عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
علیکم بالجماعۃ
:عنوان

. ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

Text Box: 1

 علیکم بالجماعۃ

معاشرے میں پنپنے والے رویے، اخلاق، اقدار سب کا تعلق بڑے قوی طور پر  اسی ’’جبر‘‘ سے ہے جسے دورِ حاضر میں آپ ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں۔

تھوڑے لوگ ہمیشہ بڑی بڑی آبادیوں کو رخ دیتے ہیں۔ ’مجمعے‘ کسی نہ کسی کا زیرنگر ہوتے ہیں! ’اکثریت‘ ہمیشہ ایک ’’سرپرستی‘‘ کے تابع رہی ہے؛ اور اس کی بقاء و استمرار اسی ’’سرپرستی و جبر‘‘ کی مرہونِ منت۔ اس سے کوئی مفر ہے ہی نہیں۔ اُس ’مجمعے‘ کی خوش قسمتی؛ اگر اس کی مہار تھام رکھنے والا ’’جبر‘‘ حق[1] پر قائم اور اللہ ویومِ آخرت کا مومن ہے۔ اُس ’مجمعے‘ کی بدقسمتی؛ اگر وہ ’’جبر‘‘ باطل کا پیرو اور خلود و  عُلوٌ فی الارض کا طلبگار ہے۔  لیکن اِس ’’جبر‘‘ کے بغیر آج تک کوئی سوسائٹی نہیں دیکھی گئی؛ خواہ وہ ’’جبر‘‘ صریح اور صاف گو ہواور خواہ ’جمہوریت‘ ایسے کسی بہروپ میں۔ خوش سلیقہ ہو یا پھوہڑ۔ نرم رُو ہو یا سخت گیر۔ انسانی معاشروں کو کسی نہ کسی درجے کا ’’جبر‘‘ درکار رہتا ہے خواہ اس حقیقت کو آپ جتنا بھی گھما پھرا لیں!

اِسی ’’جبر‘‘ کا نام آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ ہے؛ اور قطع نظر اس سے کہ اس کی صورت یا اس کی سیرت کیا ہو، یہ ایک انسانی ضرورت ہے۔[i] یہ اگر آپ نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا کرے گا۔ یہاں ’’خلاء‘‘ پایا ہی نہیں جاسکتا۔ البتہ سوسائٹی میں پیدا ہونے والے بہت سے رویے اس  چیز سے براہِ راست متعلق ہو جاتے ہیں کہ یہ ’’جبر‘‘ وہاں پر کیا صورت اور کیا سیرت رکھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یہ ’’جبر‘‘ سوسائٹی کے انتظام تک محدود نہیں رہتا بلکہ سوسائٹی کی تشکیل تک چلا جاتا ہے۔یہاں سے؛ ہر وہ نظریہ جو سوسائٹی کی تشکیل کرنے پر یقین رکھتا ہے، اِس مسئلہ کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں متعلقہ ہوجاتا ہے۔ یا وہ ’’جبر‘‘ کرے گا یا اس پر ’’جبر‘‘ہوگا؛ تیسری کوئی صورت نہیں۔

