ میں ’’جماعت‘‘ وہ فریم ہے جو اِس اکائی کو ایک ہیئت دے گا۔ یہ اس کی آئینی جہت ہوئی، جسے ہم اپنی اصطلاح میں تشریعی جہت کہیں گے۔

2.        دوسرے معنیٰ میں ’’جماعت‘‘ ایک وجود ہے جو بذاتِ خود ایک وحدت اور جتھہ بندی سے عبارت ہے۔

3.        تیسرے معنیٰ میں ’’جماعت‘‘ ایک نظم کا نام ہوگا۔ یہ اس کی انتظامی جہت ہے۔

ائمۂ سنت سے ہمیں ’’جماعت‘‘ کے یہ تین ہی معانی ملتے ہیں۔ ذیل میں ان کا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔

پہلا مفہوم:

الجماعۃ کا مفہوم اپنی تشریعی جہت کے اعتبار سے، آگے تین ذیلی نقاط میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک: حق پر قائم انسانی وحدت۔ دوسرا: صحابہؓ جو اِس فصل (جماعۃ المسلمین) کا پہلا پُور ہے؛ اور بعد کے پُور اِسی کے مُڈھ سے پھوٹتے رہے۔ تیسرا: اہل شریعت؛ یعنی امت کی علمی قیادتیں۔ یہاں ان تینوں ذیلی مفہومات کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے:

1۔       ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: حق پر قائم انسانی وحدت:

ایک نظریاتی قوم ہونے کے حوالے سے چونکہ یہ روئےزمین کی منفرد ترین قوم ہے.. لہٰذا یہاں سے ’’الجماعۃ‘‘ کا وہ اہم ترین معنیٰ پھوٹتا ہے، جس کا تعلق اِس قوم کی شریعت، تہذیب، اَخلاق اور معیارات سے ہے۔ عبداللہ بن مسعود کا قول کہ ’’جماعت وہ ہے جو حق کے موافق ہو، خواہ تم اس پر اکیلے کیوں نہ رہ گئے ہو‘‘ اِسی باب سے ہے۔ ائمۂ سنت کے ہاں عموماً اِس کی یہ شرح کی گئی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو جماعت کے ہاں ’’آج تک چلتی آئی‘‘ اور جس سے روگردانی اس کے ہاں اصولاً قبول نہیں خواہ بعد کی نسلیں ایک بڑی تعداد میں اس سے ہٹنے کیوں نہ لگ گئی ہوں۔ یعنی ایک چیز کو اس کی اصل پر باقی رکھنا اور اس کو بدل کر کچھ سے کچھ ہوجانے سے بچانا۔ وجہ وہی کہ یہ ایک نظریاتی قوم ہے اور اپنی اُسی قدیمی حقیقت پر رہنا اِس کی ترجیحات میں سرفہرست۔ چنانچہ یہ ’’الجماعۃ‘‘ کی آئینی جہت ہوئی۔ بدعتی ٹولوں کا ’’الجماعۃ‘‘ سے منحرف ہونا اِسی باب سے ہے اگرچہ وہ دین اسلام سے مکمل طور پر خارج نہ بھی ہوں۔ یعنی ’’الجماعۃ‘‘ سے مفارقت کی دو صورتیں ہوئیں: ایک مکمل انحراف یعنی ارتداد۔ دوسرا جزوی انحراف یعنی ایسے نظریاتی یا تہذیبی رویے جو باطل ہیں مگر کفر نہیں ہیں۔ یہاں آپ دیکھتے ہیں بدعات، اھواء اور نئے نئے نظریات اور ان کے داعیوں اور پیروکاروں کے خلاف تحریک اٹھانے میں علمائے عقیدہ کے ہاں انتہا کردی جاتی ہے۔ کتاب اللہ کو سمجھنے کےلیے نئےنئے نسخے ایجاد کرنے والوں پر شدید تشنیع کی جاتی ہے۔ اُس پرانی حقیقت کو، جو صحابہؓ سے چلی آتی ہے، جاری و ساری رکھنے کےلیے پورا زور صرف کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ ’’الجماعۃ‘‘ سے یہ انحراف مہلک ترین ہے۔ أمَّا بَعدُ فإنَّ خَیرَ الکَلَامِ کَلامُ اللہِ، وَخَیرَ الۡھدیِ ھدیُ مُحَمَّدﷺ۔ و کُلَّ مُحۡدَثَۃٍ بِدۡعَۃٌ، وَکُلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَالضَّلَالَۃُ فِی النَّار اِس ’’الجماعۃ‘‘ کے دستور کی وہ عظیم شق ہے جس کو بآوازِبلند دہرائے بغیر اِس کے ’’الجمعۃ‘‘ کا کوئی خطبہ مکمل نہیں ہوتا۔

پس یہ وہ انسانی جماعت ہے جو قیامت تک، ایک خاص ڈھب پر جینا اپنا دستور مانتی اور اس میں کوئی ’’نیا رخ‘‘ آ جانے کو اپنے حق میں ہلاکت جانتی ہے۔ آسمانی عمل پر مامور ایک انسانی جماعت؛ کہ خود نوعِ انسانی کی بقا اِسی سے وابستہ ہے۔ تاہم انسان ہونے کے ناطے؛ یہ ’’نئےنئے رخ‘‘ اِس کے ہاں بھی آئیں گے ضرور، جوکہ افتراق کا موجب ہے؛ اور افتراق ہلاکت۔ چنانچہ اِس کی وہ حالت ہی جو ایک بدعت یا ایک افتراق کے آجانے سے پہلے تھی، اِس کی اصل حالت قرار پائی؛ یعنی پرانے دستور پر ہونا۔ اِس کا اجتماع جس چیز پر ہوا تھا وہی اِس کی طبعی حالت ہے۔ پس جہاں کوئی دھڑا ’’سنت‘‘ سے ہٹا وہاں وہ ’’الجماعۃ‘‘ نہ رہا؛ جبکہ باقی ماندہ لوگ ’’الجماعۃ‘‘۔ اور یہ ’’الجماعۃ سے وابستگی‘‘ کے قوی ترین معانی میں سے ایک ٹھہرا۔

’’جماعت‘‘ کے اِس مفہوم پر ہمارے ہاں اتنا زور کیوں دیا گیا؟

ý         دنیا کی قومیں یا تو سرے سے جغرافیائی اقوام ہیں؛ یعنی محض کسی خطے میں پایا جانا ان کو کوئی ’قوم‘ بنا دیتا ہے۔ جیسے موسم، درجۂ حرارت اور آب و ہوا! یہاں سے اٹھ کر وہاں چلے گئے تو ایک اور قوم بن گئے! غرض جمادات سے ملتی جلتی کوئی چیز۔

ý         یا پھر نسلی اقوام ہیں؛ جن میں ایک دوام اور ثبات ضرور ہے مگر وہ دوام ان کے خون میں چلتا ہے؛ اور یہ چیز حیوانات کو بھی حاصل ہے۔[2]

