ریاست پر کسی مذہب کا حق نہ
ہونا!
اصحابِ مورد کا کہنا
ہے:
یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس
کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند
بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے
گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے
اس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور ان میں بسنے والے
غیرمسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت
زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (Protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل
مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں تو اسی حیثیت سے کرسکتے ہیں۔[1]
(’’اسلام اور
ریاست:: ایک جوابی بیانیہ‘‘۔ روزنامہ جنگ 22 جنوری 2015۔http://goo.gl/0yWPD0 )
یعنی پہلے تو آپ اپنے اوپر ’’قومی ریاست‘‘ کو
فرض کریں گے جبکہ اللہ نے یہ آپ پر فرض نہیں کی (جبھی تو قراردادِ مقاصد پر معترض
ہیں کہ اس نے اسلام کو یہ حاکمانہ حیثیت دے کر ’نیشن سٹیٹ‘ کا فارمیٹ خراب کر دیا
ہے)۔ پھر قومی ریاست کے ان معیاروں کی رو سے اس بات کو حرام ٹھہرا دیں گے کہ
یہ مملکت دین اسلام کی پابند ہو۔ اور اس کے بعد ایسی آوازوں کو گردن زدنی
قرار دینے چل دیں گے جو یہاں اسلام کو دستوری حیثیت دے رکھنے کی بات کرتی ہیں اور
جن کو دبانا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈا پر سرفہرست ہے۔
ریاست کا دینِ اسلام پر ہونا، ان اصحاب کی نظر میں ناجائز ہے! کسی
خطے کے اندر آپ 98 فیصد مسلم اکثریت کیوں نہ ہوں آپ کی ’’ریاست‘‘ کی بلا سے آسمان
سے نازل شدہ دینِ حق کیا ہوتا ہے! اتنی بڑی مسلم جماعت پر بھی یہی فرض ہے کہ اپنے
عقائد یا طرز معاشرت کو اپنا ذاتی مسئلہ ہی رکھے؛ جبکہ ریاستی عمل یہاں بسنے والے
سب مذہبی و غیر مذہبی گروہوں کے مابین سانجھا ہو.. اسلام کےلیے کوئی جگہ
رہتی ہے تو وہ صرف یہ کہ: شرعِ اسلام ہر پانچ سال بعد لوگوں کے ’ووٹ‘ اور اس میں
چلنے والی ’جوڑتوڑ‘ کے رحم و کرم پر ہو۔ ’شرعِ اسلام‘ کی قسمت (معاذاللہ) اس
چیز سے لٹکتی رہے کہ انتخابی مہم میں کس پارٹی کو میڈیا سے کتنی کوریج ملتی ہے اور
کس پارٹی کو اپنی کیمپین چلانے کےلیے کس ’’سرچشمہ‘‘ سے کتنا پیسہ ملتا اور کونسے
آدمی کو ’لائے‘ جانے کا فیصلہ کس بند کمرے یا کس ساہوکار ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر
ہوتا ہے! کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کے اندر یہ کچھ موثرترین
عوامل نہیں؟
اس بات کا پختہ و پائیدار بندوبست کر دینا کہ اسلام ہی یہاں کا آئین
ہو خواہ کوئی آئے یا کوئی جائے، اِس نقطۂ نظر سے شریعت کی خلاف ورزی ہے! ریاست اور آئین کو