سوسائٹی کو رخ دینے پر یقین رکھنے والا ایک نظریہ پس اِس ’’جبر‘‘ سے لاتعلق رہ ہی نہیں سکتا خصوصاً اگر وہ ’’جبر‘‘ جو اِس وقت سوسائٹی پر حاوی ہے سوسائٹی کے انتظام تک محدود نہیں بلکہ سوسائٹی کی تشکیل کرنے میں لگا ہے؛ یہ اگر غیر صالح ہے تو بالآخر یہ آپ کے بچے کی نماز اور حیاء تک کا کام تمام کرکے رہے گا۔ کیونکہ یہ سوسائٹی کو ڈیزائن ہی اس طرح کرے گا جہاں آپ کے نونہال کی نماز اور حیاء کےلیے اس کی مزاحمت دشوار سے دشوار تر ہوجائے؛ اور آخر دم توڑ جائے۔ پس معاشرے میں پنپنے والے رویے، اخلاق، اقدار سب کا تعلق بڑے قوی طور پر اِسی ’’جبر‘‘ سے ہے جس کو آج آپ ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں؛ یہ ’’جبر‘‘ اگر اللہ و یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور انبیاء سے اِعراض پر کھڑا ہے (جوکہ فساد فی الارض کی بدترین صورت ہے) تو معاشرے میں آپ جتنی بھی ’نیکی کی تبلیغ‘ کرتے رہیں آپ کا وہ سب وعظ (کچھ خواص کو چھوڑ کر) ایک عمومی سطح پر بےاثر رہے گا؛ جیسا کہ اس وقت آپ بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔[ii] اور اگر یہ ’’جبر‘‘ اللہ و یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا اور رسالتِ آسمانی کا پابند ہے تو سوسائٹی میں ہر طرف پھول کھلیں گے اور آپ کی تھوڑی سی ’تبلیغ‘ بھی یہاں ڈھیروں اثر دکھائے گی؛ لوگوں کے ایمان اور اخلاق پر حملہ آور بہت سے فتنے تب ’’ریاستی  مزاحمت‘‘ کا سامنا کریں گے اور بہت سی نیکی ’’قوتِ نافذہ‘‘ کے حرکت میں آنے سے پہلے[iii] ’’تعلیم‘‘ اور ’’ابلاغ‘‘ کے ذریعے ہی نفوس میں انڈیل لی جائے گی۔ اِس لحاظ سے وحیدالدین خان اور ان سے وابستہ دبستان کا ڈِسکورس جو صالحین  پراِس ’’امامت‘‘ کو فرض نہیں ٹھہراتا اور اِس کو صالحین کے معاشرے میں سرگرم ہونے کے اہم ترین میدانوں میں نہیں گنتا بلکہ طریقوں طریقوں سے اس کی حوصلہ شکنی کرتااور اس کو دین میں ایک تجاوز قرار دیتا ہے، کچھ واضح شرعی و عمرانی حقیقتوں کے ساتھ تصادم ہے اور ایک کھلا مکابرہ۔

یہ جبر جس کو آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ کہا جاتا ہے ، اِن حضرات کے ہاں معاشرے کو رخ دینے کے دعویدار ہر نظریے کے حق میں آج تسلیم ہوتا ہے سوائے اسلام کے!

ہمارے بہت سے ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کی نظر میں یہ ’’جبر‘‘ سو فیصد جائز اور برحق ہے سوائے جب ’’اسلامی امارت‘‘ کی بات ہو؛ ہاں اُس وقت یہ ’’جبر‘‘ حرام ہوجاتا ہے!

یہ ’’جبر‘‘ جو ’جدید ریاست‘ آزما رہی ہےتاریخ کا بدترین جبر ہے؛ کیونکہ ’’جبر‘‘ کو اتنی ’’سائنٹیفک‘‘ بنیادیں کبھی دی ہی نہ گئی تھیں۔ دماغوں کو زنجیروں میں کس دینے کے ایسے حیرت انگیز کمالات اس سے پہلے کبھی  دیکھے نہ گئے تھے۔ اِس کا جبر ہزارہا پہلو رکھتا ہے جو آپ کے بچے کی درسی کتاب یا ٹی وی میں دیکھے جانے والے (بظاہر معمولی)  کارٹون کے مندرجات سے لے کر یو این کی جنرل اسمبلی میں زیربحث کسی پروگرام تک کڑی در کڑی جڑا ہوا ہے۔ پورا کرۂ ارض آج ایک مخصوص عالمگیر ایجنڈا کی جکڑ میں ہے؛ یہاں کے سب تعلیمی، ابلاغی، معاشی، سیاسی، ثقافتی قضیے ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں اور اس بنیاد پر ایک ہی ’’جامع‘‘ حل چاہتے ہیں۔ نیز ان قضیوں کی مقامی جہتیں یکایک ان کی عالمی جہتوں سے جا ملتی ہیں اور ان کی عالمی جہتیں  بےساختہ یہاں گلی محلوں کی سطح پر بولنے لگتی ہیں؛ چنانچہ ان میں سےایک ایک قضیہ بیک وقت مقامی بھی ہے اور عالمی بھی۔ یہاں سے؛ اِس ’’جبر‘‘ کے مقابلے پر ہماری ’’الجماعۃ‘‘ (’’مسلمانوں کی مقامی و عالمی وحدت‘‘) اور بھی متعلقہ ہوجاتی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈکوں کا جو ’کردار‘ ہوسکتا ہے وہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ یہاں لامحالہ آپ کو ’’ہاتھیوں‘‘ کی سطح پر آنا ہے؛ ورنہ آپ کا انجام نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کےلیے:

