جدید ریاست: ایک طرح کی "ملت"
’جدید ریاست‘ کا لسان، رہن سہن یا طبعی اقالیم سے کوئی تعلق
نہیں
جہاں تک ماڈرن سٹیٹ کے لادین حمایتیوں کا تعلق
ہے... تو ان کو تو اپنی ممدوح کے حق میں کچھ خصوصی دلیلیں گھڑنے کی ضرورت نہیں؛
اور ان کے ساتھ یہاں پر ہماری گفتگو بھی نہیں۔ یہ بات سب سے پہلے نوٹ کر لی جائے۔
ہاں وہ نیک حضرات جو ہم دیندار لوگوں کو ’’ماڈرن سٹیٹ‘‘ کا گرویدہ دیکھنا چاہتے
ہیں... تو ان کا اپنی ممدوح کے حق میں ’دلائل‘ دینا البتہ دلچسپ ہو جاتا ہے۔
’’خلافت‘‘ کے خلاف اور ’’ماڈرن سٹیٹ‘‘ کے حق میں، زیادہ تر یہ جو ’دلیل‘ دیتے ہیں وہ
نسلی اکائیوں، طبعی رشتوں اور رہن سہن کا بچاؤ ہے! نیز انسانی تنوع کا تحفظ!
ہم کہتے ہیں: یہ اگر کوئی دلیل ہے تو سب سے
بڑھ کر ہماری خلافت کے حق میں جاتی ہے نہ کہ تمہاری ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے حق میں۔ ماڈرن
سٹیٹ کو نسلی اکائیوں، طبعی رشتوں اور رہن سہن سے کیا؟ خصوصاً؛ ماڈرن سٹیٹ کے وجود سے
تو ان نسلی یا اقلیمی اشیاء کا تعلق ہی کیا؟
’’جدید ریاست‘‘ کے فریم میں فٹ آنے والے آج
کے چند گنےچنے ممالک اگر نسلی یا لسانی محرکات پر قائم ہیں... تو اِسی (جدید
ریاست) فریم میں فٹ آنے والے چند گنےچنے ممالک ’مذہبی‘ محرکات پر بھی قائم ہیں، جن
میں خود آپ کا یہ ملکِ خداداد آتا ہے، نیز دولتِ بنی صیہون (اسرائیل)۔ اِن معدودے
چند (مذہبی بنیاد پر بننے والے) ممالک سے اگر یہ عام قاعدہ اخذ نہیں ہو سکتا کہ آج
کی ’جدید ریاست‘ مذہبی بنیاد پر قائم ہوتی ہے... تو اُن معدودے چند (نسلی یا لسانی
بنیادں پر بننے والے) ممالک سے بھی یہ عام قاعدہ نہیں نکالا جاسکتا کہ آج کی ’جدیدریاست‘ نسل یا رہن سہن کی بنیاد پر قائم ہوتی
ہے!
گو صحیح تر بات یہ ہے کہ جدید ریاست
کے فریم میں ’نسل‘ یا ’لسان‘ یا ’مذہب‘ کسی ملک کے وجود میں آنے کا ’موجب‘ ہو سکتا
ہے، اس کے قائم رہنے کی ’’بنیاد‘‘ نہیں...
جدید ریاست اپنے اندر ’’ملت‘‘ کا ایک واضح معنیٰ رکھتی ہے
البتہ جہاں تک ’’بنیاد‘‘ کی بات ہے
تو جدید ریاست ’’ملت‘‘ کا معنیٰ لیے ہوتی ہے۔ یعنی:
à ایک
تو وہ ’توجیہ‘ سے ماوراء ہوتی ہے کہ وہ کیوں ہے؛ بس وہ ہے۔
à دوسرا... نسلیں،
رنگ اور زبانیں اس میں آتی ہیں مگر وہ نسل، رنگ اور
زبان میں نہیں آتی۔
چنانچہ ’’ملت‘‘ کی حیثیت میں؛ ریاست اپنے
شہریوں کے ہاں پائی جانے والی زبانوں اور کلچروں کے ’’تحفظ‘‘ کا ذمہ ضرور
اٹھائے گی۔ یہ درست ہے۔
لیکن ’’ملت‘‘ کی حیثیت
میں، اور ’’وحدت‘‘ کا ایک فطری مفہوم رکھنے کی بدولت، نیز ’’رشتوںکو
جوڑنا‘‘ ایک شرعی فریضہ جانتے ہوئے... ہماری ’’خلافت‘‘ آج کی ایک ’قومی ریاست‘ سے
کہیں بڑھ کر مسلم قبیلوں، خطوں اور برادریوں کے تحفظ کا ذمہ اٹھاتی رہی ہے
بلکہ عملاً اس پر پورا اتر کر دکھاتی رہی ہے۔ کم از کم یہ وہ چیز نہیں جس میں آپ
’’خلافت‘‘ کو ناک آؤٹ اور ’ماڈرن سٹیٹ‘ کو وِکٹری سٹینڈ پر کھڑا کردیں؛ ہاں معاملہ اس سے
الٹ ضرور ہوسکتا ہے!
پس یہ ’دلیل‘ تو بہرحال نہ ہوئی۔ اور اگر ہے
تو ’’خلافت‘‘ کے حق میں زیادہ ہے اور ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے حق میں کم!
’’ماڈرن سٹیٹ‘‘ تو، جیساکہ ہم پیچھے اس پر
گفتگو کر آئے:
ý اتنی
چھوٹی بھی ہوسکتی ہے کہ اُس میں پائی جانے والی زبان یا رہن سہن یا نسل آس پاس کی
متعدد ریاستوں میں بیک وقت پائی جاتی ہو؛ اور اِس لحاظ سے وہ خوامخواہ میں ایک
’الگ ملک‘ ہو۔
ý اور
اتنی بڑی بھی ہوسکتی ہےکہ ایسی درجنوں زبانیں، نسلیں اور رہن سہن اُسی ایک ریاست
کی ملت میں ’بتانِ رنگ و خوں‘ کی طرح گم ہوجاتے ہوں؛ یہاں تک کہ اس کے ایک کونے کا
باشندہ دوسرے کونے کے باشندے کی بولی کا ایک لفظ نہ سمجھتا ہو؛ بلکہ اُس کے
لباس اور حلیے پر تعجب کرتا ہو!
چنانچہ ایک کثیر الاجناس multi-ethnic ، ملٹی
کلچرل multi-cultural یا ملٹی لنِگوَل multi-lingual ریاست میں آپ ضرور نوٹ کریں گے، ’نسل، ’کلچر‘ یا ’لسان‘ کے
فرق کو ہوا دینا تقریباً اُسی طرح ’جاہلیت‘ سمجھا جاتا ہے جس طرح ہماری مسلم
’’الجماعۃ‘‘ میں ان اشیاء کو ہوا دینا ’’بدبودار جاہلیت‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا
رہا ہے! ہم نے کہا نا، ’’سٹیٹ‘‘ تو باقاعدہ ایک ’’ملت‘‘ کا معنیٰ لیے ہوتی
ہے!وہ کب ان اشیاء کو اپنے وجود اور اپنی تشکیل کے معاملہ میںحوالے کے
طور پر قبول کرے گی! تو پھر اس کا حوالہ ہے کیا؟
بنابریں... ماڈرن سٹیٹ چونکہ ایک طرح کی ملت ہے جس
میں آدمی کی باقی ہر حیثیت کو بالآخر گم ہونا ہوتا ہے؛ یہ وجہ ہے کہ ہم اس کو صاف
’’اسلام‘‘ کے متوازی ایک چیز دیکھتے ہیں۔ جدید ریاست ایسی طرز کا ایک تشکیلی
اکٹھ یا تو اسلام کی الجماعۃ ہو، ورنہ وہ ’’کفر‘‘ کی جماعۃ بنے گی۔
’’جماعۃ‘‘ کا معنیٰ اس میں نہایت واضح ہے۔ یہ کہنا کہ اس کا کوئی دین نہیں ہوتا
’ماڈرن سٹیٹ‘ کے معنیٰ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ’مذہب‘ کو اِس کی ملت میں
کیونکر گم ہونا ہوتا ہے، ماڈرن سٹیٹ کی ’ماڈل‘ صورتوں میں اس کو کسی وقت ملاحظہ
ضرور فرمائیے گا۔ کتاب کی ایک فصل (’’ملک سب
کا‘‘ کا مطلب) میں ہم نے اسے کچھ کھولا ہے؛ اس پر کچھ توجہ فرما لی جائے۔
نہایت واضح ہو:
’جدید ریاست‘ اگر محض ایک ’انتظامی‘ بندوبست ہو جیساکہ ماضی کی
بہت سی امارتوں اور راجواڑوں کا حال رہا، تو اس میں ہم ’’اسلام‘‘ کی ہمسری کا
وہ معنیٰ نہ پائیں گے۔ ’’ماڈرن‘‘ سٹیٹ تو باقاعدہ ایک عقیدہ، ایک ولاء، ایک
وابستگی اور ایک شناخت ہے؛ اور اجتماعیت کی واحد بنیاد۔ کس دلیل سے؟ کچھ معلوم
نہیں مگر آپ کے رنگ، نسل، قبیلہ، خون، لسان، دین سب کو اس کے اندر گم ہونا ہے۔ اس
کو محض ’انتظامی‘ بندوبست کے معنیٰ میں لینا یا کسی لسان یا رہن
سہن سے منسلک چیز جاننا خود اس کی حقیقت سے لاعلمی کی دلیل ہے۔