علیکم بالجماعۃ
معاشرے میں پنپنے
والے رویے، اخلاق، اقدار سب کا تعلق بڑے قوی طور پر اسی ’’جبر‘‘ سے ہے جسے دورِ حاضر میں آپ
’’ریاست‘‘ کہتے ہیں۔
تھوڑے لوگ ہمیشہ بڑی بڑی آبادیوں کو رخ دیتے ہیں۔ ’مجمعے‘ کسی نہ کسی کا زیرنگر ہوتے ہیں!
’اکثریت‘ ہمیشہ ایک ’’سرپرستی‘‘ کے تابع رہی ہے؛ اور اس کی بقاء و استمرار اسی
’’سرپرستی و جبر‘‘ کی مرہونِ منت۔ اس سے کوئی مفر ہے ہی نہیں۔
اُس ’مجمعے‘ کی خوش قسمتی؛ اگر اس کی مہار تھام رکھنے والا ’’جبر‘‘ حق[1] پر قائم اور اللہ ویومِ آخرت کا
مومن ہے۔ اُس ’مجمعے‘ کی بدقسمتی؛ اگر وہ ’’جبر‘‘ باطل کا پیرو اور خلود و عُلوٌ فی
الارض کا طلبگار ہے۔ لیکن اِس ’’جبر‘‘
کے بغیر آج تک کوئی سوسائٹی
نہیں دیکھی گئی؛ خواہ وہ ’’جبر‘‘
صریح اور صاف گو ہواور خواہ ’جمہوریت‘ ایسے کسی بہروپ میں۔ خوش سلیقہ ہو یا
پھوہڑ۔ نرم رُو ہو یا سخت
گیر۔ انسانی معاشروں کو کسی نہ کسی درجے کا ’’جبر‘‘ درکار رہتا ہے خواہ اس حقیقت
کو آپ جتنا بھی گھما پھرا لیں!
اِسی ’’جبر‘‘ کا نام آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ ہے؛ اور قطع
نظر اس سے کہ اس کی صورت یا اس کی سیرت کیا ہو، یہ ایک انسانی ضرورت ہے۔ یہ اگر آپ نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا کرے گا۔ یہاں ’’خلاء‘‘ پایا ہی نہیں جاسکتا۔ البتہ سوسائٹی
میں پیدا ہونے والے بہت سے رویے اس چیز سے
براہِ راست متعلق ہو جاتے ہیں کہ یہ ’’جبر‘‘ وہاں پر کیا صورت اور کیا سیرت رکھتا
ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یہ ’’جبر‘‘ سوسائٹی کے انتظام تک محدود نہیں
رہتا بلکہ سوسائٹی کی تشکیل تک چلا جاتا ہے۔یہاں سے؛ ہر وہ نظریہ جو سوسائٹی کی تشکیل کرنے پر یقین
رکھتا ہے، اِس مسئلہ کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں متعلقہ ہوجاتا ہے۔ یا وہ
’’جبر‘‘ کرے گا یا اس پر ’’جبر‘‘ہوگا؛ تیسری کوئی
صورت نہیں۔
سوسائٹی کو رخ دینے پر یقین رکھنے والا ایک نظریہ پس اِس ’’جبر‘‘ سے
لاتعلق رہ ہی نہیں سکتا خصوصاً اگر وہ ’’جبر‘‘ جو اِس وقت سوسائٹی پر حاوی ہے سوسائٹی
کے انتظام تک محدود نہیں بلکہ سوسائٹی کی تشکیل کرنے میں لگا ہے؛ یہ اگر غیر صالح ہے
تو بالآخر یہ آپ کے بچے کی نماز اور حیاء تک کا کام تمام کرکے رہے گا۔ کیونکہ یہ
سوسائٹی کو ڈیزائن ہی اس طرح کرے گا جہاں آپ کے نونہال کی نماز اور حیاء کےلیے اس
کی مزاحمت دشوار سے دشوار تر ہوجائے؛ اور آخر دم توڑ جائے۔ پس معاشرے میں
پنپنے والے رویے، اخلاق، اقدار سب کا تعلق بڑے قوی طور پر اِسی ’’جبر‘‘ سے ہے جس
کو آج آپ ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں؛ یہ ’’جبر‘‘ اگر اللہ
و یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور انبیاء سے اِعراض پر کھڑا ہے (جوکہ فساد فی
الارض کی بدترین صورت ہے) تو معاشرے میں آپ جتنی بھی ’نیکی کی تبلیغ‘ کرتے
رہیں آپ کا وہ سب وعظ (کچھ خواص کو چھوڑ کر)
