کیمپوں
کا فرق.. بنی
اسرائیل تا امتِ محمدؐ
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کو ’’کتاب‘‘
دیے جانے کا تکرار کے ساتھ ذکر آتا ہے۔
’’کتاب‘‘ جس کا مطلب صرف book نہیں بلکہ legislation بھی ہے، یعنی (law):
(كُتِبَ
عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى)... نیز (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ
لَكُمْ)
’’کتاب آسمانی‘‘ رکھنے کے حوالے
سے قرآن مجید میں ہمارے لیے ’’بنی اسرائیل‘‘ کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے؛ جو
بلاوجہ نہیں۔ پھر ہمیں شریعت دیے جانے کے واقعہ کو بنی اسرائیل کو شریعت دیے جانے
کے واقعہ کے ساتھ کئی انداز میں جوڑا جاتا ہے۔ بلاشبہ ہماری شریعت بنی اسرائیل کی
شریعت سے کہیں زیادہ جامع اور وسیع ہے۔
’’شریعت‘‘ (law)
ایک ایسی چیز ہے جس کو رو بہ عمل
آنے کےلیے زمین پر ایک مستقل بالذات سماجی اکائی an independent
social entity درکار ہوتی
ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی تمام تر تاریخ ’’کیمپوں‘‘ کا یہ فرق برقرار رکھا جاتا
ہے۔ اس میں کسی درجے کا تعطل بےشک آجاتا رہا جس کا کلائمیکس climax بنی اسرائیل کا دورِ اسیری ہے (انبیاء کے اُن کے
مابین ہوتے ہوئے اُن پر یہ تعطل آیا)، جس کے بعد پھر ان کا شیرازہ کسی سطح پر جمع
کیا گیا۔ البتہ ایک عمومی تاریخی خط اِسی کیمپوں کی سطح پر چلتا رہا۔ ’’کیمپوں‘‘ کا عین یہی فرق امتِ محمدؐ
میں بھی صدیوں برقرار رکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ کسی درجے میں آج بھی ہے، گو آج کی یہ
صورتحال کسی درجے میں بنی اسرائیل کے دورِ اسیری سے مشابہ بھی ہے۔
رسول اللہﷺ کی یہ حدیث ان دونوں امتوں کے مابین اُس
تاریخی مماثلت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا تعلق ’ایک آدھ نسل‘ سے نہیں بلکہ
’’صدیوں کے عمل‘‘ سے ہے۔ یہ وہ حدیث ہے جس میں نبیﷺ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے
امورِ سیاست انبیاء کے ہاتھوں انجام پاتے رہے؛ ایک نبی دنیا سے جاتا تو اس کی جگہ
نبی ہی لیتا، مگر آپﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں مگر خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔
ظاہر ہے بنی اسرائیل کی تاریخ 30 سال کی
نہیں؛ پورے ڈیڑھ ہزار سال پر محیط ہے!
غرض ’’کتابِ آسمانی‘‘ کے ماننے والوں اور اس کے
منکروں کے مابین ’’کیمپوں‘‘ کی یہ تقسیم
نہ صرف حقائقِ شریعت سے بلکہ تعاملِ قرنِ اول سے اس قدر واضح ہے اور اس زور اور
تسلسل کے ساتھ چلی اور خطوں کے خطے اپنے اندر ضم کرتی گئی ہے کہ ’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ فقہاء کےلیے بدیہیات کا
درجہ رکھتے ہیں؛ اگرچہ مستشرقین سے ہیومن ازم humanism کی بھاری بھاری
خوراکیں لینے والوں کی نظر ان حقائق کو دیکھنے سے نابینا ہو۔
ادنیٰ غور و تامل سے یہ بات سمجھ آتی ہےکہ زمین پر
’’اتباعِ شریعت‘‘ کا عمل اِس سطح پر ہونا اہل زمین کے حق میں کس قدر ضروری ہے۔ اہل ہدایت اور اہل ضلالت کی تمییز اس سطح پر
کردی جانا... کہ ہردو طرف کا بچہ بچہ اس فرق کی بابت سوچنے کا داعیہ پائے۔ (کیمپوں کا یہ فرق
ملیامیٹ کردیا جائے تو دو فریقوں کا یہ
فرق فلسفہ بن کر رہ جاتا ہے)۔
ہاں ’’کیمپوں‘‘ کا یہ فرق قائم ہو تو روئےزمین کا ایک ادنیٰ
صلاحیت کا آدمی بھی یہ رات دن کا فرق محسوس کیے بغیر نہیں رہتا؛
یوں یہ چیز اقامتِ حجت میں خوب مددگار رہتی ہے۔ ’’کتاب‘‘
رکھنے والے بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی اور ’’کتاب‘‘
رکھنے والی امتِ محمدؐ کی تاریخ میں بھی ’’کیمپوں‘‘ کا یہ فرق ایک
خاصے بڑے خطے میں آفتابِ نصف النہار کا کام دیتا رہا۔ توحید و شرک (عبادتِ خداوندی
اور عبادتِ شیطان) کا فرق ایک عام آدمی کی سطح پر نمایاں ترین رکھنے میں یہ واقعہ کمال اثر دیتا رہا ہے۔ ہمارے نبیﷺ کی
رسالت چونکہ عالمی ہے؛ نیز خاتمی ہے؛ لہٰذا ’’کیمپوں‘‘ کا یہ فرق اِدھر صدیوں روئےزمین کی سطح کا واقعہ بنا کر رکھا گیا۔ کئی پہلوؤں سے بفضل خدا یہ آج بھی برقرار ہے؛ جسے
واپس اس کی اصل پر لے جانے کےلیے امت کے صلحاء ایک بڑی تعداد میں مصروفِ عمل ہیں۔
یہ طائفۂ منصورہ ہیں، جو غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ البتہ اِس آزمائش سے سرخرو ہو
کر (جبکہ ایسی آزمائشیں بنی اسرائیل کی تاریخ میں انبیاء کے ہوتے ہوئے آتی رہیں)،
ان شاءاللہ یہ طائفہ امت کےلیے خدا کی مدد کا ذریعہ بننے والا ہے۔