[i] (البقرۃ: 43) ’’اور جھکو جھکنے والوں کے ساتھ‘‘۔
[ii] (البلد: 17) ’’پھر ہوا وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے‘‘
[iii] (حم
السجدۃ: 33) ’’اور کہا: میں ہوا فرماں برداروں میں کا ایک‘‘۔
[iv] (آل عمران: 103) ’’اور چمٹ جاؤ اللہ کی رسی سے،
مل کر، اور نہ ٹولے بنو‘‘۔
[v] (التوبۃ: 71) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں
ایک دوسرے کا جتھہ ہیں‘‘۔
[vi] (المائدۃ: 56) ’’اور جو جتھہ بنے گا
اللہ کا، رسول کا، اور ایمان والوں کا، تو یاد رکھو اللہ کی جماعت ہی غالب ہو کر رہنے والی ہے‘‘۔
[vii] ’’جماعت
بن کر رہو‘‘۔
(الترمذی رقم
2165، النسائی رقم 9181، مسند أحمد 23145، السنۃ لابن أبی عاصم 897، صححہ
الألبانی: إرواء الغلیل ج 6 ص 215 رقم 1813)
[viii] ’’جماعت کے ساتھ اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔
(الترمذی رقم 2167، والطبرانی فی
المعجم الکبیر رقم 13623، وابن أبی عاصم فی ’’السنۃ‘‘ رقم 80، وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر
بلفظ ’’ید اللہ على الجماعۃ‘‘، رقم 1848)۔
[ix] ’’مومن مومن کےلیے مانند عمارت
ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
[x] ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کی فرضیت پر کچھ احادیث اوپر گزر چکیں۔ (زیادہ وضاحت کےلیے
ہماری کتاب کی فصل ’’الجماعۃ، ایک شرعی فریضہ‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، جوکہ
ایقاظ جنوری 2015 میں شائع ہوچکی ہے) صحابہؓ کے حوالے سے یہاں چند
آثار دیے جاتے ہیں:
[xi] تفسیر المنار کے مؤلف علامہ رشید رضا اپنی کتاب
’’الخلافۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
وَالْقُرْآن يُخَاطب
جمَاعَة الْمُؤمنِينَ بِالْأَحْكَامِ الَّتِي يشرعها حَتَّى أَحْكَام الْقِتَال
وَنَحْوهَا من الْأُمُور الْعَامَّة الَّتِي لَا تتلعق بالأفراد كَمَا بَيناهُ فِي
التَّفْسِير (الخلافۃ: ص 21)
’’قرآن
کا خطاب اپنے مشروع کردہ احکام کے سلسلہ میں ’’جماعتِ مومنین‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہاں
تک کہ قتال اور اس طرح کے اجتماعی امور بھی جو افراد سے متعلق نہیں ہیں، جیساکہ ہم
نے تفسیر میں بیان کیا‘‘۔
[xii]
’’تین اطاعتوں‘‘ والی آیت (59،
النساء) کے آخر میں آنے والے
الفاظ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ کی تفسیر میں مجاہد، قتادہ، سدی ودیگر سلف کے اقوال کو بنیاد بنا کر ابن
تیمیہ کہتے ہیں:
’’معاملے کو اللہ کی طرف لوٹانا یہ کہ: اُس کی کتاب کی طرف لوٹایا جائے، اور رسول
کی جانب آپؐ کی وفات کے بعد لوٹانا یہ کہ: آپؐ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے‘‘۔
پھر اسی سے متصل،
ابن تیمیہ اپنی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں، سورۃ البقرۃ کی یہ آیت 213 لے کر آتے ہیں: وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ
الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ
النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔
چنانچہ آیت النساء کے شروع میں تین کی تین اطاعتیں ذکر ہوئیں۔ البتہ عند
النزاع صرف دو اطاعتیں۔ کیونکہ نزاع/ اختلاف کا خاتمہ (جسے ہم ’’اجتماع‘‘ یا ’’آسمانی
جماعت کا قیام‘‘ کہتے ہیں) اِن دو اطاعتوں سے
ہی تشکیل پاتا ہے؛ اور یہی دو مختصر کلمات (فَرُدُّوهُ إلَى
اللَّهِ وَالرَّسُولِ) اِس جماعت کا بنیادی آئین؛ جوکہ کلمۂ اسلام (لا إلٰہ إلا اللہ +
محمدٌ رسول اللہ) ہی کی تفسیر ہے۔ پس خود یہ ’’اسلام‘‘ ہی ’’جماعت‘‘ (خاتمۂ نزاع) ہوا۔ جبکہ
تیسری اطاعت اس ’’جماعت‘‘ کو چلانے اور روئے زمین پر اس کو پوری گنجائش full
capacity کے اندر برسرعمل رکھنے کےلیے۔
چنانچہ:
ü
پہلی دو اطاعتیں اِس آسمانی جماعت کی تشکیل ہوئی۔
ü
اور تیسری اطاعت اِس جماعت کی اِدارت۔
یہ وجہ ہے کہ تیسری اطاعت کے محل کو ’’اولی الامر‘‘ کہا گیا۔ لفظ ’’الامر‘‘ کا
اپنا مفہوم بھی ’’معاملے کو چلانا‘‘ بنتا ہے۔
[xiii] اس پر دیکھئے اگلی
فصل کا حاشیہ 1
}} زمین پر کوئی ایک انسانی وحدت تو ایسی
ہو جس کے اجتماع کا حوالہ ’’خدا کی عبادت & محمدﷺ کی رسالت‘‘ ہو {{