1.     ایک تو آپ کا اپنا پیکیج بھی جامع ہونا چاہئے؛ کیونکہ آپ کو اگر محض کوئی ایک آدھ میدان ہی درست کرنا ہے تو یہ معرکہ آپ کے لڑنے کا نہیں۔ یہ سب میدان کڑی درکڑی جڑے ہوئے ہیں؛ ان سے الگ الگ نمٹا ہی نہیں جاسکتا۔ اُدھر ’’پیکیج‘‘ ہے تو اِدھر بھی لامحالہ ’’پیکیج‘‘ ہی ہونا چاہئے۔  یہاں الحمد للہ آپ کا ’’دین‘‘ آپ کو جو جامعیت دیتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

2.     دوسرا، آپکو بھی ایک ’’عالمی فنامنا‘‘ ہونا ہے۔ آپ اگر کوئی ایک آدھ ’خطہ‘ ہیں تو اِس بےرحم عفریت کے ہاتھوں آپ کا موت پانا یقینی ہے۔ یہاں آپ کی خوش قسمتی؛ آپ کوئی ’خطہ‘ نہیں آپ ایک ’’امت‘‘ ہیں جو آج زمین کے اہم ترین مراکز پر بیٹھی اور زمین کے اعلیٰ ترین و زرخیز ترین وسائل کی مالک ہے۔ آسمانی شریعت کی امین۔ تین براعظموں کا سنگم جو باقی امتوں کو بڑی آسانی سے ’’حاشیائی‘‘ marginalize   کردیتا ہے۔ جب مدمقابل ایک عالمی ’’جبر‘‘ ہے (جدید تہذیب/ مسلم دنیا پر 200 سال سے چڑھا بیٹھا استعمار) تو اس کی ٹکر پر آپ کو ایک عالمی ’’مزاحمت‘‘ ہی لانا ہوگی؛ کوئی ’علاقائی‘ مزاحمت اس کے قدم ہلانے کی طاقت نہ رکھے گی۔ یہاں؛ ’’الجماعۃ‘‘ کا احیاء ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ڈیڑھ ارب انسان کو مل کر آج اپنا آپ رہا کروانا ہوگا۔

تو پھر یہ دو چیزیں ہوئیں جو آپ کو اِس عالمی درندے کی ٹکر کا بناتی ہیں بلکہ اس کے مقابلے پر آپ کو بالادست کرتی ہیں:  ایک آپ کا "دینِ جامع" رکھنا اور ایک آپ کا "امتِ عالمی" ہونا۔

