Hamid Kamaluddin
Eeqaz
"جماعت و امارت"... فقہاء کا پیراڈائم
یہ بات متعدد مقامات پر بیان ہو چکی: ’’الجماعۃ‘‘ کے نظریاتی و سماجی جوانب کو اس کے انتظامی جوانب پر ایک غیرمعمولی ترجیح حاصل ہے۔ ’’انتظامی‘‘ اور ’’تشکیلی‘‘ جبر کے مابین زمین آسمان کا فرق ہے۔ اِس مبحث کے تحت پیچھے ہم واضح کر آئے ہیں کہ بنی آدم کی انتظامی پھوٹ ہمارے شرعی قواعد کی رُو سے اتنا سنگین مسئلہ نہیں جتنا کہ بنی آدم کی ملی یا تشکیلی تقسیم کا مسئلہ۔ موخر الذکر سے لاتعلق رہنا تو مسلمان کےلیے موت قبول کرنے کے مترادف ہے۔
یہ وہ مسئلہ ہے جس کے واضح نہ ہونے کی صورت میں آپ پر ائمۂ سنت کی بہت سی ترجیحات اوجھل، فقہاء کے بہت سے کنونشنز conventions ’سمجھ سے بالاتر‘ اور اسلامی تاریخ کےکثیر جوانب آپ پر مبہم رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ خود اپنے دور کی تحریکی ترجیحات خاصی اوٹ میں چلی جاتی ہیں؛ نتیجتاً کچھ افراط و تفریط بیک وقت سامنے آتا ہے۔
’’الجماعۃ‘‘ کا اپنے نظم (امارت) پر مقدم ہونا... اس سے ہماری مراد کیا ہے؟
ý معاشرے کا خدا کے دین پر ہونا۔
ý اُن جاہلی معاشروں سے، جہاں خدا کے دین کی رِٹ نہیں، آپ کا الگ تھلگ ایک معاشرہ ہونا۔
ý ایک ایسی سرزمینِ اسلام (عربی لفظ: دارالاسلام) کا اپنے اُس کلاسیکل ماحول اور فضا کے ساتھ دستیاب رہنا جہاں نئی نسلیں ہوش سنبھالیں تو دین خداوندی کو چہار جانب ظاھروباھر پائیں۔
ý معاشرے میں رہنے والا ہر شخص جہاں دین خداوندی کی دھاک محسوس کرتا؛ اور باطل ادیان کو مغلوب اور جھوٹے خداؤں اور باطل معبودوں کو سراسر متروک پاتا ہو...
یہ بات اِس معاشرہ کے ’’الجماعۃ‘‘ ہونے کےلیے کہیں زیادہ اہم ہے بہ نسبت اس بات کے کہ یہاں کا انتظامی و سیاسی عمل اسلام کے ’’کامل تقاضے‘‘ پورے کر رہا ہے یا نہیں۔
چنانچہ ایک ہے الجماعۃ کا اپنا ’’وجود‘‘۔ اور ایک ہے اس کا ’’انتظامی وسیاسی ڈھانچہ‘‘:
Þ الجماعۃ کا وجود ہے: اِس کا کافر تہذیبوں سے علیحدگی اختیار کر چکا ایک ’’معاشرہ‘‘ ہونا۔ کافر ادیان اور کافر نظاموں سے جدائی اختیار کر لینے والا ایک الگ تھلگ ’’کیمپ‘‘ ہونا جو باطل معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت بمطابق شرعِ محمدیؐ کو اپنا آئین، اپنی اجتماعیت کی بنیاد اور اپنی رکنیت (membership of its nationhood) کےلیے لازمی و بنیادی اہلیت (qualification) قرار دیتا ہو۔ جو دنیا سے شرک کو مٹانے... اور توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کے ساتھ وحدت اور یگانگت رکھنے... پر یقین رکھتا ہو۔
Ý جبکہ اس کے انتظامی وسیاسی ڈھانچے کا نام ہے خلافت یا امارت۔
ظاہر ہے ہماری زیادہ بڑی ترجیح، ہماری محنت وجدوجہد کا زیادہ بڑا محور، اور ہماری توجہ کا اصل مرکز الجماعۃ کا وجود رہے گا۔ اس کے سیاسی انتظام کا درجہ اس کے وجود کے بعد آئے گا؛ بلکہ اسی پر منحصر رہے گا۔
خیال رہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ فقہاء کے نزدیک واجب نہیں یا اس پر محنت اور جدوجہد کوئی غیرضروری چیز ہے۔ اسلامی امارت یا خلافت کےلیے جدوجہد کرنا بلاشبہ مسلمانوں کے اہم فرائض میں آتا ہے۔ یہاں ہم جو قاعدہ ذکر کر رہے ہیں وہ یہ کہ: ’’خلافت‘‘ کا مسئلہ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود ’’الجماعۃ‘‘ کے بعد آتا ہے۔
ایک درجے میں بےشک یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں: ’’الجماعۃ‘‘ اپنی بقاء کےلیے ایک مستحکم ’’امارت‘‘ کی ضرورتمند ہو گی؛ ایک مضبوط و توانا ’’امارت‘‘ کے بغیر ’’الجماعۃ‘‘ کا اپنا وجود ہی نامکمل اور ایک شدید خطرے میں ہے۔ دوسر ی طرف ’’امارت‘‘ کہیں خلا میں قائم نہیں ہو گی بلکہ اس کےلیے ’’الجماعۃ‘‘ کا ہونا اور اپنی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ درست اور صحتمند انداز میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ (آج بھی اگر ’’خلافت‘‘ دنیا میں قائم نہیں ہو پا رہی تو اس کی بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ ’’الجماعۃ‘‘ اپنی درست حالت میں موجود نہیں ہے؛ یعنی وہ ستون ہی فی الوقت مفقود ہیں جن پر خلافت کی چھت ڈال دی جائے)۔ پس یہ درست ہے کہ ’’الجماعۃ‘‘ اور اس کی ’’امارت‘‘ باہم لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ اگر معمول کی گفتگو ہو تو ہم ’’الجماعۃ‘‘ اور اس کی ’’اِمارت‘‘ کو الگ الگ کر کے دیکھنا ہی فضول جانیں گے۔
مگر یہاں ہمارا موضوع ’’اضطرار‘‘ کے احکام ہیں۔ یعنی جب آپ کے پاس ’’آپشن‘‘ نہیں رہتے یا شدید محدود ہو جاتے ہیں۔ یہاں اپنی ترجیحات کا محور واضح رکھنا اشد ضروری ہو جاتا ہے۔
غرض بنی آدم کی ملی تقسیم یہاں ہر مسئلہ سے اوپر ہے۔ معاشرتی حوالوں سے شریعت کی دھاک بیٹھی ہونا امارت میں کچھ نقائص آجانے کے مقابلے پر کہیں زیادہ اہم ہے۔
یہ وجہ ہے کہ مسلمانوں کو جب کچھ ایسی صورتوں سے واسطہ پڑا جہاں پورا عالمِ اسلام ایک مرکزی حکومت کے تابع نہیں، اور جوکہ ان کی نظر میں یقیناً ایک بہت بڑا حرج تھا... تو بھی عالم اسلام کے اُن خطوں میں جو مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کے تابع نہ تھے، ’’الجماعۃ‘‘ اور ’’الامر‘‘ ایسے معانی مفقود نہیں مانے گئے۔ مل کر خدا کی عبادت کرنے، اجتماعی زندگی میں شرعِ آسمانی پر حتی الوسع عمل پیرا، مسلمانوں کی انتظامی نہیں تو کم از کم نظریاتی، سماجی، ثقافتی اور نظامی[i] وحدت کا آئینہ دار اور رب العزت کے ساتھ شرک کرنے والی ملتوں کے خلاف برسرِجہاد رہنے ایسے معانی پھر بھی برقرار ہی رکھے گئے؛ اور اس قدر اہم مانے گئے کہ ان کو مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کے ہونے پر موقوف یا مشروط نہیں ٹھہرایا گیا (جس سے ’’المورد‘‘ ایسے لوگوں کو شک پڑ گیا کہ یہ سرے سے کوئی غیرضروری چیز ہے!)۔ مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کا نہ ہونا اِن عظیم تر معانی کے مقابلے پر (بہ امر مجبوری و اضطرار) قبول کیا گیا البتہ اِن عظیم تر معانی و اہداف کے حصول کو عالم اسلام کی ایک مرکزی حکومت نہ ہونے کی دلیل سے کبھی معطل نہیں ٹھہرایا گیا۔ ’’ملت‘‘ کے اِن عظیم تر اہداف کو بہرصورت یقینی بنانے کی کوشش ہوئی۔ ’’الجماعۃ‘‘ اپنے اِس معنیٰ میں مسلم فقہاء کے نزدیک ہمیشہ ایک قوی تر و اہم تر ترجیح رہی۔
ایک مرکزی حکومت نہ ہونے ایسی ناخوشگوار صورت کا سامنا مسلمانوں کو تاریخ میں متعدد بار ہوا؛ اور بڑےبڑے طویل عرصوں تک رہا:
à شام و مصر کی حد تک اختلافِ علیؓ و معاویہؓ کے وقت۔ پھر جب بڑے سالوں کے انتشار و خلفشار کے بعد، حضرت حسن کے دستِ با سعادت پر بحالیِ جماعت کا ایک کامل معنیٰ عود کر آیا تو اس کو عام الجماعۃ کہا اور اس پر ڈھیروں خوشی و مسرت کا اظہار کیا گیا، باوجود اس کے کہ یہ امارتِ معاویہؓ علیٰ منہاج النبوۃ پھر بھی نہیں تھی۔
à عالم اسلام کے، یزید اور عبداللہ بن زبیر کے مابین بٹ جانے کے وقت۔ پھر یہ انقسام عبداللہ بن زبیر اور مروان و عبدالملک بن مروان کے مابین رہا۔ یہاں تک کہ بڑے سالوں بعد عبدالملک بن مروان کے زیرامارت ایک بار پھر جماعت کا شیرازہ مجتمع ہوا، باوجود اس کے کہ عبدالملک ایک حاکمِ جور مانا گیا۔
à بعدازاں ایشیا و افریقہ میں اِمارتِ بنی عباس اور یورپ (اندلس) میں اِمارتِ بنی امیہ کی صورت، جوکہ صدیوں چلی۔ یہاں؛ ایک مرکزی حکومت نہ ہونے کی بنیاد پر فقہاء نے نہ مشرق (عباسی قلمرو) میں امارت کے احکام کو معطل ٹھہرایا اور نہ مغرب (اموی قلمرو) میں امارت کے احکام کو کبھی معطل قرار دیا۔ ہر دو امارت کے زیرانتظام؛ جہاد بھی ہوا، جمعہ و جماعت بھی، اقامتِ شریعت بھی، انصاف اور قضاء بھی۔ غرض مسلمانوں کے سب ممکنہ مصالح؛ ’’احکامِ اضطرار‘‘ کے تحت۔ ورنہ ایسا نہیں کہ فقہاء نے مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کی فرضیت سے انکار یا اعراض کیا ہو، جیساکہ ’’المورد‘‘ والوں کا دعویٰ ہے۔
à پھر اسی دوران، اور بعد ازاں، طویل صدیاں، مرکزی خلافت کے کمزور وبےاثر ہوجانے کے نتیجے میں؛ متعدد اِمارتوں کی صورت میں یہی واقعہ پایا گیا۔ ایسی اِمارتیں جو بسا اوقات آپس میں ایک دوسری پر چڑھ دوڑتی اور ایک دوسری کو فتح کرتی رہیں۔ بعض ادوار میں کسی مضبوط شخصیت یا کسی بااثر خاندان کے زیرقیادت عالم اسلام کے کئی کئی خطوں کو ایک پرچم تلے لا کر مسلمانوں کو ایک گونہ استحکام بخش دیتی؛ اور یوں ملت کے اجتماعی اہداف کے ایک بہت بڑے حصے کی تکمیل کا ذریعہ بن جاتی رہیں۔ جبکہ بعض ادوار میں یہ اِمارتیں بدترین خلفشار اور طوائف الملوکی کا نقشہ پیش کرنے لگتیں۔ یہاں تک کہ کسی وقت ایک خطہ کے مسلمان اپنی ڈولتی کشتی کو سہارا دینے کےلیے کسی دوسرے خطے کے امیر سے اسی طرح رجوع کرتے[ii] جس طرح اپنے خطے کے امیر سے رجوع کرتے ہیں۔
(’غیرملکی‘ ایسا کوئی ڈوب مرنے والا طعنہ جو UN ٹکسال سے نکلا اور آج ہمارے اِس جمہوری نیشنلسٹ پیراڈائم میں ’’کفر‘‘ سے بدتر جانا جاتا ہے، کبھی اُن مسلمانوں کو دامنگیر نہ ہوتا۔ بسااوقات وہ پڑوس کے مسلم حکمران سے یہ مدد اپنے کسی ہم قوم یا ہم زبان کافر کے خلاف لینے کےلیے جاتے۔ اس لیے کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا وہ اصل معنیٰ ان کے ہاں برقرار تھا جو اسلامی عقیدہ نے ان کے نفوس میں کندہ کر دیا ہوا تھا؛ جبکہ اِس جدید الحادی پیراڈائم کو ان کے نفوس میں گہرے اتارنے والے کالجوں، یونیورسٹیوں، پریس اور میڈیا نے ابھی یہاں پر آنکھ نہیں کھولی تھی)۔
*****
یہ سب وضاحت اس لیے ہوئی کہ اِحیائے اسلام سے متعلق آج کچھ اذہان ’’الجماعۃ‘‘ کے موضوع کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اس کی ’’انتظامی جہت‘‘ کو ہی اصل موضوع بنا رہے ہیں۔ اور یہ افراط اور تفریط ہر دو جانب پایا جا رہا ہے؛ خلافت کے داعی ایک طبقے کے یہاں بھی اور خلافت کے منکرین کے یہاں بھی۔
ہمارا یہ کتابچہ بےشک اہل تفریط پر ہی مرکوز رہا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل اِفراط کی تصحیح اپنی جگہ ضروری نہیں۔
جہاں تک اہل اِفراط کا تعلق ہے... تو مطالعۂ تاریخ کے دوران؛ یہ حضرات ہمارے اُن تمام اسلامی ادوار کو ’غیرموجود‘ کے حکم میں رکھتے ہیں جب دنیا میں مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت علىٰ منہاج النبوۃ قائم نہ تھی۔ جبکہ معلوم ہے، یہ خلافت علىٰ منہاج النبوۃ اِس امتِ خیر کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں کُل تیس سال ہیں، تاہم خلافتِ راشدہ کے بعد بھی ہمارے کئی ادوار اچھے خاصے تابناک ہیں۔ ہاں نقائص کی بھی کمی نہیں۔ یعنی ایک ملاجلا معاملہ۔ مگر یہ وہ ذہن ہے جو ’’مثالی‘‘ سے کم کسی چیز کو شمار میں ہی نہیں لاتا۔ اسلام بطور ایک اجتماعی واقعہ اِس کے خیال میں پچھلے تیرہ سو اٹھانوے سال[iii] سے نابود ہے! امت کی یہ چودہ صدیاں گویا ’جاہلیت‘ میں گزریں؛ باوجود اس کے کہ برعظیم ہند، مشرقِ بعید، یورپ (مغربی یورپ زیرپرچم بنی امیہ، مشرقی یورپ زیرپرچم بنی عثمان) اور افریقہ کے بےشمار خطے اِسی دوران اسلام کے زیرنگیں آئے؛ اور سینکڑوں اقوام دینِ خداوندی کی مفتوح ہوئیں۔ مگر اِن کے نزدیک ہزاروں صحابہ کے جیتے جی اسلامی حیاتِ اجتماعی دنیا سے ناپید ہو گئی تھی... البتہ ہمارے اِن بھائیوں کو اِن کے ’مطالعۂ قرآن‘ کی بدولت آج کوئی ایسا منہج ہاتھ لگا ہے جس تک اُن (ہزاروں صحابہؓ) کو نہ رسائی ہوئی اور نہ کبھی اُن کے ہاتھ میں اس منہجِ اقامتِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا علم دیکھنے میں آیا؛ مگر ہمارے یہ بھائی اپنے اس ’منہج‘ کے زور پر 1398 سال سے ناپید چلے آتے اُس عمل کو یکلخت آج بحال کر دیں گے؛ یعنی مراکش سے وسط ایشیا اور انڈونیشیا تک پھیلی ایک خلافت جو علیٰ منہاج النبوۃ سے کم ہرگز کچھ نہ ہوگی! غرض اشیاء کو ’’سفید یا سیاہ‘‘ دیکھنے والی اپروچ جو نہ ہماری شریعت سے ثابت اور نہ ہماری تاریخ سے؛ اور نہ وہ کبھی دنیا کی کسی کامیاب قوم کے ہاں جگہ پا سکتی ہے۔
پس ایک طرف اہل تفریط ہیں جن کے نزدیک ’’خلافت علىٰ منہاج النبوۃ‘‘ اِس امت پر سرے سے فرض نہیں۔ بلکہ ’’خلافت‘‘ کا تصور ہی اس امت کے حق میں باطل ہے۔ (بلکہ ’’امت‘‘ ہی کا تصور اِن پتنگوں کے حق میں باطل اور من گھڑت ہے!)۔ دوسری طرف اہل اِفراط ہیں جن کی نظر ’’جماعۃ‘‘ کے معانی پر سرے سے نہیں ہے؛ اور جن کے پاس معاملے کو جانچنے کا ایک ہی گز ہے اور وہ ہے: مراکش سے انڈونیشیا تک ایک انتظامی وحدت اور وہ بھی علیٰ منہاج النبوت۔ اس سے ایک ذرہ کم ہو تو وہ اور جاہلیت ایک برابر!
پس ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ہمارے ائمۂ و فقہائے سنت کے نزدیک یقیناً فرض ہے۔ اِس کی فرضیت کو ’ڈھکوسلہ‘ قرار دینے والے کوئی استشراق کے شاگرد ہی ہو سکتے ہیں۔ ہاں اِس فرض پر پورا اترنے میں جہاں کوئی عجز اور بےبسی پیش آئی، اور جتنی پیش آئی، وہاں ہمارے ائمہ و فقہاء کے یہاں ’مثالیت‘ کے تعاقب میں ’’حسبِ استطاعت‘‘ والا راستہ البتہ ترک نہیں کروایا گیا۔ نتیجتاً؛ فرائض کا تصور بھی اپنی جگہ رہا مگر فرائض پر مقدوربھر پورا اترنے کا شرعی قاعدہ بھی معطل نہ ہوا۔
احکامِ اضطرار، بشرطیکہ ایک مخصوص حد میں رہیں، عمل کا ڈائنامزم dynamism بڑھاتے ہیں۔ یہاں؛ ایک حد سے بڑھا ہوا بوجھ آپ سے اتار دیا جاتا ہے تاکہ آپ چل لیں؛ نیز فرار یا بیٹھ رہنے کے وہ سب بہانے دور کر دیے جائیں جو ’مثالیت‘ اور ’یوٹوپیا‘ ایسے فلسفوں نے آپ کو خاصی خاصی مقدار میں مہیا کر رکھے ہوتے ہیں!
[i] ’’نظامی وحدت‘‘ سے مراد: اِن سب امارتوں کا نظام ایک ہونا۔
یعنی یہ ایک سیاسی پھوٹ تھی، جوکہ افسوسناک ہے، تاہم یہ سب ریاستیں کھڑی ایک مخصوص (آسمانی) عقیدے اور نظام پر ہی تھیں؛ یعنی توحید، شرعِ محمدی کی تحکیم، شرک سے براءت اور رسالت محمدیؐ کی منکر ملتوں سے بیزاری۔ پس اِس کا ایک سیاسی وحدت نہ ہونا بےشک اس کے حق میں ایک بڑا عیب اور تركِ واجب تھا مگر ایک عقائدی و نظامی وحدت ہونا پھر بھی اسے ’’جماعت‘‘ کا ایک معنیٰ دیتا تھا؛ اور نہایت اہم تھا۔
[ii] جیسے الفانسو کی یلغار کے مقابلے پر اہل اندلس کا مراکش کے سلطان یوسف بن تاشفین سے، صلیبیوں کے مدمقابل اہل مصر کا شام کے سلطان نور الدین زنکی سے، اور مرہٹوں کے خلاف شاہ ولی اللہ کی سرکردگی میں اہل ہند کا افغان سلطان احمد شاہ ابدالی سے رجوع کرنا۔ وغیرہ
[iii] ہماری یہ کتاب سن 1438ھ میں لکھی جا رہی ہے۔ یعنی خلفائے راشدین کا عہد بِیتے آج پورے 1398 سال ہوئے۔