تین
اطاعتیں:
’’جماعت‘‘
کی تشکیل بھی تنظیم بھی
’’تین اطاعتوں‘‘ والی آیت (59، النساء) کے آخر میں آنے والے
الفاظ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ
فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ
إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ کی تفسیر میں مجاہد، قتادہ، سدی ودیگر سلف کے اقوال کو
بنیاد بناتے ہوئے، ابن تیمیہ اپنی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں کہتے ہیں:
’’معاملے کو اللہ کی طرف لوٹانا یہ کہ: اُس کی کتاب کی طرف لوٹایا جائے، اور رسول
کی جانب آپؐ کی وفات کے بعد لوٹانا یہ کہ: آپؐ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے‘‘۔
اسی سے متصل، ابن تیمیہ سورۃ البقرۃ
کی یہ آیت 213 لے کر آتے ہیں: وَأَنْزَلَ
مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ
بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔
چنانچہ
آیت النساء کے شروع میں تین کی تین اطاعتیں ذکر ہوئیں۔ البتہ عند النزاع صرف دو۔
کیونکہ نزاع/ اختلاف کا خاتمہ (جسے ہم ’’اجتماع‘‘ یا ’’آسمانی جماعت کا قیام‘‘
کہتے ہیں) اِن دو اطاعتوں سے ہی تشکیل پاتا ہے؛ اور یہی دو مختصر کلمات (فَرُدُّوهُ إلَى
اللَّهِ وَالرَّسُولِ) اِس جماعت کا بنیادی آئین؛ جوکہ
کلمۂ اسلام (لا إلٰہ إلا اللہ + محمدٌ رسول
اللہ) ہی کی
تفسیر ہے۔ پس خود یہ ’’اسلام‘‘ ہی ’’جماعت‘‘ ہوا؛ یعنی خاتمۂ نزاع۔ جبکہ تیسری
اطاعت اس ’’جماعت‘‘ کو چلانے اور روئے زمین پر اس کو پوری گنجائش full capacity کے اندر برسرعمل رکھنے
کےلیے۔
لہٰذا:
ü
پہلی دو اطاعتیں اِس
آسمانی جماعت کی تشکیل ہوئی۔
ü
اور تیسری اطاعت اِس
جماعت کی اِدارت۔
یہ وجہ ہے کہ تیسری اطاعت کے محل کو
’’اولی الامر‘‘ کہا گیا۔ لفظ ’’الامر‘‘ کا اپنا مفہوم بھی ’’معاملے کو چلانا‘‘
بنتا ہے۔ یہ معنیٰ ابن قیم نے باقاعدہ بیان بھی کیا ہے۔