’’خلافت‘‘  یا ’’جماعت‘‘ جس چیز کا نام ہے ظاہر ہے وہ اِسی ’’دین‘‘ اور اِسی ’’امت‘‘ پر قائم ہوتی ہے۔ یعنی اس کا دستور: ’’دین‘‘۔ اور اس کا دائرہ: ’’امت‘‘۔ دونوں سے اُس مفسدفی الارض کی جان جاتی ہے۔ اِس ’’دین‘‘ کو وہ سیکولرزم کی قید ڈالتا ہے اور اِس ’’امت‘‘ کو نیشنلزم کی۔ غرض وہ اپنے تعلیمی وابلاغی ’’جبر‘‘ کو کام میں لا کر، نیز ’’جبر‘‘ کے سیاسی ومعاشی وعسکری ہتھکنڈے برت کر، سیکولرزم کو ہماری گھٹی میں اتار رہا ہے جس سے ’’دین‘‘ عبادت خانے میں محصور ہوجائے۔ پھر ’’جبر‘‘ کے انہی ہتھکنڈوں کو اختیار کرکے، ایک دوسری سطح پر ایسی صورتحال تخلیق کرتا ہے کہ اس ’’عبادت خانے‘‘ سے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اچاٹ کردے  اور ان کے ’فارغ اوقات‘ کو ’’مصروف‘‘ کرنے کی خاطر ڈھیروں کے حساب سے انہیں لغویات تھما دے؛  کہ پھر بھی جس نوجوان کا جی مسجد ہی میں لگے وہ کوئی خدا کا بہت بڑا ولی ہو۔ یعنی ایک سطح پر یہ ’’دین‘‘ کو عبادت خانے میں قید کروائے گا تو دوسری سطح پر عبادت خانے کو ’’انسانوں‘‘ سے خالی کروائے گا؛ یوں دین کو صرف ’’امورِریاست‘‘ سے نہیں بلکہ ’’معاشرے‘‘ سے ہی باہر[iv] کر کے آئے گا! پس ’’دین‘‘ اُس مفسد فی الارض کا سب سے پہلا نشانہ ہے اور ’’امت‘‘ دوسرا۔ لہٰذا... ویسے تو ہم مسلمان اُسے کسی بھی ہیئت میں اچھے نہ لگیں گے پھر بھی ’’مسلم امت‘‘ نامی چیز کو اِس دنیا سے رخصت کرانے کےلیے؛ ہم اُسے ’پاکستانی‘ کے طور پر بڑے اچھے لگیں گے، افغانی، بنگالی، ایرانی، کویتی، سعودی، اماراتی ایسے ہر روپ میں بھلے لگیں گے، البتہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے انسانوں کا اپنے آپ کو صرف اور صرف ’’مسلمان‘‘ کے طور پر دیکھنا اُس کے اوسان خطا کرتا ہے۔[2] لہٰذا وہ ہماری اِس پہچان کو مٹانے کےلیے ’’جبر‘‘ کے سب ذرائع جھونک دینے پر آمادہ ہے۔

پس یہ ’’دین‘‘ اِس ’’امت‘‘ کے بغیر، اور یہ ’’امت‘‘ اِس ’’دین‘‘ کے بغیر آج ایک عظیم خطرے میں ہے۔ ’’دین‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری موت۔ ’’امت‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری ہلاکت۔ اور یہ ’’دین‘‘ اور یہ ’’امت‘‘ ایک دوسرے سے الگ ہوں گے تو وہ ہماری بربادی۔ اِس ’’پیکیج‘‘ کو ایک رکھنا  آج ایسے ہی ہے جیسے پانچ نحیف انگلیاں مل کر ایک مضبوط مکُا بنیں اور اپنی حرمتوں پر حملہ آور کسی ظالم کے دانت توڑ ڈالیں۔  ہمیں ’’عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ‘‘[3] کا حکم جس شریعت نے دیا ہے، اُس کو نازل کرنے والا جانتا تھا کہ ’’جبر‘‘ ایک انسانی ضرورت اور عمرانی حقیقت ہے،اور یہ بھی کہ روئے زمین پر شرک اور توحید کا آمناسامنا ایک دائمی و آفاقی عمل ہےجس کو کسی ایک دن کےلیے نہیں تھمنا۔

