کتابِ آسمانی:
انسانوں کے جملہ
نزاعات کی فیصل کیسے؟
کتابِ آسمانی کا منصب: انسانوں کے جملہ نزاعات کا فیصلہ
کرنا: (وَأَنْزَلَ
مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا
فِيهِ)۔اِس بات کو ہم یوں بھی بیان کرتے ہیں:
1.
فزیکل
سائنسز physical
sciences میں
کیونکہ ’’اھواء‘‘ کو کوئی دخل نہیں؛ لہٰذا یہاں انسانوں کے مابین کوئی نزاع نہیں۔
حرکت کے قوانین یا مادہ کے خواص یا کشش ثقل (وغیرہ) ایسے
مسئلوں میں مشرقی بلاک کا سائنسدان بھی وہی بات کہے گا جو مغربی بلاک کا سائنسدان۔
پس یہ میدان شریعت انسانوں پر چھوڑ دیتی ہے کہ اپنے تجربہ و
تحقیق سے جو بھی دریافت یا ایجاد کرنا ہو کریں۔ نبیﷺ کا کھجور کی پیوندکاری کی
بابت کہنا کہ أنتم
أعلم بأمرِ دنياكم (صحیح مسلم، 2363) ’’تم
اپنی دنیا کا معاملہ بہتر جانتے ہو‘‘، اسی حقیقت کا بیان ہے۔
2. مسائلِ
اجتماع (social sciences) کے
اکثر بنیادی امور میں انسانی اھواء کو دخل رہتا ہے؛ لہٰذا سوشل
سائنسز کے کچھ بنیادی ترین امور میں انسان ہمیشہ سے نزاع کرتے آئے ہیں (صرف ایک
’’تقسیمِ دولت‘‘ کے مسئلہ پر مشرقی اور مغربی بلاک وجود میں آگئے اور دونوں کے
مابین پون صدی تک سرد جنگ رہی، ’’سماجی مسائل‘‘ میں انسانی نزاع کی صرف یہ ایک مثال ہے)۔ پس مسائلِ اجتماع کا یہ (بنیادی) حصہ (جس میں انسانوں کے مابین نظریات کا اختلاف
ہے؛ اور ان کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں) شریعت کی طرف لوٹایا جائے گا؛ ہاں سوشل
سائنسز کا باقی ماندہ حصہ انسانی عقل و منصوبہ بندی پر چھوڑ دیا جائے گا۔ سماجی
علوم کے اندر یہ (انسانی فکر و تدبیر پر چھوڑا جانے والا) میدان بھی ایک اچھا خاصا ایریا area ہے؛ جس میں انسانی عقل کو گھوڑے دوڑانے کی کھلی
دعوت ہے۔
3. غیبیات (جدید اصطلاح میں meta-physic ) کا میدان ازل سے انسانی عقول کے مابین میدانِ
جنگ ہے۔ یہاں؛ معاملات کو کلیتاً شرائع آسمانی کی جانب لوٹایا جائے گا۔
پس جتنا کسی میدان میں
’’اھواء‘‘ کو دخل ہے اتنا اُس میدان میں معاملات کو فیصلہ کروانے کےلیے خدا کے پاس
لے جانا ضروری ہے بذریعہ کتاب (رسالت):
وَمَا
اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ذَلِكُمُ (الشورىٰ: 10)
وَأَنْزَلَ
مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا
فِيهِ (البقرۃ: 213)
اس سے بنی آسمانی جماعت۔ یعنی انسانوں کا
وہ ہم آہنگ گروہ جو جملہ انسانی نزاعات کو
آسمان کی جانب لوٹانے پر ’’اتفاق‘‘ کر چکا ہے؛ اور اِس مسئلہ پر زمینی ٹولوں کے
ساتھ ’’اختلاف‘‘ رکھتا ہے۔
(تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجئے ہماری
کتاب ’’فہمِ دین کا مصدر‘‘ کی فصل: ’’انبیاءؑ اور اصحابؓ کا راستہ اپنائے بغیر
اھواء سے دور ہونے کا دعویٰ سب سے بڑا جھوٹ ہے‘‘۔ اس کے علاوہ ایقاظ جولائی 2008
کا ایک مضمون ’’اسلام ہر مشکل کا بنابنایا حل ہے؟‘‘) نیز:
سماجیات
میں ایک خاصا وسیع دائرہ شریعت انسان کی عقل اور دانش کےلیے بھی چھوڑتی ہے؛
تاہم اِس ’’انسانی عقل و دانش‘‘ کی نوبت اُس ’’فریم‘‘ میں فٹ ہونے کے بعد آتی ہے
جو شریعت اس کےلیے وضع کرتی ہے؛ اُس فریم
میں رہ کر عقل و دانش کا عمل ’’عبادت‘‘ ہے اور اس سے آزاد رہ کر اِس کا عمل کرنا ’’کفر‘‘۔ یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جہاں سے ’’شرائع آسمانی‘‘ کے
پیروکاروں اور ’ماڈرن سوشل سائنسز‘ کے راستے عملاً بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں۔