طاقت کا کھیل
"بڑے
رقبے" اور "وسیع آبادی" کی اہمیت
آپ کا میڈیا ’’الحب
فی اللہ‘‘ کے سُر کبھی چھیڑ کر تو دیکھے؛ یہ امت اپنے مابین
وحدت کے ایسے عظیم عوامل رکھتی ہے جو نہ دنیا کی کوئی ’نیشن سٹیٹ‘ اپنے پاس رکھتی
ہے، نہ کوئی ’ریجنل ٹریٹی‘، نہ کوئی ’ٹریڈ
گروپ‘، نہ کوئی ’یونین‘ اور نہ کوئی
’یونائٹد سٹیٹس‘
کسی بھی تجزیہ کار سے پوچھ لیجئے، بیسویں صدی میں ’’طاقت کا کھیل‘‘ یورپ سے نکل کر روس اور امریکہ کے پاس کیسے چلا
گیا... نوبت باینجا رسید کہ برطانیہ جیسا ’ببر شیر‘ اب
امریکہ کے پیچھے دُم ہلاتا پھر
رہا ہے؟
(علاوہ دیگر اسباب)،
وہ آپ کو بتائے گا: اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ امریکہ اکیلا آدھے براعظم جتنا ہے۔ روس کا رقبہ ایسے ہے گویا آدھی
دنیا۔ یہ دونوں ملک (استعماری عزائم کے ساتھ ساتھ) اتنے حیرت انگیز حد تک بڑے رقبوں کے مالک ہوگئے تھے اور اس وجہ سے اتنے ناقابلِ اندازہ وسائل ان کے ہاتھ آگئے تھے کہ یورپی ’قوتیں‘
ان کے مقابلے پر تقریباً روپوش ہی ہوگئیں۔ مغربی
یورپ ایک تو خود چھوٹا سا، پھر وہ ڈھیر سارے ’خودمختار‘ چودھریوں میں بٹا
ہوا؛ چاہے یہ چودھری کتنے ہی سیانے ہوں۔ پس یورپی قوتوں کا طوطی اُس وقت تک ہی بول سکتا تھا جب تک
روس اور امریکہ ایسے بڑے بڑے جغرافیائی دیو میدان میں نہ آئے تھے۔ یعنی وہ صرف
عالم اسلام جوکہ ’تھرڈ ورلڈ‘ تھا، کے مقابلے
پر ہی ’قوتیں‘ تھیں۔
آخر یورپ کے لوگوں نے یہ فرق ختم کرنے کی ضرورت محسوس
کی اور ’’یورپی یونین‘‘ کا ڈول ڈالا لیکن ان میں
سے ایک ایک ملک کا ’صدیوں سے چلی آتی‘ ایک ’’الگ قوم‘‘ اور ’’الگ ملک‘‘ ہونا اس
یونین میں وہ ہم آہنگی لے آنے کے اندر ابھی تک مانع ہے جو ان کو روس اور امریکہ کے انداز کی ’’وحدت‘‘ بنا دے؛ نہ فرانس اپنے
آپ کو ’’گم‘‘ کرنے پر تیار نہ جرمنی اور نہ
برطانیہ۔ بلکہ ان کے دل اس قدر
پھٹے ہوئے ہیں کہ برطانیہ ابھی تک وہ سنجیدگی دکھانے پر آمادہ نہیں جو جرمنی اور
فرانس دکھا رہے ہیں۔
غرض ’’الگ الگ ملک‘‘ ہونا یورپی یونین کو
وہ بڑی جغرافیائی وسیاسی وحدت عطا نہیں کرتا جو روس و امریکہ کو حاصل ہے۔جرمنی،
فرانس، برطانیہ، یونان، ہالینڈ،
آسٹریا، اٹلی، سپین اور پرتگال کو اپنا
الگ الگ قوم ہونا بھلا کر اور ان میں سے ایک ایک کا ’پدرم سلطان بود‘ والا زعم چھوڑ کر اِن نئی عالمی
حقیقتوں کو سمجھنے اور ایک بڑی یورپی وحدت میں اپنا آپ ’’گم‘‘ کرنے میں اچھا خاصا وقت درکار تھا اور شاید
ہے۔ اِس خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئےچین اچھی خاصی جگہ بنا چکا۔ انڈیا بہت سی جگہ لے چکا۔ لاطینی امریکہ
انگڑائیاں لینے لگا۔ مگر یورپی قوتوں کےلیے
اپنا وہ پرانا مقام بچا رکھنا ہی دشوار رہا؛ جس کی وجہ ان میں سے
ایک ایک کا ’قومی‘ نخرہ ہے جو ایک دن میں جانے والا نہیں۔ نئی عالمی حقیقتیں یہاں
ایک ایک کو سیدھا کرکے چھوڑیں گی، ورنہ مرگِ مفاجات!
یہاں سے آپ پر واضح ہوجاتا ہے کہ کرۂ ارض پر ذلیل اور دست
نگر ’راجواڑوں‘ کے طور پر رہنے کی بجائے سراٹھا کر چلنے والی ’’امت‘‘ کے طور پر
رہنا ’’ایک بڑی
جغرافیائی وسیاسی وحدت‘‘ ہونے پر کس قدر انحصار کرتا ہے، اور
وہ بھی ایسی یکجان کہ ’آئی سی‘ یا ’رابطہ عالم اسلامی‘ وغیرہ تو خیر بالکل ہی مذاق
ہے، اس کےلیے ’’یورپی یونین‘‘ تک کام نہیں دیتی۔ اس کےلیے کم از کم بھی روس،
امریکہ، چائنا اور انڈیا ایسی ’’وحدتیں‘‘ درکار ہیں (یعنی ’’ایک ملک‘‘ ہوکر رہنا)۔
اِس عالمی سیناریو میں عزت دار رہنے کےلیے کیا آپ کے پاس ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے
احیاء کے سوا کوئی مفر ہے اور جبکہ وہ آپ کی ’ضرورت‘ ہونے سے پہلے آپ پر ایک ’’فرضِ
دینی‘‘ ہے؟
عَلَيْكُمْ بِالجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ
وَالفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ
أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الجَنَّةِ
فَلْيَلْزَمِ الجَمَاعَةَ
(سنن الترمذی
2165، سنن النسائی 9181، مسند أحمد 23165،
صححہ الألبانی صحیح الجامع الصغیر
2546)
ایک جماعت بن کر رہو۔ خبردار پھوٹ میں نہ پڑنا؛ بے شک شیطان اکیلے آدمی سے
قریب جبکہ دو سے دورتر ہوتا ہے۔ جو آدمی جنت کے ٹھاٹھ چاہے اُسے چاہئے کہ
’’جماعت‘‘ کو لازم پکڑے۔
یہ ذلت اور دربدر کی ٹھوکریں صدیوں کی
غفلت کا خمیازہ ہے جو کسی چٹکی بجانے سے نہ ٹلے گا۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا اٹھنا
کوئی ایک دن میں ممکن نہیں، یہ سچ ہے۔ اِس درمیانی عرصے میں حالیہ سیٹ اپ
کے ذریعے جتنے نقصانات اپنی امت سے دفع کیے جاسکتے ہوں کیے جائیں اور جتنے مصالح
ممکن بنائے جاسکتے ہوں بنائے جائیں، اس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ’’الجماعۃ‘‘
کی تحریک تو اٹھائی جائے، حضرات! وہ ذلت آمیز صورتحال جو آج ہمیں درپیش ہے اس
کو اصولی سطح پر تو رد کیا جائے۔ اس ذلت کی فکری بنیادوں کو پاش پاش تو کیا جائے۔ ’’الجماعۃ‘‘ کی فکری بنیادیں تو کھڑی کی جائیں!
اس میں کیا شک ہے کہ ایک اعلیٰ ترین شریعت رکھنے والی یہ عالمی امت جو
جغرافیائی طور پر خودبخود ایک بلاک ہے اور جو یورپ، افریقہ اور ایشیا کو ایک وحدت
بناتی اور ہر سال خانہ کعبہ میں اکٹھی ہوکر خدائے واحد کو سجدہ کرتی اور اپنے
’’ایک‘‘ ہونے کا وہ پرانا سبق یاد کرتی ہے... یہ اپنے مابین وحدت کے ایسے عظیم عوامل رکھتی ہے جو نہ دنیا کی کوئی ’نیشن سٹیٹ‘
اپنے پاس رکھتی ہے، نہ کوئی ’ریجنل ٹریٹی‘، نہ کوئی ’ٹریڈ گروپ‘، نہ کوئی ’یونین‘ اور نہ کوئی ’یونائٹد سٹیٹس‘۔
توحید ان کے دلوں کو جوڑتی ہے تو ان میں ایسی محبت آتی ہے (الحب فی اللہ
والبغض فی اللہ) کہ دنیا کے سب رشتے اسکے آگے ماند پڑ جائیں۔ ’’میرِ حجازؐ‘‘ ان کے دلوں میں کچھ ایسے تار
چھیڑتا ہےکہ یہ امت دنیا کو الٹ دینے کےلیے
کھڑی ہوجاتی ہے۔ ان میں ایسی وحدت اور ہم آہنگی آتی ہے کہ زبان اور خون کے رشتے اس
کے آگے ہیچ ہوتے ہیں۔ جس وقت روس کے خلاف افغان جہاد ہورہا تھا... تو بخدا ہم نے
ایک ایک مورچے میں یمن، حجاز، شام، مصر، سوڈان، قیروان، بلقان، بربر، قرنِ افریقی،
فارس، خراسان، پنجاب، سندھ، دکن، ماوراء
النہر، نیپال، فلیپائن اور انڈونیشیا کے نوجوانوں کو ایک دوسرے پر یوں فدا
ہوتے دیکھا تھا جیسے ان سب کو ایک ماں نے جنا ہو! آپ کا نظامِ تعلیم اور آپ کا
میڈیا اِس ’’محبت‘‘ کے نغمے کبھی چھیڑ کر تو دیکھے...
چند دنوں میں عالمِ کفر پر اگر لرزہ طاری نہ ہوجائے! چند دنوں میں مراکش تا
انڈونیشیا زندگی کی ایک نئی نہ دوڑ جائے اور یہ مردہ وجود اٹھ کھڑا ہونے کےلیے
خودبخود بےچین نہ ہوجائے! یہ محبت اور یہ رشتہ جو ’’ایمان‘‘ سے پھوٹتا ہے اس کے
ٹکر کی کوئی چیز دنیا میں پیدا نہیں ہوئی! قرآن کی قوت بڑی دیر سے دنیا نے دیکھی
ہی نہیں!
برادرانِ اسلام! اِس دنیا میں آپ
جن بھیڑیوں سے گھرے ہوئے ہیں، اور جو پچھلے دو سو سال سے آپ کے روئیں روئیں سے خون
نچوڑ رہے ہیں... ہم کہتے ہیں: ہمارے دین میں ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ
ہدایات نہ ہوتیں تو بھی ان بھیڑیوں سے اپنا وجود بچانے کی واحد صورت آج یہ ہوتی کہ
محمدﷺ کے نام لیوا ایک سطح پر ایک بڑی وحدت میں گم ہوں؛ اور اس کےلیے فقہاء کا
بیان کردہ قاعدہ ما لا يَتِمُّ الواجِبُ إلا بِه فهو واجب ہی کافی ہوتا۔ کجا یہ کہ اِس قاعدہ کے ساتھ
ساتھ؛ آپ کو ’’الجماعۃ‘‘ بن کر رہنے کی تاکید بھی ہو۔