فقہاء نے مستشرقین کا زمانہ نہیں پایا تھا!
المورد کے اصحاب خلافت کے موضوع پر فقہاء کو اپنا ہم
خیال سمجھ بیٹھے۔ کہتے ہیں:
جن ملکوں میں
مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہوسکتا ہے اور ہم اسکو
شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے
کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف
ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی
اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری
کے بعد ہی ، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو
سلطنتیں ، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہوچکی تھیں اور
کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی
خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اس لئے کہ اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و
حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔
(’’اسلام اور ریاست:: ایک جوابی بیانیہ‘‘۔ روزنامہ جنگ 22
جنوری 2015۔http://goo.gl/0yWPD0 )
خط کشیدہ الفاظ فقہائے
اسلام کی بابت ایک دعوىٰ ہے۔ کیا واقعتاً فقہاء میں سے ’’کسی نے‘‘ اسے اسلامی
شریعت کے ’’کسی حکم‘‘ کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا؟ معلوم ہوتا ہے ’’مسلم وحدت‘‘ کے
مسئلہ پر فقہاء کی آراء مضمون نگار کی نظر سے نہیں گزریں۔ ورنہ زیادہ سے زیادہ وہ
اپنی اِس بات کو فقہاء کے ہاں پائی جانے والی ایک ’’شاذ رائے‘‘ کہتے، جیساکہ
الماوردی نے اس کے ’’شاذ رائے‘‘ ہونے کی باقاعدہ صراحت فرمائی ہے (الماوردی کی
عبارت آگے آ رہی ہے)۔ البتہ یہ بیان دے ڈالنا کہ ’فقہاء میں سے کسی نے بھی یہ نہیں
کہا‘ کتبِ فقہ پر مطلع طبقے کے یہاں تعجب
سے سنا جا ئے گا۔ یہاں ہم فقہاء کے کچھ بیانات آپ کے سامنے رکھیں گے۔ اس سے آپ کو
اندازہ ہو جائے گا، فقہاء کی بابت کیا گیا یہ دعویٰ کس قدر غیرحقیقی ہے۔
تو پھر آئیے دیکھتے ہیں،
مؤلفینِ فقہاء ’’اسلامی قلمرو کے انقسام‘‘ پر
اپنے قبیلے کے مواقف کیونکر نقل کرتے
ہیں۔ واضح رہے، یہاں ہم ان فقہاء کے اقوال دیں گے جو اس ’’انقسامِ خلافت‘‘ ہی کے
ادوار میں پائے گئے۔ یعنی یہ معاملہ بطورِ واقعہ بھی ان کی نظر میں ہی تھا اور وہ
کسی سہانے دور میں بیٹھے ہوئے یہ باتیں نہیں کر رہے تھے۔ دیکھئے یہ فقہاء اِس موضوع
پر کیا کہتے ہیں:
سیاسۃ شرعیہ پر قلم اٹھانے والا ایک بڑا نام
الماوردی (چوتھی صدی ہجری کے فقیہ؛ اپنے وقت کے قاضی القضاۃ) لکھتے ہیں:
ماوردی کی مندرجہ بالا نقل
غور فرما لیجئے: جمہور کا مذہب۔ اس کے مخالف قول، ماوردی کے نزدیک، ’’غیرجمہور‘‘
نہیں بلکہ ’’شاذ قول‘‘ ہے۔
یہ جمہور فقہاء، جن کا
الماوردی ودیگر مؤلفین کے بیان میں ذکر ہوا، اس قدر زیادہ ہیں کہ نووی (ساتویں
صدی ہجری) اس کو ’’علماء کا متفقہ قول‘‘ ہی قرار دینے تک چلے جاتے ہیں۔ تاہم نوویؒ
کی تقریر دینے سے پیشتر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صحیحین کی وہ روایت نقل کر دی جائے
جس کے تحت (شرح مسلم) میں نوویؒ فقہاء کا یہ اتفاق نقل کرتے ہیں۔ کیونکہ خود یہ
حدیث بھی اس باب میں معانی کا ایک سمندر ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبيﷺ، قال: کَانَتۡ بَنِو إسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ؛ كُلَّمَا َهَلَكَ
نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ
وَتَكْثُرُ. قاالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ،
فَالْأَوَّلِ. وَأَعْطُوهُمْ
حَقَّهُمْ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا
استرعاهمْ (متفق علیہ، واللفظ لمسلم http://goo.gl/sYrcmm)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کے
معاملاتِ سیاست انبیاء چلاتے رہے، جیسے ہی کوئی نبی دنیا سے جاتا اس کا جانشین نبی
ہوتا۔ اب یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ہاں خلفاء ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں
گے۔ لوگوں نے عرض کی: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: جس کی بیعت پہلے
ہوجائے اُسی کی بیعت نبھاتے چلے جانا۔ تم ان کو ان کا حق دیتے رہنا؛ کیونکہ اللہ
نے جو کچھ ان کی رعیت میں دیا اُس کی بابت اُن سے وہ خود سوال کرنے والا ہے‘‘۔
ابن حزم کا دعوائے اجماع:
جس کے ’’اجماع‘‘ ہونے سے آپ بےشک اتفاق نہ کریں، مگر اس سے آپ کو یہ ضرور اندازہ
ہو سکتا ہے کہ اس قول پر فقہاء کی کتنی بڑی تعداد ہے، جس کے متعلق ہمارے فاضل
مضمون نگار کا خیال ہے ’فقہاء میں سے کسی نے اسے شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہی
قرار نہیں دیا‘۔ ابن حزم:
مَا افْتَرَقَ فِيهِ
الْإِمَامَةُ الْعُظْمَى وَالْقَضَاءُ
يُشْتَرَطُ فِي الْإِمَامِ
أَنْ يَكُونَ قُرَشِيًّا بِخِلَافِ الْقَاضِي، وَلَا يَجُوزُ تَعَدُّدُهُ فِي
عَصْرٍ وَاحِدٍ وَجَازَ تَعَدُّدُ الْقَاضِي، وَلَوْ فِي مِصْرٍ وَاحِدٍ.
(الأشباہ والنظائر لابن نجیم ج1 ص 325)
حوالہ
ویب لنک: http://goo.gl/AdNKiy
فَإِذَا اجْتَمَعَ عَدَدٌ
مِنْ الْمَوْصُوفِينَ فَالْإِمَامُ مَنْ انْعَقَدَ لَهُ الْبَيْعَةُ مِنْ
أَكْثَرِ الْخَلْقِ، وَالْمُخَالِفُ لِأَكْثَرِ الْخَلْقِ بَاغٍ يَجِبُ رَدُّهُ
إلَى انْقِيَادِ الْمُحَقِّ
|
|
ابن تیمیہ کی تقریر:
والسنة أن يكون للمسلمين
إمام واحد والباقون نوابه, فإذا فرض أن الأمة خرجت عن ذلك لمعصية من بعضها أو
عجز من الباقين أو غير ذلك فكان لها عدة أئمة, لكان يجب على كل إمام أن يقيم
الحدود, ويستوفي الحقوق..)
|
|
فقہاء کے درج بالا اقوال
میں آپ دیکھتے ہیں: احکامِ ضرورت بھی ایک ساتھ ذکر ہوگئے اور احکامِ اصلی بھی۔ یہی
توازن شاید آج ہمارے لوگوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بدترین سے بدترین حالات میں بھی
احکامِ اصلی پر ہی مصر رہنا ایک یوٹوپیا (غیرحقیقت پسندانہ) روش کو جنم دیتا ہے؛
جوکہ لامحالہ انتہاپسندی کی صورت دھارتا ہے۔ اِسی کو ہم ’’غلو‘‘ یا ’’افراط‘‘ کہتے
ہیں۔ غیر علماء طبقہ میں یہ روش بھی اِس وقت عروج پر ہے۔ دوسری طرف احکامِ اصلی کو
سرے سے گول کر جانا ’’جفا‘‘ کا راستہ ہے جسے ہم ’’تفریط‘‘ کہتے ہیں؛ اور جس پر
ہمیں صاحبِ مضمون دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ امت بیچاری ان دو انتہاؤں کے بیچ کٹی پھٹی
جاتی ہے۔ ہر
انتہاپسند طبقہ، خواہ وہ اِفراط کی راہ چل رہا ہو یا تفریط کی، اپنا ’بیانیہ‘ narrative
ہی
جاری کردینے پر مُصر ہے!
فاضل مضمون نگار نے خوب
کیا جو یہاں فقہاء کا ذکر ضروری جانا۔ اس سے فقہاء کا موقف سامنے آنے میں بھی مدد
ملی اور فقہاء کے مواقف پر خود ان کا مطلع ہونا بھی۔ ورنہ نیریٹو narrative
جاری کرنے کےلیے ’’فقہاء‘‘ کی کیا ضرورت تھی!