ایک عمومی سطح پر بےاثر رہے گا؛ جیسا کہ اس وقت آپ بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ اور اگر یہ
’’جبر‘‘ اللہ و یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا اور رسالتِ آسمانی کا پابند ہے تو سوسائٹی میں ہر طرف پھول کھلیں گے اور آپ کی
تھوڑی سی ’تبلیغ‘ بھی یہاں ڈھیروں اثر دکھائے گی؛ لوگوں کے ایمان اور اخلاق
پر حملہ آور بہت سے فتنے تب ’’ریاستی
مزاحمت‘‘ کا سامنا کریں گے اور بہت سی نیکی ’’قوتِ نافذہ‘‘ کے حرکت میں آنے
سے پہلے ’’تعلیم‘‘ اور ’’ابلاغ‘‘ کے ذریعے ہی نفوس میں انڈیل
لی جائے گی۔ اِس لحاظ سے وحیدالدین خان اور ان سے وابستہ دبستان کا ڈِسکورس جو
صالحین پراِس ’’امامت‘‘ کو فرض نہیں
ٹھہراتا اور اِس کو صالحین کے معاشرے میں سرگرم ہونے کے اہم ترین میدانوں میں نہیں
گنتا بلکہ طریقوں طریقوں سے اس کی حوصلہ شکنی کرتااور اس کو دین میں ایک تجاوز
قرار دیتا ہے، کچھ واضح شرعی و عمرانی حقیقتوں کے ساتھ تصادم ہے اور ایک کھلا
مکابرہ۔
یہ جبر جس کو آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ کہا جاتا ہے ، اِن حضرات
کے ہاں معاشرے کو رخ دینے کے دعویدار ہر نظریے کے حق میں آج تسلیم ہوتا ہے سوائے
اسلام کے!
ہمارے بہت سے ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کی نظر میں یہ ’’جبر‘‘ سو
فیصد جائز اور برحق ہے سوائے جب ’’اسلامی امارت‘‘ کی بات ہو؛ ہاں اُس وقت یہ
’’جبر‘‘ حرام ہوجاتا ہے!
یہ ’’جبر‘‘ جو ’جدید ریاست‘ آزما رہی ہےتاریخ کا بدترین جبر ہے؛ کیونکہ
’’جبر‘‘ کو اتنی ’’سائنٹیفک‘‘ بنیادیں کبھی دی ہی نہ گئی تھیں۔ دماغوں کو زنجیروں
میں کس دینے کے ایسے حیرت انگیز کمالات اس سے پہلے کبھی دیکھے نہ گئے تھے۔ اِس کا جبر ہزارہا پہلو
رکھتا ہے جو آپ کے بچے کی درسی کتاب یا ٹی وی میں دیکھے جانے والے (بظاہر
معمولی) کارٹون کے مندرجات سے لے کر یو این کی جنرل اسمبلی میں زیربحث کسی
پروگرام تک کڑی در کڑی جڑا ہوا ہے۔ پورا کرۂ ارض آج ایک مخصوص
عالمگیر ایجنڈا کی جکڑ میں ہے؛ یہاں کے سب تعلیمی، ابلاغی، معاشی، سیاسی، ثقافتی
قضیے ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں اور اس بنیاد پر ایک ہی ’’جامع‘‘ حل چاہتے
ہیں۔ نیز ان قضیوں کی مقامی جہتیں یکایک ان کی عالمی جہتوں سے جا ملتی ہیں اور ان
کی عالمی جہتیں بےساختہ یہاں گلی محلوں کی
سطح پر بولنے لگتی ہیں؛ چنانچہ ان میں سےایک ایک قضیہ بیک وقت مقامی بھی ہے اور
عالمی بھی۔ یہاں سے؛ اِس ’’جبر‘‘ کے مقابلے پر ہماری ’’الجماعۃ‘‘ (’’مسلمانوں
کی مقامی و عالمی وحدت‘‘) اور بھی متعلقہ ہوجاتی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈکوں
کا جو ’کردار‘ ہوسکتا ہے وہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ یہاں لامحالہ آپ کو ’’ہاتھیوں‘‘
کی سطح پر آنا ہے؛ ورنہ آپ کا انجام نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کےلیے:
1.