پس وہ دنیا جہاں ’’شرک‘‘ اور ’’خدا سے اعراض‘‘ تو کیل کانٹے سے لیس، پورے روئے زمین پر پھیلے ایک دیوہیکل تعلیمی نظام اور ایک حیرت انگیز ابلاغی مشینری کا مالک ہو، کروڑوں کی تعداد میں افواج، ہتھیار، معیشتیں ، انٹیلی جنسیں، منصوبہ ساز ادارے اور پرشکوہ ایوان رکھتا ہو... البتہ دوسری طرف ’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر ایمان‘‘ کو صرف ’’فرد‘‘[4] کے طور پر ہی سامنے آنے کا حق ہو نہ کہ ایک ’’جماعت‘‘ کے طور پر؛ بلکہ ’’فرد‘‘ سے بڑھ کر کسی حیثیت میں آنا یا ایسی کسی ’’حیثیت‘‘ کا دعویٰ رکھنا اُ س کے حق میں ’بدعت‘ اور ’انحراف‘ ہو!... آخر سیدھے لفظوں میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ اُس دنیا میں’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر ایمان‘‘ کو پنپنے کا حق ہی نہیں ہے اور وہ دنیا درحقیقت ہے ہی فساد کی قوتوں کےلیے؛ اس کی تعمیر کسی ’’حق‘‘ پر ہوئی ہی نہیں ہے؛ اور اہل حق وہاں ہیں ہی دھکے کھانے کےلیے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

(الانفال: 73)

’’اور کافر لوگ ایک دوسرے کا جتھہ ہیں (مسلمانو!) اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں ایک فتنہ ہوگا اور ایک فسادِ کبیر‘‘{۔

اور آج بلاشبہ مسلمانوں کی آپس کی جتھہ بندی (ولایت)، جوکہ ’’جماعت‘‘ کا معنیٰ دینے میں قوی ترین ہے، موقوف ہونے کے باعث، زمین فساد سے بھر گئی ہے۔

*****

پس وہ ’’جبر‘‘ جو اللہ، یومِ آخرت اور رسالتِ آسمانی کو پہچان کر دینے کا روادار نہیں وہ باطل جبر ہے؛  اس کی مزاحمت ہوگی۔ہاں وہ ’’جبر‘‘ جو ’’اللہ، یوم آخرت اور رسالتِ آسمانی‘‘ پر ایمان رکھے، اُس کی اطاعت فرض ہوگی۔ البتہ ’’جبر‘‘ زمین میں ہر دو حال کے اندر پایا جائے گا؛ اور آپ کو لامحالہ اِن دو میں سے کسی ایک ’’جبر‘‘ کو اختیار کرنا ہوگا۔

 (زیرتالیف ’’خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘: ’’جبر ایک انسانی ضرورت اور صلاح و فساد کا میدان... جماعۃ المسلمین بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘)۔ شائع ایقاظ، اپریل 2014)

 




[i]   خلیفۂ ثالث عثمان﷛ سے منسوب یہ اثر اسی جانب اشارہ کرتا ہے:  لَمَا یَزَعُ السُّلۡطَانُ النَّاسَ أشَدُّ مِمَّا یَزَعُ القُرآنُ۔ ’’لوگ قرآن کے ذریعے جتنا قابو آتے ہیں اقتدار کے ذریعے اس سے بڑھ کر قابو آتے ہیں‘‘     (تاریخ المدینۃ، مؤلفہ ابن شبہ ج 3 ص 988)۔

[ii]   اس موضوع پر دیکھئے ہمارا ایک اداریہ ’’اصلاحِ فرد کےلیے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘۔

[iii]   حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور ابلاغ ’’قوتِ نافذہ‘‘ میں شامل ہے۔ ہمارے سلف نے ’’اولی الامر‘‘ کی تفسیر میں ’’اہل علم‘‘ کا ذکر  بلاوجہ نہیں کیا! (دیکھئے ہماری کتاب  کی فصل ’’اولی الامر سے مراد‘‘) 

[iv]   سیکولرزم کے حق میں دلیلیں دینے والے ہمارے ’اسلامی‘ دانشور ذرا آنکھ کھول کر اِس پوری تصویر کو دیکھ لیں تو انکو اندازہ ہو، وہ کس مشن کو مکمل کرنے کیلئے ’آؤٹ سورس‘ کا کام دےرہے ہیں!



[1]  نہایت  واضح ہو، اِس پورے سیاق میں ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ سے ہماری مراد وہی ہےجس کا ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ ہونا آئینِ رسالت سے ثابت ہو؛ کیونکہ یہی ’’انسانوں کے مابین فیصل‘‘ ہے۔ اس وقت اس پر تنبیہ خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کہ نہام نہاد ہیومن ازم جو  آج  ہماری اسلامی عقول پر حملہ آور ہے وہ ایک غیرمحسوس انداز میں ہمیں عدل اور ظلم کے کچھ ’مطلق معانی‘ کی طرف لے کر جارہا ہے؛ جس میں ’جدید معتزلہ‘ کا پیراڈائم بھی مددگار ہورہا ہے۔

(اس پر دیکھئے: ہماری کتاب میں فصل: ’’اہل سنت کا ایمان نہ کہ معتزلہ کا‘‘۔

نیز فصل ’’آسمانی شریعت نہ کہ سوشل کونٹریکٹ‘‘ مبحث: ’’جدید معتزلہ اور انسان کو خدا سے آزاد کرانے کی مہم‘‘

ہر دو ، ایقاظ جنوری تا مارچ 204 میں شائع ہو چکی ہیں)

ہم سمجھتے ہیں کہ’حق‘، ’باطل‘، ’عدل‘ اور ’ظلم‘ ایسی اشیاء کے ’’مطلق معانی‘‘ لینے اور دلوانے کا یہ چلن جو اِس وقت عام کرایا جا رہا ہے اور جوکہ ’’کتابِ آسمانی‘‘ کے ’’مرجع‘‘ ہونے کی حیثیت کو خود عالم اسلام ہی کے اندر بائی پاس کروانے کا ذریعہ ہو رہا ہے، (باقاعدہ ایک ’ٹرینڈ‘ تشکیل دیا جارہا ہے)، یہاں تک کہ روزمرہ گفتگو میں اس کا اثر دیکھا جانے لگا... یہ ’ٹرینڈ‘ دراصل ہماری عقول کو ’’رسالتِ آسمانی‘‘ کے ساتھ کفر (اعراض) کی طرف لے کر بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ ’’کتاب‘‘ کا منصب ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انسانوں کے نزاعات میں ’’فیصل‘‘ بن کر رہے (وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ) اور اشیاء کو اس کی جانب باقاعدہ ’’لوٹایا‘‘ جائے۔ 

(مزید  دیکھئے: ہماری کتاب کی فصل ’’کتاب: اختلاف کو ختم اور جماعت کو قائم کرنے والی‘‘، شائع ایقاط جنوری 204)

[2]      ڈیڑھ ارب امت کو ’’فرد فرد‘‘ دیکھنے کا خواہشمند دبستان

ذرا تصور کریں، ڈیڑھ ارب کی ایک امت کو ’’فرد فرد‘‘ دیکھ کر اِس دین کے دشمنوں کی باچھیں کیسے کھلیں گی! (وحیدالدین خان اور المورد کی سعی کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی چیز ہے!)۔  یہ لوگ پورے’علمی‘ تسلسل کے ساتھ معاملے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔  پہلے مرحلے پر خلافت (’’الجماعۃ‘‘) کو ایک ڈھکونسلہ ثابت کرنا (یعنی روئے زمین پر مسلمانوں کا ’’جماعت‘‘ بن کر رہنا ختم)؛ ہم سو ٹکڑے ہو جائیں یا ہزار؛ یہ کوئی ’شرعی مسئلہ‘ نہیں۔ دوسرے مرحلے پر؛ چلئے ہم مسلمانوں کی یہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں (پاکستان، سعودی عرب، مصر، شام، عراق، سوڈان وغیرہ) ہی اپنی بنیاد ’’دین‘‘ قرار دےلیں اور اسلام کے سماجی وعالمی مقاصد جتنے پورے کرائے جاسکیں فی الحال اِسی راہ سے کرائے جاتے رہیں (’’خلافت‘‘ کی غیرموجودگی میں مسلمانوں کے سب مصالح کو موقوف ٹھہرا دینا ہرگز صائب رائے نہیں، اس پر ہم کچھ اور مقامات پر گفتگو کرچکے )۔ لیکن یہاں ان لوگوں کا فتویٰ ہے کہ یہ (نیشن سٹیٹ) بھی ’مذہب‘ کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے! یعنی یہاں سے بھی ہماری چھٹی۔  ہماری ان قومی ریاستوں کو بھی، خصوصاً جو سائز اور آبادی میں بڑی یا وسائل سے مالامال ہیں، چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنا اِس وقت دشمن کے ایجنڈا پر ہے (انڈونیشیا، سوڈان اور عراق ’تازہ ترین کامیابیوں‘ کے طور پر ذکر ہوتے ہیں؛ باقیوں پر کام جاری ہے!)۔ ظاہر ہے جب بھی ہماری کسی قومی ریاست کو ’مزید قوموں‘ میں توڑا جائے گا ’زبان‘ اور ’رہن سہن‘ کے فرق کا کچھ نہ کچھ حوالہ دے ہی لیا جائے گا، بلکہ اس کی آگ بھڑکائی جائے گی (جیساکہ ہمارے مسلم بنگال کے ساتھ ہوا)۔ یہاں ان کا فتویٰ ہے: ریاست ہونی ہی زبان اور رہن سہن وغیرہ کی بنیاد پر چاہئے۔ یعنی ہمیں لخت لخت کرنے کا ایک کھلا لائسنس؛ اِس ’زبان‘ اور ’رہن سہن‘ کے فرق کو بنیاد بنا کر جتنے چاہو ہمارے ٹکڑے کردو!  اِس قومی ریاست سے بھی جب ’مذہب‘ کی چھٹی ہوگئی... یعنی اب اِس کفر کی عالمی خدائی کا مقابلہ ہم ’’خلافت‘‘ کی حیثیت میں بھی نہیں کرسکتے اور ’’مقامی ریاست‘‘ کی  حیثیت میں بھی نہیں... نہ اسلام کو عالمی سطح پر آپریٹ کرنے کی اجازت اور نہ اسلام علاقائی سطح پر ’’ریاست‘‘ کی صورت میں آپریٹ کرنے کا مجاز (از روئے فتوائے جدید!)... تو اب ہم ’افراد‘ رہ گئے۔ ’’فرد‘‘ کے علاوہ ہماری کوئی حیثیت ہے ہی نہیں؛ دین کا یہی فیصلہ ہے! تاریخ کے اِس منظم ترین اور مفسد ترین ’’جبر‘‘ کے مقابلے پر ڈیڑھ ارب ’افراد‘!!! اِن ڈیڑھ ارب انسانوں کے ملنے (’’الجماعۃ‘‘) کو فرض کہنا دین میں ’بدعت‘، اور ان کو فرد فرد رکھنا ’دین کی اصل روح‘! (’فرد‘ جو ازروئے حدیث ہے ہی ’’بھیڑیے‘‘ کا لقمہ)۔ ’’ریاست‘‘ کے بعد کچھ مزاحمت اِس عالمی ’’جبر‘‘ کو اِس دوران ’’مسلم تنظیموں‘‘ سے مل رہی تھی، کبھی آپ وحیدالدین اور المورد کو اِن ’’تنظیموں‘‘ پر برستا دیکھئے گا!  کافر کا آخری حملہ ہمارے سماجی وخاندانی ادارے پر ہے۔ یہ ایک طبعی بات ہے کہ ایسے منظم عالمی کفر کا مقابلہ ’’خاندان‘‘ کی سطح پر نہیں ہوسکتا۔ ’’خاندان‘‘ بیچارہ ایک ٹی وی حملے کی مار ہے؛ ’’خاندان‘‘ کو تباہ کرنے کے باقی مؤثرات اس پر مستزاد؛ اور یہ بات کسی ہوشمند سے اوجھل نہیں۔ ہمارا سماجی فیبرک وہ بڑی حد تک تار تار کرچکے۔  ’سماجی دباؤ‘ اب شاید کوئی چیز رہ ہی نہیں گئی ہے؛ کیونکہ ’انفرادیت‘ individualism   کو اس سے پہلے ہی خوب پروان چڑھا لیا گیا ہے، نیز اس ’’روایتی‘‘ سماجی دباؤ کی جگہ لینے کےلیے جدید میڈیا کی تخلیق کردہ ’رائےعامہ‘ تشریف لاچکی ہے جس کے سب تار اسی مفسد فی الارض کی جانب سے ہلائے جاتے ہیں۔ یعنی ہماری اِس چیز کو بھی وہی لے اڑے۔ (یہاں پر المورد نے اپنا ’تفسیرِ دین‘  کا فرض پورا کرتے ہوئے، شریعت کے معروف و منکر کو اِس ’رائے عامہ‘ کے ساتھ جوڑ دیا)۔  قصہ کوتاہ... اُدھر سے کفر کی یلغار، اِدھر سے دین کی یہ تفسیرِ نو،  ایک ہی کہانی مکمل کرتے چلے جا رہے ہیں۔  اِن کی اِس شبانہ روز ’تحقیقی‘ مساعی (اور بیک وقت کئی کئی چینلوں پر چلنے والی ’میڈیا‘ سرگرمی) کے نتیجے میں لامحالہ مسلم ’’فرد‘‘ روزبروز  تنہا، نہتا اور مقہور ہوتا چلا جائے گا اور وحیدالدین صاحب کی بیان کردہ ’دین کی روح‘ زیادہ سے زیادہ تسکین پاتی چلی جائے گی!

[3]  عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ وَاِیَّاکُمۡ وَالۡفُرۡقَۃ  ’’لازم پکڑو جماعت کو اور ٹکڑے مت ہو‘‘۔ 

سنن الترمذی 2165، سنن النسائی 9181،  مسند أحمد 23165، صححہ الألبانی صحیح الجامع الصغیر 2546۔

[4]   اس موضوع پر دیکھئے ہمارا پمفلٹ ’’فتنۂ ہیومن ازم‘‘۔

*****

}}’’زبان اور رہن سہن‘‘ کوئی دلیل ہے تو جائیے انڈیا کے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیجئے جو اِس دلیل کو بےدلیل کرکے اپنی ’بڑی آبادی‘ اور ’وسیع رقبے‘ کے بل پر خود کو ’’ویٹو‘‘ کے اہل سمجھتا ہے؛ اُس کی بابت دنیا کی یہ غلط فہمی دور کیجئے!

’’زبان اور رہن سہن‘‘ کوئی دلیل نہیں تو آئیے پاکستان کی توسیع کرتے ہیں؛ ویٹوپاور بننا صرف انڈیا کا حق تو نہیں ہے!!

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
تنقیحات-
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید قطبؒ کے لیے مصر کے مع۔۔۔
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ ایقاظ ڈیسک یہ صاحب[1]  خود اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ یہ طلبِ عل۔۔۔
معجزے کی سائنسی تشریح
ایقاظ ٹائم لائن-
ذيشان وڑائچ
معجزے کی سائنسی تشریح!              &nbs۔۔۔
جدت پسند: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانے کی کوشش! دنیوی اور اخروی احکام کے خلط سے ’دلیل‘ پکڑنا
ایقاظ ٹائم لائن-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
جدت پسند حضرات کی پریشانی: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانا! دنیوی اور اخروی احکام کے۔۔۔
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟ مدیر ایقاظ اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے: ہمارا مقصد معاشرت۔۔۔
حوثی زیدی نہیں ہیں
ایقاظ ٹائم لائن-
شیخ ناصر القفاری
حوثی زیدی نہیں ہیں تحریر: ناصر بن عبد اللہ القفاری اردو استفادہ: عبد اللہ آدم بعض لوگ ۔۔۔
مسلم ملکوں میں تخریب کاری، استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
مسلم ملکوں میں تخریب کاری استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا ایقاظ کے فائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہ۔۔۔
’اَعراب‘ والا دین یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟  عَنْ بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُو۔۔۔
ایمان، ہجرت اور جہاد والا دین
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
               ایمان، ہجرت اور جہاد والادین إ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز