’سوشل اینی ملز‘ social
animals کا باڑا
(اقتباس
’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’آسمانی شریعت نہ کہ سوشل
کونٹریکٹ‘‘شائع ایقاظ، جنوری 2014)
قبائل، شعوب (شاخوں) اور اقالیم (طبعی خطوں) کا لحاظ
اور علاقائی رہن سہن کا تحفظ نہ صرف ہماری شریعت بلکہ ہماری اسلامی تاریخ کا بھی ایک قابل ذکر امتیاز ہے۔
البتہ داعیانِ ’نیشن سٹیٹ‘ کو کیا سوجھی، جس چیز
(طبعی رشتوں اور علاقائی رہن سہن) کو قتل کرتے
کرتے آج یہ ناپید کردینے کے قریب ہیں اُس کے تحفظ کا واسطہ دے کر یہ اپنی اس بےرحم
’ماڈرن سٹیٹ‘ کے کیس کو ثابت اور ہماری ’’خلافت‘‘ کو ناثابت کرنے لگے! یہ ایک الٹی گنگا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ لسانی اور علاقائی
اشیاء کو تحفظ دینے کے مسئلہ پر ہم دفاعی پوزیشن پر جائیں یا اس سے لاتعلق
نظر آئیں۔ اللہ کا شکر ہے اس میدان میں بھی ہمارا ہی پلڑا بھاری ہے؛ بلکہ فریقِ
مخالف اِسی ایک پوائنٹ پر ہم سے مات کھا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانیت بلکہ انسانی
رشتوں اور انسانی جذبوں کے بھی قاتل ہیں؛ البتہ دجل میں ان کا جواب نہیں۔
طبعی رشتے، علاقائی رنگ، زبانوں کا تنوع (اخْتِلَافُ
أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ)... اور ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘؛ یہ ایک دوسرے
کےلیے ہی تو بنے ہیں! اِس تعددِ اجناس کے بغیر ’’الجماعۃ‘‘ کا کیا لطف؟! یہ تو ایک
عالمی کمیونٹی ہے اور روئے زمین پر ’’مل کر‘‘ خدا کی عبادت کرتی ہے؛ اس کو رنگوں اور زبانوں کا اختلاف کیا کہے گا؛ یہی
تو اس کی خوبصورتی ہے!
طبعی رشتوں اور قدرتی جذبوں کو اسلام کس طرح اپنی
آغوش فراہم کرتا اور ان کو گزند پہنچانے سے کس شدید حد تک گریز کرتا ہے، ہماری
’’الجماعۃ‘‘ کی تاریخ ان خوبصورت حقیقتوں سے لبریز ہے۔
ہماری یہ خلافت سوا ہزار سال تک قائم رہی، خلافت کے
کمزور پڑجانے کے بڑے بڑے طویل عرصوں کے دوران
ہماری اسلامی امارتیں رہیں(جو بالعموم خلافت سے ایک انتساب رکھتی تھیں)۔
یہ اسلامی امارتیں الگ الگ ’’انتظامی اکائیاں‘‘ ضرور تھیں جو اکثر ’خودمختار‘ بھی
ہوتی تھیں، اس کے باوجو آج کی ’نیشن سٹیٹ‘
کے برعکس وہ وہاں بسنے والے انسانوں کے حق میں ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘، ’’تقسیمِ بنی
آدم‘‘ اور ’’شناخت‘‘ کے کسی فلسفے پر قائم نہ تھیں۔ جہاں تک ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘،
’’تقسیمِ بنی آدم‘‘ اور ’’شناخت‘‘ کا تعلق
ہے تو __ ’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کا فرق
برقرار ہونے کے باعث __ اِن الگ الگ انتظامی اکائیوں کے باوجود
’’الجماعۃ‘‘ کا
وہ عمومی معنیٰ ہی یہاں پر برقرار تھا۔ (علاوہ اس بات کے