ý         یا پھر کسی عقیدہ یا مذہب سے تشکیل پانے والی اقوام ہیں۔ کسی خاص مذہب و عقیدہ کو اپنی پہچان بنانا ہے ایک انسانی عمل۔ قطع نظر اس سے کہ یہ انسانی عمل آسمانی راہنمائی کا محتاج ہے؛ یہاں کے بیشتر مذہبی گروہ سرے سے کسی ثابت معیَّن حقیقت پر نہیں۔ یہاں؛ ’’ثبات‘‘ رکھنا ایک دشوار کام ہے اور ’موسمی اثرات‘ کے ہاتھوں بدلتے چلے جانا پہاڑ سے لڑھکنے جیسا آسان! یہاں عیسائیت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے مگر رہتی پھر بھی ’عیسائیت‘ ہے! ہندومت بےشمار تبدیلیوں سے گزرتا چلا جاتا اور رہتا ’ہندومت‘ ہے! علیٰ ھٰذا القیاس، روحانیات اور انسانیات کے نئے نئے فلسفے ان مذاہب میں ضم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ’محسوس‘ تک نہیں ہوتے۔

مگر ’’اسلام‘‘ چونکہ آسمان سے اتری ہوئی ایک ثابت معیَّن حقیقت ہے؛ لہٰذا یہاں ’’ابتداع‘‘ innovation کے راستوں پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ پس یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس کا اصل مسئلہ اپنی وہ ’’قدیمی ساخت‘‘ برقرار رکھنا ہے۔ ایک ایسی قوم جو یہاں ’’زندگی گزارنے‘‘ نہیں آئی۔ ’’زندگی‘‘ کےلیے اِس کو بہشت دی گئی ہے؛ یہاں البتہ یہ کسی مقصد سے آئی ہے اور یہ مقصد پورا کر کے ہی اِس کو وہ بہشت ملنے والی ہے۔ پس یہ ’’آسمانی جماعت ہونا‘‘ اِس کو منفرد کر دیتا ہے۔  جہاں دوسری قوموں کا سب سے بڑا مسئلہ ’’ہونا‘‘ ہے، جس کے بعد اُنہیں خاک میں مل کر خاک ہوجانا ہے.. وہاں قومِ رسولِ ہاشمیؐ   کا سب سے بڑا مسئلہ اپنی ایک معیَّن ساخت رکھنا ہے، جس کی بدولت یہ نعمتِ خُلد کی امیدوار ہوتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ دوسری انسانی جماعتوں کا ’ہونا‘ ہی اُن کےلیے سب کچھ ہے؛ جہاں حوادث کے تھپیڑے انہیں ’ساخت‘ دیتے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اِدھر آسمانی نصوص کی ساخت کردہ ایک جماعت؛ جو زمانے کی ’’ساخت‘‘ کرتی ہے۔ کُنۡتُمۡ خَیرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ۔ یہ وجہ ہے کہ اِس کے ہاں سب سے بڑا طعنہ ’’آسمانی ہدایت‘‘ سے ہٹ کر کہیں سے ہدایت لینا ہے؛ کیونکہ اِس کی ساری جان اُسی ایک چیز میں ہے۔ چونکہ دوسری قوموں کو ایسی کوئی صورت ہی درپیش نہیں، اور نہ یہ اُن کی شان ہو سکتی ہے؛ لہٰذا ’’الجماعۃ‘‘ کا یہ مفہوم خاص اِسی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ کتبِ عقیدہ عَلَیکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃ کا سب سے قوی مفہوم یہی بیان کرتی ہیں۔

2۔       ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: صحابہؓ

اِسی سے متصل؛ الجماعۃ کا ایک مفہوم: ’’اصحابِ رسول اللہ‘‘ ہے۔ یعنی اسلامی فصل کا وہ پہلا پور جس سے یہ روئےزمین پر ایک تسلسل کی شکل اختیار کر گئی۔ یا وہ پیمانہ جسے سامنے رکھ کر یہاں ہر نسل کو اپنی جہت درست کرنا ہوتی ہے۔ پس پچھلے بند کے تحت اگر کچھ مجرد abstract معیارات آئے تو اِس بند کے تحت ایک ٹھوس concrete معیار آگیا۔ امام شاطبیؒ نے کتاب الاعتصام (ج 3 ص 212) میں ’’الجماعۃ‘‘ کا تیسرا مطلب یہی بیان کیا ہے اور اِس قول کو بطورِ خاص عمر بن عبدالعزیز سے منسوب کیا۔ اِسی معنیٰ کے تحت شاطبیؒ مَا أنَا عَلَیہِ وَأصۡحَابِی کی تفسیر کرتے ہیں: مَا أنَا عَلَیہِ: یعنی ’’السنۃ‘‘۔ وَأصۡحَابِی: یعنی ’’الجماعۃ‘‘۔ اور یہاں سے بنا ’’اھل السنۃ والجماعۃ‘‘۔ یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں رسول اللہ کی (السنۃ)۔ اور اس اتباع کا معیار اور نمونہ مانتے ہیں صحابہؓ (الجماعۃکو۔ اور اِنہی دو بنیادوں ’’السنۃ والجماعۃ‘‘ پر اپنی پوری اجتماعیت استوار رکھتے ہیں۔

    غرض وہ پوری ایک نسل جس نے سب سے پہلے دنیا میں ’’الجماعۃ‘‘ ہو کر دکھایا؛ اور وہ بھی براہِ راست آسمانی راہنمائی کے تحت؛ پھر اِس پر آسمان سے باقاعدہ سند پائی؛ اور اپنے بعد قیامت تک آنے والوں کےلیے امام مقرر ہوئی... وہ زمین کی اِس سب سے نظریاتی قوم کے ہاں ایک خصوصی معنیٰ میں ’’الجماعۃ‘‘ مانی جاتی ہے؛ جس کے علمی دستور کی پابندی لازم ہے۔

3۔       ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: علمائے حل و عقد

اسی سے متصل؛ الجماعۃ کا ایک مفہوم مسلمانوں کی امامت کرانے والی ہستیاں ہیں۔ یہ ’’اولی الامر‘‘ کے تحت بھی بیان ہوئیں۔ کہیں ان کو اہل حل و عقد کہا جاتا ہے اور کہیں علماء و فقہاء۔ غرض امت کا سرکردہ ہدایت یافتہ طبقہ؛ خواہ یہ علمی و نظریاتی پہلوؤں سے مسلمانوں کی کشتی کے کھیون ہار ہوں (جوکہ اہم تر ہے) اور خواہ سیاسی و سماجی وعسکری پہلوؤں سے۔ امت ان کے تابع ہے۔ ’’لزومِ جماعت‘‘ پر بخاری کے ایک باب کا عنوان پیچھے ہم دیکھ آئے؛ جس میں وہ الجماعۃ کی تفسیر ’’اھل العلم‘‘ سے کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں ابن حجرؒ کہتے ہیں:

وَالْمُرَادُ بِالْجَمَاعَةِ: أَهْلُ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ كُلِّ عَصْرٍ. وَقَالَ الْكِرْمَانِيُّ: مُقْتَضَى الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ أَنَّهُ يَلْزَمُ الْمُكَلَّفُ مُتَابَعَةَ مَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُجْتَهِدُونَ وَهُمُ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ.                 (فتح الباری ج 13 ص 316)

الجماعۃ سے مراد ہے ہر دور کے اہل حل و عقد۔[3] کرمانی نے کہا: لزومِ جماعت کا حکم دینے کا مقتضا یہ ہوا کہ آدمی مجتہدین کے اجماع کردہ امور کا پابند رہے۔ امام بخاریؒ کے یہ کہنے سے بھی کہ ’’وہ اہل علم ہیں‘‘، یہی مراد بنتی ہے۔

ترمذیؒ حدیث یَدُ اللّٰہِ مَعَ الۡجَمَاعَۃ (رقم 2167) دینے کے بعد کہتے ہیں:

وَتَفْسِيرُ الجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ هُمْ أَهْلُ الفِقْهِ وَالعِلْمِ وَالحَدِيثِ

اہل علم کے ہاں ’’الجماعۃ‘‘ کی تفسیر ہے: فقہ، علم اور حدیث کے رجال۔

الجماعۃ کے پہلے مفہوم پر یہ جو تین بند گزرے، ان پر ابن حبانؒ کی ایک جامع تقریر:

الْأَمْرُ بِالْجَمَاعَةِ بِلَفْظِ الْعُمُومِ، وَالْمُرَادُ مِنْهُ الْخَاصُّ، لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ هِيَ إِجْمَاعُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ، فَمَنْ لَزِمَ مَا كَانُوا عَلَيْهِ وَشَذَّ عَنْ مَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يَكُنْ بِشَاقٍّ لِلْجَمَاعَةِ، وَلَا مُفَارِقٍ لَهَا، وَمَنْ شَذَّ عَنْهُمْ وَتَبِعَ مَنْ بَعْدَهُمْ كَانَ شَاقًّا لِلْجَمَاعَةِ، وَالْجَمَاعَةُ بَعْدَ الصَّحَابَةِ هُمْ أَقْوَامٌ اجْتَمَعَ فِيهِمُ الدِّينُ وَالْعَقْلُ وَالْعِلْمُ، وَلَزِمُوا تَرْكَ الْهَوَى فِيمَا هُمْ فِيهِ، وَإِنْ قَلَّتْ أَعْدَادُهُمْ، لَا أَوْبَاشُ النَّاسِ وَرِعَاعُهُمْ، وَإِنْ كَثُرُوا

(صحیح ابن حبان بسلسلہ حدیث: أنا آمرکم بخمسٍ، رقم 6233)

’’جماعت‘‘ کا حکم عموم کے لفظ میں وارد ہوا، مگر مراد اس سے خاص ہے۔ کیونکہ جماعت ہے اصل میں اصحاب رسول اللہؐ کا اجماع۔ پس جو آدمی دستورِ صحابہ کا پابند رہا اور بعد والوں کی اپج سے دور رہا وہ نہ تارکِ جماعت ہے اور نہ مفارقِ جماعت۔ البتہ جو شخص صحابہؓ سے الگ راہ چلا اور بعد والوں کا پیروکار رہا وہ ضرور تارکِ جماعت ہے۔ ہاں صحابہؓ کے بعد وہ لوگ ’’جماعت‘‘ ہوں گے جن میں دین، عقل اور علم جمع ہوں اور وہ اپنے معاملات میں ھوائے نفس سے دور رہنے والے ہوں، اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہوں۔ نہ کہ عام آوارہ لوگ، اگرچہ وہ بہت کیوں نہ ہوں۔

    خلاصہ یہ کہ: ’’سنت‘‘ (اللہ و رسولؐ کی اطاعت) اور ’’جماعت‘‘ (صحابہؓ اور ان کا دستور) اور اس کے ماہرین ( فقہاء و مدبرین) وغیرہ یہاں ’’جماعت‘‘ کے معانی ہی کے اندر گوندھ دیے گئے۔ پس عام قوموں کے برعکس؛ اِس ’’الجماعۃ‘‘ کا نظریاتی وجود اس کے سیاسی وجود پر ہمیشہ فوقیت رکھے گا۔ اِس کے عقائدی پیراڈائم کو ہر چیز پر برتری حاصل رہے گی۔ روئےزمین کی کسی اور جماعت کو ایسا کوئی معاملہ ہی درپیش نہیں۔ حتیٰ کہ اِس امت کے اہل بدعت کا یہ مسئلہ نہیں۔ یہ ترجیح اپنی واضح ترین صورت میں صرف اِس امت کے ’’اہلِ سنت و جماعت‘‘ کے ہاں پائی جائے گی۔ اِس قاعدہ کا بہت بڑا اثر ’’احکامِ ضرورت‘‘ لاگو کرنے کے وقت سامنے آئے گا۔[4]

دوسرا مفہوم:

خود لفظِ ’’جماعۃ‘‘ کا مطلب ہے: اجتماع۔ یعنی ایک ہونا۔ اکٹھ۔ یکجہتی۔ ہم آہنگی۔

ابن تیمیہ ’’عقیدہ واسطیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

دفعہ 296:             وَسُمُّوا أَهْلَ الْجَمَاعَةِ؛ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ هِيَ الِاجْتِمَاعُ وَضِدُّهَا الْفُرْقَةُ؛ وَإِنْ كَانَ لَفْظُ الْجَمَاعَةِ قَدْ صَارَ اسْمًا لِنَفْسِ الْقَوْمِ الْمُجْتَمِعِينَ۔

اور وہ اھل الجماعۃ کہلائے؛ کیونکہ جماعت ہے: اجتماع۔ اور اس کا اُلَٹ ہے: فُرقہ (ٹولے ہونا)؛ گو (بعد ازاں) ’’جماعت‘‘ ان لوگوں پر ہی بولا جانے لگا جو مجتمع ہوں۔

