زمین میں خدا کی واحد پسندیدہ روش ؛ جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے؛ اور جوکہ اہلِ
زمین کو انبیاء کی وساطت الہام ہوتی رہی ہے:
وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا...
خدا کی یہ پسندیدہ روش’’انسان‘‘ سے بطورِ فرد individual بھی ظہور کرتی ہے اور بطورِجماعت (community / society) بھی؛ کیونکہ
زمین پر ’’انسان‘‘اِن دونوں حیثیتوں میںرہتا ہے؛ اور ’’خدا کے
آگے تسلیم ہونا‘‘ انسان سے اِن دونوں ہی حیثیتوں میں مطلوب ہے۔ خود شرعکے احکام ’’انسان‘‘ کو بیک وقت ایک ’’فرد‘‘ کے طور پر بھی لیتے ہیں اور ایک
’’سوسائٹی‘‘ کے طور پر بھی۔ احکامِ شرع کا مطالعہ کریں؛ تو یہ بات نصف النہار کی
طرح واضح ہے۔
ادھر ہیومن اسٹ وائرس سے متاثرہ ہمارے ’جدید ذہن‘ کے پیش کردہ
مقدمات کا عملی نچوڑ یہ نکلتا ہے
کہ: یہ ’’اسلام‘‘ مخلوقِ انسانی سے بطورِ فرد individual تو مطلوب ہے مگر بطورِ
جماعت مطلوب نہیں۔
اسلام میں نیا متعارف کرایا جانے والا یہ ڈسکورس... شرعی حقائق سے پہلے عمرانی
حقائق کے ساتھ ہی متصادم ہے؛ چاہے یہ اپنی اس بات کو ’’چونکہ اگرچہ‘‘ کے
کتنا ہی تاؤ دے لیں ۔
حق یہ ہے کہ جس طرح ’’فرد‘‘ کے بیج سے ’’سوسائٹی‘‘ پھوٹتی ہے عین اُسی طرح
’’سوسائٹی‘‘ کی شاخوں پر ’’فرد‘‘ کا بُور آتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک تولیدی تسلسل reproduction cycle ہے؛ اور خدا کی اِس پسندیدہ روش
’’اسلام‘‘ کو بھی زمین میں پنپنے کےلیے ایسے ہی ایک ’’تولیدی تسلسل‘‘ کی ضرورت ہے۔
چنانچہ... خود وہ ’’فرد‘‘ ہی اگر آپ کے پیشِ نظر ہو جس کو پیدا کرانا اسلام کا مقصود ہے (اور جس
پر سردست ہمارے ’اسلامی‘ ہیومن اسٹوں کو بھی اعتراض نہیں؛ بلکہ بادئ النظر ان کا
کل زور ہی ’’فرد‘‘ پر ہے)... تو ایسے فرد کا اچھے پیمانے (mass level) پر پیدا کرایا جانا بھی کسی
ناسازگار ماحول اور کسی فاسد فضا کے اندر ممکن نہیں۔ ’’صالح فرد‘‘ وہ ثمر ہے جو
کسی ’’صالح شجر‘‘ کی ڈالیوںپر ہی نمودار ہوگا۔
نیم کے درخت پر آم آنے کی توقع، کسی بحث یا تبصرے کی محتاج نہیں!
حالیہ ’’سوسائٹی‘‘ آپ کو جس قسم کا ’’فرد‘‘ دے رہی ہے mass-production of individuals وہ اس عمرانی سچائی کا ایک
منہ بولتا ثبوت ہے۔
پس ’’مسلم فرد‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ بیک وقتشرائع کا مقصود ہوں گے اور
دونوں ایک دوسرے کی تولیدreproduction کریں گے؛
شرع و عمران کے سب حقائق اِسی پر شاہد ہیں۔ پھر کیا تعجب کہ کتبِ
عقیدہ میں جگہ جگہ ’’علیکم بالجماعۃ‘‘[i] کی تاکید پائی
جائے اور فرقۂ ناجیہ کا لازمی وصف جو اہل اسلام کے بچے بچے کو یاد کرایا جاتا رہا
’’اھل
السنۃ والجماعۃ‘‘ ہو!
چنانچہ لَا
إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا
إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ[ii] میں بیان ہونے
والی یہ حقیقت درجہ بدرجہ یوں بڑھتی ہے:
1. سب سے پہلے ’’اسلام‘‘ ہے۔ جس کا مطلب ہے: خدا کی خشیت، تعظیم اور چاہت میں
انسان کا اپنا آپ خدا کو سونپ دینا اور اپنے جملہ معاملات اس کی تحویل میں دے دینا بذریعہ
اتباعِ قانونِ رسالت۔ جس کے دو بڑے محور ہیں:
أ) خدا کے آگے تعبد اختیار کرنا بصورتِ سجود و تسبیح و حمد وغیرہ۔ اور
ب) اپنے جملہ انفرادی و اجتماعی معاملات خدا کو سونپنا بصورتِ اطاعت۔
یہ ہے ’’خدا کے آگے ذلت اختیار کرنا‘‘ یعنی
عبدیت؛ جس کی تفصیل وقت کے رسول سے دریافت کی جائے گی۔ یہ ہے ’’عبادت‘‘ جو خدا کے
ہاں قبول ہوتی ہے اور جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔
2. اس ’’اسلام‘‘ اور ’’عبادت‘‘ کے رُو پزیرmaterialize ہونے کی صورت البتہ یہ ہے کہ
بیک وقت یہ فرد individual کی
سطح پر بھی ظہور کرے اور جماعتsociety[1] کی سطح پر بھی؛ ایک کا
دوسرے کے بغیر پایا جانا غیرمتصور ہے۔ اِس:
ý شجرِ اسلام کو ایک ’’جماعت‘‘ کی صورت زمین میں جڑیں گاڑنا ہوں گی۔
اس کے بغیر، خدا کا مطلوبہ فرد کسی بڑی سطح پر پیدائش پاتا رہے، یہ آس رکھنا عبث
ہوگا۔
ý مسلم فرد کو ’’شجر‘‘ سے پیوستہ رہنا ہوگا؛ ورنہ وہ ایک پتنگا ہے جسے
زمانے کی ہوائیں اپنے دوش پر اڑاتی پھریں گی اور زمین پر اس کا کوئی مرکزی کردار
نہ ہو گا۔ نتیجۂ کار؛ خود ’’اسلام‘‘ ہی زمینی عمل کے اندر اپنا کردار رکھنے
کے معاملہ میں معطل ہوتا چلا جائے گا۔
یہ ہوا: لَا
إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ۔
3. جبکہ ’’جماعت‘‘ community ایک
نظم کے بغیر غیرمتصور ہے۔ ایک خاص تصورِزندگی پر قائم[2] ’’سوسائٹی‘‘ کےلیے
لازم ہوگا کہ وہ اپنی ہی طرز کا ایک نظم بھی اختیار کرے[3]؛ ورنہ ’’سوسائٹی‘‘ کی اپنی ہیئتِ
ترکیبی بدل کر رہ جائے گی۔ یہ ہوا: وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا
بِإِمَارَةٍ۔
4. البتہ یہ ’’نظم‘‘ بےمعنیٰ ہے جب تک اُس کی ’’پابندی‘‘ نہ ہو۔ جیسی منفرد دنیا
میں یہ’’جماعت‘‘ community ہے (جوکہ
آسمانی وحی کی بنیاد پر قائم ایک ’’سماج‘‘ ہوتا ہے) ویسی ہی منفرد اس کے ہاں
پائی جانے والی یہ ’’اطاعت‘‘ ہوگی۔ یہ ہوا: وَلَا
إِمَارَةَ إِلَّابِطَاعَةٍ۔
یعنی... خدا کی عبادت اور اطاعت بصورت اتباعِ رسالت:
1. ’’فرد‘‘ کی سطح پر بھی ہونی ہے،
2. ’’جماعت‘‘ (سوسائٹی) کی سطح پر بھی، اور
3. ’’نظم‘‘ کی سطح پر بھی۔
ہمارے اسلامی ہیومنسٹ humanist
زیادہ تر ہمارے ساتھ اِس تیسرے پوائنٹ پر الجھتے ہیں یعنی ’’نظم‘‘ (جوکہ ہمارے
یہاں زیادہ تر ’’امارت‘‘ یا ’’خلافت‘‘ یا ’’امامت‘‘ ایسے الفاظ سے موسوم رہا ہے)۔
خود ہماری اکثر بحثیں ان حضرات کے ساتھ اسی آخری نقطے پر ہوتی ہیں یعنی ’’اسلامی
حکومت‘‘ یا ’’خلافت‘‘ وغیرہ آیا فرض ہے یا نہیں؟[4] جبکہ اس دوران جس اصل
چیز کا گھونٹ بھرا جارہا ہے وہ ہے
’’جماعت‘‘(community)۔ حالانکہ ’’جماعت‘‘ سے متعلقہ
بنیادیں واضح ہوجائیں تو ’’امامت‘‘ کا مسئلہ لمبی چوڑی بحث کا ضرورتمند ہی
نہیں رہتا۔ البتہ اگر ’’جماعت‘‘ سے متعلقہ بنیادیں ہی اذہان سے محو ہوں تو
’’امامت‘‘ کا تصور بالفاظِ اقبالؒ ’دو رکعت‘ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا!
(زیرِ تالیف: ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘
فصل ’’لا إسلامَ إلا بجماعۃ‘‘، شائع ایقاظ جنوری 2014)
[i] ’’علیکم
بالجماعۃ‘‘ حدیث پورے الفاظ کے ساتھ اگلی کسی فصل میں آئے گی۔
[ii] دبستانِ سنت کے ہاں متداول ایک عبارت۔ شریعت کے
امہات الحقائق کی دلالت چونکہ یہی ہے، لہٰذا سلف تا خلف علمائے اہل سنت کا اتفاق
چلا آیا ہے کہ ’’اسلام‘‘ ایسی عظیم الشان حقیقت بغیر ’’ایکا‘‘ (جماعت) اور بغیر
’’جتھہ بندی‘‘ (موالات)، زمینی عمل کے حق میں ایک غیرموثر و ناتمام چیز ہے؛
یہاں تک کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا لفظ فرقۂ ناجیہ کے وصف کا باقاعدہ حصہ قرار پا کر
رہا (أھل السنۃ والجماعۃ)۔
’’الجماعۃ‘‘ کے موضوع پر احادیث وآثار ایک الگ فصل میں آئیں گے، ان شاء اللہ۔
[1] اِس
’’مسلم سوسائٹی‘‘ (جماعۃ المسلمین/دارالاسلام) کا
مطلب یہ نہیں کہ اس کی سرزمین میں غیر مسلم نہیں پائے جائیں گے اور اگر ہوئے تو نکال دیے جائیں گے! جس طرح ایک ’’غیر مسلم سوسائٹی‘‘
(دارالکفر) کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں مسلم نفوس نہیں پائے جا سکتے۔ خود نبوی
معاشرہ جوکہ ’’اسلامی سوسائٹی‘‘ کی اعلیٰ ترین و مثالی ترین صورت ہے، اس میں کفار
کی اچھی خاصی تعداد بستی اور بہت سے حقوق سے فیضیاب رہتی تھی۔ پس دیکھنا یہ ہوتا
ہے سوسائٹی اپنے ’’اجتماعی ومجموعی ارادے‘‘ general and overall will میں آیا خدا کی طلب پر پورا اترنے کی
روش اپنانے والی ہے، یا خدا کی رسالت سے انکاری، یا اس سے غافل؟ اگر وہ اس
پر پورا اترنے والی ہے تو ایسی ’’الجماعۃ‘‘ کا ’’لزوم‘‘ کیا جائے گا۔ اس سے
انکاری ہے تو اسے ایمان کی دعوت دی جائے گی۔ اس سے غافل ہے تو اس کو ایمان تذکیر
کی جائے گی۔
[2] ’’تنظیمی‘‘ و’’تشکیلی‘‘
نظم کے مابین فرق:
’’نظم‘‘ دو صورت پر ہوتے ہیں:
1) ایک، جو سوسائٹی کے ضبط و نسق تک محدود ہو؛ سوسائٹی کی تشکیل کرنے
سے اُسے کچھ خاص تعلق نہ ہو۔ تاریخ میں ہماری شرق تا غرب پھیلی ’’جماعۃ المسلمین‘‘
کے اندر جو بہت سے راجواڑے (ملوک الطوائف) پائے جاتے رہے، وہ سب اِسی زمرے میں
آئیں گے۔ دنیا کے ایک بڑے حصے میں، زمانۂ ماضی کی بہت سی حکومتیں/بادشاہتیں جنہیں جاہ و جلال، غلبہ و سیادت اور شخصی یا خاندانی یا طبقاتی ٹھاٹ
باٹ کے سوا کسی خاص چیز سے غرض نہ ہوتی تھی، بڑی حد تک اِسی خانے میں آئیں گی۔
2) دوسرا، جو سوسائٹی کی تشکیل کرتا اور یہاں عقول و کردار کو
باقاعدہ ایک ساخت دیتا ہو۔
سوسائٹی کا ’’نظم‘‘ کسی نہ کسی شکل میں اپنی اِن
دونوں اقسام کے ساتھ بیک وقت پایا جاتا ہے۔ کہیں یہ الگ الگ ہوتا ہے (جیسے پرانے زمانے میں
بالعموم ہوتا رہا) اور کہیں یکجا (جیسا کہ ’’جدید ریاست‘‘ میں)۔ بہت کم لوگ اس جانب توجہ دیتے ہیں کہ ’’ریاست‘‘
اپنی جدید شکل میں ’’تشکیلی‘‘ نظم پہلے ہے اور ’’انتظامی‘‘ بعد میں۔ جب یہ ایک
’’تشکیلی‘‘ نظم ہے، یعنی وہ چیز جو انسان کو ’’چلانے‘‘ سے پہلے انسان کی ’’ساخت‘‘
کرے گی، تو پھر جدید ریاست ایک باقاعدہ ’’سماجی عقیدہ‘‘ ہوتی ہے۔ غور کرنے والے اس
حقیقت میں ذرہ شک نہ پائیں گے۔ اس لحاظ سے، ان لوگوں کی فنکاری لاجواب ہے جو تجاہلِ
عارفہ سے کام لیتے ہوئے پہلے مرحلے میں ’جدید ریاست‘ نامی فنامنا کو ایک بےضرر چیز
ثابت کرتے اور اس کے فارمیٹ کو دورِ حاضر کے تمام انسانی معاشروں پر لازم لازم
ٹھہراتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں اسلام کو اس ’’ریاست‘‘ سے بےدخل ٹھہرانے پر علمی
زور صرف کرتے ہیں۔ یہ ہیومن اسٹ سوسائٹی کی تشکیل کےلیے ’مسلمان‘ کا مکر و فریب پر
مشتمل ایک باقاعدہ علمی شکار ہے۔ الا یہ کہ یہ لوگ ’جدید ریاست‘ کے مضمون و مقصود سے پوری طرح واقف نہ ہوں، جوکہ لگتا نہیں۔
اب جب ’’نظم‘‘ کی یہ دونوں صورتیں واضح ہوئیں، تو جاننا چاہئے: مسلم معاشرے کی علمی قیادتیں (جنہیں ہم ائمۂ سنت کہتے ہیں) ’’نظم‘‘ کی پہلی
صورت کے معاملہ میں خاصا خاصا سمجھوتہ compromise کرنے تک چلی جاتی رہی ہیں۔ یہاں ’آئیڈیل ازم‘
کبھی ائمۂ سنت کا طریقہ نہیں رہا۔ ’ڈکٹیٹرز‘ (سلطانِ متغلِّب) تک احکامِ اضطرار
کے تحت قبول ہوتے رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک ’’نظم‘‘ کی دوسری صورت کا تعلق ہے،
تو یہ ائمۂ سنت کی سعی کا ایک بہت بڑا محور رہا ہے؛ اور یہاں البتہ ایک ایک چپے
کےلیے تگ و دو ہوئی ہے۔
ناممکن ہے کہ ایک سوسائٹی میں نظم کی یہ دونوں صورتیں کسی
نہ کسی انداز میں بیک وقت کارفرما نہ ہوں۔ البتہ ان دونوں کے مابین فرق کرنا ضروری ہے۔ ’’نظم‘‘ یا ’’ریاست‘‘ کے حوالے سے ہمارا
اپنا موضوع زیادہ تر یہ ’’تشکیلی نظم‘‘ ہی ہوتا ہے؛ اور اِس
کتابچہ میں بھی ایسا ہی رہے گا؛ کیونکہ یہ ’’انسان‘‘ کی ’’تولید‘‘ ہی سے
متعلق ہے۔ خارج میں زیادہ سے زیادہ ایسا ماحول رکھنا جو انسان کی اُس فطرت کو مسخ
نہ ہونے دے جو وہ خدا کے پاس سے لے کر آتا ہے اور جو اپنی نہاد میں صرف خدا کی
عبادت گزار (مسلم) ہے، شریعت کے بےشمار مسلمات سے ثابت ہے۔
’’تشکیلی نظم‘‘ جو آج ایک بیرونی تاثیر کے تحت ہماری سوسائٹی پر پوری قوت کے
ساتھ مسلط کیا جارہا ہے، یہاں تک کہ وہ
ہمارا تہذیبی وعقائدی مسخ کر رہا ہے، ہماری محولہ کتاب کی فصل ’’انتظامی اور
تشکیلی جبر‘‘ نیز فصل ’’ریاست ایک جبر یا دھونس:: جماعۃ المسلمین بہ موازنہ ماڈرن
سٹیٹ‘‘ میں قدرے تفصیل کے ساتھ زیربحث آیا ہے۔
[3] ’’تشکیلی‘‘
معنیٰ میں تو یہ ہر حال میں فرض ہوگا۔ اس کے بغیر تو مسلم سوسائٹی کی موت ہے۔ جبکہ
مسلم ’’فرد‘‘ اس کے بغیر یتیم۔ اس حالتِ یتیمی میں؛ آپ دیکھیں گے، آپ کے اچھے اچھے
’دین دار‘ دماغ ایک غیرمحسوس تاثیر کے تحت بیرونی ہواؤں سے متاثر inspired ہوئے جاتے ہیں؛ اور روز کوئی نیا وائرس لے کر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ
اس دور ِیتیمی میں؛ آپ ملاحظہ فرمائیں گے، ’’قرآن کی تفسیر‘‘ ایسےایسے رنگ
اختیار کرنے لگی جو امت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی سوچنے میں نہ آئے ہوں۔ یعنی
آپ کا فرد تو فرد؛ آپ کے ’’اسلام‘‘ کی ایک نئی ساخت ہونے لگے گی؛ اور چند عشروں
میں آپ (نعوذ باللہ) ایک ’’نئے اسلام‘‘ سے متعارف ہونے لگیں گے۔ غرض یہ تشکیلی جبر
جو ایک (کالطود العظیم) تعلیمی، ابلاغی،
اداریاتی و تقنینی legislative ذریعے سے انجام
پاتا اور دماغوں کو اپنے مخصوص سانچوں میں کَستا اور سوچ کے دھارے تشکیل دیتا ہے؛
اور جوکہ ’’نظم‘‘ کی ایک اعلیٰ تر و مؤثرتر صورت ہے... ’’فرد‘‘ کی پیداوار
دینے والی اِس خودکار دیوہیکل مشین کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور اس کو کسی صالح
مشین سے تبدیل کردینے کی ضرورت سے انجان بنتے ہوئے، یہاں ’’فرد فرد‘‘ کی گردان
کرتے چلے جانا کسی واردات کا پیش خیمہ ہے۔
[4] اس موضوع پر تفصیل کےلیے آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں: ہماری محولہ کتاب کی
فصل: ’’جماعت فرض تو امامت خودبخود ضروری‘‘۔