Hamid Kamaluddin
Eeqaz
جماعت: فرد ہی کی افزائش اور تحفظ
زندگی کے عظیم الشان مقاصد – پائیدار بنیادوں پر – انسانوں کے ایک بڑی سطح کے اکٹھ پر منحصر رہتے ہیں۔ اِسی اکٹھ کو آپ ’’سوسائٹی‘‘ کہتے ہیں۔ بامقصد سوسائٹی آپکی بہت بڑی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو تو آپ کے تار و پود بکھر جاتے ہیں خواہ آپ کیسے ہی کمال کے نظریات کیوں نہ رکھتے ہوں۔ خارج میں جاری ’’تشکیلی عمل‘‘ آپ کے ان مقاصد کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ اِس نسل میں نہیں تو اگلی نسل میں، یا پھر اس سے اگلی نسل میں، آپ کو خارج کے چلائے ہوئے اس دھارے میں آنا ہی ہوتا ہے۔ بڑی نسلوں تک آپ اس کے آگے دیوار کھڑی نہیں رکھ سکتے۔ اِس جرمِ ضعیفی کی سزا آخر مرگِ مفاجات ہے۔ آپ کی ’انفرادی حیثیت‘ حالات اور ماحول کے تھپیڑے کچھ وقت تک ہی سہتی ہے۔ یہ ایک نہایت غیرطبعی صورتحال ہوتی ہے اور بڑےبڑے غیرطبعی رویوں abnormal behaviors کو جنم دیتی ہے۔ ایک معمولی صلاحیت کا آدمی تقریباً اس کے آگے بےبس ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ذرا طویل ہو جائے تو آخری فتح ’’ماحول‘‘ کی ہوتی ہے۔
اس مسئلہ کا پائیدار حل صرف یہ ہے کہ ’’ماحول‘‘ یا ’’حالات‘‘ یا ’’سٹیٹس۔کو‘‘ ہی خود آپ کے دھارے پر بنیں۔ ’’خارج میں جاری تشکیلی عمل‘‘ ہی خود اس کے رخ پر ہو۔ ’’فرد‘‘ اور ’’ماحول‘‘ ایک ہی دین پر ہوں۔
کسی بھی طرزِزندگی کے ایک سماجی تسلسل میں ڈھلنے کےلیے یہ ضروری ہے۔ پھر ’’اسلام‘‘ ایسی عظیم الشان چیز محض انسان کی ’’انفرادی حیثیت‘‘ کو اٹھوا دینا کیونکر درست ہوگا!
’’خدا کی عبادت‘‘ پر قائم ایک معاشرتی وریاستی عمل؛ جس میں خدا کی بندگی آسان سے آسان تر ہونے لگے اور شیطان کی بندگی مشکل سے مشکل تر.. شرائع کا ایک باقاعدہ مقصود ہے۔
’’اسلام‘‘ کو خواہ آپ نماز روزے تک ہی محدود کر لیں اور محض ایک انفرادی سطح پر بدکاری و حرام خوری سے بچ رہنے میں ہی محصور ٹھہرا دیں.. اس کےلیے بھی ’’فضا‘‘ و ’’گردوپیش‘‘ ایک غیرمعمولی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ سلباً و ایجاباً؛ یہ آپ کے نماز روزہ تک پر اثرانداز ہوتا ہے۔ آپ کی نسلوں میں نماز اور حیاء کا باقی رہ جانا اس چیز سے براہ راست تعلق رکھتا ہے کہ باہر سسٹم اس سلسلہ میں کس قسم کی ہوائیں چلاتا ہے۔ ریاستی مشینری کا ’’نماز‘‘ اور ’’زکاۃ‘‘ کی پشت پر ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں: نماز روزہ کا فرض نبھانا اور بدکاری و حرام خوری سے دامن بچانا دنیا میں آپ کےلیے ’’آزمائش‘‘ تو رہے گی؛ اِس آزمائش کو ختم کرنا کیسے ممکن ہے؟ اور جب یہ ممکن نہیں تو یہ شرائع کا مقصود کیسے؟ لہٰذا نفس اور خارج میں پائے جانے والے صوارف (diverting factors & temptations) کے خلاف مزاحمت تو آپ کو کرنا ہی ہے۔
لیکن ہم یہ کہتے ہیں:
ایک ماحول ایسا فاسد اور خدا کو اس قدر بھُلوا دینے والا ہوتا ہے جہاں ’’اوسط ہمت کا آدمی‘‘ سوسائٹی کے غیرمعمولی اثرات کے ہاتھوں زندگی کا مقصد بڑی آسانی کے ساتھ ہار بیٹھتا اور باطل نظریات و فاسد اخلاق کی نذر ہو جاتا ہے؛ یہاں تک کہ دینِ محمدؐ سے پھر جانے ہی کے امکانات کا سامنا کرنے لگتا ہے۔ ایسے ماحول میں خالی نماز روزہ بچا رکھنا اور بدکاری و حرام خوری سے بچا رہنا ہی غیرمعمولی ہمت والے نفوس کا کام رہ جاتا ہے۔
دوسری طرف؛ ایک ماحول ایسا صالح اور خدا کی یاد دلانے اور محمدﷺ کی اتباع پر آمادہ کرنے والا ہو سکتا ہے جہاں ’’اوسط ہمت کا آدمی‘‘ خاصی آسانی سے خدا کی عبادت پر کاربند اور صالح افکار و صالح اخلاق کا پابند ہو جاتا ہو۔ یہاں تک کہ ایک معاشرتی و ریاستی انتظام کو کام میں لا کر ایک ایسا ’’گردوپیش‘‘ بھی تخلیق ہو سکتا ہے کہ آدمی کو برا ہونے کےلیے ماحول کے خلاف مزاحمت کرنی پڑے اور بدکاری کو اپنی خصلت بنانے کےلیے اچھا خاصا برا ہونا پڑے۔
پس اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جماعت (society) ’’خدا کی عبادت‘‘ کی اِس آزمائش کو آخری حد تک آسان بھی کر سکتی ہے اور آخری حد تک دشوار بھی بنا سکتی ہے۔ یہاں سے؛ ’’جماعت‘‘ بذاتِ خود شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہو جاتی ہے۔ اگلی فصل میں ہم یہ واضح کریں گے کہ ’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘ کی نبوی تفسیر بھی یہی ہے کہ: ’’جماعۃ المسلمین کا التزام‘‘ ہو۔ اعلیٰ مقاصد زمین پر ایک بڑے درجے کی جتھہ بندی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
*****
بنابریں... خدا کی عبادت اور محمدﷺ کی رسالت پر قائم ایک ’’جماعت‘‘ اور ’’نظم‘‘ ہمارے ہاں عبادت کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اپنے ’’اسلامی نظم اور امارت‘‘ کی صورت، اور اس کے ذریعے، ہم دنیا میں خدا کی عبادت کرتے اور جہانِ آخرت کی تعمیر کرتے ہیں نہ کہ ’سماجی رہن سہن‘ کی کوئی عام سی کارروائی جو محض ایک عدد ’سیاسی نظام‘ کی ضرورتمند ہوا کرتی ہے! نیز اپنے ’’اسلامی نظم و امارت‘‘ کی صورت، اور اس کے ذریعے، ہم خود کو اور اپنی نسلوں کو شیطان کے حربوں سے محفوظ رکھتے (’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ‘‘ پر عمل کی اجتماعی صورت)۔ نیز خود کو اور اپنی نسلوں کو دوزخ کے موجبات سے تحفظ دلاتے ہیں۔
ایک غیراسلامی نظم کبھی معاشرے میں ’’شیطان کے راستے‘‘ مسدود کرکے نہیں دے سکتا۔ جس معاشرے میں شیطان کے راستے چوپٹ اور سرکاری سرپرستی میں رواں دواں رکھے جائیں وہاں اندیشہ ہے یا تو ہم اپنے ’عام فرد‘ اور اپنی الہڑ نسلوں کو کھو بیٹھیں یا ’وعظ‘ کر کر کے انہیں نفسیاتی مریض بن جانے کے قریب کردیں؛ یعنی ہر دو صورت میں ضائع! اس کا اصل حل یہ ہے کہ معاشرے کے عام فرد کے حق میں ہم خالی ’’وعظ‘‘ پر سہارا کرنے کی بجائے شیطان کی وہ بڑی بڑی شاہراہیں ہی بند کر ڈالیں جو ہمارے لوگوں کےلیے ’’پاکیزہ زندگی‘‘ گزارنے کے اِس امتحان کو شدید دشوار بنارکھنے کا موجب چلی آتی ہیں۔ زندگی کی آزمائش کو اپنی نسلوں کےلیے اس درجہ تک آسان رکھنا __ حسبِ استطاعت __ فرض ہے۔ ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب.
معاشرے میں شیطان کی بڑی بڑی شاہراہیں بند کرکے رکھنا اور خیر کی بڑی بڑی شاہراہیں رواں دواں رکھنا، کہ جہاں ’’صلوٰۃ‘‘ و ’’زکوٰۃ‘‘ کے ادارے تو خوب پھلیں پھولیں اور معاشرے کو اپنے بہترین ثمر دیں جبکہ ’’فحشاء و منکر‘‘ اور ’’ربا‘‘ کے ادارے مسلسل تلف کیے جاتے رہیں... ’’سوسائٹی‘‘ کی سطح پر خدا کی عبادت ہونا اور شیطان کے راستے مسدود ہوئے رہنا ایک باقاعدہ ’’اسلامی نظم‘‘ (ریاستی عمل) کے بغیر ناممکن ہے۔ پس کیا عجب جو اسلامی امارت و نظم کو خدا کی عبادت اور اطاعت کی ایک صورت ٹھہرایا گیا ہو۔
غرض... خدا کی عبادت یہاں ’’فرد‘‘ کی سطح پر تو ہونی ہی ہے۔ مگر اِسی عبادت کی ایک سطح ’’خاندان‘‘ ہے؛ جوکہ آپ غور کریں تو یہ بیک وقت اس ’’عبادت گزار فرد‘‘ کا ہی تحفظ و افزائش ہے۔ پھر اسی طرح؛ عبادت کی ایک سطح ’’سوسائٹی‘‘ اور ’’ریاست‘‘ ہے؛ اور یہ بیک وقت اس ’’عبادت گزار فرد‘‘ اور ’’عبادت گزار خاندان‘‘ کا ہی تحفظ و افزائش ہے۔
پس یہاں ہر ہر سطح پر خدا کی عبادت اور اطاعت ہے۔ ’’قولی وبدنی افعال‘‘ وہ کل عبادت نہیں جو انسان سے اُس کی اِس زمینی سرگرمی کے دوران مطلوب ہے۔ مختصراً... جتنی وسیع یہ ’’زندگی‘‘ ہے اتنی ہی وسیع یہاں مسلمان کی ’’عبادت‘‘ ہے۔
پس ہماری خلافت اور امارت کو دنیا کے سیاسی نظاموں میں سے محض ’ایک نظام‘ کے طور پر لینا ہرگز درست نہ ہوگا؛ ہمارا نظمِ اجتماعی ہمارے مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کی ایک صورت ہے۔ یہ ’’فرد‘‘ ہی سے خدا کی عبادت کروانے کی ایک سطح اور ایک صورت اور ایک ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ’’اسلامی زندگی‘‘ کا تصور ایک بےحقیقت مفروضہ ہے۔
(زیرِ تالیف: ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’اطاعت کا عبادت ہونا‘‘، تاحال شائع نہیں ہوئی)