ہاتھ بھی لگانے کا اسلام کو حق نہیں؛ جو قسمت آزمائی کرنی ہے بس حکومت کی
سطح پر کرے! اپنا کل سہارا ووٹ پر رکھے اور ایڈہاک حیثیت میں
رہے! حالانکہ خود اِن کو معلوم ہے اِس ٹوٹے ’کشکول‘ میں کیا پڑنے والا
ہے! ہاں ہاتھ کی چیز کا چلا جانا یقینی ہے! کون نہیں جانتا، اِس قوم کی زندگی سے
اسلام کو مکمل طور پر رخصت کردینے کا یہ ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔
سبھی کو معلوم ہے، حالیہ عالمی جھٹکوں میں جس طرح اس ملک کے بچ
رہنے ایسا معجزہ یہاں کسی بروقت شروع کر
لیے گئے ایٹمی پروگرام کا مرہونِ منت ہے (ورنہ اب تک خدانخواستہ سب کچھ چلا جاتا)
عین اسی طرح یہاں اسلام کا بہت کچھ بچا رہ گیا تو وہ اس لیے کہ یہاں کوئی
قراردادِمقاصد خاصے بھلے وقتوں میں پاس کر لی گئی تھی۔ ورنہ پچھلے کئی عشروں سے
یہاں جو خاک اڑنا شروع ہوئی ہے، دوسری جانب یہاں کی تہذیبی تشکیل کے معاملہ میں
’ڈو مور‘ do more کے جو نوٹس ’اُدھر‘ سے
دھڑادھڑ آنے لگے ہیں، جبکہ ملک کا سب کچھ کرائے پر اٹھا دینے والی جو ’جمہوری
حکومتیں‘ اب ایک عرصے سے آپ کو میسر آئی اور ہر چیز کو ’ڈالر‘ میں تولتی رہی ہیں
وہ کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہے، کوئی انجان ہی بنا رہنے پر مُصر ہے تو اور بات۔
ہم کہتے ہیں یہاں کے ریاستی عمل میں ’’قراردادِمقاصد‘‘ ایسے کچھ تالے نہ لگے ہوتے،
تو جمہوریت کے یہ چالیس چور یہاں آپ کا کیسا صفایا کر چکے ہوتے، ایک ادنیٰ نظر کا
مالک آدمی بھی اس کا بخوبی اندازہ رکھتا ہے۔ آپ کو چاہئے ان لوگوں کےلیے صبح شام
دعائے خیر کریں جو قراردادِمقاصد ایسا ایک آئینی اقدام آپ کی قوم کےلیے بروقت کر
گئے۔ معلوم نہیں ’’ریاست‘‘ کی سطح پر اسلام کا پتہ صاف کرکے یہ لوگ یہاں کونسے
مقاصد پورے کرنا چاہ رہے ہیں۔ سبحان اللہ! ’’ریاست‘‘ اور ’’آئین‘‘ سے اسلام کی
چھٹی؛ جو امید لگانی ہے اس بات سے لگاؤ کہ الیکشن کی تلچھٹ یہاں کیا چیز اوپر لے
کر آتی ہے؛ اس کے جھاگ سے اگر تمہارے لیے اسلام کی حکمرانی بھی نکل آتی ہے تو تمہاری
قسمت؛ کون کہتا ہے ہم اسلام پر مہربان نہیں!
سبھی کو معلوم ہے اکثر تھرڈ ورلڈ ملکوں میں ’الیکشن‘ ایک مہذب ورادات
کا نام ہے۔ این جی اوز، ملٹی نیشنلز، میڈیا، بینکرز، انٹرسٹ گروپس، تہذیبی ساخت
کرنے والی لابیاں اس عمل کو اپنی مرضی کی جہت دینے میں یہاں کیسی کیسی سرگرمیاں
نہیں دکھاتیں اور کیسی کیسی اثرانگیزی نہیں رکھتیں؛ آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لینا
چاہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے! جبکہ آئینِ اسلام آپ کے ہاں مسلسل ان اشیاء کے
رحم و کرم پر رہے گا! ریاستی عمل دینِ اسلام کا پابند نہیں؛ خواہ اس فتویٰ کی مدد
سے ایک قادیانی آپ کا ’اولی الامر‘ کیوں نہ بن جائے!
حضرات یہ راستہ آگے کہاں تک جاتا ہے، شاید بہت کم لوگوں کو اس کا
اندازہ ہے۔ یہ معاملہ صرف آئینی اور قانونی امور پر رکنے کا نہیں۔ اپنی تباہی کے
راستے میں حائل قراردادِ مقاصد ایسی کوئی رکاوٹ آپ کے اپنے ہاتھوں آج اگر منہدم
ہوجاتی ہے تو اُن طوفانی رفتار سے بڑھنے والے عالمی تقاضوں کو رو بہ عمل آنے میں
ہرگز دیر نہ لگے گی جو کرۂ ارض پر پائی جانے والی ہر ریاست کو ایک خالص
ہیومن اسٹ سٹیٹ بنا کر چھوڑنے والے ہیں۔ یہاں پر جاری ’جمہوری‘ عمل سے اسلام کےلیے
آپ ہمیں جو امیدیں لگوا رہے اس کا تو ہر شخص کو اندازہ ہے... ہاں اِس ’جمہوری‘ عمل
سے __ ’’قرادادِمقاصد‘‘ ایسے کسی انتظام کی غیرموجودگی میں __ یہاں
ایک ہیومن اسٹ سٹیٹ آپ کو ضرور مل جانے والی ہے۔ اس قوم کے ساتھ آپ یہ ہاتھ ہو
جانے دینا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ کو اندازہ ضرو ہونا چاہئے کہ اگر یہ قوم اس
گڑھے میں خدانخواستہ جاگرتی ہے تو اس کو وہاں سے نکالنا اور اس پر حملہ آور بےرحم
بھیڑیوں سے تب اس کو کوئی تحفظ دلانا خود آپ کے بس میں نہ ہوگا۔ جو جمہوریت جماعت
اسلامی ایسے پروگراموں کےلیے قحط سالی بنی رہی ہے کیا ضروری ہے کہ وہ آپ کی اسلامی
امیدوں کےلیے ابرکرم بنی رہے گی؟ جس بےبھروسہ جمہوری عمل پر آپ اسلام کی تقدیر کو
معلق ٹھہرانا چاہتے ہیں، اس کا کوئی تجربہ آپ آج ہی کیوں نہیں کرلیتے؛
قراردادِمقاصد اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو بہرحال نہیں ہے! اسلامی شریعت کے
یہاں دستور بنا رہنے کے عمل کو آپ کس بودے تار کے ساتھ باندھنا چاہتے ہیں، کیا
واقعتاً آپ کو یہ معلوم نہیں ہے؟
کئی ایک پہلوؤں سے ہم خود اس قراردادِمقاصد پر ملاحظات رکھتے ہیں۔
اور شاید اسے پاس کروانے والے بھی ایسے کئی ملاحظات اس پر رکھتے ہوں۔ مگر کچھ دیے
ہوئے حالات میں بعض بنیادی باتوں پر اس قوم کا شیرازہ مجتمع رکھنے کےلیے اس کا
فائدہ مند رہنا اظہر من الشمس ہے؛ ورنہ نجانے یہاں آپ کا کیاکچھ بہہ چکا ہوتا۔ یہ
بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عملاً اسلام لانے میں گو اس کی کوئی خاص
افادیت نہیں رہی؛ کہ یہ مسئلہ ’’ریاست‘‘ کا نہیں ’حکومت‘ کا رہ گیا تھا (ہمیں
ریاست اور حکومت کا فرق سمجھانے والے توجہ فرمائیں!!!) البتہ اس ملک کے اندر
کھلے کفر کا راستہ روکنے میں بےشمار پہلوؤں سے یہ چیز ایک ناقابل عبور بند کا کام
دیتی رہی ہے۔
البتہ اس بند کو توڑ کر یہاں جس ہیومن اسٹ
سٹیٹ(humanist state) کا راستہ صاف ہو رہا ہے اور جس کے
اندر __ ریاستی عمل میں کسی اکثریتی ٹولے کے مذہب کو کسی اقلیتی ٹولے کے
مذہب یا نظریات پر حاوی ہونے کا حق (بظاہر) نہیں ہوتا __ وہاں
صورتحال یہ ہوتی ہے، کہسکولوں کے نصاب میں اگر آپ کو صرف اتنی سی بات ڈالنی
ہو کہ ’’یہ کائنات کسی علیم اور خبیر ہستی کی تخلیق ہے‘‘ (Intelligent
Design theory) تو اعتراضات کا تانتا بندھ جاتا ہے:
جناب اس ملک میں ملحد بھی
بستے ہیں؛ تعلیمی نصابوں کو ’مذہب‘ کے حق میں جانبدار نہیں ہونا چاہئے؛ ملک
سب کا ہے! کلاس میں ٹیچر اگر خدا کے وجود کو ثابت کہنے کا ’جرم‘ کر بیٹھا ہے
تو شکایات کے دفتر کھل جاتے ہیں ’’ہم کسی مذہب وذہب کو نہیں مانتے ، تمہیں ہمارے
بچوں کی ذہن سازی کا حق کس نے دیا ہے؛ ہم سب یہاں ٹیکس دیتے ہیں اور
سب کے ٹیکس سے یہ سکول چل رہے ہیں؛ یہاں کوئی اپنے مذہب کے ساتھ ہم پر اثراندازی influence کیسے کر سکتا ہے؟
ہمیں معلوم ہے ریسرچ پیپروں اور سیمیناروں میں زندگی بسر کرنے والے
کچھ حضرات اِس کا ’آسان حل‘ یہ بتائیں گے کہ یہاں ہر مذہب کےلیے جداگانہ نظامِ
تعلیم جاری کر ڈالا جائے۔ (جو ہمارے علم کی حد تک، دنیا کے کسی ملک
میں نہیں ہے!) لیکن ہم ان سے کہیں گے، خدا را برسرزمین رہ کر کچھ ارشاد فرمائیے۔
یہاں آئین میں ایسے تقاضوں کے ہوتے ہوئے کہ اس قوم کے بچوں کو قرآن اور قرآن کی
زبان سے روشناس کرایا جائے گا، یہاں کے مسلمان بچوں اور نوجوانوں کو ابھی آپ کونسا
اسلامی نظامِ تعلیم دے سکے ہیں جو آپ اس کو ’’ہیومن اسٹ‘‘ سٹیٹ بنا دینے کے بعد
یکلخت کہیں سے لے آئیں گے؟ شریعت کے حق میں آئینی انتظام یہاں کے کارندوں
کے کچھ اصولی فرائض تو کم از کم متعین کرتا ہے؛ اس کے بعد تو کھلا جنگل ہے۔
ہمیں رٹوایا جانے والا یہ جملہ کہ ’ریاست کسی مذہب پر نہیں ہونی چاہئے‘، عنقریب جو صورت دھار لینے والا ہے وہ آپکے ابلاغ اور تعلیم تک کا
گلا گھونٹ کر رہے گی۔ اس کا طبعی
اختتام لامحالہ یہ ہے: یعنی اجتماعی شعبوں میں’’غیبیات‘‘ کے موضوع پر ہی ایک مکمل
غیرجانبداری۔
آپ جانتے ہیں غیبیات کے معاملہ میں ’’لا اَدریت‘‘ یا ’’غیرجانبداری‘‘
بذاتِ خود ایک دین ہے؛ بلکہ پورے ماڈرن
یورپ کی بنا ہی اسی پر کھڑی ہے۔ پس وہ تو اپنے دین پر ہوئے۔ ریاستی اور سرکاری عمل کو ’مذہب‘ سے الگ تھلگ رکھتے
ہوئے وہ تو ریاست کو پورا پورا اپنے عقیدے پر کھڑا کریں گے۔ واقعتاً
اُن کی تو ’’الجماعۃ‘‘ ہی اسی دین پر استوار ہے: یعنی ملحد اور مومن دونوں کا ایک ’مشترک سرزمین‘ common ground پر
آجانا۔ پس آپ کے ایک ایک شعبے پر ضروری ہو جاتا ہے کہ وجودِ خداوندی کےمنکروں کو ’ایڈجسٹ‘ کریں؛ رسالت، آخرت، سب کچھ باہر۔ ’مذہب‘ آپ
کا ذاتی مسئلہ ہوگا؛ ’سرکاری زمین‘ صرف
’’مشترکات‘‘ کےلیے مختص ہوگی۔ یعنی ریاستی عمل میں خودبخود آپ اُس دین پر آگئے جس
میں نہ یہ کہنے کی گنجائش کہ رسالت ہے اور نہ یہ کہنے کی گنجائش کہ رسالت نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں یہ بجائےخود ایک دین ہےجس کی بنیاد ’’انسان کی مرکزیت‘‘ ہے،
یعنیhumanism۔ اس کی رُو سے جو چیز انسانوں کے مابین ’’مشترک‘‘ ہوگی
’’اجتماعیت‘‘ صرف اسی پر استوار ہوگی: نہ ملحدوں کو یہ حق کہ وہ اپنی
سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی نصابوں میں یہ لکھیں کہ آخرت نہیں
ہے اور نہ مومنوں کو یہ حق کہ وہ اپنی سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
تعلیمی نصابوں میں یہ درج کر دیں کہ آخرت ہے۔ لیکن ظاہر ہے آپ کے بچوں کو لازماً
کوئی نہ کوئی ’میٹافزیک‘ دی جانی ہے؛ خواہ وہ کسی ’’علیم و حکیم‘‘ پر ایمان ہو
خواہ وہ کسی ’’الل ٹپ‘‘ پر ایمان ہو یا کسی ’’لااَدریت‘‘ پر ایمان ہو۔ ’’ایمان‘‘
وہ بہرحال ہوگا؛ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کائنات کے سرچشمہ کی بابت آپ کی
کوئی بھی رائے نہ ہو۔ کائنات جو سامنے نظر آتی ہے اس کی origin کی بابت ’’کچھ بھی نہ
کہنا‘‘ بذاتِ خود ایک رائے اور ایک مذہب ہے۔ ماڈرنزم سب اسی مذہب پر کھڑا ہے۔ لیکن
یہ لوگ ہم پر اپنا یہ نظریہ ٹھونس کر کہ یہ تو کوئی مذہب
نہیں (بالجبر) اس کو ہمارے لیے ’’کامن گراؤنڈ‘‘ ڈیکلیئر کر دیتے ہیں۔ (ہم کہتے ہیں
یہاں کوئی ’کامن گراؤنڈ‘ ہے ہی نہیں۔
جو بھی گراؤنڈ ہے وہ کسی ’’مذہب‘‘ کی ہے؛ اور لامحالہ آپ کو کسی مذہب پر ہونا ہے؛
بلکہ آپ ایک مذہب پر ہیں؛ صرف ہمیں ہمارے مذہب پر ہونے سے روک رہے ہیں)۔
پس یورپ اپنے مذہب پر ریاست قائم کرے، یہ حق
ہے۔ وہ ہمیں اپنے اس مذہب پر ریاست قائم کرنے کا پابند رکھے، ہمارے جدت پسندوں کے
نزیک یہ برحق ہے۔ البتہ ہم اپنے مذہب پر اپنی ریاست قائم کریں، حتیٰ
کہ پارلیمنٹ، منتخب نمائندوں اور دوتہائی اکثریت سے کریں، یہ غلط اور سراسر
باطل ہے!
انجامِ کار؛ اِس فلسفہ پر چلتے ہوئے... ’ریاست
کسی مذہب کی نہیں‘ ہونے کےلیے ضروری ہوگا کہ صرف قوانین نہیں آپ کے ایک ایک
قومی شعبے سے ’’خالق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’’رسالت‘‘، ’’آخرت‘‘ ایسی سب اشیاء باہر کردی
جائیں؛ اور نونہالوں کو تعلیم دیتے ہوئے ’’میٹافزیک‘‘ میں ہی صرف وہ بات رہنے دی
جائے جس پر خدا کے انکاری طبقے تک معترض نہ ہو سکتے ہوں۔[2] جہنمی ملتیں
اگر آپ سے اس سطح تک راضی ہوں تو ہم مانیں گے یہ ایک ماڈرن سٹیٹ ہے!
[1] اس ’نیریٹو‘ narrative کی بعدازاں جو وضاحت ہوئی اس سے نفس
الامر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ’نیشن سٹیٹ‘ کا فارمیٹ بدلنا کوئی دین شکنی نہیں ہے۔
ریاستی عمل کو اسلام کا پابند کردینے کی جو بھی صورت مسلمانوں کی استطاعت میں ہو،
مسلمان اُسے کیوں اختیار نہ کریں؟ 98 فیصد مسلم آبادی اپنی ’’سماجی قوت‘‘ اور
’’سیاسی رِٹ‘‘ کو اس کا ذریعہ بنائے، یہ ’’فتح‘‘ کی نسبت ایک کہیں نرم تر عمل
ہے۔ مسلمانوں کو ’’غاصب‘‘ گرداننے کے معاملہ میں ’اصل بات‘ بہت پیچھے تک
جاتی ہے جو شاید BJP کے زاویۂ مطالعہ تاریخ سے جا ملے اور راجہ داہر کے ’حق‘ تک
پہنچے! اصل یہ ہے کہ ہمارے ان شہروں کا اذانوں سے گونجنا جن فتوحات کا مرہونِ منت
ہے انہی کو صاف ظلم گردانیں۔ ورنہ اتنی بڑی مسلم جماعت (اسلامیانِ پاکستان) کا
اپنی ناقابل مزاحمت سماجی و سیاسی برتری کے بل پر ریاستی عمل کو خدا کی
عبادت میں دے دینا ’فتح‘ کی نسبت ایک کہیں زیادہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ کسی زمین
پر شریعت کی رِٹ قائم کرنے کے معاملہ میں اصل چیز مسلمانوں کے پاس اس بات کی
’’قدرت‘‘ ہونا ہے؛ جبکہ ’’فتح‘‘ یا ’’سیاسی و سماجی برتری‘‘ اِس قدرت کی ایک
صورت۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ ایسے کسی اقدام سے البتہ ’نیشن سٹیٹ‘ کی ساخت میں کچھ
فرق آگیا ہے، تو کوئی شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوگئی ہے۔ اصل بحث وہیں پر پہنچے
گی: بارہ صدیوں تک نصف معمورۂ ارض کا اسلام کی قلمرو بنا رہنا ’’غصب‘‘ کی ایک
داستان ہے اور اسلام کا نصف جہان میں پھیلنا بڑی حد تک ’ظلم و بربریت‘ کا نتیجہ!
(مستشرق اور مرزا قادیانی کا ڈسکورس!) ہمارا مشورہ ہے کہ ان کالموں میں مسئلہ کو
اس کے پورے حجم کے ساتھ کھول دیا جائے!
’ریاست‘ اور
’حکومت‘ میں آپ جیسے مرضی فرق کریں، اصل چیز ریاستی عمل کو اسلام کے تابع کرنا ہے؛
بایں طور کہ یہ افراد کے موڈ اور مزاج پر نہ رہ جائے بلکہ یہاں کا باقاعدہ آئین ہو
جو افراد کو آپ سے آپ پابند کرے۔ ریاستی عمل میں اسلام کی یہ مستقل حیثیت دورِحاضر
کی بحثوں میں ’حکومت‘ سے زیادہ ’ریاست‘ سے متعلقہ ہو گی، گو ہمیں اس کی شکلی صورت
سے غرض نہیں۔
[2] جیساکہ ہم پیچھے کہہ آئے، ہر ہر
مذہب کےلیے ’جداگانہ نظامِ تعلیم‘ اور ’جداگانہ قضاء‘ وغیرہ رکھنے والی ایک مفروضہ
ریاست بھی دنیا کی کوئی نرالی ریاست ہی ہوگی۔ علاوہ اس بات کے کہ ابھی آپکے پاس مسلمان کی ضرورت کا نظامِ تعلیم دینے کی
کونسی صورت ہےجو تب آپ ہمیں لا دیں گے؟