     اِس مفہوم کی رُو سے: ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا مطلب ہوگا مسلمانوں کی مجتمع حالت۔ ان کی وحدت۔ اکٹھ۔ شیرازہ بندی۔ جبکہ ’’جماعت کو لازم پکڑنے‘‘ کا مطلب: مسلمانوں کی مجتمع حالت کا حصہ بننا۔ ان کے اجتماع کو قائم اور اس میں شامل رہنا۔ ’’شناخت‘‘ اور ’’وابستگی‘‘ کے دیگر عنوانات مانند نسل، زبان، قوم، ملک، علاقہ، مسلک وغیرہ (جن کا اپنی اپنی جگہ اعتبار بےشک ہے) کو اِس اجتماعیت کے آگے ہیچ رکھنا اور اپنی اِس  اصل وابستگی کو ہی اپنے سب امور پر حاوی رکھنا۔ اس الجماعۃ کا جو کوئی نظم اور ڈسپلن ہے پورے اخلاص اور شعور کے ساتھ اس کا پابند رہنا۔ اس کی ترقی و شادمانی اور فتح و کامرانی کےلیے فکرمند اور اس کی وحدت کےلیے سرگرم رہنا۔ یہاں ٹوٹے دلوں کو جوڑنا۔ پھوٹ کو حتی الوسع ختم کرنا۔ تفرقہ و انتشار کے عوامل کو زیادہ سے زیادہ ناکام و غیرمؤثر کرنا۔ فصل کے عین شروع میں دی گئی احادیث عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ، وَإیَّاکُمۡ وَالۡفُرۡقَۃِ[5].. مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الجَنَّةِ فَلْيَلْزَمُ الجَمَاعَةَ.. الۡجَمَاعَةُ رَحۡمَةٌ وَالۡفُرۡقَةُ عَذَابٌ.. فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُض.. یَدُ اللّٰہِ مَعَ الۡجَمَاعَۃ.. ’’جماعت‘‘ کے اِس معنیٰ پر سب سے زیادہ منطبق ہیں۔

’’جماعت‘‘ کا یہ دوسرا مفہوم عملاً کئی ایک جہت سے سامنے آتا ہے:

1۔       ’’جماعت‘‘ کا یہ معنیٰ، سماجی جہت سے:

اللہ اور اس کے رسول نے جماعت و یکجہتی کا حکم دیا اور تفرقہ و اختلاف سے ممانعت فرمائی۔ نیکی کے کاموں میں تعاونِ باہمی کا حکم دیا اور برائی کے کاموں میں باہم مددگار ہونے سے منع فرمایا۔ صحیحین میں، ارشادِ نبوی ہے: ’’مومنوں کی مثال باہمی الفت، مودت اور عاطفت میں یوں ہے جیسے ایک جسم؛ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورے جسم میں بخار اور بےآرامی دوڑ اٹھتی ہے‘‘۔ صحیحین میں ہی ارشاد ہوا: ’’مومن کی مثال مومن کے ساتھ یوں ہے جیسے ایک مضبوط چنی عمارت، جس کا ایک حصہ دوسرے کی تقویت ہوتا ہے‘‘، اور یہ کہتے ہوئے آپﷺ نے انگلیاں انگلیوں میں ڈال کر (دکھائیں)۔ صحیح حدیث میں فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ وہ اس کو کسی کے حوالے کرتا ہے اور نہ بےیارومددگار چھوڑتا ہے‘‘۔ نیز صحیح حدیث ہے: ’’مدد کرو اپنے بھائی کی؛ وہ ظالم ہو تب مظلوم ہو تب‘‘۔ عرض کی گئی: مظلوم ہو تو مدد کروں، ظالم ہو تو مدد کیسے؟ فرمایا: ’’اس کو ظلم سے روکو، یہ اُس کی مدد ہے‘‘۔ صحیح حدیث میں، فرمایا: پانچ چیزیں مسلمان پر مسلمان کےلیے واجب ہیں: ملے تو سلام کرے۔ بیمار پڑے تو عیادت کرے۔ چھینک لے تو اس کےلیے بھلے الفاظ بولے۔ وہ اِس کی دعوت کرے تو یہ قبول کرے۔ وہ مرجائے تو یہ اُس کے جنازے میں چلے‘‘۔ صحیح حدیث میں، فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی مومن نہ ہوگا جب تک اپنے بھائی کےلیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ چنانچہ یہ اور اس مضمون کی دیگر احادیث بیان کرتی ہیں کہ اللہ اور رسول نے مومنوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق فرض کیے ہیں۔ صحیحین میں، فرمایا: ’’بچو آپس میں قطع تعلقی سے۔ دشمنی کرنے سے۔ نفرتیں رکھنے سے۔ ایک دوسرے کے خلاف حسد رکھنے سے۔ اور اللہ کے ایسے بندے بنو جو بھائی بھائی ہوتے ہیں‘‘۔ صحیحین میں ہی، فرمایا: ‘‘اللہ کو تمہارے لیے تین باتیں پسند ہیں: یہ کہ تم اس کی عبادت کرو بغیر اس کے کہ اُس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک کرو۔ اور یہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔ اور یہ کہ جن لوگوں کو اللہ نے تمہارا حکمران بنایا ہے ان کا وفادار و خیرخواہ  رہو‘‘۔ سُنن میں آپﷺ کا ارشاد مروی ہے: ’’کیا میں تمہیں ایک ایسی نیکی کی خبر نہ دوں جس کا درجہ نماز سے بھی اوپر ہے، روزے سے بھی، صدقہ و زکات سے بھی اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے بھی‘‘؟ صحابہ نے عرض کی: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ فرمایا: ’’آپس کے معاملے کو درست رکھنا۔ یاد رکھو آپس کے معاملہ کا خراب ہونا مونڈ کر رکھ دینے والا ہے۔ یہ بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔ غرض ایسے ہی امور جن سے اللہ اور اُس کے رسول نے ممانعت فرمائی۔                  (مجموع الفتاوىٰ ج 11 ص 92۔94) 

2۔       رشتۂ دینی کو ہر حال میں نبھانا، اہل ایمان کے ساتھ موالات قائم رکھنا:

چنانچہ باوجود اس کے کہ سلف کے مابین لڑائی بھی ہوگئی تھی، پھر بھی ان کے مابین دینی موالات قائم رہی تھی۔ یہ آپس میں وہ دشمنی روا نہ رکھتے تھے  جو کفار کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔[6] یہ ایک دوسرے کی شہادت اور روایت قبول کرتے۔ ایک دوسرے سے علم لیتے۔ ایک دوسری کے وارث بنتے۔ آپس کی شادیاں بیاہ؛ اور وہ بہت سے معاملات جو مسلمانوں کے اپنے آپس میں چلتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ایک دوسرے سے بھڑ جانے اور باہمی طعن و تشنیع تک بھی معاملہ آجاتا رہا تھا۔[7]  (اور جہاں تک اس آپس کی لڑا ئی کا تعلق ہے تو) صحیح حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے اپنے پروردگار سے استدعاء کی کہ وہ آپؐ کی امت کو قحطِ عام سے ہلاک نہ کرے تو آپؐ کی یہ استدعاء قبول ہوئی۔ پھر آپؐ نے استدعاء کی کہ وہ اِن پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ کردے (جو ان کا بیج مار دے) تو یہ قبول ہوئی۔ پھر آپؐ نے استدعاء فرمائی کہ وہ اِن کے آپس میں جنگ نہ ہونے دے، تو یہ قبول نہ ہوئی۔ آپﷺ نے خبر دی کہ اللہ اِن پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ کرے گا جو اِن سب کو مغلوب کردے، یہاں تک کہ خود یہی ایک دوسرے کو قتل کرنے اور غلام بنانے لگیں۔ صحیحین میں آتا ہے، کہ جب قرآن کے الفاظ نازل ہوئے: ’’کہو، وہ قادر ہے کہ عذاب بھیج دے تم پر تمہارے اوپر سے‘‘ تو آپﷺ بولے: ’’تیرے روئے اقدس کی پناہ‘‘۔ پھر الفاظ آئے ’’یا تمہارے پاؤں تلے سے‘‘ تو آپﷺ گویا ہوئے ’’تیرے روئے اقدس کی پناہ‘‘۔ پھر الفاظ آئے ’’یا تمہیں گروہ گروہ کردے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے‘‘ تو آپﷺ نے کہا: ’’یہ دونوں باتیں نرم تر ہیں‘‘۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ جماعت اور یکجہتی رکھی جائے، اور بدعت و اختلاف سے منع فرمایا۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو فرقے کر لیا اور کئی کئی گروہ ہوگئے، تمہارا اُن سے کچھ تعلق نہیں‘‘۔ جبکہ ارشادِ نبوی ہے: ’’ایک جماعت بن کر رہو؛ بےشک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے‘‘، نیز فرمایا: شیطان ایک اکیلے آدمی کے ساتھ ہے؛ دو سے وہ دورتر ہوتا ہے‘‘۔ نیز فرمایا: شیطان انسان کے حق میں بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کےلیے بھیڑیا ہوتا ہے؛ وہ ریوڑ میں سے دور ہٹی ہوئی یا الگ تھلگ رہی ہوئی بھیڑ کو اٹھاتا ہے‘‘۔ پس مسلمان پر واجب ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے شہروں میں سے کسی شہر میں ہو، تو ان کے ساتھ ہی جمعہ و جماعت ادا کرے؛ ان کے ساتھ بیر شروع نہ کر دے۔ اگر ان میں سے کسی کو گمراہ یا برگشتہ دیکھے، اور اس کو ہدایت اور بھلائی کے راستے پر چڑھا لانا اس کےلیے ممکن ہو تو ضرور ایسا کرے، ورنہ اللہ کسی کو اس کی گنجائش سے بڑھ کر مکلف فرماتا ہی نہیں۔ اگر مسلمانوں پر ایک اچھا امام مقرر کرنے میں اس کی چلتی ہو تو ضرور ایک اچھا امام بنائے۔ اگر بدعات اور فسق و فجور کرنے والوں کو روکنے پر قدرت رکھتا ہو تو ضرور ایسا کرے۔ اور اگر اس کی چلتی نہیں تو (جو موجود ہے اس میں)  جو شخص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا نسبتاً زیادہ علم رکھنے والا ہے اور اللہ اور رسول  کی اطاعت میں باقیوں سے آگے ہے، اُس کے پیچھے نماز ادا کرنا افضل ہے...

ایک بدعتی یا ایک فاسق فاجر کے ساتھ روکھا ہو کر دکھانا اگر مصلحتِ راجحہ کا تقاضا ہو تو ضرور ایسا کرے۔                               (مجموع فتاوىٰ ابن تیمیہ ج 3 ص 285،286) 

3۔       ’’جماعت‘‘ کا یہی معنیٰ، فقہی تنوع کی جہت سے:

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مجتمع و یکجہت رہنے کا حکم دیا اور افتراق و اختلاف سے منع فرمایا..

صحابہؓ  آپس میں یکجہتی اور اتفاق قائم کرتے، اگرچہ وہ فروعِ شریعت مانند طہارت، نماز، حج، طلاق یا میراث وغیرہ کے (بہت سے مسائل) میں اختلاف بھی کرلیتے...

یہ ابو یوسفؒ اور محمدؒ ہیں، سب لوگوں سے بڑھ کر ابوحنیفہؒ کے پیچھے چلنے اور سب سے بڑھ کر اقوالِ ابوحنیفہ کو جاننے والے۔ مگر دونوں اتنے مسائل میں ابوحنیفہؒ کے خلاف گئے کہ شمار ممکن نہیں، اس لیے کہ ان کو سنت اور دلیل سے (اس کے برعکس) امور واجبِ اتباع نظر آئے۔ جبکہ امام کےلیے اُن کا احترام بدستور قائم تھا۔ یہ دونوں اس بنا پر متذبذب قرار نہیں دیے جائیں گے۔ خود ابوحنیفہؒ اور دیگر ائمہ ایک قول اختیار کرتے ہیں اور پھر ان کو دلیل اس کے خلاف نظر آتی ہے تو وہ اُس کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اِن کو بھی متذبذب نہیں کہیں گے۔ علم کی ایک بات آدمی سے پوشیدہ تھی پھر معلوم ہوئی تو وہ اس کا متبع ہوگیا، یہ متذبذب ہونا نہیں ہدایت یافتہ ہونا ہے؛ اللہ نے اس کو ہدایت میں بڑھا دیا ہے۔ خود اللہ نے فرمایا: ’’کہو! اے پروردگار! مجھے علم میں بڑھا دے‘‘۔ پس واجب ہے ہر مومن پر کہ وہ تمام مومنوں کے ساتھ اور مومنوں کے علماء کے ساتھ یکجہتی رکھے۔ حق کا متلاشی اور پیروکار رہے خواہ وہ اسے جہاں بھی پائے۔ جان رکھے کہ علماء میں سے جس نے اجتہاد کیا اور مقصودِ شریعت کو جا پایا اس کے لیے دہرا اجر ہے اور جس سے چوک ہوئی اس کےلیے اکہرا اجر، نیز اس کی چوک معاف ہے۔ مومنوں پر فرض ہے کہ (نماز میں) امام کے پیروی کریں جہاں اُسکا فعل گنجائش کے دائرہ میں ہو؛ اس لئے کہ نبیﷺ نے فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کے پیچھے چلا جائے۔ خواہ امام رفع یدین کرے خواہ نہ کرے؛ اس سے مقتدیوں کی نماز کا کچھ نقصان نہ ابوحنیفہؒ کے نزدیک ہے نہ شافعیؒ نہ مالکؓ اور نہ احمدؒ کے نزدیک۔ امام رفع یدین کرتا ہے مقتدی نہیں کرتا، یا مقتدی رفع یدین کرتا ہے امام نہیں کرتا؛ دونوں کی نماز کو اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آدمی خود کبھی رفع یدین کرلے، کبھی نہ کرے، اس سے بھی اُس کی نماز کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی ایک عالم کے موقف کو ہر کسی سے منواتا اور اس کے خلاف چلنے سے لوگوں کو روکتا پھرے جبکہ وہ (دوسرا قول بھی) سنت میں آیا ہو۔ بلکہ سنت میں جو کچھ آیا، اس سب کی گنجائش ہے۔ اذان اور اقامت کی مثال لےلیں۔صحیحین میں نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے بلال﷛ کو اذان دہری اور اقامت اکہری کہنے کا حکم فرمایا۔ جبکہ صحیحین میں ہی آپؐ سے ثابت ہے کہ ابو محذورہ﷛ کو اقامت اور اذان دونوں دہری کہنے کا حکم فرمایا۔ پس جو اقامت دہری کہے وہ بھی ٹھیک ہے۔ اور جو اکہری کہے وہ بھی ٹھیک ہے۔ البتہ جو ایک طریقے کو واجب اور دوسرے کو ممنوع ٹھہرائے وہ غلطی پر ہے اور گمراہ ہے۔ جو شخص ان میں سے ایک طریقے والے کے ساتھ تو اپنائیت اور دوستی رکھے مگر دوسرے طریقے والے کے ساتھ نہ رکھے وہ غلطی پر ہے اور گمراہ ہے۔ عالم اسلام کے مشرقی شہروں پر اللہ نے تاتاریوں کو مسلط کروایا  تو اس کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ (فقہی) مذاہب کے معاملے میں ان کے مابین تفرقہ اور فتنے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شافعی کو دیکھیں تو وہ اپنے مذہب کےلیے ابوحنیفہ کے مذہب خلاف تعصب میں اس قدر سخت کہ دین سے نکلنے تک چلا جائے۔ حنفی کو دیکھیں تو وہ اپنے مذہب کےلیے اور شافعی و دیگر ائمہ کے مذاہب کے خلاف تعصب میں دین سے نکلنے تک چلا جائے۔ حنبلی کو دیکھیں تو وہ اپنے مذہب کےلیے باقی مذاہب کے خلاف اتنا ہی متعصب۔ مراکش میں مالکی مذہب کا آدمی دیگر مذاہب کے خلاف ایسا ہی متعصب۔ یہ سب اُس تفرقہ اور اختلاف میں آتا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے ممانعت فرمائی ہے۔ یہ سب باطل تعصب رکھنے والے، خدائی ہدایت سے تہی، اپنی اھواء کی پیروی کرنے والے لوگ مذمت اور سزا کے مستحق ہیں۔ یہ ایک وسیع باب ہے؛ اِس فتویٰ میں اس کی تفصیل کرنے کی گنجائش نہیں۔ غرض الجماعۃ کے ساتھ پختہ وابستگی اور  یکجہتی رکھنا اصولِ دین میں آتا ہے۔ جبکہ وہ فرعی مسئلہ جس پر بحث ہو رہی ہے ایک فرع ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فرع کو بچاتے بچاتے آپ اصل کا نقصان کردیں؟!

