مسلم بٹوارہ.. استحصال کی کہانی
ماڈرن ریاست سب سے پہلے اپنی ’دلیل‘ ہی کے
معاملہ میں آپ اپنا ثبوت ہوتی ہے؛ اپنے وجود کی دلیل وہ کہیں باہر سے نہیں لیتی
(’رب‘ کےلیے یہی ضروری ہے!)۔ وہ اپنے وجود کو ’دلیل‘ کا محتاج کردےتو ہر دم
چیلنج ہوتی رہے (خصوصاً جبکہ اس کا وجود باطل اور غیرمنضبط inconsistent ہو)۔
ہاں اسلامی ریاست، جس
کا صحیح نام ’’جماعۃ المسلمین‘‘ ہے، اپنی دلیل بفضلِ خدا آپ کو شرع سے بھی بتائےگی
اور عقل و منطق سے بھی؛ کیونکہ یہ رب نہیں جو ’’دلیل‘‘ سے ماوراء ہو۔ بلکہ یہ ’’عبد‘‘ ہے جو ’’رب‘‘ کے ساتھ عبدیت نسبت سے اپنے وجود کےلیے دلیل پکڑتی ہے۔ جتنا سا ’’اتفاق‘‘ دنیا میں خدا کی نازل کردہ ’’کتاب‘‘ اور اُس کے بھیجے ہوئے ’’رسول‘‘ پر
ہوسکتا ہے، بلکہ ہے (جس پر فی الوقت اہلِ زمین کے ڈیڑھ ارب انسان پائے جاتے ہیں)
اُتنا سا ’’اتفاق‘‘ زمین کی اِس وحدت پر بھی پایا جاسکتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر ’’اتفاق‘‘ کی
ضرورت بھی نہیں۔ (بلکہ یہ ’’عدم اتفاق‘مالکِ کائنات کی اپنی منشا ہے)۔
رہ گئی ماڈرن سٹیٹ تو وہ اپنے یونٹ کے
’’جامع‘‘ ہونے پر کبھی کوئی دلیل دے سکتی ہے اور نہ ’’مانع‘‘ ہونے پر۔ بس یہ ہوتی
ہے! کہاں سے، کس بنیاد پر؟ کچھ پتہ نہیں، البتہ یہ ہے! یہ چھوٹی چھوٹی تین
ریاستیں ایک کیوں نہیں اور وہ اتنی بڑی
ریاست دس ریاستیں کیوں نہیں؟ اس کا جواب بھلا کون دے سکتا ہے! بس یہ ہیں...!
بنگلہ دیش اگر بنگالی زبان یا بنگالی نسل کا گھر ہے تو بھارت کے بنگالی خطے
بنگلہ دیش میں ہی کیوں نہ آجائیں؟ ایک ’اصولی
بات‘ پر بھارت کو بھی کیا اعتراض ہونا
چاہئے؛ آخر بھارت ایک ’ماڈرن ریاست‘ نہیں؟! اور اگر یہ کوئی اصولی بات نہیں؛ اگر بھارت میں
بڑے بڑے گنجان ’’بنگالی‘‘ خطے پائے جاسکتے ہیں
اور ان ’’بنگالی‘‘ خطوں کا بھارت میں رہنا ہی حق ہے تو پورا بنگلہ دیش بھی
بھارت میں کیوں نہیں آجاتا، کیا ملک کا سائز بڑا ہوجانے کا ڈر ہے!؟ اور کیا ملک
کا سائز بڑا ہونے پر اِس دنیا میں کوئی پابندی ہے؛ جتنا مرضی بڑا کرلو!
’بھارتی پنجاب‘ کئی صوبوں پر مشتمل، ’’بھارت‘‘
کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے تو ’بھارتی بنگال‘ بھی کئی صوبوں پر مشتمل ہولے،
کیا جاتا ہے؟ بھارت میں دیگر اتنی قومیتیں
سما سکتی ہیں تو بنگالی کیوں نہیں؟ ’زبان کا فرق‘ کوئی بنیاد ہے تو بھارت کو اب
تک سو ریاستوں میں تقسیم ہونا چاہئے تھا، اس صورت میں بھارت ایک ملک کیوں ہے؟ کوئی ایک ’دلیل‘ تو ہو کہ بنگلہ دیش بنگلہ
دیش کیوں ہے اور بھارت بھارت کیوں ہے؟ ایسے سوال اِس ہیومن اسٹ دور میں
آپ ’مذہب‘ سے پوچھا کریں کہ تمہاری فلاں
بات اِس طرح اور فلاں بات اُس طرح کیوں ہے، اور وہ بھی
ہمارے ہیومن اسٹ معیاروں پر؟ آپ ’ریاست‘
سے پوچھنے چل دیے کہ تمہارے وجود کی تُک کیا ہے! کچھ
چیزیں given ہوتی ہیں سرکار، ان کی دلیل نہیں پوچھی جاتی! آخر چالیس کے عشرے تک بنگال ہندوستان کا حصہ نہیں تھا؟
کونسا کام رکا ہوا تھا؟! چالیس کے عشرے میں
’’اسلام‘‘ کے نام پر تحریک نہ چلتی تو یہاں اس الگ ملک کی کیا تک تھی؟ محض (1947 کی) ایک ’غلطی‘ کا
نتیجہ جو بنگالی خیر سے اب ایک ریاست ہیں؟!! اور اگر بھارت ایسا ایک تناور ملک
خطے کے باقی ملکوں کو اپنی خوراک بنانے کےلیے اپنے
انٹیلی جنس کے کسی چیمبر میں یہ منصوبہ بنائے کہ بنگلہ دیش کو کئی حصوں میں تقسیم
کردیا جائے، اور پھر وہ کچھ سالوں یا عشروں کی محنت سے (خدانخواستہ) بنگلہ
دیش کو کچھ ایسے جھٹکے لگانے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے... تو پھر ’منقسم بنگلہ
دیش‘ کا وہ ہر حصہ given (سوال سے بالاتر) ہوجائے گا؟ یعنی بنگلہ دیش کے اُن منقسم حصوں
کی بھی ’دلیل‘ نہیں پوچھی جائے گی، جیسے حالیہ بنگلہ دیش کے 1947 والے انڈیا سے
الگ ہونے کی دلیل آج نہیں پوچھی جائے گی؟! اور جیسے 47 سے پہلے یہ نہیں
پوچھا جا سکتا تھا کہ بنگال انڈیا کا حصہ کیوں ہے؟!
}ماشاء اللہ ’دلیل‘ اسکی یہ ہے کہ جو ہوگیا سو ہوگیا 47 والی ’غلطی‘نہ ہوتی تو نہ ہوتی؛ ہند
تقسیم نہ ہوتا تو نہ ہوتا، ہوگیا سو ہوگیا؛ یہ
ہوئی دلیل اس بات کی کہ اب قیامت تک بنگال (کا ایک حصہ) اور ہند الگ
الگ ملک کے طور پر ایک ’طبعی و بدیہی
حقیقت‘مانے جائیں؛ اس کی صحت کی بابت سوال اٹھانا یا کسی مزید ردوبدل کی بات کرنا
’خلافِ شرع‘!{
یعنی اِس کوچے میں جس بھی تبدیلی کی ’’صدا‘‘ بلند کی جائے وہ کسی کی سالمیت کا انکار
اور اسکے خلاف ایک کھلی جسارت ہوگی؛ البتہ جب وہ ’سالمیت کا انکار‘ اور وہ ’کھلی
جسارت‘ کسی طرح کامیاب ہوجائے (جس کیلئے ’عالمی برادری‘ کی سپورٹ بہت ضروری
ہے؛ ورنہ وہ ’کشمیر‘ اور ’فلسطین‘ ہوتا
ہے!) تو اب کامیاب ہونے کے بعد وہ مطلق
’’حق‘‘ اور ’’آزادی‘‘ اور ’’عدل‘‘ ہے بلکہ اب یہ بذاتِ خود وہ بُت ہے جس کی ’سالمیت کا انکار‘ اب ’ظلم‘، ’بغاوت‘،
’سرکشی‘ اور ’جسارت‘ ہے! غرض یہ دائرہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا؛ آئے روز
آپ اِس کے مَظاہر
دیکھتے ہیں۔
پس ایک چیز کے ’’حق‘‘ ہونے کی دلیل یہاں پر کیا ہوئی؟
اس کا ’سٹیٹس کو‘ ہونا۔ یعنی جبر۔ یہ ہے سو یہ حق ہے، نہ ہوتا تو باطل تھا! ’کامیاب‘ ہونے کے بعد اس کا نام ’آزادی‘، ’حقِ
خودارادیت‘ اور ’اپنا دیس‘؛ جبکہ ’کامیاب‘
ہونے سے پہلے اُس کا نام ’ریاست سے غداری‘، ’علیحدگی پسندی‘، ’عصبیت‘ اور ’فرقہ
واریت‘ communalism!
ہم عِبادُ اللہ جو ایک ناقابلِ تبدیل وحدت (خدا کی نازل کردہ کتاب پر ہی ’’جمع‘‘
رہنے) پر یقین رکھتے ہیں کیوں نہ ان سبھی کا نام بلاتفریق ’’فرقہ واریت‘‘ communalism رکھیں؟ یعنی اب تک کے وہ ’فرقے‘ بھی
جو اولادِ آدم کو کاٹنے اور پھاڑنے میں ’ کامیاب‘ رہے اور وہ ’فرقے‘ بھی جو اولادِ
آدم کے ٹکڑے کرنے میں کوشش کے باوجود ’کامیاب‘
نہیں ہوئےان سبھی کو بنی نوع انسان کے حق میں مجرم مانیں؟
آپ جتنا بھی غور فرمالیجئے؛ ’’جبر‘‘ کے علاوہ یہاں
کوئی حقیقی دلیل آپ کو نہ ملے گی، گو اس کو عنوان کمال کمال کے دیے گئے ہوں گے۔ اب تک جو ہوگیا وہ ٹھیک؛ عین
اُسی دلیل سے اب جو ہونے جا رہا ہے وہ غلط تاوقتیکہ وہ ’’ہو‘‘ جائے؛ پھر جب
وہ ’’ہو‘‘ جائےتو وہ ’’حق‘‘! اور ’’حق‘‘ بھی وہ صرف اُس وقت سے نہ ہوگا جب سے وہ
’’ہوا‘‘ ہے بلکہ وہ اپنے ’’ہونے‘‘ سے پہلے حق
تھا! بلکہ وہ ’’ہوا‘‘ ہی اس لیے کہ وہ حق تھا! اور اب ذرا وہ لوگ سامنے لائے جائیں
جو اِس ’’حق‘‘ کے پیش آنے سے پہلے اِس کے مخالف تھے اور اس کے راستے میں
روڑے اٹکاتے تھے؛ ایسے ’مخالفینِ حق‘ کو پھانسیاں، کال کوٹھڑیاں؛ یہ ایک ’قوم‘ کی
’آزادی‘ اور ’سالمیت‘ کے راستے میں روڑےاٹکاتے تھے؛ کیا کوئی چھوٹا جرم تھا اِن
کا؟! یہ ہے منطق اِس ’’حق‘‘ کی جو ہماری ’’خلافت‘‘ کے مقابلے پر ’دلائلِ شرعیہ‘ سے
ثابت ہے!
یہاں کوئی بھی علاقائی ساہوکاری regional hegemony کے نشے میں مست بڑے وسائل کا ملک... جرمِ
ضعیفی کے مرتکب کسی بھی ملک کے دگرگوں حالات کا فائدہ اٹھانے کےلیے ذرا کامیاب قسم کی انجنئرنگ کرلے، کوئی دو چار
ہزار پڑھا لکھا نوجوان وہاں اچھے نرخوں پر
بھرتی کرے، چند سالوں یا چند عشروں میں وہاں عدم استحکام پیدا کر ڈالے؛ وہاں کا
سیاستدان اگر بکاؤ مال ہے تو تھوک کے حساب سے اس کی خریدوفروخت کرے، اس کے میڈیا
کو ’سپانسر‘ کرے، اُس کے نظامِ تعلیم میں ’مدد‘ دے، اور پھر موقع دیکھ کر
کسی وقت اس کے ایک حصے کو اس کے دوسرے حصے سے
’آزادی‘ لےدے! اگر وہ کوئی مسلم ملک ہے تو جہاں ’عالمی برادری‘ سے اُس
کےلیے تالیاں وہاں ہمارے ’اسلامی‘ہیومنسٹوں کے فتوے! ’جدید ریاست‘ بذاتِ خود حق
ہے؛ اس کے حق ہونے کی دلیل خود اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے!
اور اگر اس راستے پر چلتے ہوئے، کسی وقت (خدانخواستہ)
پورے عالم اسلام کو کاٹ کاٹ کر کویت اور برونائی سے بھی چھوٹے لقمے بنا دیا جائے
(جس پر کام ہو بھی رہا ہے) تو ایسے ہر آزاد اور خودمختار ’ملک‘ کی سالمیت و
خودمختاری کی بھی دلیل نہیں پوچھی جائے گی؛ کیونکہ طبعی و بدیہی اشیاء کی دلیل
نہیں ہوتی؟! گو ہمارے المورد ایسے ’تحقیقی‘ ادارے اس کی ’اسلامی‘ دلیل بتانے کو ضرور موجود ہوں گےکہ حضرات ریاستیں ’مذہب‘ کی
بنیاد پر ہوتی ہی نہیں... البتہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ حضرات یہ ریاستیں کسی بھی
بنیاد پر نہیں ہوتیں!!!
یہ ظالم ’محققین‘
ہمیں ’شرعی دلیلوں‘ سے باندھ کر ان
خونخوار بھیڑیوں کے آگے ڈالنا چاہتے ہیں۔ سامراج کی ہر عالمی پیش رفت کے ساتھ ہی
اِدھر سے ’دلیلوں‘ کا تانتا جاری ہو جاتا ہے اور بڑی دیر تک تھمنے کا نام نہیں
لیتا!
اب ذرا اِس دھکے اور فوجداری کا اندازہ کرلیجئے؛ بھارت
اپنے ’’سائز‘‘ اور ’’آبادی‘‘ کو ’’دلیل‘‘ بنا کر آج سلامتی کونسل میں رکنیت مانگتا
ہے! کہاں سے لے آیا ہے وہ اتنا بڑا ’سائز‘ اور ’آبادی‘؟ ’’جبر‘‘ کے علاوہ کیا
اس کی کوئی دلیل ہے؟[1] باقی دنیا کو تقسیم کرتے چلے جاؤ؛ ان کے اربوں کو ’ہزاروں‘ اور ’سینکڑوں‘ میں کردو اور پھر
اپنے ’بڑے سائز‘ اور ’زیادہ آبادی‘ کو دلیل بنا کر لےآؤ؛ اور اگر اس کے نتیجے میں ’ویٹوپاور‘ پالو تو اس کے بعد ان
’ہزاروں‘ اور ’سینکڑوں‘ کا جو حشر کرو وہ ’’جبر‘‘ کی تاریخ میں بالکل ایک نیا
باب ہو! چنانچہ روزبروز اب بھارتی تقاضا زور پکڑتا جارہا ہے: ’ہماری آبادی
ایک ارب اور ہمارا رقبہ اتنا بڑا ہے؛ ہمیں اُن
ویٹوپاورز میں شامل ہونے دیا جائے جن کو دنیا کی زندگی اجیرن کرنے کا حق
ہے‘! تو کوئی چیز ہوئی ناں ’’بڑا سائز‘‘ اور ’’زیادہ آبادی‘‘ (’’بڑا سائز‘‘
اور ’’زیادہ آبادی‘‘ رنگوں اور نسلوں اور زبانوں کے گم ہونے کی قیمت پر، اگر ’المورد‘ اجازت دے!)!!! کوئی نہیں پوچھتا کہ ’’ملک‘‘ بڑے اور چھوٹے ہو
کیسے جاتے ہیں؟ کوئی سوال نہیں کرتا کہ اِس ’یو۔این‘ دنیا میں کیوں کوئی ملک
’کویت‘ ہوتا ہے اور کوئی ’بھارت‘ ہوتا ہے؟
اِس عجیب و غریب ’یو۔این برادری‘ کے بونے کیا ہمیشہ ہی بونے تھے اور اِس کے
دیو giant
ہمیشہ سے دیو تھے؟ یہاں جو ’چھوٹے‘ رہ گئے تو کیا وہ ’پیدائشی‘ چھوٹے تھے؟
اور جو ’بڑے‘ ہوگئے تو کیا وہ ’پیدا‘ ہی بڑے ہوئے تھے؟! ہاتھی کا بچہ چند دن کا
بھی ہو تو بڑے ڈیل ڈول کا ہوگا؛ چوہے کے بچے کو ساری عمر ’چوہا‘ ہی رہنا ہوگا اور
خدا کی اِس ’تقسیم‘ پر قانع بھی؛ اور یہ بات ’دلیلوں‘ سے ثابت ہے! کیا آج کے انہی
ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کے ’عرب ملکوں‘ میں بیٹھ کر کبھی اِس پورے ہند پر حکومت نہیں ہوتی
تھی جو آج ’’ویٹو پاور‘‘ مانگتا ہے؟ کیا صرف ساٹھ ستر سال پہلے کی ایک عالمی تشکیل
کو ہم ازلی اور ابدی مان لیں اور اس کو ’شرعی‘ دلیلوں سے امر کردیں؟ اِس کو مسترد
کریں تو انتہاپسند، شدت پسند، تنگ نظر اور نجانے کیا کیا؛ قبول کرلیں تو ’چوہے‘
اور ’ہاتھی‘ کے مابین وسائل اور حقوق کی تقسیم ’شرعی وعمرانی حقیقت‘؟!!
ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم پرامن سے پرامن انداز
میں بھی اِس عالمی بندربانٹ کو مسترد کرتے ہوئے
دنیا کی ایک حقیقی تقسیم کی بات کریں: ’’جَمَاعَۃُ المسۡلِمِین‘‘ ::بہ مقابلہ::
ٹولے ’’الۡمُشٔۡرِکِینَ..
الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا
لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ‘‘...! یہ ’’جماعۃ
المسلمین‘‘ یا ’’اِمارۃ
المؤمنین‘‘ ہوتی کیا ہے؟! بات کرنا تک حرام ہے حضرات! ’’خلافت‘‘ ہے ہی
بدعت! ’’دین کی وحدت‘‘ پر قائم الجماعۃ کا ’نظریہ‘ پھیلانا ہی انحراف ہے! ’نیشن سٹیٹ‘ کا نظریہ البتہ آسمان سے اترا ہے،
اس کا پرچار بھی جائز، اس کا دفاع بھی واجب؛
یہاں نہ سوا ارب کا چائنا نظروں میں کھٹکے، نہ ایک ارب کا بھارت پریشان کرے (جس کی
ایک چوتھائی وہ ظالم ہمارے اپنے بھائیوں
کو ڈال کر پورے کرتا ہے؛ نہ یہ بات ہی کھَلے)، نہ پورے تین ٹائم زونز Three time zones پر مشتمل امریکہ (جو مشرق میں بحر
اوقیانوس کے ساحلوں سے شروع ہوتا ہے تو مغرب میں بحرالکاہل تک جاتا ہے،
بلکہ آدھا بحرالکاہل گزر کر ہوائی تک پہنچتا
ہے)[2] نہ یہ امریکہ ہی ’علاقائی اکائیوں‘ کے حق میں
کبھی ہم کو قابل اعتراض نظر آئے.. اعتراض ہے تو اس ایک بات پر کہ کوئی ’کم علم‘
یہاں ڈیڑھ ارب کے اس ’’مسلم ملک‘‘ کی بات کرے
جو دنیا کا وسط، مَجۡمَعُ
البِحَار، تین براعظموں کا عظیم ترین سنگم ہے
اور جو اگر اپنا کچھ بھی شیرازہ جمع کر لے تو اللہ کے فضل سے سب ’ویٹوپاورز‘ کو
سرے سے غیرمتعلقہ کردے اور ظالموں کے اِس پورے کھیل کی بساط ہی الٹ دے! صرف اُس
ایک ’’خوفناک ملک‘‘ کی بات کرنا اِن مفتیانِ شرع کے نزدیک دین سے انحراف ہے!
ہمیں معلوم ہے ہم اُس نقطے سے بہت دور
ہیں کہ اس ’’ڈیڑھ ارب‘‘ کو ایک قوت کہہ سکیں؛ اس کی سمت بلاشبہ ہم نےابھی پہلا قدم
تک نہیں اٹھایا ہے؛ باوجود اس کے کہ بےپناہ امکانات اِس کے حق میں پائے جاتے ہیں۔
یہ سچ ہے۔ البتہ ہمارا گلہ فی الحال یہاں ان مفتیانِ شرع سے ہے جو اس سمت میں قدم
اٹھانا تو دور کی بات اس جانب دیکھنا ہی ہم پر حرام ٹھہراتے ہیں۔ ان کے قول کی رُو
سے یہ سمت ہی باطل ہے۔ ’’ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایک ملک‘‘ کی بات
کرنا __
جی ہاں محض بات کرنا __ ہی شریعت کی خلاف ورزی ہے! ’قدم‘ تو بعد میں
اٹھائے جائیں گے؛ اس بابت تو سوچنا ہی دین سے تجاوز ہے! ۔
[1] یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ’بھارت‘ جو رنجیت
سنگھ کی زمانے تک ایک وحدت نہیں تھا، انگریز کے ہاتھوں ’وحدت‘ بنا۔ دوسری جانب
’’عرب‘‘ جو عثمانی دور تک ایک وحدت تھا انگریز کے ہاتھوں ’درجنوں ممالک‘ بنا۔
دونوں کام ایک ہی دور میں اور چند عشروں
کے اندر ’مکمل‘ ہوئے۔
[2] عالمی طاقت کے
کھیل میں بونوں کا کچلا جانا اور بڑوں کا دست نگر بن کر رہنا؛ اس پر دیکھئے فصل: ’’طاقت کا کھیل، بڑے رقبے اور
وسیع آبادی کی اہمیت‘‘۔