ایک تو آپ کا
اپنا پیکیج بھی جامع ہونا چاہئے؛ کیونکہ آپ کو اگر محض کوئی ایک آدھ میدان ہی
درست کرنا ہے تو یہ معرکہ آپ کے لڑنے کا نہیں۔ یہ سب میدان کڑی درکڑی جڑے ہوئے ہیں؛ ان سے الگ الگ نمٹا ہی
نہیں جاسکتا۔ اُدھر ’’پیکیج‘‘ ہے تو اِدھر بھی لامحالہ ’’پیکیج‘‘ ہی ہونا
چاہئے۔ یہاں الحمد للہ آپ کا ’’دین‘‘ آپ کو جو
جامعیت دیتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کسی
کے بس کی بات نہیں۔
2.
دوسرا، آپکو بھی ایک ’’عالمی فنامنا‘‘ ہونا ہے۔ آپ اگر کوئی ایک آدھ ’خطہ‘
ہیں تو اِس بےرحم عفریت کے ہاتھوں آپ کا موت پانا یقینی
ہے۔ یہاں آپ کی خوش قسمتی؛ آپ کوئی ’خطہ‘ نہیں
آپ ایک ’’امت‘‘ ہیں جو آج زمین کے اہم ترین مراکز
پر بیٹھی اور زمین کے اعلیٰ ترین و زرخیز ترین وسائل کی
مالک ہے۔ آسمانی شریعت کی امین۔ تین براعظموں کا سنگم جو باقی
امتوں کو بڑی آسانی سے ’’حاشیائی‘‘ marginalize کردیتا ہے۔ جب مدمقابل ایک عالمی
’’جبر‘‘ ہے (جدید تہذیب/ مسلم دنیا پر 200 سال سے چڑھا بیٹھا استعمار) تو
اس کی ٹکر پر آپ کو ایک عالمی ’’مزاحمت‘‘ ہی لانا
ہوگی؛ کوئی ’علاقائی‘ مزاحمت اس کے قدم ہلانے کی طاقت نہ رکھے گی۔ یہاں؛
’’الجماعۃ‘‘ کا احیاء ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ڈیڑھ ارب انسان کو مل کر آج اپنا آپ رہا کروانا
ہوگا۔
تو پھر یہ دو چیزیں ہوئیں جو آپ کو اِس عالمی درندے
کی ٹکر کا بناتی ہیں بلکہ اس کے مقابلے پر آپ کو بالادست کرتی ہیں: ایک آپ کا "دینِ جامع" رکھنا اور
ایک آپ کا "امتِ عالمی" ہونا۔
’’خلافت‘‘ یا
’’جماعت‘‘ جس چیز کا نام ہے ظاہر ہے وہ اِسی ’’دین‘‘ اور اِسی ’’امت‘‘ پر قائم ہوتی ہے۔ یعنی اس کا دستور: ’’دین‘‘۔ اور اس کا دائرہ: ’’امت‘‘۔ دونوں
سے اُس مفسدفی الارض کی جان جاتی
ہے۔ اِس ’’دین‘‘ کو وہ سیکولرزم کی قید ڈالتا ہے اور اِس ’’امت‘‘ کو نیشنلزم کی۔ غرض وہ اپنے تعلیمی وابلاغی ’’جبر‘‘ کو کام میں لا
کر، نیز ’’جبر‘‘ کے سیاسی ومعاشی وعسکری ہتھکنڈے
برت کر، سیکولرزم کو ہماری گھٹی میں
اتار رہا ہے جس سے ’’دین‘‘ عبادت خانے میں محصور ہوجائے۔ پھر ’’جبر‘‘ کے
انہی ہتھکنڈوں کو اختیار کرکے، ایک دوسری سطح پر ایسی صورتحال تخلیق کرتا ہے کہ اس
’’عبادت خانے‘‘ سے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اچاٹ کردے اور ان کے ’فارغ اوقات‘ کو ’’مصروف‘‘ کرنے کی
خاطر ڈھیروں کے حساب سے انہیں لغویات تھما
دے؛ کہ پھر بھی جس نوجوان کا جی مسجد ہی
میں لگے وہ کوئی خدا کا بہت بڑا ولی
ہو۔ یعنی ایک سطح پر یہ ’’دین‘‘ کو عبادت خانے میں قید کروائے گا تو دوسری سطح
پر عبادت خانے کو ’’انسانوں‘‘ سے خالی کروائے گا؛ یوں دین کو صرف