صحابہ اور تابعین وغیرہ سلف کا اتفاق رہا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھی جائے، باوجود اس کے کہ بعض فروعی مسائل میں ان کا اختلاف ہوا ہے۔ نماز کے بعض واجبات میں ان کا اختلاف ہوا ہے، نماز جن چیزوں سے ٹوٹ جاتی ہے، ان میں سلف کا اختلاف ہوا ہے۔ جو شخص اجتہاد کے دائرے میں آنے والے امور کے باعث امت کے کسی ایک طبقے کو کسی دوسرے طبقے کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکے وہ اہل بدعت و اہل ضلالت کی صنف سے ہے، جن کے بارے میں ارشاد ہوا: ’’بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو فرقے کر لیا تمہارا ان سے کچھ تعلق نہیں‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اور مضبوط تھام لو اللہ کی رسی کو ایک جماعت ہو کر اور تفرقہ مت کرو‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اور مت ہو جاؤ اُن لوگوں کی طرح جو تفرقہ اور اختلاف میں پڑے بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں‘‘۔ نیز اسی طرح کی دیگر نصوصِ کتاب و سنت جن میں جماعت اور یکجہتی کا حکم ہوا ہے اور تفرقہ و اختلاف سے ممانعت۔ 

(مجموع الفتاوىٰ ج 5 ص 273)  نیز (مجموع فتاوىٰ ابن تیمیہ ج 3 ص 285،286) [8]

4۔       ’’جماعت‘‘ کا یہی معنیٰ نیشنلزم اور عصبیتوں کو رد کرنے کی جہت سے:

صحیح مسلم کی روایت میں، ارشادِ نبویؐ ہے: جو شخص جاہلی پرچم تلے (لڑتا) مارا گیا، جس نے کسی عصبیت کےلیے حمیت دکھائی، یا کسی عصبیت کےلیے آواز اٹھائی، وہ دوزخی ہے۔ مسند احمد کی روایت میں، آپﷺ نے فرمایا: جو شخص اہل جاہلیت ایسی عصبیت کا نعرہ بلند کرے، اُسے کسی اشارے کنائے کی زبان استعمال کیے بغیر اُس کے باپ کے ننگ کی گالی دو۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب﷛ نے کسی شخص کو نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ’فلاں (قوم) کی جے‘، تو فرمایا: اپنے باپ کی شرمگاہ کو جپتے ہو۔ وہ کہنے لگا: ابوالمنذر! آپ تو کبھی فحش گو نہ تھے! حضرت ابیؓ نے فرمایا: یہ رسول اللہﷺ کا حکم ہے (جو میں نے کیا)۔ جاہلی نعرہ بلند کرنا یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی قومی نسبت کا شور الاپے۔ مثلاً یمن کی جے۔ قیس (ایک قوم) کی جے۔ ہلال یا اسد کی جے۔ جو شخص عصبیت رکھے (مسلمانوں میں سے) خاص اپنے ملک کےلیے یا اپنے مسلک کےلیے یا اپنی طریقت کےلیے، یا اپنے رشتوں یا اپنے ساتھیوں کےلیے، تو ایسے شخص میں جاہلیت کا ایک شعبہ ضرور ہے۔ تاآنکہ مومنین ویسے نہ ہو جائیں جیسا اللہ کا حکم ہے: سب مل کر اللہ کی رسی کو تھامنے والے اُس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے چمٹ جانے والے۔ کیوں نہ ہو؛ ان کی کتاب ایک، ان کا دین ایک، ان کا نبی ایک، ان کا رب ایک یکتا معبود؛ اُسی کی حمد دنیا میں اُسی کی آخرت میں، سب فیصلہ اُسی کے ہاتھ، اور لوٹنا ہے تو اُس ایک کی طرف۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اے ایمان والو ڈرو اللہ سے جیسے اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر مسلمانوں والی حالت میں۔ اور مضبوط تھام لو اللہ کی رسی کو ایک جماعت ہو کر اور تفرقہ نہ کرو، اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت؛ کہ جب تم آپس میں دشمن تھے تو اُس نے تمہارے آپس میں دلوں کی الفت پیدا کردی؛ اور پھر تم اُس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے، درحالیکہ تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر (جا پہنچے ہوئے) تھے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت یافتہ ہوجاؤ۔ اور لازم ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو حق کی داعی بنے، معروف کا حکم دینے والی اور منکر سے روکنے والی؛ اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ اور مت ہونا اُن لوگوں کی طرح جنہوں نے تفرقہ اور اختلاف کیا بعد اس کے کہ اُن کے پاس روشن دلائل آ چکے تھے۔ ایسے لوگوں کےلیے ایک بڑا عذاب ہے۔ وہ دن جب کچھ چہرے روشن ہوں گے تو کچھ چہرے کالک زدہ‘‘۔ یہاں ابن عباسؓ نے تفسیر فرمائی: روشن چہرے اہل سنت و جماعت کے۔ اور کالک زدہ چہرے اہل تفرقہ و بدعت کے۔ پس اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، آپس میں جماعت اور یکجہتی پیدا کرو اللہ اور رسول کی اطاعت پر اور اللہ کے راستے میں جہاد پر۔            (مجموع فتاوىٰ ابن تیمیہ ج 11 ص 92۔94)

اِس دوسرے مفہوم کا لب لباب:

    غرض کافروں سے علیحدگی اور مسلمانوں کے ساتھ شمولیت پر مبنی ایک بھرپور گرمجوش سماجی زندگی اور سیاسی وحدت۔ کرۂ ارض پر مسلمانوں کا ایک جماعت اور قوت ہونا۔ باہمی یکجہتی و ہم آہنگی۔ شرعِ محمدی پر قائم خدا کے عبادت گزاروں کا ایک الگ تھلگ خودمختار کیمپ۔ مسلمانوں کا باہمی استحکام؛ مقامی سے لےکر عالمی سطح تک۔

    اِس معنیٰ میں بھی امت کا نجات پانے والا گروہ ’’اہل الجماعۃ‘‘ ہے۔ یعنی یہ طائفۂ حق صرف ’انفرادی‘ معنیٰ میں ہی شریعت و سنت کی پیروی پر یقین نہیں رکھتا؛ جیساکہ اِس وقت ہمیں ’پڑھانے‘ کی سرتوڑ کوشش ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ اِس شریعت و سنت کے پیروكار زمین پر ایک مضبوط جتھہ اور عالمِ انسانی کا ایک مستحکم کیمپ ہوں۔ یعنی روئےزمین پر اتباعِ حق کے عمل کو اُس سطح تک جانا ہے جہاں خود معاشرہ ہی ’’خدا کے نازل کردہ‘‘ کا پابند اور اس کی حرمت و حقانیت پر یک آواز ہو۔ اتباعِ حق کی اصل سطح ہے بھی یہی؛ کیونکہ جہاں حق کو ایک مستحکم کیمپ دستیاب نہ ہو اور حق وہاں کی فضاؤں پر ہی حاوی نہ ہو، وہاں ’فرد‘ بیچارے کی نماز اور حیاء بھی کسی ایک آدھ نسل تک ہی چل پائے گی؛ اور کسی ایک آدھ ’ثقافتی ریلے‘ کی مار ہوگی۔ اس لیے ’’سنت‘‘ بغیر ’’جماعت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ بغیر ’’سنت‘‘ نرا فلسفہ ہیں۔ لا إسلام إلا بجماعۃ۔ یہاں سے بنا ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘؛ جوکہ ایک کامل اسلامی عمل کا آئینہ دار ہے؛ ایک جیتاجاگتا اسلام؛ جو نئی آنے والی نسلوں کو آنکھ کھولتے ہی اپنے چاروں طرف چلتا پھرتا اور معاشرتی رویوں پر چھایا ہوا ملے۔ خود یہ ’’سنت‘‘ جو پوری انسانی زندگی اور پورے انسانی معاشرے کو خدائی ڈھب پر لانے کا نام ہے، زمین پر اپنی مرضی کا ایک مستحکم کیمپ (الجماعۃ) رکھے بغیر، سکڑتےسکڑتے، طہارت اور وضوء ایسے چند مسائل میں محصور ہو کر رہ جائے گی اور آپ ایسے ہی چند مسائل میں ’’سنت‘‘ پر عمل پیرا کر اپنے آپ کو ’’سرخرو‘‘ جاننے لگیں گے! اھل الجماعۃ ہوئے بغیر  اھل السنۃ ہونا کسی وہمی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا۔

تیسرا مفہوم:

’’الجماعۃ‘‘ کا ایک مفہوم اس کا ریاست ہونا ہے۔ گزشتہ فصل میں مذکور حدیثِ حذیفہؓ میں جہاں کہا گیا فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ ’’اگر مسلمانوں کی جماعت اور امام نہ ہو؟‘‘ تو اس کا یہی اطلاق بنتا ہے۔ کیونکہ؛ اگر ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد محض ابدان کا پایا جانا ہو تو یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمان زمین پر قیامت تک چلتےپھرتے پائے جائیں گے لہٰذا کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ حذیفہ﷛ نبیﷺ سے باقاعدہ سوال کریں کہ اگر اُس دور میں جماعۃ المسلمین (بمعنیٰ مسلم اَبدان) نہ ہوں تو وہ کیا کریں؟! لامحالہ یہاں ’’جماعۃ المسلمین‘‘ سے مراد مسلمانوں کا نظم ہے۔ جس کی غیرموجودگی میں دوزخی دستوروں پر قائم ٹکڑیوں سے دور رہنے کا حکم ہے؛ خواہ آدمی کو ’’درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانی پڑیں اور اسی حالت میں موت کیوں نہ آجائے‘‘۔[ii] تصور کر لیجئے، جماعۃ المسلین کےلیے اُس کا اپنا نظم ہونے کی اہمیت۔ اِس سے بڑھ کر قوی تعبیر بھلا کیا ہو سکتی ہے۔

درج ذیل مضمون کی احادیث بھی ’’الجماعۃ‘‘ کے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛ اور جوکہ بڑی تعداد میں مروی ہیں:

«مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»                               (البخاری رقم 7054)

’’جو آدمی اپنے امیر سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو اس پر صبر کرے؛ کیونکہ جس نے الجماعۃ سے بالشت بھر مفارقت کی اور اسی حال میں مرا، وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔

*****

اوپر جو معانی گزرے، ان کا خلاصہ کریں تو:

à      ’’الجماعۃ‘‘ ایک تو خود اُس عمل کو کہیں گے جو اہل اسلام کے ]دیگر انسانی جماعتوں سے علیحدہ؛ اور آپس میں مجتمع و ہم آہنگ ہونے اور روئےزمین پر ایک مضبوط انسانی بلاک بن کر رہنے[ سے عبارت ہے۔ اِس کے تحت  دوسرا مفہوم آجاتا ہے۔

à      دوسرا، وہ محور جس کے گرد ’’مجتمع ہونے‘‘ کا یہ عمل انجام پائے گا؛ اور جس کے بغیر یہ کوئی اکٹھ برائے اکٹھ قسم کی چیز ہو کر رہ جائے گا؛ جوکہ دوسری انسانی جماعتوں کے حق میں بےشک درست ہے؛ مگر اِس کے حق میں نہیں۔ اس کے تحت اوپر مذکور  پہلا مفہوم آجاتا ہے۔

à      تیسرا، اس کا نظم۔ یعنی ایک امارت کے تحت ہونا۔

*****



[1]  ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ 15

[2]   دستورِ اسلام کی بابت نوٹ کیجئے:  انسان کے حیوانی مطالب کو بھی اسلام میں کہیں نظرانداز نہیں کیا گیا۔ انسان کی نسلی یا جغرافیائی انفرادیت کو بھی یہاں ہرگز کچلا نہیں جاتا۔ اس کے برعکس؛ اِن بنیادوں پر سامنے آنے والی اکائیوں کو بھی بہت سا اعتبار بخشا جاتا ہے (سورۃ الحجرات کا ایک مضمون)۔ بس اتنا ہے کہ ان نسلی و جغرافیائی اشیاء کو اُس اصل ’’اجتماعیت‘‘ (الجماعۃ) کے تابع کر دیا جاتا ہے جو انسان کے شایانِ شان ہے؛ یعنی خدا اور اُس کے آئین سے وابستگی؛ جس میں کمال وسعت اور آسائش ہے۔

اِس نہایت اہم مضمون پر پیچھے ہم تفصیل سے گفتگو کر آئے  (فصل: ’’نسلی اکائیاں، علاقائی رہن سہن اور ریاست... ’’جماعۃ المسلمین بہ مقابلہ ماڈرن سٹیٹ‘‘ اور  اس سے متصل چند فصول)۔ اسلامی ’ہیومن اسٹ‘ اِس مقام پر بہت سے ابہامات پیدا کر کے ’’الجماعۃ‘‘ کو ایک فرسودہ تصور ثابت کرتے ہیں۔

[3]   واضح رہے، ایک خاص علمی سیاق میں ’’اہلِ حل و عقد‘‘ اُن کِبار علماء کےلیے بولا جاتا ہے جن کے علمی مواقف کی طرف رجوع ہوتا اور اجماع میں ان کا اعتبار ہوتا ہے۔

[4]   اِس پر دیکھئے کتاب میں (آگے چل کر آنے والی) دو فصول: ’’امراء کے ساتھ صبر اور تعاون، اہل سنت کا امتیازی وصف‘‘ اور ’’احکامِ ضرورت میں جماعت کا معنىٰ امارت پر مقدم‘‘۔

[5]   عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ، وَإیَّاکُمۡ وَالۡفُرۡقَۃِ خود اِس حدیث کا دوسرا جز (وَإیَّاکُمۡ وَالۡفُرۡقَۃِ) پہلے جز (عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ) کی تفسیر کرتا ہے۔ یعنی یکجہتی، ہم آہنگی، مسلمانوں کا ایک وحدت اور سیسہ پلائی قوت ہونا۔ اِس عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ سے ’’کئی جماعتوں‘‘ پر استدلال کرنا البتہ درست نہ ہوگا؛ کیونکہ اُس صورت میں لفظ ہونے چاہئیں تھے: عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَات نہ کہ عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ! اِس حدیث میں جس ’’جماعت‘‘ کا حکم دیا گیا ’’تنظیموں‘‘ کا حالیہ فنامنا اس سے بالکل مختلف ایک چیز ہے۔ یہ تنظیمیں بالکل جائز و مشروع ہیں مگر کچھ دیگر دلائل سے؛ اُن کا معاملہ اِس حدیث کے ساتھ خلط بہرحال نہ ہونا چاہئے۔

[6]   ہمارے اسلامی ہیومنسٹوں نے تو سنا تھا سب سے محبت ہی کی جاتی ہے! ادھر بتایا جا رہا ہے کہ مسلمان کے ساتھ لڑائی بھی ہوجائے تو اس کے ساتھ وہ دشمنی نہیں رکھی جاتی جو کافر سے رکھی جاتی ہے!!!

[7]   سلف کے آپس میں لڑائی کا معاملہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح گھر میں دو بھائیوں کے مابین لڑائی چھڑ جائے اور شیطان اس نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا لے۔ باوجود اس کے کہ دونوں ایک ہی ’’گھر‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی ’’ایک‘‘ ہونے کا معنیٰ پھر بھی کسی درجے پر قائم ہے۔ اوپر ابن تیمیہ کے کلام میں ’’الجماعۃ‘‘ کا یہی معنیٰ واضح کیا گیا ہے۔ کیونکہ؛ آپس کی لڑائی بھڑائی ہوجانا بہرحال ایک انسانی واقعہ ہے۔ ایسی اشیاء مذموم اور ناگوار سہی، مگر پیش آ سکتی ہیں۔  اِس سے ’’الجماعۃ‘‘ کا معنی متاثر ضرور ہوتا ہے مگر ختم نہیں ہو جاتا۔ پس ’’الجماعۃ‘‘ کا وہ معنیٰ سمجھنا اور عملاً قائم کر رکھنا ضروری ہوا جسے باہمی تنازعات کے باوجود نفوس پر حاوی رہنا اور آخر معاملے کو اس کی اصل پر واپس لانا ہوتا ہے۔ ’’ایک گھر‘‘ ہونے کا وہ معنیٰ جس میں لڑائیاں بھڑائیاں بھی ہو ہی جاتی ہیں؛ کیونکہ بہرحال یہاں فرشتے نہیں انسان بستے ہیں۔

[8]   مجموع فتاوى ابن تیمیہ کی عربی عبارتیں کتاب میں دی گئی ہیں، یہاں ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔



[i]   حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ... إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ                                                (متفق علیہ، واللفظ لمسلم، رقم 1676)

مسلمان آدمی... کا خون حرام ہے، سوائے تین گناہوں سے: شادی شدہ زانی، جان کے بدلے جان، اور وہ جو اپنے دین کا تارک اور جماعت کا مفارق ہوگیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ اگر اِن کا صحیح ’شرعی‘ سٹیٹس بکھرے پتنگے ہونا ہی تھا تو اِنہیں چھوڑ جانے والے کو ’’مفارقِ جماعت‘‘ کیوں کہا گیا؟ اس کےلیے تو، مرتد ہوجانے کی صورت میں، تارکِ دین (’مذہب‘ چھوڑ جانے والا) کہہ دینا بہت کافی تھا! معلوم ہوا، یہاں کوئی چیز تھی جس کا نام ’’مسلمانوں کی جماعت‘‘ ہے، اور جس کو ’’لازم پکڑ رکھنے‘‘ کی شریعت میں جگہ جگہ تاکیدیں ہیں؛ اور اتنی زیادہ نصوص کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا پورا ایک مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے۔

[ii]   حدیث کا متن یوں ہے:

قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِك                (متفق علیہ۔ بخاری رقم 3606، مسلم رقم 1847)

میں نے عرض کی: تو کیا اُس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ دوزخ کے دروازوں پر آوازیں لگانے والے، جس نے ان کی مانی وہ اُن کے ہاتھوں دوزخ میں جا پڑے گا۔ میں نے عرض کی: ہمیں ان کی کچھ نشانی بیان فرما دیجئے۔ کہا: وہ ہماری چمڑی سے ہوں گے، ہماری زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے عرض کی: تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں وہ وقت پالوں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے وابستہ رہنا۔ میں نے عرض کی: تو اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام نہ ہو؟ فرمایا: تو پھر ان سبب ٹولوں سے ضرور دور رہنا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجائے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز