سقوطِ ڈھاکہ.. "المورد" کا انکشاف!
سقوطِ ڈھاکہ پر "المورد" کی ذمہ دار شخصیت کا
یہ پورابیان آپ سماع ٹی وی کے اِس لنک پر
دیکھ سکتے (http://goo.gl/Moq12k ) یا ایقاظ (جنوری 2014) میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا لب لباب
یہ کہ:
ایک بڑی غلطی یہ
تھی کہ دو خطوں کو ملانے کی جو وجہ بیان کی گئی وہ مذہب تھا۔ حالانکہ لوگوں کو
جوڑنے والی اصل چیز جبلی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ زیان اور رہن سہن ہو سکتا ہے۔ البتہ
ایمان گھٹنے بڑھنے والی چیز ہے (لہٰذا قوموں کو جوڑنے کی بنیاد نہیں ہو سکتا)۔
ہمارا جواب:
یہاں ایک بات ’’جبلّی
تقاضوں‘‘ کو اجتماعیت کی بنیاد بنانے کی ہوئی ہے اور ایک رہن سہن و لسان
کو بنیاد بنانے کی۔ دونوں کی بابت ان شاءاللہ ہم نہایت مختصر بات کریں گے:
جہاں تک زبان اور
رہن سہن کا تعلق ہے... تو یا تو آپ ایک قاعدہ جاری فرما دیں کہ دنیا میں ایک کثیر الاجناس multi-ethnic،
ملٹی کلچرل multi-cultural،
ملٹی لنگول multi-lingual ملک ہونے پر پابندی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک آپ کے اس مزعومہ
قاعدہ پر پورا اتر پائے گا۔ اس پر اصرار کی صورت میں؛ دنیا کے سبھی یا بیشتر ممالک
کو ایک نئے سرے سے تقسیم کرنا پڑ جائے گا۔
غرض ایک چیز نہ انسانوں کے ہاں رائج اور نہ شریعت کی فرض کردہ۔ ایسی چیز
صرف ایک فلسفہ ہی کہلا سکتی ہے؛ خواہ کتنی ہی خوشنما ہو۔
رہ گئے جبلّی
تقاضے... تو معلوم ہوتا ہے یہ اصحاب ’’اجتماعیت کی بنیاد‘‘ اور ’’اجتماعیت میں
پختگی لانے کے ذرائع‘‘ کے مابین فرق نہیں فرما رہے؛ ورنہ ایک کو دوسرے کا متبادل
قرار نہ دیتے۔ اس ذہن کے لوگوں کے ذہن میں
شاید کوئی ایسا تصور ہے کہ اجتماعیت کی بنیاد ’’دین‘‘ کو قرار دینے کا مطلب ’چندہ
اپیلوں‘ ایسی کوئی قابلِ ترس سرگرمی ہے۔ یا ان کا خیال ہے، اس صورت میں یہاں سب
کام وعظوں اور خطبوں سے لیا جائے گا!
معاملہ یہ ہے کہ
اس دنیا میں کچھ بہت بڑےبڑے اور کثیر الاجناس ممالک کوئی بھی قابلِ ذکر ’’بنیاد‘‘ رکھے بغیر اپنی اربوں کی آبادی اور اس میں پائے جانے والے بھانت بھانت کے
رنگوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں درحالیکہ ان کے پاس ان سب اجناس کو
اکٹھا رکھنے کی کوئی ایک بھی مضبوط بنیاد نہیں ہوتی۔ اِسی کا نام سیاست ہے؛ جوکہ مسلمان پر بھی حرام
نہیں۔ ہے یہ ہمت، حوصلے اور دوربینی کا کام۔
اس میں؛ انسانوں کی جبلی ضرورتوں کو بھی بڑی مہارت اور مشاقی کے ساتھ کام
میں لایا جاتا ہے۔ لوگوں کو رام رکھنے کے سینکڑوں گر آزمائے جاتے ہیں۔ رہ گئی نالائقی، ظلم، بےحسی، کم نظری، خوردبرد
اور اپنے محکوموں کے اندر محرومیاں پیدا کر بیٹھنا... تو ایک مشترکہ زبان یا رہن
سہن ہی کیا، یہ بات سگے بھائیوں میں جدائی ڈال دیتی ہے۔ بہوؤں کے چولہے الگ کرا دیتی ہے۔ چنانچہ مال،
عہدوں، مفادات اور آسائشوں کی حکیمانہ تقسیم سلطنت کا شیرازہ مجتمع رکھنے کے حق میں اہم ذریعہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے، ایک بڑی سلطنت ایک چھوٹے ناتواں ملک کے مقابلے پر اپنے ’اجزاء‘ کو
زیادہ اعلیٰ کھِلاپِلا سکتی ہے۔ طاقت کا
کھیل دنیا میں ہمیشہ ایک بڑی سطح پر ہی کھیلا جاتا ہے؛ لہٰذا ایک بڑی وحدت کے
اجزاء ایک چھوٹے بےبس ملک کے مقابلے پر کہیں زیادہ آسائشیں بھی پاتے ہیں۔ یعنی اگر قیادت میں حوصلہ اور بلند نگاہی ہو،
تو لوگوں کی جبلی ضرورتیں بھی ایک بڑی وحدت کے اندر کہیں بڑھ کر تسکین
پاتی ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ارب ارب کی آبادی
انڈیا اور چائنا کےلیے اور لگ بھگ براعظم براعظم جتنا رقبہ امریکہ اور روس
کےلیے ایک بہت بڑا پلس پوائنٹ plus point ہے۔ ان میں شامل آبادیوں کےلیے یہ چیز مادی طور پر بھی باعثِ کشش ہے۔ ’’خلافت‘‘ بھی ایسی ہی ایک
اعلیٰ سطحی سیاست کا نام رہا ہے۔ غرض اموال، عہدوں اور
ملازمتوں کی ایک حکیمانہ تنظیم و تقسیم، وحدت کے کامیاب ’’ذرائع‘‘ میں آتی ہے۔ وحدت کی ’’بنیاد‘‘ البتہ وحدت کے
’’ذرائع‘‘ سے ہٹ کر ایک چیز ہے اور وہ بڑے ملکوں کے پاس
عموماً نہیں ہوتی؛ محض ایک دھکہ، دھونس، ذہانت اور چالاکی ہوتی ہے (ذرائع)، جس کے دم سے وہ بڑے بڑے عرصے تک انسانی اجناس کو باندھے رکھتے ہیں۔ اسلام
البتہ آپ کو ایک زبردست بنیاد بھی دے دیتا ہے۔ یعنی اسلام آپ سے لیتا کچھ
نہیں؛ دیتا بےپناہ ہے؛ صرف آخرت میں نہیں اِس دنیا میں بھی۔ غرض اجتماعیت میں
پختگی لانے کے ’’ذرائع‘‘ اپنی جگہ اور گو ان میں بھی آپ کو
کافر کی ٹکر کا ہونا ہی ہوتا ہے (نالائقوں اور کم ہمتوں کےلیے یہ دنیا بہرحال نہیں
بنی)، البتہ اس اجتماعیت اور وحدت کی ’’بنیاد‘‘ رکھنے
میں مسلمان کافر پر بالادست رہ جاتا ہے
بشرطیکہ اس کے تعلیم و ابلاغ کے شعبے اس ’’بنیاد‘‘ کو وہاں کی
نسلوں میں گہرا کر لیں۔ ہاں اس ’’بنیاد‘‘ کو آپ اپنی
نسلوں میں گہرا نہیں کرتے تو یہاں صرف آپ کا ’’ڈھاکہ‘‘ نہیں آپ کے ’’فرد‘‘ کا بھی
سقوط ہو جاتا ہے؛ اور ہو رہا ہے۔
*****
جان لو،
خدا تمہیں خیر سمجھنے کی توفیق دے، یہ (خلافتِ عباسیہ) نہایت عظیم ریاستوں میں سے
ایک ریاست رہی ہے جو اپنی سیاست سے پورے جہان کو چلاتی رہی ہے۔ اس کی سیاست دین
اور بادشاہت کا امتزاج تھی؛ جس کا نتیجہ یہ کہ لوگوں
میں سے نیکوکار اور صالحین تو اس کی اطاعت کرتے تھے دین اور عبادت کے طور پر، جبکہ
باقی لوگ اس کی اطاعت کرتے کوئی خوف سے تو کوئی طمع سے۔ خلافت اور بادشاہت اس
کے ہاں لگ بھگ چھ سو سال چلی۔
المورد سربرہ کے سقوط ڈھاکہ پر خیالات خود ان کی زبان سے سننے کےلیے لنک