کہ یہ امارتیں ایک مجموعی معنیٰ میں محمدﷺ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے واقف نہ
تھیں)۔
البتہ نہ خلافت میں، اور نہ ان اسلامی امارتوں کے عہد میں... کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے قوموں کو بانٹا
اور قبیلوں کو کاٹا ہو۔ (اِس ’ماڈرن سٹیٹ‘ والے فنامنا کی طرح) کبھی ہم نے
کُردوں کو کُردوں سے کاٹا ہو اور وہ بیچارے اپنی خونی وحدت کے واسطے دے دے کر پوری
دنیا میں خوار ہوتے پھر رہے ہوں۔ کبھی ہم نے بربروں کو بربروں سے کاٹ کر ان کو
پانچ الگ الگ رنگوں کے ’پاسپورٹ‘ تھمائے ہوں۔ پشتون کو پشتون سے، بلوچ کو
بلوچ سے، ترک کو ترک سے، بنگالی کو بنگالی سے، بہاری کو بہاری سے،عرب کو عرب اور
حبشی کو حبشی سے الگ کرکے ان کے مابین ’سرحدیں‘ کھڑی کی ہوں۔ }فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ
أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ
فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (محمد: 22، 23) ’’تو کیا تم سے کچھ
بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رشتے کاٹ
ڈالو؟ یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت
کی ہے پھرانہیں بہرا اوراندھا بھی کر دیا ہے‘‘{۔ یہ سب کنبے،
قبیلے، قومیں، برادریاں، زبانیں، کلچر ہماری خلافت اور ہماری اسلامی امارتوں کے سائے
میں پوری آزادی سے پنپتے رہے ہیں۔
’’رشتوں‘‘ کو جوڑنا اِس دین کے بڑے بڑے اسباق میں آتا
ہے؛ اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کی پاسداری کی ہے۔ لوگوں کے طبعی میلانات، فطری
امنگوں اور قدرتی جذبوں کی قدر جتنی ہمارے دین
میں ہے اتنی کہیں نہیں ہے۔
صحابہؓ نے
آدھی دنیا فتح کی، چاہتے تو ’’سنت‘‘ کے نام پر (جیساکہ آج کچھ نادان لوگ کرنے میں
لگے ہیں) بڑے آرام سے لوگوں کے علاقائی لباس، رواج، بولیاں، رہن سہن سب تبدیل کروادیتے، ان کی علاقائی شناخت ختم کروادیتے، اور ان
کو ایک ہی ’’مدینہ‘‘ کے کلچر پر لے آتے! مگر صحابہؓ نے ان اقوام کو اِن رنگ
برنگ موسموں، کلچروں، بولیوں اور لہجوں کا خوب
لطف لینے دیا اور زندگی کو کسی بوریت اور یکسانیت کی جانب ہرگز نہ دھکیلا۔ صرف
ایک ’’عربی زبان کے حیرت انگیز پھیلاؤ‘‘ کو آپ اس قاعدہ سے مستثنیٰ کرسکتے ہیں
لیکن جن لوگوں کو قرآن سے لطف لینا آتا ہے وہ گواہی دیں گے کہ اِن اقوام کو اِس
لطفِ عظیم سے محروم رکھنا ایک بڑا ظلم ہوتا۔
حضرات...! صرف ڈیڑھ سو سال پہلے کی حالت پر نگاہ ڈال
لیں؛ کہ جب ’ماڈرن سٹیٹ‘ نام کی یہ بلا ہمارے
صحن میں نہیں اتری تھی اور ہماری خلافت اور اسلامی امارتوں کے باقیات ہی
اِن خطوں کے اندر برقرار، نیز زمین کی ’’طبعی تقسیم‘‘ ابھی جوں کی توں تھی۔ چھوٹے
چھوٹے علاقوں کی زبانیں یہاں اپنی زرخیزی کو پوری طرح برقرار رکھے ہوئے تھیں۔
علاقائی شاعری عروج پر تھی۔ ہر نسل کے لوگ اپنی نسل سے جڑے ہوئے تھے؛ ایک خون کو ’کاٹنے‘، اس کا شیرازہ بکھیرنے اور اس کے
مابین ’سرحدیں‘ کھڑی کرنے والی کوئی غیرانسانی قوت یہاں نہ تھی۔ ’’انسان‘‘ روئے
زمین پر آزادی سے چلتا پھرتا تھا۔ محبتیں
قائم؛ مروتیں باقی تھی۔ ہر علاقے اور ہر خطے کے اتنے اتنے مختلف کھیل، اتنی اتنی مختلف
دلچسپیاں، اتنی اتنی مختلف عادات، رسوم، معمولات کہ زندگی رنگوں کے تنوع سے بھری
ہوئی تھی۔ یہ تھی ہماری طبعی دنیا۔
البتہ یہ نیا درندہ (’ماڈرن سٹیٹ‘) اُس خاص عالمی
ایجنڈا کو رو بہ عمل لانے کا ذریعہ تھا جس کے پیچھے ایک مخصوص عالمی ٹولہ ہے۔ وہ
فری ماسونک freemasonic ٹولہ جو اسلام ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی
صدیوں کا بغض پالے ہوئے تھا؛ (صدیوں کا دھتکارا ہوا یہودی) جو اپنی منافقت کا پردہ اتار دے تو ’’انسان‘‘ کو ہنستا برداشت
نہ کرسکے۔ یہاں؛ نسلی رشتوں اور طبعی وحدتوں کو جس کند چھری سے ذبح کیا گیا آج وہ
سب کے سامنے ہے؛ اور میرا خیال ہے ’’سو سال‘‘
اپنے نتائج دکھانے کو خردمندوں کےلیے بہت کافی ہے! ’’دین‘‘ تو خیر بہت عظیم
شےء ہے اور اس سے بڑھ کر ’’شناخت‘‘ تو بھلا کیا ہوسکتی ہے، لیکن اِس ماڈرن درندے
نے تو ’’انسان‘‘ کی کوئی بھی شناخت باقی نہ رہنے دی۔ دین کے بعد کوئی شناخت ہوسکتی ہے تو وہ لوگوں
کے اَنساب اور قبائل اور شعوب (شاخیں) ہیں۔
ان کو بھی پوری بےدردی سے کچل ڈالا گیا۔
ایک ایک قبیلے اور ایک ایک طبعی قوم کو کئی کئی ’ماڈرن‘ ڈربوں میں ڈال دیا
گیا اور آئے روز اِن ’ڈربوں‘ میں ردوبدل ہوتا رہا۔ انسان کی پہچان کےلیے کیا بچا؟ اس کا وہ ڈربہ!؟
اب
اِس ڈربے کا حال دیکھ لیجئے۔ ’’دین‘‘ تو ایک عظیم چیز ہے؛ اس کو بدلنے کا تو خیر
کیا سوال۔ قوم (طبعی معنیٰ کی قوم) ،
قبیلہ اور نسب کبھی بدلا ہی نہیں
جاسکتا (نبیﷺ نے نسب بدلنے والے پر لعنت فرمائی ہے؛ ’’اَنساب‘‘ کا تحفظ مقاصدِ شریعت میں
آتا ہے)۔ البتہ ’ڈربہ‘ ایک لمحے میں بدلا جاسکتا ہے! کیا اس کو ’’شناخت‘‘
کہیں گے جو انسان کے شایانِ شان ہو؟ اندازہ تو کیجئے: کسی بند کمرے میں دو مشتبہ کرداروں (two culprits بھٹو اور مجیب) کے دستخط ایک لمحے کے اندر
کروڑوں انسانوں کی ’’شناخت‘‘ بدل دیں؟! ایسی
ناپائیدار اور ناقابلِ بھروسہ چیز؛ جو کسی ظالم کی ایک جنبشِ قلم کی مار ہو؟؟! جس کو کسی بھی عالمی مافیا کی
پھونک چند سالوں کی محنت سے راکھ کی طرح اڑا دے؟! جس کو کسی سے جوڑنے اور
کسی سے توڑنے کےلیے آئے روز ’پلان‘ بنتے پھریں؟؟! ’’شناخت‘‘ کے طور پر یہودی نے ہم
سے ہمارا ’’دین‘‘ چھڑوا دیا (کہ بھلا یہ بھی کوئی پہچان ہوتی ہے؟!) ’’خون‘‘ اور
’’نسل‘‘ کو تتربتر کردیا۔ اور ایسی ایک
پہچان دے دی جس کا پیپر کرنسی کی طرح کوئی
اعتبار نہیں؛ لمحوں میں یہ کہیں سے کہیں چلی جائے! اور اِن ہردو کے ’فیصلے‘ کہیں
اور ہوں!
یہ ہوا ’’شناخت‘‘ کا مسئلہ۔
رہ گئی زبانیں اور کلچر... تو ہر شخص جانتا ہے اکثر
علاقائی زبانیں آج موت و حیات کی کشمکش سے
دوچار ہیں؛ بلکہ علاقائی ہی نہیں ا ِس مُفسد فی الارض کے ہاتھوں یہاں کی قومی زبانیں ناپید
ہونے لگیں اور اُس اصل ’’جماعۃ‘‘ (global community) کی
زبان ہی یہاں ہر طرف چھانے لگی جو درحقیقت اس پیکیج کی روحِ رواں ہے! جیساکہ ہم نے
کہا ’ماڈرن سٹیٹ‘ دراصل ایک خاص کلچر کی نمائندہ تھی؛ یہ خود کچھ نہیں اصل میں تو
یہ زمین میں کسی خاص ابلیسی ’جماعۃ‘ کی تشکیل
کرنے کےلیے ہے۔ اس تہذیب کا سب سے بڑا
ہتھیار البتہ منافقت ہے؛ یعنی دکھانا کچھ اور کرنا کچھ اور (hidden agenda)! کیونکہ اس میں مسلم فاتحین والا عدل ہی نہیں جرأت اور صاف
گوئی بھی مفقود ہے۔ یہ وہ ملت ہے جو ریڈ انڈینز کو کچل دینے کے بعد ہر سال ان
کو ’مرغِ رومی‘ (turkey) کا تحفہ دیتی ہے! خاندان کو ریزہ ریزہ کردینے
کے بعد ’مدر ڈے‘ اور ’فادر ڈے‘ کا انعقاد کرواتی ہے! اپنے بھاری بھرکم ابلاغی و
تعلیمی امکانات کو کام میں لاتے ہوئے علاقائی رہن سہن اور رسم و رواج کو تہس نہس
کردینے کے بعد ’لوک کلچرز‘ کے اجڑ جانے کے بین کرتی ہے۔ اَنساب، قبائل اور اقوام
کو ملیامیٹ کردینے کے بعد لوگوں کو
’’خلافت‘‘ سے ڈراتی ہے کہ اگر یہ قائم ہوگئی تو تمہاری ’’علاقائی شناخت‘‘ کا کیا بنے گا! اپنی دیوہیکل ملٹی نیشنلز کھڑی
کردینے کے بعد ’آزادانہ تجارت‘ اور ’فری اکانومی‘ کے راگ الاپتی ہے!
واقفانِ حال آپ کو بتائیں گے کہ اِس وقت جتنی ’نیشن
سٹیٹس‘ دنیا میں ہیں سب کے ’کانسٹی ٹیوشن‘
قریب قریب ایک دوسرے کا چربہ ہیں۔ معیشتیں ایک دوسرے کی نقل۔ سیاسی نظام ایک دوسرے
کا چربہ۔ تعلیمی نظام ایک دوسرے کی مکھی پر مکھی۔ میڈیا ایک سے کورَس۔ غرض قوموں کی
قومیں ایک سی ڈرِل کررہی ہیں۔ انسانی تنوع کو یہاں پوری
بےرحمی سے قتل کیا جارہا ہے۔
’’شناخت‘‘ ہی ختم ہوگئی تو پھر باقی کیا رہنا تھا؟ اب
ایک ایک چیز پر بین کرنے کا فائدہ؟
اِس درندے کے ہاتھوں
لوگوں کے علاقائی کھیل تک ختم ہوگئے۔ آپ کا ہر بچہ اب کرکٹ کا بیٹ پکڑے نظر
آئے گا! ’اپنی آبائی چیزوں‘ کے اب اِس کو ’درس‘ ہی دیے جاسکتے ہیں یا اس پر آہیں
ہی بھری جاسکتی ہیں! ’’دین‘‘ نہیں بچا تو باقی کیا بچے گا؟! ہر ہر معنےٰ میں آپ اِسکے ہاتھوں موت پائیں
گے۔ ’’اچکن‘‘ پہنے ہوئے بازاروں میں چلتا
پھرتا آدمی آج قریب قریب آپکو مسخرہ لگے گا! یہ اُس لباس کا حال ہے جو پورے برعظیم
کا معززترین لباس تھا! رہ گئے علاقائی لباس، تو وہ صرف لوک میلوں اور نمائشوں میں
دیکھنے کی چیز ہو گئے۔ یعنی ایک سو سال کے اندر اندر، آپکے دیکھتے دیکھتے، آپکی
ثقافت کو انہوں نے میوزیم میں چن دیا۔
اپنی سو سال پرانی وضع قطع کے لحاظ سے آج آپ ایک عجائب گھر ہیں؛ اپنے آپ کو
وہاں ڈھونڈیے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے میں آپکے ذوق بدل دیے۔ آپ کے بچوں کا من پسند مشروب آج ’کوک‘ اور
’پیپسی‘ اور من پسند کھانا ’پزا ہٹ‘ اور ’میکڈانلڈ‘ میں پایا جاتا ہے! آپ کی کوئی
ایک چیز بچی ہو تو بتائیے! اِس کو کہیں گے فَرَّ
مِنَ الۡمَـــطَـرِ وَقَــامَ تَحْـتَ الْمِـــيْـزَابِ ’’بارش سے بھاگا
اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا‘‘!
ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور اُن کی ’یو این
کمیونٹی‘ کے مابین بھلا کوئی موازنہ ہے؟!