Hamid Kamaluddin
Eeqaz
دبستانِ جدید اور "فردپرست" رجحانات
یہاں اب وہ ’دبستان‘ آتا ہے جس کا کہنا ہے ’’امت‘‘ یا ’’جماعت‘‘ نام کی دین میں کوئی چیز نہیں۔ یہاں کوئی کالا چور آئے (آئے مگر جمہوری طریقے سے اگر وہ اندر کا آدمی ہے۔ اور اقوامِ متحدہ کے ’قوانینِ مقدسہ‘ جپ کر، اگر وہ بیرون سے آکر ہمارے کسی خطے کو تاراج کرنا چاہے) دین کو اس سے کیا! اور اگر رسول اللہﷺ اور صحابہ ؓسے ایسے بعض امور سے سروکار رکھنا ثابت ہے تو اس کا تعلق ’اتمامِ حجت‘ سے ہے جو چند سالوں میں آپ اپنی موت مرگیا تھا! یہاں تک کہ اس ’اتمام‘ کا وثیقۂ وفات بھی یہ دبستانِ علمی آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہے!
اب قیامت تک البتہ اسے ایک ’فرد‘ کے طور پر رہنا ہے۔ اِس پتنگے کو کفر کی آندھیاں جیسے مرضی اڑائیں، یہودی منصوبہ ساز کی کوئی سوچی سمجھی پھونک ڈیڑھ ارب کے اِس بھُس کو لمحوں میں دھول بنادے؛ اس پر ’’جتھہ بند ہونے‘‘ کی کوئی ایسی صورت جو ’’بلاک‘‘ کی صورت میں اس سے عمل کروائے، فرض نہیں۔ بلکہ نفل تک نہیں۔ بلکہ فساد ہے۔’’امت‘‘ اور ’’وحدت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ کے طور پر اسکو دیکھنا ایک علمی مغالطہ ہے جو نجانے کہاں سے اذہان میں پرورش پاگیا ہے۔ یہ ایک تنکا ہے جس کو دنیا کے نظام ہائے تعلیم وابلاغ جس انداز کی پھونک سے چاہیں اور جس رخ پر چاہیں اڑائیں اور جیسے چاہیں اس کی ساخت کریں۔ یہ کوئی مستحکم چٹان نہیں جس کے اجزاء باہم مل کر اس کو آندھیوں کے مقابلے میں ناقابل تسخیر وناقابل تبدیل بنائیں! بلکہ اِن ’تنکوں‘ کو خاص اپنی ایک ترتیب سے جڑ کر کوئی دینِ کمیونزم یہاں اپنا آشیانہ بنالےیا کوئی دینِ سرمایہ داری اِن ’روڑوں‘ سے اپنے محلات تعمیر کرتا پھرے، ’مذہب‘ کو اس سے کیا لینا دینا! یہاں صاف صاف، دین ہے ہی افراد کے لیے نازل ہونے والی ایک چیز؛ اس کو امتوں اور معاشروں کی سطح پر دیکھنا ’قرآن سے ناواقفیت‘ کی دلیل ہے؛جبکہ قرآن کو سمجھنے کے لیے جو کلید درکار ہے وہ صرف اِس دبستان سے دستیاب ہوتی ہے!