اس وقت یمن کی ہنگامی صورت حال کے پیچھے ایران
کا ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ردعمل پر روافض کا پیچ و تاب
کھانا صاف بتا رہا ہے کہ
یہ فتنے زمانے میں جو اُٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھا بیٹھا شرارت کرے ہے
چلئے یہ تو ایران کے دشمن میڈیا سے ملا ہوا تاثر ہے۔ اب اس کا کیا
کیا جائے کہ ستمبر ۲۰۱۴ میں ایرانی پارلیمنٹ کے ممبرعلی
رضا زکانی نے ایک بیان دیا تھا کہ صنعاء ایرانی انقلاب کا حصہ بننے والا چوتھا عرب
دارالحکومت ہے۔ یعنی صاف طور پر اعلان ہورہا ہے کہ عراق، شام اور لبنان ایران کے
قبضے میں ہیں اور اب یمن بھی ایران کا حصہ ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونسی نے
مارچ کے اوائل میں بیان جاری کیا کہ اب سلطنت فارس کا احیاء ہوگیا ہے اور فارس کا دار الحکومت بغداد ہے۔ موصوف کو یہ
بیان دیتے ہوئے یہ یاد نہیں رہا ہے کہ فی الوقت اقوام عالم کے نزدیک عراق اور
ایران دو الگ الگ حکومتیں ہیں اور عراق کا ایرانی کنٹرول میں ہونا ایک ایسا کھلا ہوا راز ہے جس کا ابھی ایران نے
سیاسی دعوی نہیں کیا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اس بیان کے بعد موصوف کو
ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سمجھنا چاہے کہ یہ صاحب ایرانی ایوان اقتدار میں کافی
سینئر ہیں اور حسن روحانی سے کافی قریب۔ ان کا اس عہدے سے ہٹایا جانا اس لئے نہیں
ہے کہ انہوں نے کوئی غلط بات کی ہے بلکہ ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے روافض کی
اندرونی امیدوں کا "وقت سے پہلے" اظہار کر دیا۔ اس سے ایران یہ تاثر بھی دے رہا ہے کہ موصوف کی
"ذاتی خواہشات" کا ایرانی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری طرف عراق
کو یہ تاثر بھی دینا مقصود ہے کہ عراق ایک "آزاد ملک" ہے اور اس پر
ایران کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
سیاسی سازشیں ایسی چیز نہیں ہے کہ ان کو سچ مچ
"ثابت" کیا جاسکے۔ رافضہ کی زبان کی پھسلن اور بل کھاتی ادائیں صاف بتارہی ہیں کہ آرزوئیں بہت طویل ہیں۔ اب تک
دوسرے جھگڑوں کی وجہ سے ایران کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ تو
بحرین کا مسئلہ سعودی حکومت کے لئے بھی نازک تھا جس کی وجہ سے ایران کی سازشیں بحرین
میں ناکام ہوگئیں۔ لیکن سعودی عرب کے براہ راست میدان جنگ میں آنے سے جو پیچ و تاب
نظر آرہا ہے، صاف لگ رہا ہے کہ اندر سے ہتھیاروں کی سپلائی ایران سے ہی ہو رہی تھی
۔ اور اب سننے میں آیا ہے کہ ایران اپنے
بحرے بیڑے بھیج چکا ہے۔
اتنا بڑا عالم اسلام جس کا نوے فیصد حصہ اہل سنت
پر مشتمل ہے۔ اور یہ قلیل رافضہ کی کروٹیں بدلتی ہوئی احمقانہ اور غیر عملی
امیدیں؟ کہاں یہ اہل سنت کا امڈتا ہوا دریا اور کہاں یہ رافضہ جن کو اپنے تقیہ کے
نہاں خانوں سے نکلنے کا بس تھوڑا سا موقعہ مل گیا۔ عالم اسلام کی تسخیر کی رافضہ
کی امیدیں صرف فساد برپا کر سکتی ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ رافضہ جیسا منفی، جذباتی
اور متناقض مذہب اپنے آپ کو اصل اسلام باور کرا پائے۔ ان کی یہ امیدیں اگر کچھ کر
سکتی ہیں تو بس فساد برپا کرسکتی ہیں۔ مسلمانوں کی جو قوت امریکہ اور اسرائیل کے
خلاف استعمال ہونا ہے اس کو اپنے خلاف استعمال کروا کر اللہ کے دشمنوں کا فائدہ
کروا سکتی ہیں۔ چوتھی صدی ہجری میں باطنی رافضیت کا پورے عالم اسلام پر سیاسی فتح
کے باوجود دوبارہ شکست و ریخت پانا اور عالم اسلام کی بہت بڑی اکثریت کا اہل سنت
رہنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس شجر
خبیثہ کو تو دوام نہیں ہے۔ لیکن تاریخ
گواہ ہے کہ اس کی فطرت میں اہل سنت کو
زیادہ سے زیادہ نقصان پہچانا گویا کہ
ودیعت کردیا گیا ہے۔