’’امورِریاست‘‘ سے نہیں بلکہ ’’معاشرے‘‘ سے ہی باہر کر کے آئے گا! پس ’’دین‘‘ اُس مفسد فی الارض کا سب سے پہلا نشانہ ہے اور ’’امت‘‘ دوسرا۔ لہٰذا... ویسے تو ہم مسلمان اُسے کسی بھی ہیئت میں اچھے نہ لگیں گے پھر
بھی ’’مسلم امت‘‘ نامی چیز کو اِس دنیا سے رخصت
کرانے کےلیے؛ ہم اُسے ’پاکستانی‘ کے طور پر بڑے اچھے لگیں گے، افغانی، بنگالی،
ایرانی، کویتی، سعودی، اماراتی ایسے ہر روپ میں بھلے لگیں گے، البتہ مراکش سے
لے کر انڈونیشیا تک کے انسانوں
کا اپنے آپ کو صرف اور صرف ’’مسلمان‘‘ کے طور پر دیکھنا اُس کے اوسان خطا کرتا ہے۔[2] لہٰذا وہ ہماری اِس پہچان کو مٹانے کےلیے ’’جبر‘‘ کے سب ذرائع جھونک دینے
پر آمادہ ہے۔
پس یہ ’’دین‘‘ اِس
’’امت‘‘ کے بغیر، اور یہ ’’امت‘‘ اِس ’’دین‘‘ کے بغیر آج ایک عظیم خطرے میں ہے۔ ’’دین‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری موت۔ ’’امت‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری ہلاکت۔ اور یہ ’’دین‘‘
اور یہ ’’امت‘‘ ایک دوسرے سے الگ ہوں
گے تو وہ ہماری بربادی۔ اِس ’’پیکیج‘‘ کو ایک رکھنا آج ایسے ہی ہے جیسے پانچ نحیف انگلیاں مل
کر ایک مضبوط مکُا بنیں اور اپنی حرمتوں
پر حملہ آور کسی ظالم کے دانت توڑ ڈالیں۔ ہمیں ’’عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ‘‘[3] کا حکم جس شریعت نے دیا ہے، اُس کو نازل کرنے
والا جانتا تھا کہ ’’جبر‘‘ ایک انسانی ضرورت اور عمرانی حقیقت ہے،اور یہ بھی کہ روئے
زمین پر شرک اور توحید کا آمناسامنا ایک دائمی و آفاقی عمل ہےجس کو کسی ایک دن
کےلیے نہیں تھمنا۔
پس وہ دنیا جہاں ’’شرک‘‘ اور ’’خدا سے اعراض‘‘ تو کیل کانٹے سے لیس، پورے
روئے زمین پر پھیلے ایک دیوہیکل تعلیمی نظام اور ایک حیرت انگیز ابلاغی مشینری کا
مالک ہو، کروڑوں کی تعداد میں افواج، ہتھیار، معیشتیں ، انٹیلی جنسیں، منصوبہ ساز
ادارے اور پرشکوہ ایوان رکھتا ہو... البتہ دوسری طرف ’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر
ایمان‘‘ کو صرف ’’فرد‘‘[4] کے طور پر ہی سامنے آنے کا حق ہو نہ کہ ایک ’’جماعت‘‘
کے طور پر؛ بلکہ ’’فرد‘‘ سے بڑھ کر کسی حیثیت میں آنا یا ایسی کسی ’’حیثیت‘‘ کا
دعویٰ رکھنا اُ س کے حق میں ’بدعت‘ اور ’انحراف‘ ہو!... آخر سیدھے لفظوں میں
یہ کیوں نہ کہا جائے کہ اُس دنیا میں’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر ایمان‘‘ کو پنپنے کا
حق ہی نہیں ہے اور وہ دنیا درحقیقت ہے ہی فساد کی قوتوں کےلیے؛ اس کی تعمیر کسی
’’حق‘‘ پر ہوئی ہی نہیں ہے؛ اور اہل حق وہاں ہیں ہی دھکے کھانے کےلیے۔
وَالَّذِينَ
كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي
الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
(الانفال: 73)
’’اور
کافر لوگ ایک دوسرے کا جتھہ ہیں (مسلمانو!) اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں ایک
فتنہ ہوگا اور ایک فسادِ کبیر‘‘{۔
اور آج بلاشبہ مسلمانوں کی آپس کی جتھہ بندی (ولایت)، جوکہ ’’جماعت‘‘ کا
معنیٰ دینے میں قوی ترین ہے، موقوف ہونے کے باعث، زمین فساد سے بھر گئی ہے۔
*****
پس وہ ’’جبر‘‘ جو اللہ، یومِ آخرت اور رسالتِ آسمانی کو
پہچان کر دینے کا روادار نہیں وہ باطل جبر ہے؛
اس کی مزاحمت ہوگی۔ہاں وہ ’’جبر‘‘ جو ’’اللہ، یوم آخرت اور رسالتِ
آسمانی‘‘ پر ایمان رکھے، اُس کی اطاعت فرض ہوگی۔ البتہ ’’جبر‘‘ زمین میں ہر
دو حال کے اندر پایا جائے گا؛ اور آپ کو لامحالہ اِن دو میں سے کسی ایک ’’جبر‘‘ کو
اختیار کرنا ہوگا۔
[1] نہایت واضح ہو، اِس پورے سیاق میں ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ سے ہماری
مراد وہی ہےجس کا ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘
ہونا آئینِ رسالت سے ثابت ہو؛ کیونکہ یہی ’’انسانوں کے مابین فیصل‘‘ ہے۔ اس وقت
اس پر تنبیہ خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کہ نہام نہاد ہیومن ازم جو آج
ہماری اسلامی عقول پر حملہ آور ہے وہ ایک غیرمحسوس انداز میں ہمیں
عدل اور ظلم کے کچھ ’مطلق معانی‘ کی طرف لے کر جارہا ہے؛ جس میں ’جدید معتزلہ‘ کا
پیراڈائم بھی مددگار ہورہا ہے۔
(اس پر دیکھئے: ہماری کتاب
میں فصل: ’’اہل سنت کا ایمان نہ کہ معتزلہ کا‘‘۔
نیز فصل ’’آسمانی شریعت نہ کہ
سوشل کونٹریکٹ‘‘ مبحث: ’’جدید معتزلہ اور انسان کو خدا سے آزاد کرانے کی مہم‘‘
ہر دو ، ایقاظ جنوری تا مارچ
204 میں شائع ہو چکی ہیں)
ہم
سمجھتے ہیں کہ’حق‘، ’باطل‘، ’عدل‘ اور ’ظلم‘ ایسی اشیاء کے ’’مطلق معانی‘‘ لینے
اور دلوانے کا یہ چلن جو اِس وقت عام کرایا جا رہا ہے اور جوکہ ’’کتابِ
آسمانی‘‘ کے
’’مرجع‘‘ ہونے کی حیثیت کو خود عالم اسلام ہی کے اندر بائی پاس کروانے کا ذریعہ ہو
رہا ہے، (باقاعدہ ایک ’ٹرینڈ‘ تشکیل دیا جارہا ہے)، یہاں تک کہ روزمرہ
گفتگو میں اس کا اثر دیکھا جانے لگا... یہ ’ٹرینڈ‘ دراصل ہماری عقول کو
’’رسالتِ آسمانی‘‘ کے ساتھ کفر (اعراض) کی طرف لے کر بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ
’’کتاب‘‘ کا منصب ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انسانوں کے نزاعات میں ’’فیصل‘‘ بن
کر رہے (وَأَنْزَلَ
مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا
فِيهِ) اور اشیاء کو اس کی جانب باقاعدہ ’’لوٹایا‘‘ جائے۔
(مزید دیکھئے: ہماری کتاب کی فصل ’’کتاب: اختلاف کو
ختم اور جماعت کو قائم کرنے والی‘‘، شائع ایقاط جنوری 204)
[2] ڈیڑھ ارب امت کو ’’فرد فرد‘‘ دیکھنے کا خواہشمند دبستان
ذرا تصور کریں،
ڈیڑھ ارب کی ایک امت کو ’’فرد فرد‘‘ دیکھ کر اِس دین کے دشمنوں کی باچھیں
کیسے کھلیں گی! (وحیدالدین خان اور المورد کی سعی کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی
چیز ہے!)۔ یہ لوگ پورے’علمی‘ تسلسل کے
ساتھ معاملے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
پہلے مرحلے پر خلافت (’’الجماعۃ‘‘) کو
ایک ڈھکونسلہ ثابت کرنا (یعنی روئے زمین پر مسلمانوں کا ’’جماعت‘‘ بن کر رہنا
ختم)؛ ہم سو ٹکڑے ہو جائیں یا ہزار؛ یہ کوئی ’شرعی مسئلہ‘ نہیں۔ دوسرے
مرحلے پر؛ چلئے ہم مسلمانوں کی یہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں (پاکستان، سعودی عرب، مصر،
شام، عراق، سوڈان وغیرہ) ہی اپنی بنیاد ’’دین‘‘ قرار دےلیں اور اسلام کے سماجی
وعالمی مقاصد جتنے پورے کرائے جاسکیں فی الحال اِسی راہ سے کرائے جاتے رہیں
(’’خلافت‘‘ کی غیرموجودگی میں مسلمانوں کے سب مصالح کو موقوف ٹھہرا دینا ہرگز صائب
رائے نہیں، اس پر ہم کچھ اور مقامات پر گفتگو کرچکے )۔ لیکن یہاں ان لوگوں کا
فتویٰ ہے کہ یہ (نیشن سٹیٹ) بھی ’مذہب‘ کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے! یعنی یہاں سے
بھی ہماری چھٹی۔ ہماری ان قومی ریاستوں
کو بھی، خصوصاً جو سائز اور آبادی میں بڑی یا وسائل سے مالامال ہیں، چھوٹے چھوٹے
ٹکڑے کرنا اِس وقت دشمن کے ایجنڈا پر ہے (انڈونیشیا، سوڈان اور عراق ’تازہ ترین
کامیابیوں‘ کے طور پر ذکر ہوتے ہیں؛ باقیوں پر کام جاری ہے!)۔ ظاہر ہے جب بھی
ہماری کسی قومی ریاست کو ’مزید قوموں‘ میں توڑا جائے گا ’زبان‘ اور ’رہن سہن‘ کے
فرق کا کچھ نہ کچھ حوالہ دے ہی لیا جائے گا، بلکہ اس کی آگ بھڑکائی جائے گی
(جیساکہ ہمارے مسلم بنگال کے ساتھ ہوا)۔ یہاں ان کا فتویٰ ہے: ریاست ہونی ہی زبان
اور رہن سہن وغیرہ کی بنیاد پر چاہئے۔ یعنی ہمیں لخت لخت کرنے کا ایک کھلا
لائسنس؛ اِس ’زبان‘ اور ’رہن سہن‘ کے فرق کو بنیاد بنا کر جتنے چاہو ہمارے ٹکڑے
کردو! اِس قومی ریاست سے بھی جب
’مذہب‘ کی چھٹی ہوگئی... یعنی اب اِس کفر کی عالمی خدائی کا مقابلہ ہم ’’خلافت‘‘
کی حیثیت میں بھی نہیں کرسکتے اور ’’مقامی ریاست‘‘ کی حیثیت میں بھی نہیں... نہ اسلام کو عالمی
سطح پر آپریٹ کرنے کی اجازت اور نہ اسلام علاقائی سطح پر ’’ریاست‘‘ کی
صورت میں آپریٹ کرنے کا مجاز (از روئے فتوائے جدید!)... تو اب ہم ’افراد‘ رہ گئے۔ ’’فرد‘‘
کے علاوہ ہماری کوئی حیثیت ہے ہی نہیں؛ دین کا یہی فیصلہ ہے! تاریخ کے اِس منظم ترین اور مفسد ترین ’’جبر‘‘ کے مقابلے پر ڈیڑھ ارب
’افراد‘!!! اِن ڈیڑھ ارب انسانوں کے ملنے (’’الجماعۃ‘‘)
کو فرض کہنا دین میں ’بدعت‘، اور ان کو فرد فرد رکھنا ’دین کی اصل روح‘!
(’فرد‘ جو ازروئے حدیث ہے ہی ’’بھیڑیے‘‘ کا لقمہ)۔ ’’ریاست‘‘ کے بعد کچھ مزاحمت
اِس عالمی ’’جبر‘‘ کو اِس دوران ’’مسلم تنظیموں‘‘ سے مل رہی تھی، کبھی آپ وحیدالدین اور
المورد کو اِن ’’تنظیموں‘‘ پر برستا دیکھئے گا!
کافر کا آخری حملہ ہمارے سماجی وخاندانی ادارے پر ہے۔ یہ ایک طبعی بات ہے
کہ ایسے منظم عالمی کفر کا مقابلہ ’’خاندان‘‘ کی سطح پر نہیں ہوسکتا۔ ’’خاندان‘‘
بیچارہ ایک ٹی وی حملے کی مار ہے؛ ’’خاندان‘‘ کو تباہ کرنے کے باقی مؤثرات اس پر
مستزاد؛ اور یہ بات کسی ہوشمند سے اوجھل نہیں۔ ہمارا سماجی فیبرک وہ بڑی حد تک تار
تار کرچکے۔ ’سماجی دباؤ‘ اب شاید کوئی چیز
رہ ہی نہیں گئی ہے؛ کیونکہ ’انفرادیت‘ individualism کو اس سے پہلے ہی خوب پروان چڑھا
لیا گیا ہے، نیز اس ’’روایتی‘‘ سماجی دباؤ کی جگہ لینے کےلیے جدید میڈیا کی تخلیق
کردہ ’رائےعامہ‘ تشریف لاچکی ہے جس کے سب تار اسی مفسد فی الارض کی جانب سے ہلائے جاتے
ہیں۔ یعنی ہماری اِس چیز کو بھی وہی لے اڑے۔ (یہاں پر المورد نے اپنا ’تفسیرِ
دین‘ کا فرض پورا کرتے ہوئے، شریعت کے
معروف و منکر کو اِس ’رائے عامہ‘ کے ساتھ جوڑ دیا)۔ قصہ کوتاہ...
اُدھر سے کفر کی یلغار، اِدھر سے دین کی یہ تفسیرِ نو، ایک ہی کہانی مکمل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اِن کی اِس شبانہ روز ’تحقیقی‘ مساعی (اور بیک
وقت کئی کئی چینلوں پر چلنے والی ’میڈیا‘ سرگرمی) کے نتیجے میں لامحالہ مسلم
’’فرد‘‘ روزبروز تنہا، نہتا اور مقہور
ہوتا چلا جائے گا اور وحیدالدین صاحب کی بیان کردہ ’دین کی روح‘ زیادہ سے زیادہ
تسکین پاتی چلی جائے گی!
[3] عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ وَاِیَّاکُمۡ
وَالۡفُرۡقَۃ ’’لازم پکڑو جماعت کو اور ٹکڑے مت ہو‘‘۔
سنن الترمذی 2165، سنن النسائی 9181، مسند أحمد 23165، صححہ الألبانی صحیح الجامع
الصغیر 2546۔
[4] اس موضوع پر دیکھئے ہمارا پمفلٹ
’’فتنۂ ہیومن ازم‘‘۔
*****