عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’’کتاب‘‘ سے ’’اجتماع‘‘ (society)
:عنوان

. ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

Text Box: 1

   "کتاب" سے "اجتماع" (society)

شرعِ آسمانی سے اعراض پر کھڑا کوئی گروہ/ قوم/ ملک اپنے آپس میں سو فیصد متفق ہو،p قرآنی اصطلاح میں اس کا نام ’’اختلاف‘‘ ہی ہے۔ ’’اجتماع‘‘ صرف آسمانی شریعت کا ’’اتباع‘‘ ہے۔ عبد اللہ بن مسعود کے خطبے پڑھیں تو ’’جماعت‘‘ کے اِس معنیٰ پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔

فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ                                                                                   (البقرۃ: 213)

تب اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔[1]

’’کتابِ آسمانی‘‘ جو انسانوں کے نزاعات کا فیصلہ کرے۔

اور اس کا تعلق اُن سب معاملات سے ہے جن میں انسانی جماعتوں کا اختلاف ہوتا ہے۔

’’اختلاف‘‘ سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ خدا کی اتھارٹی تسلیم ہو۔

’’خدا کی اتھارٹی‘‘ تسلیم کرنے کا کوئی معنیٰ نہیں جب تک اُس کی کتاب اور اُس کے رسول کو تسلیم نہ کیا جائے؛ کیونکہ خدا اِس جہانِ فانی میں ایک ایک انسان سے کلام فرماتا ہی نہیں ہے؛ اُس کی منشا لامحالہ اُس کی کتاب اور اُس کے رسول کے ذریعے ہی معلوم کی جائے گی: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ)۔ پس ’’خدا کی اتھارٹی‘‘اِس جہانِ دنیا میں اُس کی ’’تنزیل‘‘ اور ’’رسالت‘‘سے متعلق ہوجاتی ہے۔ اِس ذریعہ سے حاصل ہونے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک اشارہ آپ اپنی ذات میں اتھارٹی ہے۔ اتھارٹی یعنی ’’سلطان‘‘۔

’’کتاب‘‘ کے بغیر اس اختلاف کو ختم کرنے کی ہر صورت ’’اختلاف‘‘ ہی ہے؛ اور جہنم کو بھرنے ہی کا موجب؛ خواہ اس کا نام ’قومی اتفاقِ رائے‘ ہو یا ’ڈیموکریسی‘ یا کچھ اور۔

تاہم یہ مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ خود اِس کتاب پر بھی سب لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ لہٰذا ایک اختلاف اس کتاب کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے مابین ہوگا۔ ہاں یہ اختلاف برحق ہے۔  اصل ’’آزمائش‘‘ ہے جس کےلیے انسانوں کی تخلیق ہوئی: }وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ (ہود: 118) ’’یہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے جن پر تیرا رب رحم فرمائے۔ ان کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے‘‘{۔ یہ ’’اختلاف‘‘ ہرگز گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ ہونا ہی ہے۔ پوری ’’انسانیت‘‘ کو  اس کی بنیاد پر تقسیم ہونا ہے؛ یہاں دنیا کے اندر بھی ’’مومن‘‘ اور ’’کافر‘‘ کی صورت... اور آخرت کے اندر بھی ’’جنتیوں‘‘ اور ’’دوزخیوں‘‘ کی صورت: }وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ’’تیرا رب چاہتا تو وہ سب انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا، مگر وہ اختلاف کرتے رہیں گے، ہاں مگر وہ (خوش قسمت) جن پر تیرا رب رحم فرمادے، اُس نے انہیں پیدا ہی اس لیے کیا ہے۔ بس پوری ہوچکی تیرے رب کی بات کہ: میں بھر کر رہوں گا دوزخ کو (ایسے) سب جنوں اور انسانوں سے‘‘{۔

یہ ہے ’’کتاب‘‘ (رسالت) کی بنیاد پر انسانوں کا دو جماعتیں ہونا۔ یہ ناگزیر ہے۔ اٹل ہے۔ قیامت تک یہ ہونا ہے کہ.. یہ سب خلط ملط انسانیت ’’کتاب‘‘ کی بنیاد پر بٹے۔ ’’رسول‘‘ کو مرکز مانتے ہوئے انسانوں کے مابین خط کھینچا جائے اور اس کے علاوہ کسی بھی بنیاد پر ’’انسانیت کے بٹنے‘‘ کو حق نہ مانا جائے۔ (کم از کم مسلمان کےلیے دنیا اسی بنیاد پر تقسیم ہو: خدا کی رسالت کو ماننے والوں کا کیمپ:: اور خدا کی رسالت کو نہ ماننے والوں کا کیمپ)[2]۔ یہ جھگڑا روئے زمین کا اصل حقیقی جھگڑا ہے (هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ۔  الحج: 19)؛ اور اس کو قیامت تک چلنا ہے۔

پس جہاں یہ کتاب ایک اختلاف ختم کرنے آئی ہے وہاں یہ ایک اختلاف کھڑا بھی کرنے آئی ہے؛ نبی کے آنے سے پہلے ایک باہم ’شیروشکر‘ قوم ’’خدا کے حق‘‘ کے موضوع پر دو ملتوں میں بٹ جاتی ہے؛ اور ان کے مابین پڑجانے والی یہ لکیر پھر انمٹ ہوتی ہے۔[3]

چنانچہ یہاں دو باتیں ہوجاتی ہیں:

Þ        خدا کی کتاب انسانوں کے جملہ نزاعات  کا فیصلہ کرنے آتی ہے؛ کتاب کی یہی شان اور یہی سٹیٹس ہے؛ یعنی ایک واضح آئین اور ایک فیصلہ ساز دستاویز ہر تصفیہ طلب دنیوی و اخروی معاملہ میں وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (النحل: 89)۔جس کے ایک ایک لفظ سے انسانوں کو (’الٰہیات‘ و ’انسانیات‘ ہردو معاملہ میں)[4]  اپنے لیے فیصلہ اور راہنمائی لینی ہے۔

Ý      مگر  خدا کی جانب سے ’’فیصلہ‘‘ کرنے کےلیے آئی ہوئی کتاب کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ میں انسان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں اور ان کے مابین خود اس ’’کتاب‘‘ ہی کے متعلق ایک زبردست ’’اختلاف‘‘ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ’’کتاب‘‘ کا اپنا اٹھایا ہوا اختلاف ہے۔ یہ زمین پر ’’رسالت‘‘ کے ظہور کا لازمی نتیجہ ہے۔ بلکہ ’’کتاب‘‘ اور ’’رسالت‘‘ کا حق ہی یہ ہے کہ اہلِ زمین کو اسے ’’قبول کرنے‘‘ اور ’’قبول نہ کرنے‘‘ والوں کے مابین تقسیم کرکے رکھا جائے اور اس کے علاوہ ان کو کسی اور بنیاد پر جانچا اور بانٹا نہ جائے۔ ہاں یہ جو ’’اختلاف‘‘ ہے ، یہ ’’اہلِ رحمت‘‘ اور ’’اہلِ عذاب‘‘ کا اختلاف ہے۔[5] اس کو جس قدر اٹھایا جا سکے اٹھانا ہے۔ اِسے جس قدر گہرا کیا جا سکے کرنا ہے۔ یہ نبوتوں کا مقصود ہے  اور یومِ آخرت ایسی عظیم الشان حقیقت کے برپا ہونے کی بنیاد۔[6] 

