’’فرد‘‘ کو نظرانداز کرکے ’ملک
و ملت‘ کے رونے۔
یا ’’جماعت‘‘ کو پس پشت ڈال کر ’فرد‘ کی اصلاح۔
دونوں... غیرحقیقی روش
ہیں۔
’’فرد‘‘ اور ’’ملت‘‘ لازم
و ملزوم ہیں۔
ایک اسلامی ریاست آپ کی
کوئی معمولی ضرورت نہیں... نام کی نہیں بلکہ حقیقی اسلامی ریاست؛ جس کا سب سے بڑا دردِسر دنیا میں اسلام کا
مطلوبہ فرد پیدا کرنا اور اسلام سے متصادم عوامل کو معاشرے کی سرزمین سے پوری قوت
کے ساتھ تلف کردینا ہو؟ شرعِ اسلام کی محافظ، ملتِ شرک سے بیزار، ایک مقتدر ریاست کی ضرورت سے انکار؛ چہ
معنیٰ؟
’’گردوں‘‘ اسلامی نہیں تو ’’فرد فرد‘‘ کی
پکار؛ چہ مطلب؟
’’فرد‘‘ گویا کوئی پلاسٹک کا پودا ہے جو ہر جگہ
اور ہر موسم میں ہرابھرا رہ سکتا ہے اور جس کےلیے ’موسم‘، ’مٹی‘ اور ’آب وہو‘ کچھ لایعنی
و غیرمتعلقہ اشیاء کا نام ہے!
کون نہیں جانتا، باہر جو
آندھیاں چل رہی ہیں وہ ’’اخلاق‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کی دیرینہ تعمیرات تہِ خاک کرنے کے لیے ہی
اٹھائی گئی ہیں۔ اور کون نہیں جانتا، یہ جھکڑ مسلسل تیز ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
آپ کو ان آندھیوں کی باقاعدہ خبر لینا تھا؛ کسی فرد کی سطح پر
نہیں بلکہ ایک قوم، ایک ملک اور ایک ریاست کی سطح پر۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست کسی
لگژری luxury کا نام
نہیں؛ اس کے بغیر آپ کے فرد کو ایسے ہی کسی
حشر کا منتظر ہونا چاہئے تھا۔ پھر
بھی تعجب فرمایا جارہا ہے کہ فرد اخلاقی پستی کی اِس خوفناک حد کو کیوں جاپہنچا!
حضرات! تعجب یہ کیوں نہیں کرتےکہ آپ کا یہ فرد اس سے بھی گہرے پاتال میں جاگرنے سے اب تک بچا کیسے رہ گیا؟! وہ زہرآلود
فضائیں جو دو صدی سے اِس ’’فرد‘‘ کو
سانس لینے کے لیے یہاں مہیا ہیں، زہر کا یہ خوش اثر فارمولہ کسی لیبارٹری نے
’’قدروں‘‘ کو تلف کرنے کے لیے ہی ایجاد کیا ہے! دو سو سال آپ کے ہاں یہی ’قرض کی مے‘ چلی اور اس ’آبِ حیات‘ کو ایک سے ایک بڑھ کر نام دیا گیا۔ تاآنکہ جب یہ نشہ عروج کو پہنچا،
اور آپ کی وہ ’فاقہ مستی‘ رنگ لے آئی، تو وہی دانش ور آج ’’فرد‘‘ کو درپیش ’اخلاقی
بحران‘ اور ’سماجی پستی‘ کے رونے رونے لگے!
اِن نکتہ وروں کے خیال میں
’’فرد‘‘ گویا وہ چیز ہے جس کو اس زہرناک فضا کا کوئی اثر لیے بغیر اُسی تسلسل کے ساتھ ماحول میں
خیر اور بھلائی کے ڈھیر لگاتے چلے جانا چاہئے تھا! مگر چونکہ ایسے معجزے اور
کرامات ایک معاشرے میں اس بہتات کے ساتھ نہیں ہورہے تو اِس کو یہ اربابِ دانش
’فرد‘ کا بحران کہیں گے جس کا ذمہ دار بھی یہ ’فرد‘ بیچارہ خود ہے؛خارجی صورتحال اور
اس کے زہریلے اثرات کو اس کی ذمہ داری اٹھوانا اِن دیدہ وروں کی نظر میں ایک سخت
غیرعلمی رویہ ہے!
تو گویا ’’فرد‘‘ ہی اب وہ دستیاب زمین ہے جس سے
بدی اور معصیت کا پورا ایک جنگل تلف کر ڈالنا اور وہیں سے نیکی اور بھلائی کی پوری
پوری فصل لے آنا دین کا مطلوب ومقصود ہے! بغیر یہ دیکھے کہ ’’فرد‘‘ کی افزائش کے
لیے یہاں جو زمین اور جو فضا مہیا کررکھی گئی ہے اُس کا اپنا اقتضا کیا ہے۔ ایک
ایسے ماحول میں صالحین کا پہلا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہاں کے موسموں کی خبر لیں؛
زمین اور فضا کو سونپ رکھے گئے اُس فاسد فنکشن کے آڑے آئیں جو یہاں معصیت کی
پیدائش اور افزائش کرتا ہے۔ ان عوامل کو ہاتھ میں کریں جو یہاں موسموں اور فضاؤں
کی تشکیل کرتے ہیں۔ یوں ایک نظریاتی وسماجی گھمسان سے گزر کر زمین اور فضا کا ہی
وہ طبعی کردار بحال کرائیں جو خدا کا مطلوبہ انسان پیدا کرنے کے لیے زمین میں
درکار ہے۔ (اللہ پر توکل کرتے ہوئے) یہاں یہ گھاٹی گزرے بغیر چارہ تھا اور نہ ہے۔
انبیاء کی اصل اتباع تھی تو وہ یہ : یعنی ایک صالح عمل کی پرورش کے لیے ’’انسان‘‘
کو زمین اور فضا صاف کرکے دینا (جس کے بعد ہی لوگوں کا معاملہ ان کے ذاتی چناؤ پر
چھوڑا جاتا ہے)۔ البتہ ’’زمین‘‘ اور ’’فضا‘‘ سے دستبردار ہوکر ’’فرد‘‘ کی افزائش
کے لیے کسی مصنوعی incubators پر آجانا کوئی ’’منہج‘‘ ہی
نہیں ہے (اس کا صحیح یا غلط ہونا تو بہت بعد کی بحث)، اگرچہ ایسے کسی غیرطبعی عمل
کے نتیجے میں بیس کروڑ کے ایک ملک میں __ بڑی
محنت کے بعد __ چند لاکھ افراد پیدا کیوں نہ کرلیے
گئے ہوں۔
معاشرتی عوامل کو ہاتھ میں کرنا اور ان کو
مقاصدِ حق کے تابع لانا ضروریاتِ عقل و ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اِس انتظام کی ایک واضح
ترین صورت اور سطح بلاشبہ ’’ریاست‘‘ ہی ہے؛ خصوصاً آج کے دور میں۔ یہ حقیقت نظر سے
اوجھل ہو تو ’’فرد فرد‘‘ کی گردان ایک برفانی علاقے کا پودا گرم استوائی خطے میں
کاشت کرنے سے مختلف نہ ہوگی! ایک غیر معمولی لاگت اور کچھ غیرطبعی انتظامات کے
نتیجے میں؛ آپ ایسے کسی ’تجربہ‘ میں کامیاب ضرور ہوجاتے ہیں مگر اس کو آپ ’’کھیپ‘‘
نہیں کہتے۔ ماحول کے مقابلے پر؛ وہ کوئی اِکا دُکا نحیف ولاغر پودا ہی ہواکرتا ہے
جو بالعموم ’دیکھنے‘ کے کام آتا ہے نہ کہ ’’پھل‘‘ دینے کے! البتہ کسی بڑے پیمانے
پر اُس کی فصل لینا جو قوموں کا پیٹ بھرسکے ناممکنات میں رہتا ہے، جبکہ ’’معاشرے‘‘
جس فصل پر انحصار کرتے ہیں وہ ایک ’’کھیپ‘‘ کا نام ہے! اور بلاشبہ وہ کھیپ mass-production بڑی
کامیابی کے ساتھ یہاں ہو رہی ہے جس کو ہم نظر اٹھا کر دیکھنے کے روادار نہیں، اور
جس کے مابین کچھ خال خال پودے ’اسلامی‘ صورت کے کاشت کرلینے کو ہی ’’دین کا کام‘‘
سمجھتے ہیں!
تبلیغی جماعت، ایک قابل فخر اور
بسا غنیمت جماعت، معاملہ کو کھول دینے کےلیے آپ کے سامنے ایک واضح مثال ہے۔ یہ خدا
کا خاص فضل تھا جو ایسے جذبے کا ایک بھاری بھرکم گروہ ان دگرگوں حالات کے اندر مسلمانوں کو میسر آیا؛
ورنہ ’’ریاست‘‘ کی غیرموجودگی میں مسلمانوں کا جو حشر ہوتا وہ ناقابل اندازہ ہے۔ نصف
صدی پر محیط ایک شبانہ روز تبلیغی محنت کے نتیجے میں، جوکہ تقریباً انسانوں کے بس
میں نہیں ہوتی، کروڑوں کے ایک ملک میں چند لاکھ افراد بلاشبہ پیدا کر بھی لیے گئے۔
جو اپنی جگہ ایک حیران کردینے والا واقعہ ہے۔ پھر بھی صالحین کی اس تمام تر ترقی
کے متوازی، معاشرے میں بدی اور الحاد کا گراف جس کامیابی کے ساتھ اوپر گیا ہے اور
مسلسل جا رہا ہےوہ کس ’نتیجے‘ کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ عام فرد بیچارہ جوں کا توں
الحاد کے پنجوں میں گرفتار، اور سے اور بے بس، فکر آخرت سے مسلسل دور ہوتا چلا
جارہا ہے؛ اور گناہوں کے مقابلے میں اس کی مزاحمت اور سے اور جواب دیتی جارہی ہے۔ شر کا یہ کامیاب اور موثر پھیلاؤ آخر کس بات کی
نشاندہی کرتا ہے؟ باوجود اس کے کہ ’’انفرادی‘‘ سطح پر ہمارے پاس تبلیغی جماعت ایسے
عظیم الشان بندوبست بھی موجود ہیں؟ حضرات! برائی کی یہ خوفناک ترین سطح تو معاشرے
میں اس وقت نہ دیکھی گئی تھی جب استعمار یہاں
بنفس نفیس موجود تھا۔
’معاشروں‘ کی ساخت بے شک جاہلیت کے ہاتھ میں رہے
لیکن ’فرد‘ کی ساخت یہاں آپ صالحین کے ہاتھوں انجام پاتی رہے گی، اس سے بڑھ کر
’خواب آور‘ فکر آج تک دنیا میں دریافت نہ ہوئی ہوگی!
(تفصیل کےلیے: ’’اصلاحِ فرد کیلئے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘،
اداریہ ایقاظ جولائی 2012)