خدا کا ایک رسول کو بھیج کر انسانوں کے آگے اپنا مطالبہ رکھنا اور ان کو واضح واضح یہ بتانا کہ اُس نے ان کو کیوں پیدا کیا ہے اور اِس جہان میں وہ ایک ایک سانس ان کو کس مقصد کےلیے دلاتا ہے اور زمین آسمان کی سب قوتوں کو ان کی خدمت میں اُس نے کیوں لگا رکھا ہے، نیز خدا کا ان کی جانب ایک ’’تَفۡصِیلاً لِّکُلِّ شَیۡءٍ‘‘ شریعت نازل فرمانا... خدا کا ان کے آگے یوں واضح واضح اپنا مطالبہ رکھنا وہ بات ہونی ہی چاہئے کہ کرۂ ارض کے سب انسان اس پر ردعمل (respond) کرنے کے لحاظ سے تقسیم ہوں۔ اس شریعت کی عملداری میں آنے یانہ آنے کی بنیاد پر بٹیں۔ اِس ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ سے بڑی بات دنیا میں آخر ہو کیا سکتی ہے جس کی بنیاد پر انسان دو جماعتیں ہوں؟ اِس ’’ملتوں کے فرق‘‘ کو جو آدمی انسانوں کے مابین پڑنے والی سب سے بڑی لکیر نہیں مانتا؛ اور جو اِس لکیر ہی کو معمولی اور برائے نام کردینے کے چکر میں ہے وہ اِس عظیم الشان واقعے (خدا کا انسانوں کے ساتھ رابطہ فرمانااور ان کے آگے اپنا مطالبہ رکھنا) کو ایک حاشیائی چیز ٹھہرانے کا موجب ہے۔

2. یہاں سے وہ دائرہ تشکیل پاتا ہے جو ہمارے شرعی مصادرمیں ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے نام سے تعبیر ہوتا ہے؛ جس کے انتظام و تدبیر کو بعدازاں آپ ’’خلافت‘‘ یا ’’امارت‘‘ سے موسوم کرتے ہیں اور اسی کو ’’اولی الامر‘‘ (تیسری اطاعت) بھی کہتے ہیں۔ ’’دو کیمپوں‘‘  کا یہ فرق ہی جو یہاں ذکر ہوا، بعض اوقات ’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کی صورت بیان ہوتا ہے۔ یہی چیز مسلمان کی ولاء (وابستگی/جڑنے) اور براء (بیزاری/جدائی اختیار کرنے) کی بنیاد بنتی ہے۔ اور یہی کسی وقت ’’ھجرت اِلیٰ‘‘ و ’’ھجرت مِن‘‘ کی۔

بنابریں؛ جملہ بنی آدم اِس ’’کتاب‘‘ اور ’’رسول‘‘ (پہلی دو اطاعتوں) پر لازماً یا ایمان لانے والے ہیں یا کفر کرنے والے (بیچ کی کوئی راہ نہیں)؛ اور روئے زمین پر ان کو عین اس بنیاد پر جدا جدا نظر آنا ہے۔

فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔ جتنا عظیم الشان یہ ’’فیصلہ‘‘ ہے جو خدا اپنی نازل کردہ کتاب کے ذریعے انسانوں کے مابین فرماتا ہے، اتنا ہی غیرمعمولی وہ ’’اختلاف‘‘ ہے جو اِس ’’کتاب کے فیصلہ‘‘ کو ماننے اور نہ ماننے والوں کے مابین کھڑا ہوتا ہے.. اور جوکہ دنیا میں انسانوں کو دو کیمپوں میں بانٹ دینے کا سبب بنا ہے۔

مختصر الفاظ ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُم‘‘ یہاں اصل آئین ہے جسے ہمارے ہیومنسٹ ’اسلام پسند‘ نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی نظر ہی سیدھی ’’أنۡ تُؤَدُّوا الۡأمَانَاتِ إِلیٰ أھۡلِھَا‘‘ پر پڑتی ہے؛ جس سے ان کو پورا قرآن ’ہیومن ازم‘ کا سبق نظر آنے لگتا ہے! یہیں سے؛ یہ ’’أھۡلِھَا‘‘ کی تفسیر بھی اپنے ہیومنسٹ پیراڈائم میں رکھ کر کریں گے! حالانکہ اصل کانٹے ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ‘‘ سے ہی الگ ہو آئے ہیں۔ ’’دو جماعتیں‘‘ وہیں پر وجود میں آ گئی تھیں: ’’امر‘‘ سارے کا سارا ہے ہی اللہ کو سزاوار۔ غیراللہ کا ’’امر‘‘ تو ’’حُکۡم الۡجَاھِلِیَّۃ‘‘ ہے۔ ’’تحاکم اِلی الطاغوت‘‘ ہے؛ اگرچہ بہت سی جزئیات میں وہ خدائی احکام سے ملتا ہو۔ اس ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ‘‘ سے ہی تو فریقین میں لائن کھنچی۔ ’’الَّذِیۡنَ آمَنُوا‘‘ اور ’’الَّذِیۡنَ کَفَرُوا‘‘ کے کیمپ سامنے آئے۔ ’’رسالت‘‘ بجا طور پر اہل زمین کو دو حصوں میں بانٹ چکی۔

یہ سب وضاحتیں ’’پہلی دو اطاعتوں‘‘ کی بابت ہوئیں جوکہ اصل اسلام ہے۔[7]  یہ نہ صرف ’’جماعتِ اسلام‘‘  کا وہ بنیادی ترین آئین ہے جس کو ہماری شرعی زبان میں ’’ایمان‘‘ کہا جاتا ہے... بلکہ  ’’جماعت‘‘ کو وجود دینے اور وجود میں رکھنے والی چیز بھی یہی ہے۔ ’’تیسری اطاعت‘‘ کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔

 (اقتباسات:  زیرتالیف ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’کتاب: اختلاف کو ختم اور جماعت کو قائم کرنے والی‘‘نیز ’’آسمانی شریعت نہ کہ سوشل کونٹریکٹ‘‘۔ یہ دونوں فصول ایقاظ، جنوری 2014 میں شائع ہو چکی ہیں)



p    ’سادہ‘ یا ’دوتہائی‘ نہیں سو فیصد اتفاق ؛ قرآنی نظر میں اس کا نام ’’اختلاف‘‘ ہی ہے۔ (ہر باطل گروہ اپنے آپس میں ’’متفق‘‘ ہی ہوتا ہے!) ہاں وہ مسائل اس سے مستثنیٰ ہوں گے جو اہل ہدایت  اور اہل ضلالت کے مابین متنازعہ ہی نہیں۔ گو یہاں بھی؛ اصل ’’اہل شریعت کا اتفاق‘‘ ہوا؛ اہل باطل اس وجہ سے یہاں غیرمذموم ٹھہرے کہ ان کا یہاں پر اہل شریعت سے ’’اختلاف‘‘ نہیں۔



[1]   کتاب (شریعت) جب انسانوں کے اختلاف کا فیصلہ کرنے آجائے، تو اس پر ’’ایمان‘‘ پھر یہ ہوگا کہ کتاب کا فیصلہ قبول نہ کرنے والوں کے ساتھ خود آپ کا ایک اختلاف کھڑا ہو جائے؛ اور اس کے ازالہ کی کوئی صورت ’’حَتیٰ تُؤمِنُوا بِاللّٰہ وَحدَہ‘‘ کے سوا نہ رہے۔ کتاب جب صرف فردی معاملات نہیں بلکہ جملہ انسانی نزاعات کے فیصلے کرنے آئی ہے (ملاحظہ فرمائیے آئندہ فصل) تو یہ اختلاف لامحالہ دو افراد کا نہیں بلکہ دو جماعتوں کا بن جائے گا؛ اور کتاب کے رہنے تک یہ اختلاف رہے گا۔ یہاں سے؛ ’’دو کیمپوں‘‘ کے وجود میں آنے اور برقرار رہنے کی بنیاد پڑ گئی۔ (اس پر مزید دیکھئے فصل ’’آسمانی شریعت کو قبول کرنے والا انسانی اکٹھ‘‘)۔ البتہ حیرت ان لوگوں پر ہے جو ’’کیمپ‘‘ الگ ہو جانے کو فساد کہیں گے اور کیمپ کو ایک رکھنا واجب! اور جب کیمپ ایک ہے (جہاں سب انسان ایک برابر؛ کسی کا ’مذہب‘ کسی سے بڑھ کر نہیں: ہیومن ازم!) وہاں وہ اپنے باہمی معاملات لامحالہ ’’کتاب‘‘ کی طرف تو لوٹائیں گے نہیں (جو انہی معاملات کا فیصلہ کرنے آئی تھی!)  بلکہ ان نزاعات میں سے وہ امور جن کا تعلق سوسائٹی سے ہے، ان  کا فیصلہ وہ کتاب سے کروانے کی بجائے وہاں بسنے والے انسانوں کی اکثریتِ رائے سے کروا لیں گے؛ اور کتاب کا حق یوں ادا کریں گے کہ اس کے فیصلوں کی تلاوت کر لیا کریں؛ البتہ کیمپ الگ ہونے کے تصور کو فساد کہتے چلے جائیں!

[2]    دیکھئے فصل ’’کیمپوں کا فرق... بنی اسرائیل تا امتِ محمدؐ‘۔

[3]   دیکھئے فصل ’’کیمپوں کا فرق... بنی اسرائیل تا امتِ محمدؐ‘، نیز فصل ’’آسمانی شریعت کا مومن انسانی اکٹھ‘‘

[4]    ملاحظہ فرمائیے اگلی فصل: ’’کتابِ آسمانی: جملہ انسانی نزاعات کےلیے فیصل کیسے‘‘؟

[5]     یہ  اختلاف ہے: ایک "فیصلہ کردینے والی بات":: اور:: "کبھی فیصلہ نہ کر پانے والی باتوں" کے مابین۔ (اس حوالہ سے، مزید دیکھئے فصل "ریاست: جبر یا دھونس" حاشیہ 1)۔

[6]  دیکھئے فصل ’’کیمپوں کا فرق... بنی اسرائیل تا امتِ محمدؐ‘۔

[7]  دیکھئے فصل ’’تین اطاعتیں: جماعت کی تشکیل بھی تنظیم بھی‘‘۔

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
تنقیحات-
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید قطبؒ کے لیے مصر کے مع۔۔۔
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ ایقاظ ڈیسک یہ صاحب[1]  خود اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ یہ طلبِ عل۔۔۔
معجزے کی سائنسی تشریح
ایقاظ ٹائم لائن-
ذيشان وڑائچ
معجزے کی سائنسی تشریح!              &nbs۔۔۔
جدت پسند: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانے کی کوشش! دنیوی اور اخروی احکام کے خلط سے ’دلیل‘ پکڑنا
ایقاظ ٹائم لائن-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
جدت پسند حضرات کی پریشانی: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانا! دنیوی اور اخروی احکام کے۔۔۔
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟ مدیر ایقاظ اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے: ہمارا مقصد معاشرت۔۔۔
حوثی زیدی نہیں ہیں
ایقاظ ٹائم لائن-
شیخ ناصر القفاری
حوثی زیدی نہیں ہیں تحریر: ناصر بن عبد اللہ القفاری اردو استفادہ: عبد اللہ آدم بعض لوگ ۔۔۔
مسلم ملکوں میں تخریب کاری، استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
مسلم ملکوں میں تخریب کاری استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا ایقاظ کے فائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہ۔۔۔
’اَعراب‘ والا دین یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟  عَنْ بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُو۔۔۔
ایمان، ہجرت اور جہاد والا دین
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
               ایمان، ہجرت اور جہاد والادین إ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز